فاروق ستارکہاں جارہے ہیں
ایک پاکستان مخالف تقریر، میڈیا ہاؤسز پر حملہ،ذرایع ابلاغ کا شدید ردعمل۔۔۔ریاستی ادارے حرکت میں آگئے
وہ ایک پریشان کن رات تھی۔۔۔
ہرآہٹ کے پیچھے اندیشے، ہر دستک کے پیچھے خوف، گلی میں قدموں کی چاپ، پھر فائرنگ کی آوازسنائی دیتی۔ دن بھر ٹی وی چلتا رہا۔ رات گئے، جب آنکھیں اورکان تھک گئے، تو ریموٹ کا بٹن دبایا۔ کچھ غنودگی اتری، کچھ خواب تھے۔ مگر پھر کوئی آہٹ ہوتی۔ دستک سنائی دیتی۔ گلی میں قدموں کی چاپ۔۔۔وہ کراچی کے لیے ایک پریشان کن رات تھی کہ وہ دن۔۔۔ بڑا پرشور تھا۔
ایک پاکستان مخالف تقریر، میڈیا ہاؤسز پر حملہ،ذرایع ابلاغ کا شدید ردعمل۔۔۔ریاستی ادارے حرکت میں آگئے۔ 90 سیل ہوگیا۔ روایت کے برخلاف اس بار ایم کیو ایم کے راہ نما اس متنازع تقریر کا دفاع کرتے نظر نہیں آئے۔ وہ منظر سے غائب تھے اور جب وہ منظرمیں ظاہر ہوئے۔۔۔ رات کچھ اور الجھ گئی۔ پریس کانفرنس کرنے سے قبل ہی فاروق ستار اور دیگر رہنماؤں کو گرفتارکر لیا گیا۔ اس پریس کانفرنس سے ، جو ہو نہ سکی، بڑی پراسراریت جڑی تھی۔ تجزیہ کاروں نے کچھ پیش گوئیاں کی تھیں۔خیال پیش کیا تھا کہ ایم کیو ایم رہنما پریس کانفرنس میں ایک ایسا موقف اختیار کرسکتے ہیں، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔۔۔مگر یہ ہونہ سکا۔۔۔ فاروق ستار ، جن کے نام یہ پارٹی رجسٹرڈ ، زیر حراست تھے اوریوں رات الجھ گئی۔۔۔
ہاں،دوسرے دن سہ پہروہ پریس کانفرنس ہوئی۔ کانفرنس سے قبل خاصا ابہام تھا۔ لوگ سوال کرتے تھے، کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ایم کیو ایم کے رہنما اپنے قائد کے بیان کی مذمت کا روایت شکن قدم اٹھا سکتے ہیں؟فاروق ستار نے پریس کانفرنس کی، تو دائیں بائیں پارٹی کے سینئر رہنما بیٹھے تھے۔ ایک ٹی وی اینکر بھی دوڑے دوڑے پہنچے۔ مرکزی رہنما تو نہیں تھے، مگر شہرت کے اسٹیج پر کھڑے ہوکرتماشا لگانے میں یدطولیٰ رکھتے تھے، شایدمستقبل میں کسی بڑے پارٹی عہدے کا خواب بھی آنکھوں میں تھا۔اگلے کئی گھنٹوں تک وہ صاحب ٹی وی چینلز پر موجود رہے۔ کچھ حلقے اس اہم پریس کانفرنس کو، جس نے کراچی کی سیاست کو بدل دیا،ابہام کی دھند میں دھکیلنے والے تھے اور یوں ایک ایسی تقریر، جس کی بابت ایک سینئر اور منجھے ہوئے تجزیہ کار نے کہا تھا ''میں نے ایک عرصے بعد سیاسی طور پر اتنی پختہ تقریر سنی ہے!'' متنازع بن گئی ہے۔(ہم بڑھکیں مارنے والے سیاست دانوں کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ' سیاسی طور پر پختہ تقریر' کے معنی ہی بھول گئے ہیں)
تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ 22اگست کی رات کے مانند، جب لندن سے ایک متنازع تقریر ہوئی، میڈیا ہاوسز پر حملہ ہوا، اور ایم کیو ایم کے رہنما گرفتار ہوئے، 23 اگست کی رات بھی۔۔۔ جب فاروق ستار کی پریس کانفرنس نے ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا، ایک الجھی ہوئی رات تھی۔گوآنے والے دنوں میںایم کیو ایم کے مزید کارکن گرفتار ہوئے، دفاتر سیل ہوئے، کئی مسمار کر دیے گئے، مگر دھیرے دھیرے ۔۔۔تصویر واضح ہونے لگی۔ وہ باتیں، جو 23 اگست کو فاروق ستار نے دھیمے سروں میں کہیں تھیں، اب واضح اور نسبتاً بلند آہنگ میں کہنے لگے۔ ان سے کڑے سوالات کرنے والے اینکرز جب بہ طور تجزیہ کار ٹی وی اسکرنوں پر آتے(اور یہ بھی ایک المیہ ہے کہ آج اینکر پرسن ہی رائے عامہ کے نمایندے، دانشور اور تجزیہ کار ہیں) تو تھوڑا معتدل رویہ اختیار کرتے، اور فاروق ستار کے موقف کو کہ :'' ہمیں ابSpace دی جائے، کام کرنے کا موقع دیا جائے!'' دہراتے نظر آتے۔۔۔ تو ایک واضح تصویر ابھرنے لگی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پریس کانفرنس فقط ڈھونگ تھی۔۔اسکرپٹ لندن میں لکھا گیا۔۔۔ اس کا مقصد ریاستی ردعمل کی شدت گھٹاناتھا۔۔۔ پاکستان مخالف تقریر کے بعد کچھ نہیں بدلا، ایم کیوایم میں جمود برقرار ہے۔۔۔الغرض سازشی تھیوریزکا شور ہے۔۔۔اورمیرا مقصد ان نظریات کو دلائل کے زور سے غلط ثابت کرنا نہیں کہ ایک کالم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ نہ تو مجھے اپنے بزرگوں کے مانند پیش گوئیوں میں دل چسپی، جو چند دن بعد غلط ثابت ہوں، مگر بزرگ کے اعتماد میں ذرا کمی نہیں آئے۔۔۔ میں تو فقط حقائق کی دنیا پر نظر ڈالنا چاہتا ہوں۔
یہ پہلا موقع نہیں، جب ایم کیو ایم پر غداری کا الزام لگا۔۔۔ جب ان کے خلاف بھرپور آپریشن ہوا۔۔۔ جب ان کے دفاتر سیل ہوئے، کارکن گرفتار ہوئے۔۔۔ جب ان سے الگ ہونے والے کچھ افراد نے ایک نئی جماعت بنانے کا اعلان کیا۔۔۔جب شہر پر ان کی گرفت کمزور ہوئی، جب کھمبوں اور چوکوں سے پوسٹر اتر گئے۔۔۔
البتہ پہلی بار ایسا ہوا ہے، جب ایم کیو ایم کراچی کی قیادت نے کسی معاملے میں لندن قیادت سے لاتعلقی ظاہر کی، جب لندن کی پالیسی سے اختلاف کیا، جب اپنی پیداکردہ صورت حال کی مذمت کی۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے، جب ایم کیو ایم ہی کے کچھ رہنماؤں نے یہ اعلان کیا کہ آیندہ یہ جماعت پاکستان سے آپریٹ کرے گی، اورمستقبل میں اس کے پلیٹ فورم سے پاکستان مختلف بیانات اور اقدامات پر مکمل روک لگائی جائے گی۔۔۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مائنس ون فارمولے کے اطلاق کا اعلان کرنے کے بجائے اس سے ملتی جلتی کیفیت پیدا کر دی گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ اس وقت کراچی کی اس نمایندہ جماعت کے پاس، جس کے مینڈیٹ سے انکار ممکن نہیں، کوئی اور راستہ نہیں۔ ایک طرف سول اور ملٹری اداروں کا پاکستان مخالف بیان پر سخت موقف، دیگرسیاسی جماعتوں کا ایم کیو ایم سے بڑھتا فاصلہ، آپریشن میں تیزی، دفاتر کی بندش، کارکنوں کی گرفتاریاں، شہر پر کمزور پڑتی گرفت۔۔۔پھر ووٹرزکے مزاج میں آنے والی تبدیلیاں۔کراچی میں تحریک انصاف کی مقبولیت، پاک سر زمین پارٹی کی قبولیت،سوشل میڈیا کے اثرات۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے پاس فی الحال کوئی اور راستہ نہیں، سوائے اس راستے کے۔۔۔ جس پر فاروق ستار چل رہے ہیں۔
