وزیراعظم نوازشریف اور ایم کیو ایم
قومی رہنماؤں پر بغیر تصدیق کیے سنے سنائے الزامات لگائے جاتے رہے تو چینل اعتبار کھودینگے
قومی رہنماؤں پر بغیر تصدیق کیے سنے سنائے الزامات لگائے جاتے رہے تو چینل اعتبار کھودینگے اور حرف کی حرمت باقی نہ رہیگی۔ چند روز سے ایک دو چینلوں پر کراچی کے حالات پر کیے جانے والے تبصروں میں وزیرِاعظم پر الزامات کی تکرار ہورہی ہے، کئی باتوں کا میں عینی شاہد ہوں اس لیے کچھ حقائق قارئین سے شیئر کرنا اپنی اخلاقی ذمے داری سمجھتا ہوں۔میں اُسوقت نوجوان پولس کپتان تھا جب مجھے پی ایس او ٹو پرائم منسٹر کے طور پرتعینات کردیا گیا۔ ملک بھر میں ہونے والے سنگین واقعات کی رپورٹ براہِ راست پرائم منسٹر کو پیش کرنا اور اگر وہ کسی Victimسے ملنے کے لیے کسی جگہ کا دورہ کرنا چاہیں تو اس سلسلے میں مقامی پولیس اور انتظامیہ سے رابطہ کرکے انتظامات کرانا میرے فرائض میں شامل تھا۔
اندرونِ سندھ کے لوگ کئی سالوں کے ڈاکو راج سے تنگ آئے ہوئے تھے، میاں نوازشریف نے وزیرِ اعظم بنکر اندرونِ سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف فوج کے ذریعے آپریشن کرایا جو بڑا کامیاب رہا اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اس سے پہلی بار سندھی عوام کے دل میں کسی پنجابی لیڈر کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا۔مظلوموں کی داد رسی کے لیے اندرونِ سندھ باربار جانے سے بھی وہاں میاں نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ۔ اُسوقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز (جو آرمی افسروں کے ساتھ تشدد کرنے پر ایم کیو ایم کو سبق سکھانا چاہتے تھے) نے مرکزی حکومت کی ہدایات کی تشریح اپنے انداز میں کی اور ڈاکوؤں کے ساتھ ساتھ ایم کیوایم کے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بھی آپریشن شروع کردیا جسکے نتیجے میں الطاف حسین ملک سے فرار ہوگیا۔ یہ ایم کیو ایم کے خلاف پہلا آپریشن تھا۔
دوسرا آپریشن 1994-95ء میںاسوقت ہوا جب محترمہ بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم تھیں اور جنرل نصیراﷲبابر وزیرِ داخلہ ، سندھ کی صوبائی حکومت بھی پیپلزپارٹی کی تھی اُسوقت مرکزی اور صوبائی حکومت نے ملکر پوری ریاستی مشینری کے ساتھ ایم کیوایم کو مکمل طور پر کچل دینے کا آپریشن شروع کیا جس پر پی پی پی کے علاوہ دوسری سیاسی پارٹیوں نے تحفظات کا اظہار کیا اور اسے کراچی پر کنٹرول حاصل کرنے کی Turf warقرار دیا،کراچی میں چوتھا آپریشن یعنی رینجرز کی قیادت میں ہونے والاموجودہ آپریشن پرائم منسٹر نوازشریف نے حکومت میں آتے ہی شروع کرادیا اُسوقت ابھی جنرل راحیل شریف آرمی چیف نہیں بنے تھے۔
موجودہ آپریشن اور 1994-95 ء کے آپریشن میں واضح فرق یہ ہے کہ موجودہ آپریشن بلاامتیاز ساری پارٹیوں کے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا گیا ہے مگر اُسوقت کا آپریشن صرف ایم کیو ایم کے خلاف تھا اور مرتضیٰ بھٹوکے ساتھی اور الذوالفقار کے انڈین ٹرینڈ جرائم پیشہ لوگ دندناتے پھرتے تھے۔ اُسوقت کے ڈی آئی جی کراچی نے خود ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ انھیں وزیرِ اعظم کیطرف سے مرتضیٰ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
