کشمیر میں جدید اسلحے کا استعمال
مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کی لہر نوجوان کشمیریوں کے جوش و ولولے کے ساتھ کے ساتھ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کی لہر نوجوان کشمیریوں کے جوش و ولولے کے ساتھ کے ساتھ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے، جس میں شامل نوجوان نسل کا جوش و جذبہ قابل ستائش ہے۔ کشمیری ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں'' کے اصول پر عمل پیرا، بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف آگے بڑھ رہے ہیں۔ گولیوں کے آگے، پتھروں اور ڈنڈوں سے کشمیری بڑی کامیابی سے اپنی تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
وادی میں مقبول عام 'گو انڈیا گو' کے نعرے گونج رہے ہیں۔ جوں جوں ان کی تحریک میں شدت آتی جا رہی ہے، اسی قدر بھارتی تشدد میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان 79 برسوں میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تحویل میں لے کر تشدد سے مارے گئے لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، سیکڑوں خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ بھارتی فوج اور پولیس کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہیں نمٹیں، اگر جان سے مارنے کی ضرورت پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کریں۔ وادی کے سیکڑوں شہید اسی کالے قانون کی نذر ہو گئے۔
کشمیر میں بھارتی افواج میں مزید اضافہ کر دیا گیا، تحریک آزادی کچلنے کے لیے بستیوں میں کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ بھارتی پولیس نے کشمیری نوجوانوں کی بلیک لسٹ تیار کی ہے، ہر طرح کے تشدد کا اجازت نامہ حاصل ہونے کی بنا پر وہ کسی بھی کشمیری کو جب چاہے تشدد کر کے ہلاک کر سکتی ہے۔ ان دو ماہ میں 85 سے زائد شہید اور 7 ہزار کشمیری پیلٹ گنوں سے زخمی ہو چکے ہیں، ان کے چہرے زخمی ہیں۔ بھارت کی جدید ہتھیاروں سے نہتے کشمیری عوام پر زورآزمائی کوئی نہیں بات نہیں۔
چند سال قبل خصوصی طیاروں سے جدید ہتھیاروں کی کھیپ دلی سے جموں و کشمیر لائی گئی، جو بھارتی پولیس اور فوج کی سہولت کے لیے لائے گئے تھے۔ یہ جدید اسلحہ انتہائی پرتشدد کارکردگی کا حامل ہے، جن میں ایک ٹاپ ایکشن گن پی اے جی شامل ہے، جس کا ڈیزائن عام شکاری بندوقوں کی مانند ہے، اس میں استعمال ہونے والے کارتوس میں سخت ترین پلاسٹک کی تیس گوٹیاں ہیں، جو فائر کرنے پر نشانہ کے بیس فٹ کے دائرے میں پھیل جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق گولی تو ایک جگہ لگنے کی وجہ سے آپریشن کے ذریعے نکالی جا سکتی ہے مگر پی اے جی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سارے جسم میں پھیل جاتے ہیں، جسے زخمی ہونے والے کے جسم پر درجنوں آپریشن کے ذریعے ہی انھیں نکالا جا سکتا ہے، جو یقیناً ناممکن ہے۔
سرینگر کے ایک ایس پی نے اسے کشمیری مظاہرے روکنے میں کافی تسلی بخش بتایا۔ دوسری طرف اپوزیشن رہنما محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ یہ جنگلی درندوں کو مارنے کے لیے استعمال کیا جانے والا اسلحہ کس طرح کسی انسان پر استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اسرائیلی فوجی بھی نہتے فلسطینیوں پر یہ اسلحہ استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک نئی بندوق کشمیریوں پر تشدد کے لیے بھارتی فوجیوں کو متعارف کرائی گئی، جس میں سرخ کالی مرچ اور دوسرے اجزائے ترکیبی سے گوٹیوں کی شکل میں تیار کی گئی ہے، بندوق ان گوٹیوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے فائر کرتی ہے، جس سے کالے گھنے دھویں کے بادل بن جاتے ہیں اور موجود لوگوں کا دم گھٹنے لگتا ہے، ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے، جس سے یقیناً بچے، بوڑھے اور خواتین زیادہ شدید متاثر ہوتے ہیں۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز ایک نئی جدید پستول نما گن ٹیرز ایکس 26، نہتے کشمیریوں پر استعمال کر رہی ہے، جس کی گولیاں انگریزی حروف تہجی ڈبلیو کی بناوٹ جیسی ہیں، جن میں تانبے کے چھلے نما تار استعمال کیے گئے ہیں۔ جب بھارتی فورسز اسے فائر کرتی ہیں تو ان چھلوں میں بجلی پیدا ہوتی ہے جس کی زد میں آنے والے کو شدید بجلی کا جھٹکا لگتا ہے اور وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی زد میں آنے والے مر بھی سکتے ہیں۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز نے تازہ حکمت عملی کے تحت نئے ہتھیار کا استعمال شروع کیا ہے جسے پیلٹ گن کہا جاتا ہے، جس کے چھروں سے سیکڑوں نوجوان اپنی بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔
بھارت کے اس وحشیانہ تشدد کے بارے میں بھارت کی نامور دانشور ارون دھتی رائے کا اپنے ایک انٹرویو میں کہنا ہے کہ ''لاکھوں کی آرمی ایک چھوٹی سی وادی میں تعنیات ہے، جو اسٹیٹ کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے، ہر بار کشمیر میں جعلی انتخابات کرائے گئے، بھارتی حکومت اور میڈیا نے اسے کامیاب کہا، بھارتی میڈیا اب تک جھوٹ بولتا آیا ہے، کس کو نہیں معلوم کشمیر میں کیا ہو رہا ہے، بھارت نے آج تک مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی سے نہیں لیا''۔ بھارتی اپوزیشن کانگریس کے سینئر رہنما، ممتاز سفارت کار و سابق وزیر مانی شنکر آئر کا کہنا ہے کہ کشمیری آزادی چاہتے ہیں، آرمی ایکٹ اور دیگر سختیاں جدوجہد نہیں روک سکتیں، مقبوضہ کشمیر کے اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں، کشمیر ایک سیاسی مسئلہ جس کا سیاسی حل نکالنا چاہیے۔
مسلسل کرفیو سے غذاؤں اور ادویات کی قلت ہے، ذرایع نقل و حمل، موبائل فون، انٹرنیٹ بند ہیں۔ کشمیر میں میڈیا کے داخلے پر پابندی ہے، جس کی وجہ سے بھارتی مظالم واضح طور پر منظرعام پر نہیں آ سکے۔ پرامن مظاہرین پر طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارتی فورسز عقوبت خانوں میں کشمیری مجاہدین پر طر ح طرح کی اذیت دے کر شہید کر رہی ہے۔
پاکستان اس بارے میں پوری دنیا کو آگاہ کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بیس پارلیمنٹرینز منتخب کیے ہیں جو دنیا کے اہم ممالک کا دورہ کریں گے اور کشمیر میں ہونے والے ظلم کے خلاف عالمی ضمیر کو جھنجھوڑیں گے۔ اسلامی تنظیمی کانفرنس کے جنرل سیکریٹری عیاد امین مدنی نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں رہا، کشمیر میں استصواب رائے کا وقت قریب آ چکا ہے۔ انھوں نے اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت اسے حل کرانے کا عزم کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی مظالم کے خلاف رپورٹیں شایع کی ہیں کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تشدد کو روکنے کے اقدامات کیے جائیں۔ اب وقت آ گیا ہے کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوب رائے کے ذریعے آزادی سے جینے کا موقع دیا جائے، کیونکہ اس کے سوا اس مسئلے کا اور کوئی حل موجود نہیں، جو جلد یا بدیر بھارت کو کرنا ہی پڑے گا۔
وادی میں مقبول عام 'گو انڈیا گو' کے نعرے گونج رہے ہیں۔ جوں جوں ان کی تحریک میں شدت آتی جا رہی ہے، اسی قدر بھارتی تشدد میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان 79 برسوں میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تحویل میں لے کر تشدد سے مارے گئے لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، سیکڑوں خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ بھارتی فوج اور پولیس کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہیں نمٹیں، اگر جان سے مارنے کی ضرورت پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کریں۔ وادی کے سیکڑوں شہید اسی کالے قانون کی نذر ہو گئے۔
کشمیر میں بھارتی افواج میں مزید اضافہ کر دیا گیا، تحریک آزادی کچلنے کے لیے بستیوں میں کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ بھارتی پولیس نے کشمیری نوجوانوں کی بلیک لسٹ تیار کی ہے، ہر طرح کے تشدد کا اجازت نامہ حاصل ہونے کی بنا پر وہ کسی بھی کشمیری کو جب چاہے تشدد کر کے ہلاک کر سکتی ہے۔ ان دو ماہ میں 85 سے زائد شہید اور 7 ہزار کشمیری پیلٹ گنوں سے زخمی ہو چکے ہیں، ان کے چہرے زخمی ہیں۔ بھارت کی جدید ہتھیاروں سے نہتے کشمیری عوام پر زورآزمائی کوئی نہیں بات نہیں۔
چند سال قبل خصوصی طیاروں سے جدید ہتھیاروں کی کھیپ دلی سے جموں و کشمیر لائی گئی، جو بھارتی پولیس اور فوج کی سہولت کے لیے لائے گئے تھے۔ یہ جدید اسلحہ انتہائی پرتشدد کارکردگی کا حامل ہے، جن میں ایک ٹاپ ایکشن گن پی اے جی شامل ہے، جس کا ڈیزائن عام شکاری بندوقوں کی مانند ہے، اس میں استعمال ہونے والے کارتوس میں سخت ترین پلاسٹک کی تیس گوٹیاں ہیں، جو فائر کرنے پر نشانہ کے بیس فٹ کے دائرے میں پھیل جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق گولی تو ایک جگہ لگنے کی وجہ سے آپریشن کے ذریعے نکالی جا سکتی ہے مگر پی اے جی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سارے جسم میں پھیل جاتے ہیں، جسے زخمی ہونے والے کے جسم پر درجنوں آپریشن کے ذریعے ہی انھیں نکالا جا سکتا ہے، جو یقیناً ناممکن ہے۔