جہاں تک ریاست کا تعلق ہے، ہم دیکھ چکے ہیں کہ ماضی میں ہونے والے کڑے اور طویل آپریشنز کبھی ایم کیو ایم کو جڑ سے ختم نہیں کرسکے۔ اس کی ایک وجہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی خواہش مند سیاسی جماعتیں اور آمر بھی ہوسکتے ہیں مگر اصل وجہ یہ رہی کہ اس جماعت کا ووٹ بینک نہیں ٹوٹ سکا۔ کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے، جن کا ایک بڑا حصہ اس جماعت سے محبت رکھتا ہے اور الیکشن میں آنکھیں بند کرکے پتنگ پر مہر لگاتا ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کے رویے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ یعنی کراچی کی انتخابی سیاست میں ایم کیو ایم آج بھی سب سے بڑی حقیقت ہے۔
تطہیر کا عمل جاری رہنا چاہیے، جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری بھی ضروری، قبضے کی زمینوں پر قائم دفاتر کو مسمارکرنے میں کوئی قباحت نہیں، مگر کئی نزاکتیں ہیں۔پرانی ایم کیو ایم کے اس نئے رویے کو۔۔۔ کچھ وقت ضرور دینا چاہیے۔فاروق ستار ایک موقعے کے حقدار ہیں۔
ہرآہٹ کے پیچھے اندیشے، ہر دستک کے پیچھے خوف، گلی میں قدموں کی چاپ، پھر فائرنگ کی آوازسنائی دیتی۔ دن بھر ٹی وی چلتا رہا۔ رات گئے، جب آنکھیں اورکان تھک گئے، تو ریموٹ کا بٹن دبایا۔ کچھ غنودگی اتری، کچھ خواب تھے۔ مگر پھر کوئی آہٹ ہوتی۔ دستک سنائی دیتی۔ گلی میں قدموں کی چاپ۔۔۔وہ کراچی کے لیے ایک پریشان کن رات تھی کہ وہ دن۔۔۔ بڑا پرشور تھا۔
ایک پاکستان مخالف تقریر، میڈیا ہاؤسز پر حملہ،ذرایع ابلاغ کا شدید ردعمل۔۔۔ریاستی ادارے حرکت میں آگئے۔ 90 سیل ہوگیا۔ روایت کے برخلاف اس بار ایم کیو ایم کے راہ نما اس متنازع تقریر کا دفاع کرتے نظر نہیں آئے۔ وہ منظر سے غائب تھے اور جب وہ منظرمیں ظاہر ہوئے۔۔۔ رات کچھ اور الجھ گئی۔ پریس کانفرنس کرنے سے قبل ہی فاروق ستار اور دیگر رہنماؤں کو گرفتارکر لیا گیا۔ اس پریس کانفرنس سے ، جو ہو نہ سکی، بڑی پراسراریت جڑی تھی۔ تجزیہ کاروں نے کچھ پیش گوئیاں کی تھیں۔خیال پیش کیا تھا کہ ایم کیو ایم رہنما پریس کانفرنس میں ایک ایسا موقف اختیار کرسکتے ہیں، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔۔۔مگر یہ ہونہ سکا۔۔۔ فاروق ستار ، جن کے نام یہ پارٹی رجسٹرڈ ، زیر حراست تھے اوریوں رات الجھ گئی۔۔۔