1993ء سے 96 تک حکمرانوں نے لوٹ مار کی انتہا کردی، لوگ اس لوٹ مار کرنے والی حکومت سے تنگ آچکے تھے اس لیے 1997ء کے انتخابات میں سب سے بڑا نعرہ ہی احتساب تھا یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں لوٹ مار کرنے والوںکو نہ کبھی عدلیہ نے سزا دی ہے اور نہ جرنیلوں نے،نہ ہی سول اداروں نے ان کے خلاف کبھی موثر کارروائی کی ہے۔انھیں جب بھی سزا دی ہے یہاں کے کم پڑھے لکھے، غریب مگر باشعور عوام نے ہی دی ہے۔1997ء کے الیکشن میں عوام نے لوٹ مار کرنے پرایسی سزا دی کہ پی پی پی اپنے گڑھ پنجاب سمیت تین صوبوںمیں ایک بھی سیٹ نہ جیت سکی۔
میاں نواز شریف دوتہائی اکثریت کے ساتھ وزیرِ اعظم بن گئے، پہلی بارمسلم لیگ کو کراچی اور اندورنِ سندھ سے بھی قومی اسمبلی کی آٹھ دس نشستیںمل گئیں۔ سندھ میں حکومت بنانے کے لیے انھیں ایم کیو ایم کی مدد کی ضرورت تھی، حکومت میں رہنا ایم کیو ایم کی ضرورت اور کمزوری ہے، لہٰذا تھوڑا بہت شکوہ شکایت کرکے (یعنی پنجابی کا بھارتول دکھاکر) وہ مسلم لیگ کے اتحادی بن گئے اور حکومت میں شامل ہوگئے۔
مسلم لیگ کی طرف سے لیاقت جتوئی کو وزیرِ اعلیٰ بنادیا گیا، وہ ایک قابلِ احترام شحصیّت کا بیٹا ، متحّرک اور سندھی زبان کا بڑا اچھا مقرّر تھا مگر اس کی سیاسی شہرت اچھی نہیں تھی۔ پولیس کے تفتیشی افسروں کے بقول ایم کیوایم کے بدمعاشوں اور قاتلوں کی فطرت ہے کہ وہ دوتھپڑ بھی برداشت نہیں کرسکتے اور فوراً سب کچھ اگل دیتے ہیں، یہ حکومت میں ہوں تو شیر بن جاتے ہیں باہر ہوں تو بکری ہوتے ہیں۔حکومت میں شامل ہوکر یہ پھر بدمعاشیوں پر اترآئے اور انھوں نے ان پولیس افسروں کو ٹارگٹ کرکے قتل کرنا شروع کردیا جواُنکے خلاف آپریشن میں زیادہ سرگرم تھے۔
پہلے چند ہفتوں میں ہی ایم کیوایم نے ایک خاتون ڈی ایس پی اور ایک پولیس انسپکٹر کو شہیدکردیا۔ اس کے چند روز بعد وزیرِ اعظم کا کراچی کا دورہ تھا، مجھے کہا گیا کہ اگر کوئی سنگین وقوعہ ہوا ہے تو اس کے حقائق معلوم کرلیں ممکن ہے وزیرِ اعظم وہاں بھی جانا چاہیں تاکہ مظلومین سے مل سکیں اور انھیں انصاف دلانے کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایات دے سکیں۔
میں نے مختلف ذرایع سے حقائق معلوم کیے اور پولیس افسران کے قتل کی تفصیلی رپورٹ لکھ کر وزیرِ اعظم کو پیش کردی جسمیںلکھا کہ جسطرح اظہارِ ہمدردی کے لیے وزیرِ اعظم عام مظلوموں کے گھر جاتے ہیں ، اسی طرح ریاست کے اہلکار جب ظلم کا شکار ہوجاتے ہیں تو ان کے ورثاء سے اظہارِہمدردی کے لیے بھی پرائم منسٹر کو ان کے گھر جانا چاہیے اس سے باقی اہلکاروں کو حوصلہ ملیگا۔ وزیرِ اعظم نے اس سے اتفاق کیا اور اُنکے گھر جانے کا پروگرام بنالیا۔کراچی کے دورے سے ایک دن پہلے مجھے پروٹوکول والوں نے بتایا کہ PMصاحب مقتول پولیس افسران کے گھر جائیں گے آپ انتظامات کرلیں۔
دوسرے روز جہاز میں ملٹری سیکریٹری نے مجھے بتایا کہ، سندھ حکومت کیطرف سے بڑی Reservations تھیںاس لیے PMصاحب کسی مقتول پولیس افسر کے گھر نہیں جائینگے۔ مجھے بہت افسوس ہوالیکن میں نے ایک دوسرا پروگرام بنالیا، دونوں شہید پولیس افسروں کے ورثاء اور بچوں کو گورنر ہاؤس میں ہی بلالیا۔گیٹ پر وزیرِاعلیٰ کے سیکیورٹی اسٹاف نے انھیں روکنے کی کوشش کی لیکن میں خود وہاں پہنچ گیااور انھیںاپنے ساتھ اندر لے آیاجب پرائم منسٹر میٹنگز سے فارغ ہوئے تو میں نے انھیں بتایاکہ وہ مظلومین جن کے گھر آپ نہیں جاسکے وہ یہیں آگئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وزیرِاعظم نے انھیں بلالیا جب شہیدپولیس افسروں کی معصوم بچیّوں نے، روتے ہوئے اپنی مظلومیت کی داستان سنائی توگورنر ہاؤس کے درودیوار لرز ااُٹھے، لگتا تھا مخلوط حکومت کے پرزے ہوا میں اُڑ رہے ہیں۔
