انسانوں کی تقسیم کے نتائج
دنیا کے 7 ارب عوام جن حوالوں سے تقسیم ہیں ان میں رنگ، نسل، زبان، ملک و ملت کے علاوہ دین دھرم شامل ہیں
دنیا بھر کے 7 ارب کے لگ بھگ عوام ہزاروں سال کے دوران متعارف ہونے والے عقائد و نظریات رسم و رواج کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، چونکہ بعض عقائد و نظریات انسانی زندگی کی ناگزیر ضرورت بن گئے ہیں لہٰذا ان سے انحراف ممکن نہیں لیکن جو عقائد و نظریات انسانوں کے درمیان دوری اجنبیت اور تعصبات پیدا کرتے ہیں اور کرۂ ارض ان تعصبات کے نتیجے میں قتل و غارت کی آماجگاہ بن گیا ہے، ان عقائد و نظریات کی جدید دور کے جدید علوم اور ماہرین ارض، خلائی ماہرین، سائنس و ٹیکنالوجی کی دریافتوں کی روشنی میں نئی تفہیم ضروری ہے۔ یہاں اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ ہر دور کے عقائد و نظریات اس دور کے علم اور معلومات کے تابع ہوتے ہیں، اسی تناظر میں ہزاروں سال پر پھیلے ہوئے عقائد و نظریات کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ان کی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ کیا جا سکے۔
دنیا کے 7 ارب عوام جن حوالوں سے تقسیم ہیں ان میں رنگ، نسل، زبان، ملک و ملت کے علاوہ دین دھرم شامل ہیں۔ کسی بھی حوالے سے انسانوں کی تقسیم کوئی بری بات نہیں، لیکن یہ تقسیم جب شناخت کی حدود سے نکل کر تعصبات نفرت اور خون خرابے کی طرف جاتی ہے تو یہ طرز فکر انسانیت کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
آج دنیا کے منظرنامے پر نظر ڈالیں تو ہر طرف تعصبات نفرتوں قتل و غارت کے جو خطرناک مناظر سامنے آتے ہیں وہ اہل علم اور اہل دانش سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ان خونی مناظر کو جاری رہنا چاہیے؟ یا ان کے سدباب کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہیے۔ اس سوال کا منطقی جواب تو یہی ہے کہ جن لوگوں پر اس قسم کے سوالات کے جواب کی ذمے داری عائد ہوتی ہے، ان کا فرض ہے کہ وہ انسانیت کی عمومی بھلائی کے لیے ان سوالوں کے جواب تلاش کریں اور انھیں انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔
19 اگست کو ساری دنیا میں انسانیت دوستی کا دن منایا گیا اور اس حوالے سے منعقدہ تقریبات میں انسانیت کے رشتے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔ یہ دن دنیا بھر میں منائے جانے والے بے شمار ''دنوں'' کی طرح آیا اور چلا گیا، لیکن یہ دن اہل علم اہل فکر کے لیے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی بہت بڑی ذمے داریاں بھی چھوڑ گیا۔ آج ہماری دنیا کے باسی جن حوالوں سے تقسیم بلکہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں ان کی فہرست تو بڑی لمبی ہے لیکن جو تقسیم ساری دنیا میں نفرتوں، تعصبات اور خون خرابے کا باعث بنی ہوئی ہے ان میں ملک و ملت، دین دھرم کی تقسیم سرفہرست ہے۔
بلاشبہ کسی ملک و قوم کے حوالے سے انسانوں کی شناخت کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مثلاً امریکا کے باشندوں کو امریکی، چین کے باشندوں کو چینی، روس کے باشندوں کو روسی، ہندوستان کے باشندوں کو ہندوستانی اور پاکستان کے باشندوں کو پاکستانی کہنا ایک منطقی بات ہے لیکن جب امریکا اور روس ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی اور اقتصادی مفادات کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور یہ اختلافات اسلحے کی دوڑ سے لے کر جنگوں کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں تو ملک و ملت کے حوالے سے روبہ عمل آنے والی یہ تقسیم انسانوں کی اجتماعی بھلائی اور امن و خوشحالی کی دشمن بن جاتی ہے۔
