کھوکھلے نعرے بس کرو
چچا غالب کا ایک شعر یوں ہی بیٹھے بیٹھے یاد آگیا کہ
چچا غالب کا ایک شعر یوں ہی بیٹھے بیٹھے یاد آگیا کہ
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
اعتبار ہی تو نہیں رہا اب حکمرانوں پر ۔کھوکھلے نعرے ، جھوٹی تسلیاں، محض افتتاح پر کروڑوں کے اخراجات اور پھر تختیوں کی نقاب کشائی کے بعد ٹا... ٹا ... بائے... بائے ... میںکیوں بولوں !آپ خود مشاہدہ کر لیں کہ میاں نوازشریف پچھلے ہفتے مانسہرہ گئے اوروہاں انھوں نے تناول گیس منصوبے جسے ایک نسل تو نہ دیکھ سکی دوسری نسل کے لیے چوتھی بار پھر افتتاح کر دیا، اس منصوبے کا پہلی بار 1992 میں نواز شریف نے افتتاح کیا تھا پھر 1997 میں اسحاق ڈار نے اس منصوبے کا دوسری بار افتتاح کیا، 2010 میں اسی منصوبے کا افتتاح تیسری بار پیپلزپارٹی نے بھی کیا تھا اور 2016 میں ایک بار پھر وزیر اعطم نے اس منصوبے کا افتتاح کر دیا ہے۔
اس چیز نے میر ے ذہن کے ایک حصے میں پڑی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی حسیں یادوں کو پھر سے تروتازہ کر دیا۔ میرے چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے دور کا وہ لمحہ یاد آگیا جب پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی امریکی اداکارہ انجلینا جولی نے انھیں ہالی ووڈ کی فلموں میں کام کرنے کی تجویز دی تھی ، گیلانی صاحب کو شاید خود بھی محسوس ہو گیا تھا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے ، میرا مطلب مذاق کیا گیا ہے ۔ اداکارہ کو یقیناً یہ خبر دے دی گئی ہو گی کہ وزیراعظم گیلانی نے اس وقت کے سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کے دوران کس خوبصورت انداز میں اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے میانوالی میں جعلی اسپتال اور ڈیرہ اسماعیل خان میں جعلی ریلیف کیمپ کا دورہ کیا۔
ان دونوں مواقع پر یوسف رضا گیلانی کی اداکاری اس قدر حقیقت پسندانہ تھی کہ اگر میڈیا نہ ہوتا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ سب کچھ محض ڈرامہ اور مذاق تھا۔ یہ تو تھا دو بڑی جمہوری پارٹیوں کے دو ''سنہرے'' ادوار کی محض 2 خبروں کا موازنہ جس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے حکمران آج بھی کس چاک و چوبند انداز میں عوام کو ''اُلّو'' بنا رہے ہیں... میرا آج کے کالم کا اصل موضوع گزشتہ دنوں نظر سے گزرنے والی اس خبر پر تھا جس میں سارک وزرائے خزانہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا تھا کہ ''پاکستان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ترین ملک ہے'' لیکن یہ خبر نظر سے گزری تو حیرانی ہوئی ۔ خیر کہنے کو تو کچھ بھی کہہ لو، کہنے کو تو اسحاق ڈار کی طرح یہ بھی کہہ لو کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں پاکستان سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن چکا ہے۔
کہنے کو تو خادم اعلیٰ پنجاب کی طرح یہ بھی کہہ لوکہ پنجاب کے لوگ اب جنت نما پنجاب میں زندگی بسر کر رہے ہیں ،جہاں کے عوام دودھ کی نہروں سے فیض یاب ہو رہے ہیں اور یہاں کی زمینیں سونا اُگل رہی ہیں... میں اپنے ہر چوتھے کالم میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتا آیا ہوں کہ یہاں دو جماعتوں کی باریاں لگی ہوئی ہیں، ٹھیکے دار آ رہے ہیں، جار رہے ہیں اور جن کو ٹھیکہ نہیں مل رہا وہ شور مچا رہے ہیں۔اب تو ڈر لگا رہتا ہے کہ لوگ جاوید ہاشمی کی طرح مجھے بھی ''باغی'' کے لقب سے نہ نواز دیں...! حقیقت میں ہمارے ملک میں حکومت کا کام گڈ گورننس نہیں بلکہ ٹھیکہ داری ہے۔ یہ ٹھیکہ پچھلے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کے پاس تھا۔ اس سے پہلے پرویز مشرف صاحب کے پاس تھا اور آج کے ٹھیکہ دار سب کے سامنے ہیں۔ ویسے پاکستان کے عوام بھی کتنے سادہ لوح ہیں کہ اپنے ہی ووٹ سے ٹھیکے دار منتخب کرتے ہیں۔