نرم دل وزیرِاعظم بہت آزردہ ہوئے انھوں نے کہا " آئی جی کو بلائیں"اُسوقت آئی جی آفتاب نبی تھے جنکا سگا بھائی ایم کیو ایم کیطرف سے مرکز میں وزیر تھا۔ وزیرِ اعظم نے بڑے تشویشناک لہجے میں آئی جی سے پوچھا" انھیں کس نے قتل کیا ہے؟" آئی جی نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا "سر! اَیلفا والوں نے " پرائم منسٹر نے کہا" اَیلفا کیاہے ؟" کسی نے کہا "سر!اَیلفا سے مراد الطاف گروپ ہے" پی ایم نے آئی جی سے پوچھا " یہ کس کے حکم سے قتل ہوئے ہیں؟" "سر! سیکٹر کمانڈر کے حکم سے ہی ہوا ہے"۔ پرائم منسٹر نے پھر پوچھا۔ "آپ نے معلوم کیا ہے کہ سیکٹر کمانڈر کوکس نے حکم دیا تھا؟ " "سر!سر!"۔۔ "آپ آئی جی ہیں آپ کو پتہ ہونا چاہیے اور قاتل گرفتار ہوئے یا نہیں ؟ "اس پر وزیرِاعلیٰ نے مداخلت کی اور یہ کہہ کر آئی جی کی جان چھڑائی "سر !کچھ پکڑ لیے گئے ہیں۔ ہم نے ٹیمیں مقرر کر دی ہیں۔
ہم کوشش کررہے ہیں انشااﷲہم آپکو جلد تفصیلی رپورٹ دیں گے" پرائم منسٹر نے کہا" آپ ایک ہفتے میں قاتلوں کو گرفتار کرکے مجھے رپورٹ دیں ، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ پولیس افسروں کا قتل کس کے حکم سے ہوا ہے ؟"۔
میٹنگ ختم ہوئی تو لیاقت جتوئی بڑا اپ سیٹ تھا۔ مجھے آکر کہنے لگا PMصاحب سے ایسی ملاقاتوں کے لیے آپ ہم سے مشورہ کر لیا کریں، ہم نے اس کا Political Impactبھی دیکھنا ہوتا ہے۔میں نے کہا "جناب میں اپنی ذمیّ داریوں کو سمجھتا ہوں ظلم جہاں بھی ہوگا اور جو بھی کریگا اس کے متعلق پرائم منسٹر کو آگاہ کرنا میری ذمے داری ہے "۔ واپسی پر جہاز میں پرائم منسٹر نے پھر مجھے بلا کر ان کیسوں کے بارے میں پوچھا میں نے پوری تقصیل بتادی۔ میں نے محسوس کیا کہ وزیرِ اعظم بہت مضطرب ہیں۔
ایک چینل پر اس الزام کی تکرار ہوئی کہ نواز شریف نے وزیرِاعظم بنکرایم کیو ایم کے 500مجرموں کو رہا کیاتھا۔بھائی اگر آپ کسی سیاسی راہنما کے خلاف ہیں تو کیا یہ مناسب ہے کہ اﷲ اور رسولؐ کا بغیر تصدیق کے کسی پر تہمت نہ لگانے کا فرمان بھی بھلادیا جائے؟۔ میں نے سندھ میں تعینات بہت سے متعلقہ سینئر افسروں سے پوچھا ہے کسی نے بھی تصدیق نہیں کی بلکہ سب نے بتایا ہے کہ ایم کیو ایم کے جرائم پیشہ لوگ نوازشریف نے نہیں جنرل مشرّف نے رہا کیے تھے!!۔ نواز شریف صاحب کے طرزِ حکمرانی کے کئی پہلو ؤں سے اختلاف ہے مگر ان کے ساتھ کام کرنے کے بعد میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مجرموں اور قاتلوں کے لیے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیںہے۔ مشرّف کی بنائی ہوئی پارٹی کے سربراہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور الطاف کا سب سے بڑا سہولت کار کوئی اور نہیں بلکہ ان کا اپنا مربی ّ اور محسن تھا۔
