سیکولر بھارت کے دعویدار ملک میں 20 سال بعد بھی بابری مسجد کے ملزمان آزاد
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں 2 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
بھارت میں بابری مسجد کی شہادت کو 20 سال گزر گئے مگر آج تک ملزموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا۔
انتہا پسند ہندوؤں نے ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو شہید کردیا تھا، جس کے رد عمل میں بھارت میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
مسجد کی شہادت کےوقت لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی سینئر رہنما موقعے پر موجود تھے جن کے خلاف کئی مقدمات درج کیے گئے جو 2 دہائی گزرجانے کے بعد بھی قانونی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں اور ملزموں کی سزاکا تعین نہیں ہوسکا۔
2011 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کو 3 حصوں میں تقسیم کرنے کا عجیب و غریب فیصلہ سنایا تھا جس پر بھارتی سپریم کورٹ نے بھی حیرت کا اظہار کیا۔
بابری مسجد کی شہادت کی 20برس مکمل ہونے پر بھارت کے مختلف شہروں میں سیکیورٹی ہائی الرٹ رہی۔ مسلمان اس دن کو ''یوم غم'' جبکہ ہندو انتہا پسند ''یوم شجاعت'' کے طور پر مناتے ہیں۔
انتہا پسند ہندوؤں نے ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو شہید کردیا تھا، جس کے رد عمل میں بھارت میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
مسجد کی شہادت کےوقت لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی سینئر رہنما موقعے پر موجود تھے جن کے خلاف کئی مقدمات درج کیے گئے جو 2 دہائی گزرجانے کے بعد بھی قانونی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں اور ملزموں کی سزاکا تعین نہیں ہوسکا۔
2011 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کو 3 حصوں میں تقسیم کرنے کا عجیب و غریب فیصلہ سنایا تھا جس پر بھارتی سپریم کورٹ نے بھی حیرت کا اظہار کیا۔
بابری مسجد کی شہادت کی 20برس مکمل ہونے پر بھارت کے مختلف شہروں میں سیکیورٹی ہائی الرٹ رہی۔ مسلمان اس دن کو ''یوم غم'' جبکہ ہندو انتہا پسند ''یوم شجاعت'' کے طور پر مناتے ہیں۔