سرد جنگ سے پہلے بھی سوشلسٹ بلاک اور مغربی ملکوں کے درمیان اختلافات موجود تھے لیکن ان کے درمیان وہ خلیج حائل نہ تھی جو سرد جنگ کے دوران دیکھی گئی۔ پہلی اور دوسری جنگ کے فریق مختلف تھے لیکن یہ جنگیں جن مقاصد کے لیے لڑی گئیں وہ مقاصد ملک و ملت کی تقسیم کا نتیجہ تھیں، ان جنگوں میں کروڑوں لوگ مارے گئے اور کھربوں روپوں کا نقصان ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک و ملت کی تقسیم کیا شناخت تک محدود تھی؟
دوسری تقسیم دین دھرم کی تقسیم ہے۔ بدقسمتی سے یہ تقسیم بھی شناخت تک محدود نہ رہی بلکہ تعصبات نفرتوں تک پھیل گئی، جس کا المناک نتیجہ ہم صلیبی جنگوں سے لے کر 1947ء کی تقسیم ہند تک دیکھ سکتے ہیں، جس میں کہا جا سکتا ہے کہ 22 لاکھ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے انسانوں کو دین دھرم کے نام پر قتل کرنے اور خواتین کو اپنی آبرو بچانے کے لیے کنوؤں میں چھلانگیں لگاتے دیکھا۔ جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ دین دھرم کی تقسیم کس قدر خطرناک ہوتی ہے۔ 1947ء کے بعد دین دھرم، ملک و ملت کی تقسیم کے حوالے سے کشمیر اور فلسطین پر نظر ڈالیں تو اس تقسیم کی بربریت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے حوالے سے اگر کشمیر کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیںکہ انسان انسان سے کس طرح برسر پیکار ہے اور دین دھرم کے حوالے سے انسانوں کی تقسیم کس قدر خون آلود بن گئی ہے۔
19 اگست کو انسانیت سے دوستی کا دن منانا بڑی اچھی بات تھی لیکن جب تک ملک و ملت، دین دھرم کی تقسیم کو انسانوں کی شناخت تک محدود نہیں رکھا جاتا اس وقت تک جنگوں، اسلحے کی دوڑ، نفرتوں تعصبات کا شرمناک سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا اور ہر جگہ انسان انسان کا دشمن بنا رہے گا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر ملک و ملت، ہر دین دھرم کے ماننے والے کسی نہ کسی پیرائے میں آدم کو اپنا جد امجد مانتے ہیں، اگر یہ درست ہے تو ہر انسان ایک دوسرے کا بھائی ہے اور خونی رشتوں میں بندھا ہوا ہے۔ ہر انسان خواہ وہ کسی ملک کسی مذہب میں پیدا ہو انسان کا بچہ ہی ہوتا ہے، یہ ہم ہیں، ہمارا ماحول ہے جو انسان کے بچے کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی بنادیتے ہیں اور اسے نفرتوں کی بھٹی میں جھونک کر اندھا بہرا بنا دیتے ہیں۔
دنیا کے 7 ارب عوام جن حوالوں سے تقسیم ہیں ان میں رنگ، نسل، زبان، ملک و ملت کے علاوہ دین دھرم شامل ہیں۔ کسی بھی حوالے سے انسانوں کی تقسیم کوئی بری بات نہیں، لیکن یہ تقسیم جب شناخت کی حدود سے نکل کر تعصبات نفرت اور خون خرابے کی طرف جاتی ہے تو یہ طرز فکر انسانیت کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
آج دنیا کے منظرنامے پر نظر ڈالیں تو ہر طرف تعصبات نفرتوں قتل و غارت کے جو خطرناک مناظر سامنے آتے ہیں وہ اہل علم اور اہل دانش سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ان خونی مناظر کو جاری رہنا چاہیے؟ یا ان کے سدباب کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہیے۔ اس سوال کا منطقی جواب تو یہی ہے کہ جن لوگوں پر اس قسم کے سوالات کے جواب کی ذمے داری عائد ہوتی ہے، ان کا فرض ہے کہ وہ انسانیت کی عمومی بھلائی کے لیے ان سوالوں کے جواب تلاش کریں اور انھیں انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔
19 اگست کو ساری دنیا میں انسانیت دوستی کا دن منایا گیا اور اس حوالے سے منعقدہ تقریبات میں انسانیت کے رشتے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔ یہ دن دنیا بھر میں منائے جانے والے بے شمار ''دنوں'' کی طرح آیا اور چلا گیا، لیکن یہ دن اہل علم اہل فکر کے لیے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی بہت بڑی ذمے داریاں بھی چھوڑ گیا۔ آج ہماری دنیا کے باسی جن حوالوں سے تقسیم بلکہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں ان کی فہرست تو بڑی لمبی ہے لیکن جو تقسیم ساری دنیا میں نفرتوں، تعصبات اور خون خرابے کا باعث بنی ہوئی ہے ان میں ملک و ملت، دین دھرم کی تقسیم سرفہرست ہے۔
بلاشبہ کسی ملک و قوم کے حوالے سے انسانوں کی شناخت کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مثلاً امریکا کے باشندوں کو امریکی، چین کے باشندوں کو چینی، روس کے باشندوں کو روسی، ہندوستان کے باشندوں کو ہندوستانی اور پاکستان کے باشندوں کو پاکستانی کہنا ایک منطقی بات ہے لیکن جب امریکا اور روس ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی اور اقتصادی مفادات کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور یہ اختلافات اسلحے کی دوڑ سے لے کر جنگوں کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں تو ملک و ملت کے حوالے سے روبہ عمل آنے والی یہ تقسیم انسانوں کی اجتماعی بھلائی اور امن و خوشحالی کی دشمن بن جاتی ہے۔
سرد جنگ سے پہلے بھی سوشلسٹ بلاک اور مغربی ملکوں کے درمیان اختلافات موجود تھے لیکن ان کے درمیان وہ خلیج حائل نہ تھی جو سرد جنگ کے دوران دیکھی گئی۔ پہلی اور دوسری جنگ کے فریق مختلف تھے لیکن یہ جنگیں جن مقاصد کے لیے لڑی گئیں وہ مقاصد ملک و ملت کی تقسیم کا نتیجہ تھیں، ان جنگوں میں کروڑوں لوگ مارے گئے اور کھربوں روپوں کا نقصان ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک و ملت کی تقسیم کیا شناخت تک محدود تھی؟
دوسری تقسیم دین دھرم کی تقسیم ہے۔ بدقسمتی سے یہ تقسیم بھی شناخت تک محدود نہ رہی بلکہ تعصبات نفرتوں تک پھیل گئی، جس کا المناک نتیجہ ہم صلیبی جنگوں سے لے کر 1947ء کی تقسیم ہند تک دیکھ سکتے ہیں، جس میں کہا جا سکتا ہے کہ 22 لاکھ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے انسانوں کو دین دھرم کے نام پر قتل کرنے اور خواتین کو اپنی آبرو بچانے کے لیے کنوؤں میں چھلانگیں لگاتے دیکھا۔ جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ دین دھرم کی تقسیم کس قدر خطرناک ہوتی ہے۔ 1947ء کے بعد دین دھرم، ملک و ملت کی تقسیم کے حوالے سے کشمیر اور فلسطین پر نظر ڈالیں تو اس تقسیم کی بربریت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے حوالے سے اگر کشمیر کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیںکہ انسان انسان سے کس طرح برسر پیکار ہے اور دین دھرم کے حوالے سے انسانوں کی تقسیم کس قدر خون آلود بن گئی ہے۔
19 اگست کو انسانیت سے دوستی کا دن منانا بڑی اچھی بات تھی لیکن جب تک ملک و ملت، دین دھرم کی تقسیم کو انسانوں کی شناخت تک محدود نہیں رکھا جاتا اس وقت تک جنگوں، اسلحے کی دوڑ، نفرتوں تعصبات کا شرمناک سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا اور ہر جگہ انسان انسان کا دشمن بنا رہے گا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر ملک و ملت، ہر دین دھرم کے ماننے والے کسی نہ کسی پیرائے میں آدم کو اپنا جد امجد مانتے ہیں، اگر یہ درست ہے تو ہر انسان ایک دوسرے کا بھائی ہے اور خونی رشتوں میں بندھا ہوا ہے۔ ہر انسان خواہ وہ کسی ملک کسی مذہب میں پیدا ہو انسان کا بچہ ہی ہوتا ہے، یہ ہم ہیں، ہمارا ماحول ہے جو انسان کے بچے کو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی بنادیتے ہیں اور اسے نفرتوں کی بھٹی میں جھونک کر اندھا بہرا بنا دیتے ہیں۔