سیاست اور ریاست

معاشرے سے کٹ کر فرد زندہ نہیں رہ سکتا یا یوں سمجھیے کہ ’’فرد ذمے دار‘‘ نہیں رہ سکتا

لاہور:
ریاست کی تعریف کے لیے اگرکتابیں کھول کر بیٹھیں تو بے شمار تعریفیں ملیں گی جن کے ذریعے ریاست کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ زیادہ تر تعریفیں اس دور یا ان ادوار میں مفکرین نے متعین کیں جب معاشرہ کسی مشکل میں تھا اور انسانی تاریخ (بلاتفریق مذہب و ملت) میں معاشرے زیادہ تر مشکل کا ہی شکار رہے اورآج بھی ان نام نہاد ترقی پذیر معاشروں میں جرائم رواج بن گئے ہیں اور ان کے علاج اور روک تھام کے بجائے احتیاطی تدابیر پر دھیان دیا جاتا ہے اور ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ ''ریوگیمز'' تازہ ترین مثال میں ایک جرائم سے بھرپور معاشرے اور شہر میں دنیا بھر کے لوگ اسپورٹس کے لیے جا سکتے ہیں اور ہر قسم کا رسک لے سکتے ہیں مگر پاکستان میں کرکٹ نہیں کھیل سکتے۔ دونوں باتوں کے عوامل اور مقاصد الگ الگ ہیں جو ہمارا موضوع نہیں ہے برسبیل تذکرہ ایک بات کہی ہے۔

تو ارسطوکی ریاست کا تصور کچھ اور ہے اور دوسرے فلاسفرز کا تصور کچھ اور مگر جیساکہ ابتدا میں عرض کیا کہ ان تصورات کی وجوہات کچھ اور ہیں اور ہر معاشرے کے اپنے لوازمات اور ضروریات کے مطابق تصورات قائم کیے گئے ہیں۔

اگر اسلامی معاشرے کو ہم توجہ سے دیکھیں اور اس کے طے کردہ اصولوں کو جانچیں (جواب کہیں نہیں پائے جاتے) تو یہاں ریاست کا تصور ''ماں'' کا ہے اور ریاست کا کردار بھی ایسا ہی طے کردہ ہے ۔ ریاست کا فرض تھا کہ وہ ہر ایک کو برابر سمجھے اس کے حقوق کے اعتبار سے بنیادی طور پر یعنی روٹی کپڑا، مکان، جو بھٹو نے یہاں سے ہی اخذ کیا تھا کا بندوبست ریاست کی ذمے داری ہے اور اس کے عوض متعلقہ فرد فرائض انجام دے گا جو ریاست اس کو کرنے کو کہے گی اور جو مفاد عامہ کا ہی کوئی کام ہوگا۔

معاشرے سے کٹ کر فرد زندہ نہیں رہ سکتا یا یوں سمجھیے کہ ''فرد ذمے دار'' نہیں رہ سکتا اور پھر وہ جرائم اور نشے کی طرف جائے گا جس کے سدباب کے لیے اسلامی معاشرے نے سخت قوانین بنائے تھے اور ان پر عمل کے ذریعے معاشرے کو درست راہ پر رکھا تھا ملوکیت سے پہلے پہلے۔

دور ملوکیت اس کے برعکس معاشرہ ہے، اس میں وہی کچھ ہے جو آج بھی ہے، یعنی حقوق کا سلب کرلینا ظلم کے ذریعے خدمت لینا، بددیانتی اور عدم انصاف کا فروغ، اس طریقہ کار نے مسلمانوں کو اکثر مسلمانوں کے خلاف کام کرنے کے لیے مسلمان دشمنوں کا ساتھ دینے کا راستہ دکھایا۔

اسلامی تاریخ عرب اورایشیا میں اور پھر برصغیر میں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور یہی وجہ انگریز، ڈچ، فرانسیسیوں کی یہاں حکومت کرنے کی تھی۔ اس میں ملوکیت کے بد اثرات ہی ذمے دار ہیں۔ مسلمانوں کے ابتدائی ادوار کے علاوہ زیادہ تر سلطان مسلط رہے اور لوگوں نے بڑی بڑی کتابیں ان سلطانوں کی تعریف میں لکھی ہیں اور لکھ رہے ہیں مگر ایک بات وہ فراموش کرجاتے ہیں کہ اسلام میں سلطان کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جو تصور ہے اس پر مسلمان قوم اور اس کے اعلیٰ دماغ بھی پورے نہیں اترتے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ مثالی معاشرہ بے غرضی کا متقاضی ہے یعنی آپ معاشرے کی خدمت عبادت سمجھ کر کریں اور بار بار یہ کتاب ہدایت اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے انسانوں کی خدمت سب سے اچھا عمل ہے۔ تو پرکھ لیجیے معاشروں کو کیا یہ بات پائی جاتی ہے وہ معاشرے جو مثالی کہلاتے ہیں وہاں بھی No Free Service ہے۔