1998ء میں ہی نوازشریف صاحب کے دل میں ایم کیوایم کے لیے ناپسندیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن فیصلہ کن کردار حکیم محمدسعید جیسی عظیم اور پاکیزہ کردار شخصیّت کی شہادت نے ادا کیا۔کراچی کے بہت سے صاحبانِ فکر و دانش کو اس بات پر تشویش تھی کہ کراچی پڑھے لکھے باشعور لوگوں کا شہر ہے جو پورے ملک کو راہنمائی فراہم کرتا رہا ہے ، اس کی قیادت کَن ٹٹّوں، قاتلوں اور بھتہ خوروں کے ہاتھ میں ہو تو یہ پوری اردو سپیکنگ کمیونیٹی کے لیے باعثِ شرم ہے۔ بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ حکیم سعید جیسی شخصیات متحرّک ہوں اور کراچی کے شہری ان کی قیادت میں متحد ہوجائیں۔
حکیم صاحب ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی ہورہے تھے اُدھر الطاف حسین اپنے کسی ممکنہ حریف کو برداشت نہیں کرتا تھااسی دوران حکیم سعید صاحب شہید کردیے گئے، پوری قوم کیطرح پرائم منسٹر کو بھی بہت صدمہ پہنچا، اس سانحے کا اُن پر بہت اثر ہوا وہ ہر وقت پریشان اور دباؤ میں رہنے لگے۔ کبھی کبھی اس کا اظہار بھی کرتے تھے کہ "ہماری حکومت میں اتنی اعلیٰ شخصیّت کوقتل کردیاگیا اور میں وزیرِاعظم ہوتے ہوئے ابھی تک کچھ نہیں کرسکا"۔
انھوں نے آئی جی کو سخت ہدایات دیں کہ چند روز میںکیس ٹریس کرکے مجرموں کو گرفتار کرے اور انھیں رپورٹ دے ۔چند روز بعدکراچی پولیس نے ملزم پکڑ لیے جنکا تعلق ایم کیوایم سے نکلا،پرائم منسٹر کو اطلاع دی گئی تو انھوں نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ((JIT بنانے کی ہدایت کی اور اُسوقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی بی کو ہدایت کی کہ وہ اُسوقت تک کراچی میں رہیںجب تک کہ اس کیس کے اصل حقائق سامنے نہیں آجاتے۔ کئی دنوں کے بعد فوج اور سول کے اہم اداروں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے سربراہان نے وزیرِ اعظم کو فائنل رپورٹ دے دی جسکے مطابق اس گھناؤنے قتل میں ایم کیو ایم ملوّث پائی گئی(اُن ملزمان میں سے 9کو قمرالدین بوہرہ جیسے ایماندار اور نیک نام سیشن جج نے سزائے موت دی تھی)۔ وزیرِ اعظم نے اُسی وقت ایم کیو ایم سے قطع تعلقی کا فیصلہ کرلیا ،پھر بھی انھوں نے اپنے سیاسی رفقاء سے مشورہ کیا، کئی رفقاء (جو آجکل ایم کیوایم کے خلاف بڑھ چڑھ کربولتے ہیں) نے مشورہ دیا کہ حکومت بچانے کے لیے الحاق ختم نہ کیا جائے۔
وزیرِ اعظم نے کسی ایسے مشورے کو قبول نہ کیا اور پھر پوری قوم نے خوشگوار حیرت سے ٹی وی اسکرینوں پرملک کے منتخب وزیرِاعظم کے منہ سے وہ بات سنی جسکا ہمارے سیاسی کلچر میں کوئی رواج نہ تھا۔ وزیرِاعظم نے ٹی وی پر آکرپوری قوم کے سامنے واضح الفاظ میں کہا " ایم کیو ایم ہماری اتحادی جماعت ہے۔ میں اس جماعت کی قیادت کوصاف الفاظ میں مُتنبّہ کررہاہوں کہ حکیم محمدسعید کے قاتلوں کو اڑتالیس گھنٹوں میں قانون کے حوالے کردیںورنہ ہماری اور ان کی راہیں جدا ہونگی۔" مجرموں کو پالنے اورپناہ دینے والے ، قاتلوں کو قانون کے حوالے کرنے کے عادی نہ تھے۔
انھوں نے وزیرِ اعظم کی وارننگ پرمجرم پیش نہ کیے تو پرائم منسٹر نے سندھ میں اپنی حکومت ختم کردی اور ایم کیوایم کو سپورٹ کرنے والے اپنی پارٹی کے وزیرِ اعلیٰ لیاقت جتوئی کو فارغ کردیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصّہ ہے۔ ہمارے ہا ں سیاسی مخالفین کی اچھی باتوں کوسراہنے کی روایت نہیں ہے ورنہ یہ ماننا پڑیگا کہ ایک جرم میں ملوّث ہونے پر اپنے سیاسی اتحادی کو فارغ کردینا اور اپنی حکومت ختم کردینے کا غیرمعمولی اقدام قابلِ ستائش بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی!!
