قومی کھیل کے سنہری دورکیلئے ہنگامی اقدامات ناگزیر
قومی ہاکی ٹیم جب ورلڈ کپ 1994ء کی تیاریوں میں مصروف تھی تو مخالفین کی توپوں کا رخ پاکستان ہاکی ٹیم کی طرف تھا
لاہور/KARACHI:
1994ء کا سال پاکستان ہاکی کی تاریخ میں خاصی اہمیت کا حامل اس لئے بھی ہے کیونکہ اسی برس گرین شرٹس نے ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی کی صورت میں ہاکی کے2 عالمی اعزازات اپنے نام کئے۔
قومی ہاکی ٹیم جب ورلڈ کپ 1994ء کی تیاریوں میں مصروف تھی تو مخالفین کی توپوں کا رخ پاکستان ہاکی ٹیم کی طرف تھا اور وہ تنقید کرنے کا موقع کسی صورت بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، ناقدین نے دعوی کیا تھا کہ پاکستان ہاکی ٹیم ورلڈ کپ تو درکنارچائے کا کپ بھی نہیں جیت سکتی لیکن پاکستانی شاہینوں نے انہونی کو ہونی کر دکھایا اورآسٹریلیا کے شہر سڈنی میں 23 نومبر سے 4 دسمبر تک ہونے والے عالمی کپ کے فائنل میں ہالینڈ کو شکست دے کر سب کے منہ بند کر دیئے۔
میچ کی سنسنی خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقررہ وقت پر مقابلہ 1-1 گول سے برابر تھا تاہم پنالٹی سٹروکس پر گرین شرٹس نے ہالینڈ کو 3 کے مقابلے میں 4گول سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ یہ پاکستان ہاکی ٹیم کا عالمی سطح پر ہونے والے ایونٹس میں آخری گولڈ میڈل ثابت ہوا۔22 برس گزر جانے کے باوجود ہم انٹرنیشنل سطح پر ہونے والے مقابلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے لئے ترس رہے ہیں۔ تاریخ خود کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے۔
پاکستان ہاکی ٹیم ورلڈ کپ کے بعد اولمپکس کی دوڑ سے بھی باہر ہو چکی ہے، چیمپئنز ٹرافی کھیلنے سے ہم خود انکار کر چکے، اب شائقین کی نظریں پاکستان ہاکی فیڈریشن کی موجودہ انتظامیہ بالخصوص 1994 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد سینئر پر ہیں کہ وہ گرین شرٹس کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، گو فیڈریشن قومی کھیل کو اس کا ماضی کا سنہری دور واپس دلانے کے لئے کوشاں ہے اور اس مقصد کے لئے جامع پلان بھی تشکیل دے دیا گیا ہے، سینئر کھلاڑی جہاں ملائشیا میں شیڈول ایشین چیمپئنز ٹرافی کی تیاریوں میں مصروف ہیں وہاں جونیئر ٹیم رواں برس بھارت میں شیڈول ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لئے یورپی دورہ پر ہے۔
جونیئر ورلڈ کپ کا افتتاحی ایڈیشن1979 میں فرانس میں ہوا جس میں گرین شرٹس جرمنی کو فائنل میں ہرا کر عالمی کپ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے، لیکن گزشتہ37 برس سے قومی ٹیم میگا ایونٹ کے ٹائٹل پر دوبارہ قبضہ جمانے میں ناکام رہی ہے جبکہ اس دوران جرمن ٹیم نے نہ صرف 6 بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا بلکہ اس نے 1993ء کے سپین کے شہر ٹریسا میں ہونے والے عالمی کپ میں پاکستان کو فائنل میں زیر کر کے 1979ء کی شکست کا بدلہ بھی لیا، آسٹریلیا، بھارت اور ارجنٹائن بھی یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔
اس بار بھی ورلڈ کپ میں شریک 16ٹیموں کو ہرانا گرین شرٹس کے لئے کسی طور پر بھی آسان نہیں ہوگا بلکہ اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ1979ء کے ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں قومی ٹیم کو اگر طوفانی بارش اور شدید سردی کا سامنا کرنا پڑا تو اب ہمسایہ ملک بھارت میں شیڈول عالمی کپ میں دنیا کی بڑی ٹیموں کی موجودگی میں پریشانیاں اور مصیبتیں خوف ناک اژدھے کی طرح پاکستانی ٹیم کا جگہ جگہ استقبال کریں گی، میگاایونٹ میں عمدہ کارکردگی کے حصول کے لئے کھلاڑیوں کو صرف یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا ہاکی میں کتنا سنہری دور رہا ہے۔
قومی کھیل سے وابستہ بعض ایسے بھی کھلاڑی تھے جن میں سے ایک کا ہاتھ ٹیڑھا تھا تو دوسرے کی ایک ٹانگ چھوٹی تھی لیکن یہ پلیئرز مل کر پاکستان کو میکسیکو اولمپکس1968ء میں گولڈ میڈل جتوا گئے، کونرائے نے شراب کے نشے میں پاکستان کے خلاف نازیبا الفاظ کہے تو اگلے دن میچ میں شاہینوں نے اس کا وہ حال کیا کہ اسے سٹریچر پر لٹا کرگراؤنڈ سے باہر لے جانا پڑنا۔ ممبئی ورلڈ کپ1982ء میں فتح کے بعد ٹیم کا وہ حال ہوا کہ کچھ ہی عرصہ میں ہم متعدد عالمی اور ایشیائی ٹائٹلز سے محروم ہو کر ناکامیوں اور مایوسیوں کے اندھیروں میں اترگئے۔
کہا گیا کہ کھلاڑی ورلڈ کپ تو درکنار چائے کا کپ بھی نہیں جیت سکتے، لیکن پھر اسی ٹیم نے لاس اینجلس اولمپکس 1984ء میں گولڈ میڈل جیتا، کھلاڑیوں کو یہ بھی بتایا جانا ضروری ہے کہ1979 جونیئر ورلڈ کپ میں جن کھلاڑیوں نے قومی ٹیم کی نمائندگی کی، بعد ازاں ان میں سے بیشتر نے ہاکی کے میدانوں میں دنیا بھر میں راج بھی کیا، منظور الحسن جونیئر، رشید الحسن اور کلیم اللہ نہ صرف پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے بلکہ منظور الحسن جونیئر کی قیادت میں تو پاکستانی ٹیم نے آخری بار لاس اینجلس 1984ء اولمپکس میں سونے کا تمغہ بھی جیتا، اگر وہ بھی محنت کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں تو ماضی کے عظیم کھلاڑیوں کی طرح اپنے کھیل سے ملک وقوم کا نام روشن کر سکتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہاکی غربیوں کا کھیل ہے، ماضی میں کسی دور دراز کے پسماندہ علاقے میں کسی غریب کے بچے کو ہاکی کھیلنے کی بنیاد پر سرکاری محکمے میں نوکری ملتی تھی تو آس پاس کے علاقوں میں دھوم مچ جاتی اور دوسرے بچوں میں بھی ہاکی پلیئر بننے کا نیا جوش وخروش پیدا ہوتا تھا۔ ماضی میں منیر ڈار، توقیر ڈار، خالد محمود، اختر رسول، اصلاح الدین صدیقی، طاہر زمان، خواجہ جنید، شہباز سینئر، شہناز شیخ، منظور الحسن، منظور جونیئر، شاہد علی خان، سمیت نہ جانے کتنے کھلاڑی ہیں جنہوں نے نہ صرف غربت سے امارت کا سفر طے کیا بلکہ اپنے کھیل سے پاکستان کو عالمی سطح پر ان گنت فتوحات بھی دلائیں۔
وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ ہاکی حکومت کی آنکھوں کا تارا تھی، عالمی ایونٹ سے قبل سربراہ مملکت کی جانب سے کھلاڑیوں کے اعزاز میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا جاتا، بعد ازاں نیک تمناؤں کے ساتھ ٹیم کو رخصت کیا جاتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ٹیم عالمی مقابلوں میں بھر پور اعتماد کے ساتھ میدان میں اترتی اور حریف ٹیموں کے چھکے چھڑاتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرکے وطن واپس لوٹتی لیکن اب حکومت کی ترجیحات تک تبدیل ہو چکی ہیں اور حکمرانوں نے سپورٹس بالخصوص قومی کھیل کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے ایک کونے میں پھینک رکھا ہے، حکومتی تھوڑی سی توجہ اور راہنمائی سے قومی کھیل کے مردہ تن میں ایک بار پھر دوبارہ جان ڈالی جا سکتی ہے۔