ہاں،دوسرے دن سہ پہروہ پریس کانفرنس ہوئی۔ کانفرنس سے قبل خاصا ابہام تھا۔ لوگ سوال کرتے تھے، کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ایم کیو ایم کے رہنما اپنے قائد کے بیان کی مذمت کا روایت شکن قدم اٹھا سکتے ہیں؟فاروق ستار نے پریس کانفرنس کی، تو دائیں بائیں پارٹی کے سینئر رہنما بیٹھے تھے۔ ایک ٹی وی اینکر بھی دوڑے دوڑے پہنچے۔ مرکزی رہنما تو نہیں تھے، مگر شہرت کے اسٹیج پر کھڑے ہوکرتماشا لگانے میں یدطولیٰ رکھتے تھے، شایدمستقبل میں کسی بڑے پارٹی عہدے کا خواب بھی آنکھوں میں تھا۔اگلے کئی گھنٹوں تک وہ صاحب ٹی وی چینلز پر موجود رہے۔ کچھ حلقے اس اہم پریس کانفرنس کو، جس نے کراچی کی سیاست کو بدل دیا،ابہام کی دھند میں دھکیلنے والے تھے اور یوں ایک ایسی تقریر، جس کی بابت ایک سینئر اور منجھے ہوئے تجزیہ کار نے کہا تھا ''میں نے ایک عرصے بعد سیاسی طور پر اتنی پختہ تقریر سنی ہے!'' متنازع بن گئی ہے۔(ہم بڑھکیں مارنے والے سیاست دانوں کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ' سیاسی طور پر پختہ تقریر' کے معنی ہی بھول گئے ہیں)
تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ 22اگست کی رات کے مانند، جب لندن سے ایک متنازع تقریر ہوئی، میڈیا ہاوسز پر حملہ ہوا، اور ایم کیو ایم کے رہنما گرفتار ہوئے، 23 اگست کی رات بھی۔۔۔ جب فاروق ستار کی پریس کانفرنس نے ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا، ایک الجھی ہوئی رات تھی۔گوآنے والے دنوں میںایم کیو ایم کے مزید کارکن گرفتار ہوئے، دفاتر سیل ہوئے، کئی مسمار کر دیے گئے، مگر دھیرے دھیرے ۔۔۔تصویر واضح ہونے لگی۔ وہ باتیں، جو 23 اگست کو فاروق ستار نے دھیمے سروں میں کہیں تھیں، اب واضح اور نسبتاً بلند آہنگ میں کہنے لگے۔ ان سے کڑے سوالات کرنے والے اینکرز جب بہ طور تجزیہ کار ٹی وی اسکرنوں پر آتے(اور یہ بھی ایک المیہ ہے کہ آج اینکر پرسن ہی رائے عامہ کے نمایندے، دانشور اور تجزیہ کار ہیں) تو تھوڑا معتدل رویہ اختیار کرتے، اور فاروق ستار کے موقف کو کہ :'' ہمیں ابSpace دی جائے، کام کرنے کا موقع دیا جائے!'' دہراتے نظر آتے۔۔۔ تو ایک واضح تصویر ابھرنے لگی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پریس کانفرنس فقط ڈھونگ تھی۔۔اسکرپٹ لندن میں لکھا گیا۔۔۔ اس کا مقصد ریاستی ردعمل کی شدت گھٹاناتھا۔۔۔ پاکستان مخالف تقریر کے بعد کچھ نہیں بدلا، ایم کیوایم میں جمود برقرار ہے۔۔۔الغرض سازشی تھیوریزکا شور ہے۔۔۔اورمیرا مقصد ان نظریات کو دلائل کے زور سے غلط ثابت کرنا نہیں کہ ایک کالم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ نہ تو مجھے اپنے بزرگوں کے مانند پیش گوئیوں میں دل چسپی، جو چند دن بعد غلط ثابت ہوں، مگر بزرگ کے اعتماد میں ذرا کمی نہیں آئے۔۔۔ میں تو فقط حقائق کی دنیا پر نظر ڈالنا چاہتا ہوں۔