اندرونِ سندھ کے لوگ کئی سالوں کے ڈاکو راج سے تنگ آئے ہوئے تھے، میاں نوازشریف نے وزیرِ اعظم بنکر اندرونِ سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف فوج کے ذریعے آپریشن کرایا جو بڑا کامیاب رہا اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اس سے پہلی بار سندھی عوام کے دل میں کسی پنجابی لیڈر کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا۔مظلوموں کی داد رسی کے لیے اندرونِ سندھ باربار جانے سے بھی وہاں میاں نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ۔ اُسوقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز (جو آرمی افسروں کے ساتھ تشدد کرنے پر ایم کیو ایم کو سبق سکھانا چاہتے تھے) نے مرکزی حکومت کی ہدایات کی تشریح اپنے انداز میں کی اور ڈاکوؤں کے ساتھ ساتھ ایم کیوایم کے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بھی آپریشن شروع کردیا جسکے نتیجے میں الطاف حسین ملک سے فرار ہوگیا۔ یہ ایم کیو ایم کے خلاف پہلا آپریشن تھا۔
دوسرا آپریشن 1994-95ء میںاسوقت ہوا جب محترمہ بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم تھیں اور جنرل نصیراﷲبابر وزیرِ داخلہ ، سندھ کی صوبائی حکومت بھی پیپلزپارٹی کی تھی اُسوقت مرکزی اور صوبائی حکومت نے ملکر پوری ریاستی مشینری کے ساتھ ایم کیوایم کو مکمل طور پر کچل دینے کا آپریشن شروع کیا جس پر پی پی پی کے علاوہ دوسری سیاسی پارٹیوں نے تحفظات کا اظہار کیا اور اسے کراچی پر کنٹرول حاصل کرنے کی Turf warقرار دیا،کراچی میں چوتھا آپریشن یعنی رینجرز کی قیادت میں ہونے والاموجودہ آپریشن پرائم منسٹر نوازشریف نے حکومت میں آتے ہی شروع کرادیا اُسوقت ابھی جنرل راحیل شریف آرمی چیف نہیں بنے تھے۔
موجودہ آپریشن اور 1994-95 ء کے آپریشن میں واضح فرق یہ ہے کہ موجودہ آپریشن بلاامتیاز ساری پارٹیوں کے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا گیا ہے مگر اُسوقت کا آپریشن صرف ایم کیو ایم کے خلاف تھا اور مرتضیٰ بھٹوکے ساتھی اور الذوالفقار کے انڈین ٹرینڈ جرائم پیشہ لوگ دندناتے پھرتے تھے۔ اُسوقت کے ڈی آئی جی کراچی نے خود ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ انھیں وزیرِ اعظم کیطرف سے مرتضیٰ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
1993ء سے 96 تک حکمرانوں نے لوٹ مار کی انتہا کردی، لوگ اس لوٹ مار کرنے والی حکومت سے تنگ آچکے تھے اس لیے 1997ء کے انتخابات میں سب سے بڑا نعرہ ہی احتساب تھا یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں لوٹ مار کرنے والوںکو نہ کبھی عدلیہ نے سزا دی ہے اور نہ جرنیلوں نے،نہ ہی سول اداروں نے ان کے خلاف کبھی موثر کارروائی کی ہے۔انھیں جب بھی سزا دی ہے یہاں کے کم پڑھے لکھے، غریب مگر باشعور عوام نے ہی دی ہے۔1997ء کے الیکشن میں عوام نے لوٹ مار کرنے پرایسی سزا دی کہ پی پی پی اپنے گڑھ پنجاب سمیت تین صوبوںمیں ایک بھی سیٹ نہ جیت سکی۔