آج کے حالات پر جب دشمن سر پر آن پہنچا ہے،افغانستان جیسا ملک ہمارا پرچم جلا رہا ہے۔ انڈیا جیسا ملک ہمارے ملک میں تخریب کاری کی تمام حدیں پار کررہا ہے اوروطن عزیز کے اندر سے ہی پاکستان مخالف قوتوں کو پیسے کے بل بوتے پر خرید کر انھیں پاکستان کے خلاف ہی استعمال کر رہا ہے۔ امریکا پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام کرنے پر تلا ہوا ہے۔ روس ، ایران ، سعودی عرب اور برطانیہ جیسے ممالک اپنے مفادات کی جنگیں اس خطے میں لڑ رہے ہیں اور ایسے حالات میں پاکستان بغیر وزیر خارجہ کے اس جدید دنیا میں رہ رہا ہے اور پھر یہ کہنا کہ ''پاکستان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ترین ملک ہے'' کتنا عجیب لگتا ہے۔
مغل دور کے آخری بادشاہ اور ان کی اولاد اس قدر سہل پسند ہو چکے تھے کہ ایک دفعہ دشمن نے محل پر حملہ کر دیا اور تاریخ گواہ ہے کہ ایک شہزادہ بیڈ پر بیٹھا رو تا رہا... کسی نے پوچھا کہ شہزادہ سلامت محل پر حملہ ہو چکا ہے اور آپ اپنی جگہ سے اُٹھ نہیں رہے اور نہ ہی جان بچانے کی خاطر بھاگ رہے ہیں تو شہزادہ سلامت نے فرمایا کہ مجھے کوئی جوتی پہنائے گا تو میں یہاں سے نکل سکوں گا...وہ شہزادہ وہیں مارا گیا... یہ سہل پسندی اور زمینی حقائق سے بے خبری ہمارے حکمرانوں کو بھی لے ڈوبے گی۔ آپ جنرل ضیاء الحق کے دور سے آج تک کے تمام ادوار دیکھ لیں، آپ کو عوام کی ناکامی اور حکمرانوں کی کامیابیاں ہی نظر آئیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم حالات سے نظریں چراتے چراتے آج یہ دن دیکھ رہے ہیں کہ دشمن ملک میں اپنی جڑیں انتہائی مضبوط کر چکا ہے جو سیاستدان پہلے کچھ بھی نہیں تھے، وہ آج ملک کے امیر ترین افراد میں شامل ہو چکے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کی یہ خواہش ہے کہ عوام مسائل سے دوچار رہیں تاکہ ان کی دکان چمکتی رہے۔ یہ مسائل کا جذباتی حل پیش کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنایا تو کسی نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا، کسی نے روشن خیالی کے چکر میں ملک کو اندھیروں میں دھکیلا تو اب کوئی تبدیلی کے فریب میں پرانے ٹھیکے داروں کے ہمراہ اسٹیج سجائے بیٹھا ہے۔ جب انھیں تخت حکمرانی مل جاتا ہے تو یہ عوام کے پیسوں سے پروٹوکول، ٹھاٹ باٹ، وزارتوں اور بدعنوانی کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اپنی تجوریاں اس قدر بھرتے ہیں جیسے تاقیامت زندہ رہیں گے۔ خزانے میں پیسہ کم ہوجائے تو اپنی حیثیت میں رہنے یا ملکی معیشت کو ترقی دینے کے بجائے آئی ایم ایف سے رجوع کرتے ہیں۔ قرضے لے کر ملک اور اس کے عوام کو مزید مقروض کرتے ہیں۔ یہ خود کو پاکستان کا مالک سمجھتے ہیں۔
عوام ستر سالوں سے ووٹ ڈال کر اس اُمید پر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہمارے حالات بدل جائیں گے اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ بقول حبیب جالب کے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
آخر میں ملائشیا کی مثال دیتا چلوں جہاں 22سال تک مہاتیر محمد نے صر ف اس وجہ سے حکومت کی کہ وہ حکمران نہیں تھا بلکہ وہ لیڈر تھا اور لیڈر حکم نہیں چلایا کرتا بلکہ اپنے آپ کو نچلے درجے کے کام میں جھونک دیتا ہے جس کے پیچھے پوری قوم چل نکلتی ہے۔ ملک کے گھمبیر حالات میں وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر تمام فیصلے مرحمت فرمائیں اور سنجیدہ حلقوں میں اپنی تقریروں کے بجائے اپنے کام سے نام بنائیںورنہ تاریخ میں ان کا نام بھی ناکامی کی فہرست میں لکھا جائے گا...