یہ پہلا موقع نہیں، جب ایم کیو ایم پر غداری کا الزام لگا۔۔۔ جب ان کے خلاف بھرپور آپریشن ہوا۔۔۔ جب ان کے دفاتر سیل ہوئے، کارکن گرفتار ہوئے۔۔۔ جب ان سے الگ ہونے والے کچھ افراد نے ایک نئی جماعت بنانے کا اعلان کیا۔۔۔جب شہر پر ان کی گرفت کمزور ہوئی، جب کھمبوں اور چوکوں سے پوسٹر اتر گئے۔۔۔
البتہ پہلی بار ایسا ہوا ہے، جب ایم کیو ایم کراچی کی قیادت نے کسی معاملے میں لندن قیادت سے لاتعلقی ظاہر کی، جب لندن کی پالیسی سے اختلاف کیا، جب اپنی پیداکردہ صورت حال کی مذمت کی۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے، جب ایم کیو ایم ہی کے کچھ رہنماؤں نے یہ اعلان کیا کہ آیندہ یہ جماعت پاکستان سے آپریٹ کرے گی، اورمستقبل میں اس کے پلیٹ فورم سے پاکستان مختلف بیانات اور اقدامات پر مکمل روک لگائی جائے گی۔۔۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مائنس ون فارمولے کے اطلاق کا اعلان کرنے کے بجائے اس سے ملتی جلتی کیفیت پیدا کر دی گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ اس وقت کراچی کی اس نمایندہ جماعت کے پاس، جس کے مینڈیٹ سے انکار ممکن نہیں، کوئی اور راستہ نہیں۔ ایک طرف سول اور ملٹری اداروں کا پاکستان مخالف بیان پر سخت موقف، دیگرسیاسی جماعتوں کا ایم کیو ایم سے بڑھتا فاصلہ، آپریشن میں تیزی، دفاتر کی بندش، کارکنوں کی گرفتاریاں، شہر پر کمزور پڑتی گرفت۔۔۔پھر ووٹرزکے مزاج میں آنے والی تبدیلیاں۔کراچی میں تحریک انصاف کی مقبولیت، پاک سر زمین پارٹی کی قبولیت،سوشل میڈیا کے اثرات۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے پاس فی الحال کوئی اور راستہ نہیں، سوائے اس راستے کے۔۔۔ جس پر فاروق ستار چل رہے ہیں۔
جہاں تک ریاست کا تعلق ہے، ہم دیکھ چکے ہیں کہ ماضی میں ہونے والے کڑے اور طویل آپریشنز کبھی ایم کیو ایم کو جڑ سے ختم نہیں کرسکے۔ اس کی ایک وجہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی خواہش مند سیاسی جماعتیں اور آمر بھی ہوسکتے ہیں مگر اصل وجہ یہ رہی کہ اس جماعت کا ووٹ بینک نہیں ٹوٹ سکا۔ کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے، جن کا ایک بڑا حصہ اس جماعت سے محبت رکھتا ہے اور الیکشن میں آنکھیں بند کرکے پتنگ پر مہر لگاتا ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کے رویے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ یعنی کراچی کی انتخابی سیاست میں ایم کیو ایم آج بھی سب سے بڑی حقیقت ہے۔
تطہیر کا عمل جاری رہنا چاہیے، جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری بھی ضروری، قبضے کی زمینوں پر قائم دفاتر کو مسمارکرنے میں کوئی قباحت نہیں، مگر کئی نزاکتیں ہیں۔پرانی ایم کیو ایم کے اس نئے رویے کو۔۔۔ کچھ وقت ضرور دینا چاہیے۔فاروق ستار ایک موقعے کے حقدار ہیں۔