میاں نواز شریف دوتہائی اکثریت کے ساتھ وزیرِ اعظم بن گئے، پہلی بارمسلم لیگ کو کراچی اور اندورنِ سندھ سے بھی قومی اسمبلی کی آٹھ دس نشستیںمل گئیں۔ سندھ میں حکومت بنانے کے لیے انھیں ایم کیو ایم کی مدد کی ضرورت تھی، حکومت میں رہنا ایم کیو ایم کی ضرورت اور کمزوری ہے، لہٰذا تھوڑا بہت شکوہ شکایت کرکے (یعنی پنجابی کا بھارتول دکھاکر) وہ مسلم لیگ کے اتحادی بن گئے اور حکومت میں شامل ہوگئے۔
مسلم لیگ کی طرف سے لیاقت جتوئی کو وزیرِ اعلیٰ بنادیا گیا، وہ ایک قابلِ احترام شحصیّت کا بیٹا ، متحّرک اور سندھی زبان کا بڑا اچھا مقرّر تھا مگر اس کی سیاسی شہرت اچھی نہیں تھی۔ پولیس کے تفتیشی افسروں کے بقول ایم کیوایم کے بدمعاشوں اور قاتلوں کی فطرت ہے کہ وہ دوتھپڑ بھی برداشت نہیں کرسکتے اور فوراً سب کچھ اگل دیتے ہیں، یہ حکومت میں ہوں تو شیر بن جاتے ہیں باہر ہوں تو بکری ہوتے ہیں۔حکومت میں شامل ہوکر یہ پھر بدمعاشیوں پر اترآئے اور انھوں نے ان پولیس افسروں کو ٹارگٹ کرکے قتل کرنا شروع کردیا جواُنکے خلاف آپریشن میں زیادہ سرگرم تھے۔
پہلے چند ہفتوں میں ہی ایم کیوایم نے ایک خاتون ڈی ایس پی اور ایک پولیس انسپکٹر کو شہیدکردیا۔ اس کے چند روز بعد وزیرِ اعظم کا کراچی کا دورہ تھا، مجھے کہا گیا کہ اگر کوئی سنگین وقوعہ ہوا ہے تو اس کے حقائق معلوم کرلیں ممکن ہے وزیرِ اعظم وہاں بھی جانا چاہیں تاکہ مظلومین سے مل سکیں اور انھیں انصاف دلانے کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایات دے سکیں۔
میں نے مختلف ذرایع سے حقائق معلوم کیے اور پولیس افسران کے قتل کی تفصیلی رپورٹ لکھ کر وزیرِ اعظم کو پیش کردی جسمیںلکھا کہ جسطرح اظہارِ ہمدردی کے لیے وزیرِ اعظم عام مظلوموں کے گھر جاتے ہیں ، اسی طرح ریاست کے اہلکار جب ظلم کا شکار ہوجاتے ہیں تو ان کے ورثاء سے اظہارِہمدردی کے لیے بھی پرائم منسٹر کو ان کے گھر جانا چاہیے اس سے باقی اہلکاروں کو حوصلہ ملیگا۔ وزیرِ اعظم نے اس سے اتفاق کیا اور اُنکے گھر جانے کا پروگرام بنالیا۔کراچی کے دورے سے ایک دن پہلے مجھے پروٹوکول والوں نے بتایا کہ PMصاحب مقتول پولیس افسران کے گھر جائیں گے آپ انتظامات کرلیں۔
دوسرے روز جہاز میں ملٹری سیکریٹری نے مجھے بتایا کہ، سندھ حکومت کیطرف سے بڑی Reservations تھیںاس لیے PMصاحب کسی مقتول پولیس افسر کے گھر نہیں جائینگے۔ مجھے بہت افسوس ہوالیکن میں نے ایک دوسرا پروگرام بنالیا، دونوں شہید پولیس افسروں کے ورثاء اور بچوں کو گورنر ہاؤس میں ہی بلالیا۔گیٹ پر وزیرِاعلیٰ کے سیکیورٹی اسٹاف نے انھیں روکنے کی کوشش کی لیکن میں خود وہاں پہنچ گیااور انھیںاپنے ساتھ اندر لے آیاجب پرائم منسٹر میٹنگز سے فارغ ہوئے تو میں نے انھیں بتایاکہ وہ مظلومین جن کے گھر آپ نہیں جاسکے وہ یہیں آگئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وزیرِاعظم نے انھیں بلالیا جب شہیدپولیس افسروں کی معصوم بچیّوں نے، روتے ہوئے اپنی مظلومیت کی داستان سنائی توگورنر ہاؤس کے درودیوار لرز ااُٹھے، لگتا تھا مخلوط حکومت کے پرزے ہوا میں اُڑ رہے ہیں۔