سرینگر کے ایک ایس پی نے اسے کشمیری مظاہرے روکنے میں کافی تسلی بخش بتایا۔ دوسری طرف اپوزیشن رہنما محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ یہ جنگلی درندوں کو مارنے کے لیے استعمال کیا جانے والا اسلحہ کس طرح کسی انسان پر استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اسرائیلی فوجی بھی نہتے فلسطینیوں پر یہ اسلحہ استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک نئی بندوق کشمیریوں پر تشدد کے لیے بھارتی فوجیوں کو متعارف کرائی گئی، جس میں سرخ کالی مرچ اور دوسرے اجزائے ترکیبی سے گوٹیوں کی شکل میں تیار کی گئی ہے، بندوق ان گوٹیوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے فائر کرتی ہے، جس سے کالے گھنے دھویں کے بادل بن جاتے ہیں اور موجود لوگوں کا دم گھٹنے لگتا ہے، ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے، جس سے یقیناً بچے، بوڑھے اور خواتین زیادہ شدید متاثر ہوتے ہیں۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز ایک نئی جدید پستول نما گن ٹیرز ایکس 26، نہتے کشمیریوں پر استعمال کر رہی ہے، جس کی گولیاں انگریزی حروف تہجی ڈبلیو کی بناوٹ جیسی ہیں، جن میں تانبے کے چھلے نما تار استعمال کیے گئے ہیں۔ جب بھارتی فورسز اسے فائر کرتی ہیں تو ان چھلوں میں بجلی پیدا ہوتی ہے جس کی زد میں آنے والے کو شدید بجلی کا جھٹکا لگتا ہے اور وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی زد میں آنے والے مر بھی سکتے ہیں۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز نے تازہ حکمت عملی کے تحت نئے ہتھیار کا استعمال شروع کیا ہے جسے پیلٹ گن کہا جاتا ہے، جس کے چھروں سے سیکڑوں نوجوان اپنی بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔
بھارت کے اس وحشیانہ تشدد کے بارے میں بھارت کی نامور دانشور ارون دھتی رائے کا اپنے ایک انٹرویو میں کہنا ہے کہ ''لاکھوں کی آرمی ایک چھوٹی سی وادی میں تعنیات ہے، جو اسٹیٹ کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے، ہر بار کشمیر میں جعلی انتخابات کرائے گئے، بھارتی حکومت اور میڈیا نے اسے کامیاب کہا، بھارتی میڈیا اب تک جھوٹ بولتا آیا ہے، کس کو نہیں معلوم کشمیر میں کیا ہو رہا ہے، بھارت نے آج تک مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی سے نہیں لیا''۔ بھارتی اپوزیشن کانگریس کے سینئر رہنما، ممتاز سفارت کار و سابق وزیر مانی شنکر آئر کا کہنا ہے کہ کشمیری آزادی چاہتے ہیں، آرمی ایکٹ اور دیگر سختیاں جدوجہد نہیں روک سکتیں، مقبوضہ کشمیر کے اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں، کشمیر ایک سیاسی مسئلہ جس کا سیاسی حل نکالنا چاہیے۔
مسلسل کرفیو سے غذاؤں اور ادویات کی قلت ہے، ذرایع نقل و حمل، موبائل فون، انٹرنیٹ بند ہیں۔ کشمیر میں میڈیا کے داخلے پر پابندی ہے، جس کی وجہ سے بھارتی مظالم واضح طور پر منظرعام پر نہیں آ سکے۔ پرامن مظاہرین پر طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارتی فورسز عقوبت خانوں میں کشمیری مجاہدین پر طر ح طرح کی اذیت دے کر شہید کر رہی ہے۔
پاکستان اس بارے میں پوری دنیا کو آگاہ کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بیس پارلیمنٹرینز منتخب کیے ہیں جو دنیا کے اہم ممالک کا دورہ کریں گے اور کشمیر میں ہونے والے ظلم کے خلاف عالمی ضمیر کو جھنجھوڑیں گے۔ اسلامی تنظیمی کانفرنس کے جنرل سیکریٹری عیاد امین مدنی نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں رہا، کشمیر میں استصواب رائے کا وقت قریب آ چکا ہے۔ انھوں نے اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت اسے حل کرانے کا عزم کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی مظالم کے خلاف رپورٹیں شایع کی ہیں کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تشدد کو روکنے کے اقدامات کیے جائیں۔ اب وقت آ گیا ہے کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوب رائے کے ذریعے آزادی سے جینے کا موقع دیا جائے، کیونکہ اس کے سوا اس مسئلے کا اور کوئی حل موجود نہیں، جو جلد یا بدیر بھارت کو کرنا ہی پڑے گا۔