حکیم اللہ محسود کی جگہ ولی الرحمان کوطالبان کا نیا سربراہ مقررکئے جانے کا امکان
پاکستانی حکومت ولی الرحمان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مفاہمت کے عمل کی طرف بڑھ سکتی ہے، سینئرفوجی افسران
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود اب اپنا کنٹرول اور ساتھی طالبان کا اعتماد کھو چکے ہیں اور ان کی جگہ ولی الرحمان کو طالبان کا نیا سربراہ مقرر کئے جانے کا امکان ہے۔
جنوبی وزیرستان میں تعینات سینئر فوجی افسران نے غیرملکی خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے باخبرذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حکیم اللہ محسود اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے کام نہیں کررہے اورولی الرحمان کوکالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ بنائے جانے کا امکان ہے۔
سینئرفوجی افسران نے کہا کہ ولی الرحمان کافی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان ہیں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کےسربراہ کی حیثیت سے پاکستانی حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مفاہمت کے عمل کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ان فوجی افسران کا مزید کہنا تھا کہ ولی الرحمان کی طالبان کی سربراہ کی کمان سنبھالنے سے توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے خلاف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حملوں اور لڑائی کی شدت میں کمی آئے گی اور دوسری خوش آئند بات یہ ہے کہ ملا نذیر اور حکمت گل بہادر کے گروپس پہلے ہی پاکستان سے امن کا معاہدہ کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ حکیم اللہ محسود اگست 2009 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بنے اور انہیں افغانستان میں امریکی بیس پر حملے کا بھی ذمے دار ٹھہرایا گیا تھا، اس حملے میں 7 سی آئی اے افسران ہلاک ہوئے تھے۔
جنوبی وزیرستان میں تعینات سینئر فوجی افسران نے غیرملکی خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے باخبرذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حکیم اللہ محسود اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے کام نہیں کررہے اورولی الرحمان کوکالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ بنائے جانے کا امکان ہے۔
سینئرفوجی افسران نے کہا کہ ولی الرحمان کافی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان ہیں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کےسربراہ کی حیثیت سے پاکستانی حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مفاہمت کے عمل کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ان فوجی افسران کا مزید کہنا تھا کہ ولی الرحمان کی طالبان کی سربراہ کی کمان سنبھالنے سے توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے خلاف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حملوں اور لڑائی کی شدت میں کمی آئے گی اور دوسری خوش آئند بات یہ ہے کہ ملا نذیر اور حکمت گل بہادر کے گروپس پہلے ہی پاکستان سے امن کا معاہدہ کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ حکیم اللہ محسود اگست 2009 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بنے اور انہیں افغانستان میں امریکی بیس پر حملے کا بھی ذمے دار ٹھہرایا گیا تھا، اس حملے میں 7 سی آئی اے افسران ہلاک ہوئے تھے۔