نرم دل وزیرِاعظم بہت آزردہ ہوئے انھوں نے کہا " آئی جی کو بلائیں"اُسوقت آئی جی آفتاب نبی تھے جنکا سگا بھائی ایم کیو ایم کیطرف سے مرکز میں وزیر تھا۔ وزیرِ اعظم نے بڑے تشویشناک لہجے میں آئی جی سے پوچھا" انھیں کس نے قتل کیا ہے؟" آئی جی نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا "سر! اَیلفا والوں نے " پرائم منسٹر نے کہا" اَیلفا کیاہے ؟" کسی نے کہا "سر!اَیلفا سے مراد الطاف گروپ ہے" پی ایم نے آئی جی سے پوچھا " یہ کس کے حکم سے قتل ہوئے ہیں؟" "سر! سیکٹر کمانڈر کے حکم سے ہی ہوا ہے"۔ پرائم منسٹر نے پھر پوچھا۔ "آپ نے معلوم کیا ہے کہ سیکٹر کمانڈر کوکس نے حکم دیا تھا؟ " "سر!سر!"۔۔ "آپ آئی جی ہیں آپ کو پتہ ہونا چاہیے اور قاتل گرفتار ہوئے یا نہیں ؟ "اس پر وزیرِاعلیٰ نے مداخلت کی اور یہ کہہ کر آئی جی کی جان چھڑائی "سر !کچھ پکڑ لیے گئے ہیں۔ ہم نے ٹیمیں مقرر کر دی ہیں۔
ہم کوشش کررہے ہیں انشااﷲہم آپکو جلد تفصیلی رپورٹ دیں گے" پرائم منسٹر نے کہا" آپ ایک ہفتے میں قاتلوں کو گرفتار کرکے مجھے رپورٹ دیں ، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ پولیس افسروں کا قتل کس کے حکم سے ہوا ہے ؟"۔
میٹنگ ختم ہوئی تو لیاقت جتوئی بڑا اپ سیٹ تھا۔ مجھے آکر کہنے لگا PMصاحب سے ایسی ملاقاتوں کے لیے آپ ہم سے مشورہ کر لیا کریں، ہم نے اس کا Political Impactبھی دیکھنا ہوتا ہے۔میں نے کہا "جناب میں اپنی ذمیّ داریوں کو سمجھتا ہوں ظلم جہاں بھی ہوگا اور جو بھی کریگا اس کے متعلق پرائم منسٹر کو آگاہ کرنا میری ذمے داری ہے "۔ واپسی پر جہاز میں پرائم منسٹر نے پھر مجھے بلا کر ان کیسوں کے بارے میں پوچھا میں نے پوری تقصیل بتادی۔ میں نے محسوس کیا کہ وزیرِ اعظم بہت مضطرب ہیں۔
ایک چینل پر اس الزام کی تکرار ہوئی کہ نواز شریف نے وزیرِاعظم بنکرایم کیو ایم کے 500مجرموں کو رہا کیاتھا۔بھائی اگر آپ کسی سیاسی راہنما کے خلاف ہیں تو کیا یہ مناسب ہے کہ اﷲ اور رسولؐ کا بغیر تصدیق کے کسی پر تہمت نہ لگانے کا فرمان بھی بھلادیا جائے؟۔ میں نے سندھ میں تعینات بہت سے متعلقہ سینئر افسروں سے پوچھا ہے کسی نے بھی تصدیق نہیں کی بلکہ سب نے بتایا ہے کہ ایم کیو ایم کے جرائم پیشہ لوگ نوازشریف نے نہیں جنرل مشرّف نے رہا کیے تھے!!۔ نواز شریف صاحب کے طرزِ حکمرانی کے کئی پہلو ؤں سے اختلاف ہے مگر ان کے ساتھ کام کرنے کے بعد میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مجرموں اور قاتلوں کے لیے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیںہے۔ مشرّف کی بنائی ہوئی پارٹی کے سربراہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور الطاف کا سب سے بڑا سہولت کار کوئی اور نہیں بلکہ ان کا اپنا مربی ّ اور محسن تھا۔
1998ء میں ہی نوازشریف صاحب کے دل میں ایم کیوایم کے لیے ناپسندیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن فیصلہ کن کردار حکیم محمدسعید جیسی عظیم اور پاکیزہ کردار شخصیّت کی شہادت نے ادا کیا۔کراچی کے بہت سے صاحبانِ فکر و دانش کو اس بات پر تشویش تھی کہ کراچی پڑھے لکھے باشعور لوگوں کا شہر ہے جو پورے ملک کو راہنمائی فراہم کرتا رہا ہے ، اس کی قیادت کَن ٹٹّوں، قاتلوں اور بھتہ خوروں کے ہاتھ میں ہو تو یہ پوری اردو سپیکنگ کمیونیٹی کے لیے باعثِ شرم ہے۔ بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ حکیم سعید جیسی شخصیات متحرّک ہوں اور کراچی کے شہری ان کی قیادت میں متحد ہوجائیں۔