بھاری ٹیکسوں کے ذریعے رقم اکٹھا کرکے معاشروں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہاں کوئی Free Service نہیں ہے۔ ریاست صرف یہ کر رہی ہے کہ ایک سے لے کر دوسرے پر خرچ کر رہی ہے۔ دوسرا وہ کہ جو اب Service کے لائق نہیں رہا۔ تو معاشرہ ہی اپنے لوگوں کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ یہ ایک عام طریقہ کار ہے۔


سیاست کا مقصد یہ جو کچھ ہم نے اب تک بیان کیا مختلف طریقہ کار ان پر عمل کرنے کے لیے بہتر لوگوں کا انتخاب ہے جو اس کام کو ایمانداری سے انجام دیں اور اس کے لیے قوم ان کو معاوضہ دیتی ہے، یعنی یہ معاشرہ اپنے کام کو بہتر انداز سے انجام دینے کے لیے کچھ لوگ جو سیاستدان ہیں اور عوام ان کو پسند کرتے ہیں عوام کے لیے ملازم رکھتا ہے اور کام کرنے کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ نام کے دفاتر ان کو فراہم کرتا ہے تاکہ یہ زیادہ بہتر خدمات انجام دیں۔

بہت کم ملکوں میں وہ جماعتیں سیاسی کامیاب ہوتی ہیں جن میں غریب غربا اعلیٰ عہدوں پر ہوں عموماً غریب غربا کے نام پر بھی سرمایہ دار اور زمینداری معاشرے کے ان جماعتوں کو چلاتے ہیں اور نام البتہ غریب غربا کا لیتے رہتے ہیں تازہ ترین اضافہ اس میں پاکستان میں PTI ہے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ متوسط طبقے کی بھی جماعت ہو اور کامیاب بھی ہوجائے تو وہاں اس کے اعلیٰ سطح لوگ بھی آہستہ آہستہ بڑے خاندانوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور ان کا بھی رویہ آمرانہ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ لوگ اپنی ذاتی خواہشات اور نام و نمود کے لیے جماعت، قوم یہاں تک کہ ملک کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں ایسا آپ نے حال ہی میں دیکھا سنا ہے۔

اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ایسے حالات میں یا تو یہ جماعت یہی چاہتی ہے کہ اس کے لوگوں کے مسائل حل نہ ہوں تاکہ سیاست کا سلسلہ جاری رہے، کیونکہ مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے ایک مخالفانہ فضا قائم رہے گی اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر بھٹو صاحب نے کوٹہ سسٹم دس سال کے لیے نافذ کیا سندھ میں صرف ایک تو یہ زیادتی تھی پورے پاکستان میں ہونا بہرحال شاید وہ پسند کے لوگوں کو ساتھ رکھنا یا یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ سندھ کے لوگوں کے بہت ہمدرد ہیں خصوصاً دیہی سندھ کے تو اگر وہ رہ جاتے تو شاید دس سال بعد یہ سلسلہ ختم ہوجاتا۔ تمام جگہوں پر ایک صحت مندانہ رجحان پیدا ہوجاتا مقابلے کا حالانکہ انسانی فطرت کے مطابق یہ غلط تھا۔ آپ ایک شخص کو باندھ کر دوسرے آزاد شخص سے مقابلے کو ایک اچھی کوشش یا خیال نہیں کہہ سکتے۔

بہرحال اس جماعت کا کام یہ تھا کہ کوٹہ سسٹم کو ختم کروا کے سندھ میں کوئی اچھا سسٹم رائج کرنے میں دوسری جماعتوں کے ساتھ تعاون کرکے ایک اچھی مثال قائم کرتے یہ نہیں کیا گیا معاشرے میں انتشار کی کیفیت تھی اور ہے اور اس صورتحال میں رہے گی۔

اب ریاست نے بھی سیاست کے اس کھیل میں اپنا کردار ادا نہیں کیا کہ وہ ریفری تھی اور ہے بلکہ اس نے کھلاڑیوں سے ساز باز کرلی۔ جو اچھا کھلاڑی ملا اسے خرید لیا۔ جب تک وہ نتائج دیتا رہا حسب منشا تو سب ٹھیک ورنہ سرد خانے کی نذر۔

آج کل مولانا اور چادر کے دام چڑھے ہوئے ہیں کیونکہ مقابل بھی مولانا اور بلا ہیں بلے کو ہر قیمت پر وزارت عظمیٰ چاہیے اور یہ ملائی اسے دوسرے کھانے نہیں دیں گے متوسط طبقے کی جماعت کو نہ وزیر اعلیٰ کبھی نہ ملے گا۔

ہم کہاں سے چلے کہ غیر مسلم کی حفاظت کو فرض قرار دیا تھا اور اب مسلم مسلم کے ہاتھوں پامال ہے غیر محفوظ ہے اور اس کی وجہ ہے سیاست۔ گویا سیاست خودغرضی کی ماں ہے اب اور یہی حال رہا تو قوم کے دام لگنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔ دشمنوں کے سامنے ریاست خاموش اور سیاست خودغرضی کی انتہا پر ہے تو ملک کا کیا ہوگا۔ ملک کا محافظ کون ہے۔ صرف ایک قوت ایک ادارہ جو بدنام ہوکر بھی رات دن ملک کا تحفظ کر رہا ہے۔ خدا سلامت رکھے اس قوت کو اس ادارے کو۔
Load Next Story