1994ء کا سال پاکستان ہاکی کی تاریخ میں خاصی اہمیت کا حامل اس لئے بھی ہے کیونکہ اسی برس گرین شرٹس نے ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی کی صورت میں ہاکی کے2 عالمی اعزازات اپنے نام کئے۔
قومی ہاکی ٹیم جب ورلڈ کپ 1994ء کی تیاریوں میں مصروف تھی تو مخالفین کی توپوں کا رخ پاکستان ہاکی ٹیم کی طرف تھا اور وہ تنقید کرنے کا موقع کسی صورت بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، ناقدین نے دعوی کیا تھا کہ پاکستان ہاکی ٹیم ورلڈ کپ تو درکنارچائے کا کپ بھی نہیں جیت سکتی لیکن پاکستانی شاہینوں نے انہونی کو ہونی کر دکھایا اورآسٹریلیا کے شہر سڈنی میں 23 نومبر سے 4 دسمبر تک ہونے والے عالمی کپ کے فائنل میں ہالینڈ کو شکست دے کر سب کے منہ بند کر دیئے۔
میچ کی سنسنی خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقررہ وقت پر مقابلہ 1-1 گول سے برابر تھا تاہم پنالٹی سٹروکس پر گرین شرٹس نے ہالینڈ کو 3 کے مقابلے میں 4گول سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ یہ پاکستان ہاکی ٹیم کا عالمی سطح پر ہونے والے ایونٹس میں آخری گولڈ میڈل ثابت ہوا۔22 برس گزر جانے کے باوجود ہم انٹرنیشنل سطح پر ہونے والے مقابلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے لئے ترس رہے ہیں۔ تاریخ خود کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے۔
پاکستان ہاکی ٹیم ورلڈ کپ کے بعد اولمپکس کی دوڑ سے بھی باہر ہو چکی ہے، چیمپئنز ٹرافی کھیلنے سے ہم خود انکار کر چکے، اب شائقین کی نظریں پاکستان ہاکی فیڈریشن کی موجودہ انتظامیہ بالخصوص 1994 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد سینئر پر ہیں کہ وہ گرین شرٹس کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، گو فیڈریشن قومی کھیل کو اس کا ماضی کا سنہری دور واپس دلانے کے لئے کوشاں ہے اور اس مقصد کے لئے جامع پلان بھی تشکیل دے دیا گیا ہے، سینئر کھلاڑی جہاں ملائشیا میں شیڈول ایشین چیمپئنز ٹرافی کی تیاریوں میں مصروف ہیں وہاں جونیئر ٹیم رواں برس بھارت میں شیڈول ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لئے یورپی دورہ پر ہے۔
جونیئر ورلڈ کپ کا افتتاحی ایڈیشن1979 میں فرانس میں ہوا جس میں گرین شرٹس جرمنی کو فائنل میں ہرا کر عالمی کپ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے، لیکن گزشتہ37 برس سے قومی ٹیم میگا ایونٹ کے ٹائٹل پر دوبارہ قبضہ جمانے میں ناکام رہی ہے جبکہ اس دوران جرمن ٹیم نے نہ صرف 6 بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا بلکہ اس نے 1993ء کے سپین کے شہر ٹریسا میں ہونے والے عالمی کپ میں پاکستان کو فائنل میں زیر کر کے 1979ء کی شکست کا بدلہ بھی لیا، آسٹریلیا، بھارت اور ارجنٹائن بھی یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔
اس بار بھی ورلڈ کپ میں شریک 16ٹیموں کو ہرانا گرین شرٹس کے لئے کسی طور پر بھی آسان نہیں ہوگا بلکہ اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ1979ء کے ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں قومی ٹیم کو اگر طوفانی بارش اور شدید سردی کا سامنا کرنا پڑا تو اب ہمسایہ ملک بھارت میں شیڈول عالمی کپ میں دنیا کی بڑی ٹیموں کی موجودگی میں پریشانیاں اور مصیبتیں خوف ناک اژدھے کی طرح پاکستانی ٹیم کا جگہ جگہ استقبال کریں گی، میگاایونٹ میں عمدہ کارکردگی کے حصول کے لئے کھلاڑیوں کو صرف یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا ہاکی میں کتنا سنہری دور رہا ہے۔