حکیم صاحب ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی ہورہے تھے اُدھر الطاف حسین اپنے کسی ممکنہ حریف کو برداشت نہیں کرتا تھااسی دوران حکیم سعید صاحب شہید کردیے گئے، پوری قوم کیطرح پرائم منسٹر کو بھی بہت صدمہ پہنچا، اس سانحے کا اُن پر بہت اثر ہوا وہ ہر وقت پریشان اور دباؤ میں رہنے لگے۔ کبھی کبھی اس کا اظہار بھی کرتے تھے کہ "ہماری حکومت میں اتنی اعلیٰ شخصیّت کوقتل کردیاگیا اور میں وزیرِاعظم ہوتے ہوئے ابھی تک کچھ نہیں کرسکا"۔
انھوں نے آئی جی کو سخت ہدایات دیں کہ چند روز میںکیس ٹریس کرکے مجرموں کو گرفتار کرے اور انھیں رپورٹ دے ۔چند روز بعدکراچی پولیس نے ملزم پکڑ لیے جنکا تعلق ایم کیوایم سے نکلا،پرائم منسٹر کو اطلاع دی گئی تو انھوں نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ((JIT بنانے کی ہدایت کی اور اُسوقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی بی کو ہدایت کی کہ وہ اُسوقت تک کراچی میں رہیںجب تک کہ اس کیس کے اصل حقائق سامنے نہیں آجاتے۔ کئی دنوں کے بعد فوج اور سول کے اہم اداروں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے سربراہان نے وزیرِ اعظم کو فائنل رپورٹ دے دی جسکے مطابق اس گھناؤنے قتل میں ایم کیو ایم ملوّث پائی گئی(اُن ملزمان میں سے 9کو قمرالدین بوہرہ جیسے ایماندار اور نیک نام سیشن جج نے سزائے موت دی تھی)۔ وزیرِ اعظم نے اُسی وقت ایم کیو ایم سے قطع تعلقی کا فیصلہ کرلیا ،پھر بھی انھوں نے اپنے سیاسی رفقاء سے مشورہ کیا، کئی رفقاء (جو آجکل ایم کیوایم کے خلاف بڑھ چڑھ کربولتے ہیں) نے مشورہ دیا کہ حکومت بچانے کے لیے الحاق ختم نہ کیا جائے۔
وزیرِ اعظم نے کسی ایسے مشورے کو قبول نہ کیا اور پھر پوری قوم نے خوشگوار حیرت سے ٹی وی اسکرینوں پرملک کے منتخب وزیرِاعظم کے منہ سے وہ بات سنی جسکا ہمارے سیاسی کلچر میں کوئی رواج نہ تھا۔ وزیرِاعظم نے ٹی وی پر آکرپوری قوم کے سامنے واضح الفاظ میں کہا " ایم کیو ایم ہماری اتحادی جماعت ہے۔ میں اس جماعت کی قیادت کوصاف الفاظ میں مُتنبّہ کررہاہوں کہ حکیم محمدسعید کے قاتلوں کو اڑتالیس گھنٹوں میں قانون کے حوالے کردیںورنہ ہماری اور ان کی راہیں جدا ہونگی۔" مجرموں کو پالنے اورپناہ دینے والے ، قاتلوں کو قانون کے حوالے کرنے کے عادی نہ تھے۔
انھوں نے وزیرِ اعظم کی وارننگ پرمجرم پیش نہ کیے تو پرائم منسٹر نے سندھ میں اپنی حکومت ختم کردی اور ایم کیوایم کو سپورٹ کرنے والے اپنی پارٹی کے وزیرِ اعلیٰ لیاقت جتوئی کو فارغ کردیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصّہ ہے۔ ہمارے ہا ں سیاسی مخالفین کی اچھی باتوں کوسراہنے کی روایت نہیں ہے ورنہ یہ ماننا پڑیگا کہ ایک جرم میں ملوّث ہونے پر اپنے سیاسی اتحادی کو فارغ کردینا اور اپنی حکومت ختم کردینے کا غیرمعمولی اقدام قابلِ ستائش بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی!!