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
اعتبار ہی تو نہیں رہا اب حکمرانوں پر ۔کھوکھلے نعرے ، جھوٹی تسلیاں، محض افتتاح پر کروڑوں کے اخراجات اور پھر تختیوں کی نقاب کشائی کے بعد ٹا... ٹا ... بائے... بائے ... میںکیوں بولوں !آپ خود مشاہدہ کر لیں کہ میاں نوازشریف پچھلے ہفتے مانسہرہ گئے اوروہاں انھوں نے تناول گیس منصوبے جسے ایک نسل تو نہ دیکھ سکی دوسری نسل کے لیے چوتھی بار پھر افتتاح کر دیا، اس منصوبے کا پہلی بار 1992 میں نواز شریف نے افتتاح کیا تھا پھر 1997 میں اسحاق ڈار نے اس منصوبے کا دوسری بار افتتاح کیا، 2010 میں اسی منصوبے کا افتتاح تیسری بار پیپلزپارٹی نے بھی کیا تھا اور 2016 میں ایک بار پھر وزیر اعطم نے اس منصوبے کا افتتاح کر دیا ہے۔
اس چیز نے میر ے ذہن کے ایک حصے میں پڑی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی حسیں یادوں کو پھر سے تروتازہ کر دیا۔ میرے چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے دور کا وہ لمحہ یاد آگیا جب پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی امریکی اداکارہ انجلینا جولی نے انھیں ہالی ووڈ کی فلموں میں کام کرنے کی تجویز دی تھی ، گیلانی صاحب کو شاید خود بھی محسوس ہو گیا تھا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے ، میرا مطلب مذاق کیا گیا ہے ۔ اداکارہ کو یقیناً یہ خبر دے دی گئی ہو گی کہ وزیراعظم گیلانی نے اس وقت کے سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کے دوران کس خوبصورت انداز میں اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے میانوالی میں جعلی اسپتال اور ڈیرہ اسماعیل خان میں جعلی ریلیف کیمپ کا دورہ کیا۔
ان دونوں مواقع پر یوسف رضا گیلانی کی اداکاری اس قدر حقیقت پسندانہ تھی کہ اگر میڈیا نہ ہوتا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ سب کچھ محض ڈرامہ اور مذاق تھا۔ یہ تو تھا دو بڑی جمہوری پارٹیوں کے دو ''سنہرے'' ادوار کی محض 2 خبروں کا موازنہ جس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے حکمران آج بھی کس چاک و چوبند انداز میں عوام کو ''اُلّو'' بنا رہے ہیں... میرا آج کے کالم کا اصل موضوع گزشتہ دنوں نظر سے گزرنے والی اس خبر پر تھا جس میں سارک وزرائے خزانہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا تھا کہ ''پاکستان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ترین ملک ہے'' لیکن یہ خبر نظر سے گزری تو حیرانی ہوئی ۔ خیر کہنے کو تو کچھ بھی کہہ لو، کہنے کو تو اسحاق ڈار کی طرح یہ بھی کہہ لو کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں پاکستان سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن چکا ہے۔
کہنے کو تو خادم اعلیٰ پنجاب کی طرح یہ بھی کہہ لوکہ پنجاب کے لوگ اب جنت نما پنجاب میں زندگی بسر کر رہے ہیں ،جہاں کے عوام دودھ کی نہروں سے فیض یاب ہو رہے ہیں اور یہاں کی زمینیں سونا اُگل رہی ہیں... میں اپنے ہر چوتھے کالم میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتا آیا ہوں کہ یہاں دو جماعتوں کی باریاں لگی ہوئی ہیں، ٹھیکے دار آ رہے ہیں، جار رہے ہیں اور جن کو ٹھیکہ نہیں مل رہا وہ شور مچا رہے ہیں۔اب تو ڈر لگا رہتا ہے کہ لوگ جاوید ہاشمی کی طرح مجھے بھی ''باغی'' کے لقب سے نہ نواز دیں...! حقیقت میں ہمارے ملک میں حکومت کا کام گڈ گورننس نہیں بلکہ ٹھیکہ داری ہے۔ یہ ٹھیکہ پچھلے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کے پاس تھا۔ اس سے پہلے پرویز مشرف صاحب کے پاس تھا اور آج کے ٹھیکہ دار سب کے سامنے ہیں۔ ویسے پاکستان کے عوام بھی کتنے سادہ لوح ہیں کہ اپنے ہی ووٹ سے ٹھیکے دار منتخب کرتے ہیں۔