قومی کھیل سے وابستہ بعض ایسے بھی کھلاڑی تھے جن میں سے ایک کا ہاتھ ٹیڑھا تھا تو دوسرے کی ایک ٹانگ چھوٹی تھی لیکن یہ پلیئرز مل کر پاکستان کو میکسیکو اولمپکس1968ء میں گولڈ میڈل جتوا گئے، کونرائے نے شراب کے نشے میں پاکستان کے خلاف نازیبا الفاظ کہے تو اگلے دن میچ میں شاہینوں نے اس کا وہ حال کیا کہ اسے سٹریچر پر لٹا کرگراؤنڈ سے باہر لے جانا پڑنا۔ ممبئی ورلڈ کپ1982ء میں فتح کے بعد ٹیم کا وہ حال ہوا کہ کچھ ہی عرصہ میں ہم متعدد عالمی اور ایشیائی ٹائٹلز سے محروم ہو کر ناکامیوں اور مایوسیوں کے اندھیروں میں اترگئے۔
کہا گیا کہ کھلاڑی ورلڈ کپ تو درکنار چائے کا کپ بھی نہیں جیت سکتے، لیکن پھر اسی ٹیم نے لاس اینجلس اولمپکس 1984ء میں گولڈ میڈل جیتا، کھلاڑیوں کو یہ بھی بتایا جانا ضروری ہے کہ1979 جونیئر ورلڈ کپ میں جن کھلاڑیوں نے قومی ٹیم کی نمائندگی کی، بعد ازاں ان میں سے بیشتر نے ہاکی کے میدانوں میں دنیا بھر میں راج بھی کیا، منظور الحسن جونیئر، رشید الحسن اور کلیم اللہ نہ صرف پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے بلکہ منظور الحسن جونیئر کی قیادت میں تو پاکستانی ٹیم نے آخری بار لاس اینجلس 1984ء اولمپکس میں سونے کا تمغہ بھی جیتا، اگر وہ بھی محنت کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں تو ماضی کے عظیم کھلاڑیوں کی طرح اپنے کھیل سے ملک وقوم کا نام روشن کر سکتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہاکی غربیوں کا کھیل ہے، ماضی میں کسی دور دراز کے پسماندہ علاقے میں کسی غریب کے بچے کو ہاکی کھیلنے کی بنیاد پر سرکاری محکمے میں نوکری ملتی تھی تو آس پاس کے علاقوں میں دھوم مچ جاتی اور دوسرے بچوں میں بھی ہاکی پلیئر بننے کا نیا جوش وخروش پیدا ہوتا تھا۔ ماضی میں منیر ڈار، توقیر ڈار، خالد محمود، اختر رسول، اصلاح الدین صدیقی، طاہر زمان، خواجہ جنید، شہباز سینئر، شہناز شیخ، منظور الحسن، منظور جونیئر، شاہد علی خان، سمیت نہ جانے کتنے کھلاڑی ہیں جنہوں نے نہ صرف غربت سے امارت کا سفر طے کیا بلکہ اپنے کھیل سے پاکستان کو عالمی سطح پر ان گنت فتوحات بھی دلائیں۔
وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ ہاکی حکومت کی آنکھوں کا تارا تھی، عالمی ایونٹ سے قبل سربراہ مملکت کی جانب سے کھلاڑیوں کے اعزاز میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا جاتا، بعد ازاں نیک تمناؤں کے ساتھ ٹیم کو رخصت کیا جاتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ٹیم عالمی مقابلوں میں بھر پور اعتماد کے ساتھ میدان میں اترتی اور حریف ٹیموں کے چھکے چھڑاتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرکے وطن واپس لوٹتی لیکن اب حکومت کی ترجیحات تک تبدیل ہو چکی ہیں اور حکمرانوں نے سپورٹس بالخصوص قومی کھیل کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے ایک کونے میں پھینک رکھا ہے، حکومتی تھوڑی سی توجہ اور راہنمائی سے قومی کھیل کے مردہ تن میں ایک بار پھر دوبارہ جان ڈالی جا سکتی ہے۔