آج کے حالات پر جب دشمن سر پر آن پہنچا ہے،افغانستان جیسا ملک ہمارا پرچم جلا رہا ہے۔ انڈیا جیسا ملک ہمارے ملک میں تخریب کاری کی تمام حدیں پار کررہا ہے اوروطن عزیز کے اندر سے ہی پاکستان مخالف قوتوں کو پیسے کے بل بوتے پر خرید کر انھیں پاکستان کے خلاف ہی استعمال کر رہا ہے۔ امریکا پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام کرنے پر تلا ہوا ہے۔ روس ، ایران ، سعودی عرب اور برطانیہ جیسے ممالک اپنے مفادات کی جنگیں اس خطے میں لڑ رہے ہیں اور ایسے حالات میں پاکستان بغیر وزیر خارجہ کے اس جدید دنیا میں رہ رہا ہے اور پھر یہ کہنا کہ ''پاکستان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ترین ملک ہے'' کتنا عجیب لگتا ہے۔
مغل دور کے آخری بادشاہ اور ان کی اولاد اس قدر سہل پسند ہو چکے تھے کہ ایک دفعہ دشمن نے محل پر حملہ کر دیا اور تاریخ گواہ ہے کہ ایک شہزادہ بیڈ پر بیٹھا رو تا رہا... کسی نے پوچھا کہ شہزادہ سلامت محل پر حملہ ہو چکا ہے اور آپ اپنی جگہ سے اُٹھ نہیں رہے اور نہ ہی جان بچانے کی خاطر بھاگ رہے ہیں تو شہزادہ سلامت نے فرمایا کہ مجھے کوئی جوتی پہنائے گا تو میں یہاں سے نکل سکوں گا...وہ شہزادہ وہیں مارا گیا... یہ سہل پسندی اور زمینی حقائق سے بے خبری ہمارے حکمرانوں کو بھی لے ڈوبے گی۔ آپ جنرل ضیاء الحق کے دور سے آج تک کے تمام ادوار دیکھ لیں، آپ کو عوام کی ناکامی اور حکمرانوں کی کامیابیاں ہی نظر آئیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم حالات سے نظریں چراتے چراتے آج یہ دن دیکھ رہے ہیں کہ دشمن ملک میں اپنی جڑیں انتہائی مضبوط کر چکا ہے جو سیاستدان پہلے کچھ بھی نہیں تھے، وہ آج ملک کے امیر ترین افراد میں شامل ہو چکے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کی یہ خواہش ہے کہ عوام مسائل سے دوچار رہیں تاکہ ان کی دکان چمکتی رہے۔ یہ مسائل کا جذباتی حل پیش کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنایا تو کسی نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا، کسی نے روشن خیالی کے چکر میں ملک کو اندھیروں میں دھکیلا تو اب کوئی تبدیلی کے فریب میں پرانے ٹھیکے داروں کے ہمراہ اسٹیج سجائے بیٹھا ہے۔ جب انھیں تخت حکمرانی مل جاتا ہے تو یہ عوام کے پیسوں سے پروٹوکول، ٹھاٹ باٹ، وزارتوں اور بدعنوانی کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اپنی تجوریاں اس قدر بھرتے ہیں جیسے تاقیامت زندہ رہیں گے۔ خزانے میں پیسہ کم ہوجائے تو اپنی حیثیت میں رہنے یا ملکی معیشت کو ترقی دینے کے بجائے آئی ایم ایف سے رجوع کرتے ہیں۔ قرضے لے کر ملک اور اس کے عوام کو مزید مقروض کرتے ہیں۔ یہ خود کو پاکستان کا مالک سمجھتے ہیں۔
عوام ستر سالوں سے ووٹ ڈال کر اس اُمید پر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہمارے حالات بدل جائیں گے اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ بقول حبیب جالب کے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
آخر میں ملائشیا کی مثال دیتا چلوں جہاں 22سال تک مہاتیر محمد نے صر ف اس وجہ سے حکومت کی کہ وہ حکمران نہیں تھا بلکہ وہ لیڈر تھا اور لیڈر حکم نہیں چلایا کرتا بلکہ اپنے آپ کو نچلے درجے کے کام میں جھونک دیتا ہے جس کے پیچھے پوری قوم چل نکلتی ہے۔ ملک کے گھمبیر حالات میں وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر تمام فیصلے مرحمت فرمائیں اور سنجیدہ حلقوں میں اپنی تقریروں کے بجائے اپنے کام سے نام بنائیںورنہ تاریخ میں ان کا نام بھی ناکامی کی فہرست میں لکھا جائے گا...