غیبت باعث ہلاکت
زنا کی توبہ قبول کرلی جاتی ہے لیکن غیبت کی توبہ قبول نہیں کی جاتی، جب تک وہ آدمی جس کی غیبت کی گئی ہوو ہ معاف نہ کردے۔
اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : ترجمہ ''اورایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔کیا تم میں کوئی پسند رکھے گاکہ اپنے مردہ بھائی کاگوشت کھائے تویہ تمہیں گوارانہ ہوگااوراﷲسے ڈرو،بے شک اﷲبہت توبہ قبول کرنے والامہربان ہے ''۔
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے غیبت سے منع فرمایاہے اورغیبت کرنے والے کومردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے ۔
پیارے آقا حضور محمد مصطفیٰﷺنے ارشاد فرمایا:
''غیبت سے اجتناب کرو،کیونکہ غیبت زنا سے زیادہ بری چیز ہے، زنا کی توبہ قبول کرلی جاتی ہے لیکن غیبت کی توبہ قبول نہیں کی جاتی، جب تک وہ آدمی جس کی غیبت کی گئی ہوو ہ معاف نہ کردے۔ ''
حدیث شریف میں ہے کہ:
''غیبت یہ ہے کہ مسلمان بھائی کی پیٹھ پیچھے ایسی بات کہی جائے جو اسے ناگوارگزرے ۔اگر وہ بات سچی ہے تو غیبت ہے ورنہ بہتان''۔
معلوم ہوا کہ کسی کی عدم موجودگی میںایسی بات نہ کہی جائے جو اسے ناپسند ہو،اگرچہ کہنے والے نے سچ کہا ہو۔اگر وہ بات جوکسی کی غیر موجودگی میں کہی گئی، جھوٹ ہے تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے۔
ذیل میں ہم چند ایسی باتوں کا ذکر کر تے ہیں جو غیبت کے زمرے میں آتی ہیں لیکن ہم علم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ خیال رہے کہ ایسی ہربات جس سے کسی کی برائی واضح ہوتی ہو، چاہے اس کا تعلق اس کے لباس، جسم ،اس کے فعل یا قول کے متعلق ہو،جیسے جسم کے بارے میں کہا جائے، وہ طویل القامت یاسیاہ فارم ہے یااحوال (بھینگا )ہے ۔ یا کسی کے بارے میں غلط بیانی کی جائے۔
یا اخلاق کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بری عادتوں والاہے۔یامغرور، بدزبان، کمزور دل ہے، یاافعال کے بارے میں ہوکہ وہ چور، خائن، بے نمازی ہے ،نمازمیں ارکان کو سکون سے ادانہیں کرتا، قرآن پاک غلط پڑھتاہے یا کہے کہ اپنے کپڑوں کو نجاست سے پاک نہیں رکھتا یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا یاحرام مال کھاتا ہے، زبان چلاتا ہے، بہت کھاتا ہے، بہت سوتا ہے، لباس کے بارے میں کہاجائے کہ کھلی آستین والاکپڑا پہنتا ہے۔ درازدامن یامیلاکچیلا لباس پہنتا ہے، یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں ۔
اﷲتبارک وتعالیٰ نے غیبت سے منع فرمانے کے بعد فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، پھرفرمایا! کہ تمہیں یہ گوارانہ ہوگا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ۔مطلب یہ کہ طبعی طور پر تم یہ گوارا نہیں کرو گے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاؤ۔بالکل اسی طرح تم شرعاً یہ گوارا ہی نہ کرو کہ تم کسی کی غیبت کر و۔
سیدعالم ﷺ جب جہاد کیلئے روانہ ہوتے اور سفر فرماتے توہردومال داروں کے ساتھ ایک غریب مسلمان کوکردیتے تاکہ وہ غریب ان کی خدمت کرے اور وہ بدلے میں اسے کھلائیں پلائیں، تاکہ ہر ایک کا کام چلے۔ اسی طرح ایک موقع پر حضرت سلمان ؓ دوآدمیوں کے ساتھ روانہ کئے گئے۔ایک روزآپ سوگئے اورکھانا تیار نہ کرسکے تو ان دونوں نے انہیں کھانے کا بندو بست کر نے کے لیے رسول اﷲﷺکی خدمت میں بھیجا، حضور ﷺکے خادم مطبخ حضرت اُسامہ ؓ تھے ان کے پاس بھی اُس وقت کھانے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔
انہوں نے فرمایا میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔حضرت سلمان ؓنے یہی بات آکراُنہیںکہہ دی، تو ان دونوں رفیقوں نے کہا کہ اُسامہ ؓ نے بخل کیا۔ جب وہ حضور نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے توآپ ﷺنے فرمایا کہ میں تمہارے منہ میں گوشت کی رنگت دیکھتاہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو گوشت کھایا ہی نہیں۔ فرمایا!تم نے غیبت کی ہے اور جو مسلمان غیبت کرے، اس نے مسلمان کا گوشت کھایا۔
غیبت کتنی ہلاکت خیز بلاہے، اس بات سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ یہ نماز وروزہ جیسی بلند پایہ عبادت کی نورانیت کو ختم کردیتی ہے۔چناچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ''دوروزہ دار جب عصرکی نماز سے فارغ ہوئے تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا! تم دونوں وضو کرواور نمازکو ازسرنو پڑھو اور روزہ پوراکرواوردوسرے دن روزے کی قضا کرنا۔انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ! یہ حکم کس لئے؟۔ نبی کریم ﷺنے فرمایاتم نے فلاں کی غیبت کی ہے ''(بیہقی)
حضرت حسان بن مخارقؓ فرماتے ہیںکہ :''ایک عورت اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس آئی، جب وہ جانے کے لیے کھڑی ہوئی تو حضرت عائشہ ؓ نے پیارے آقا ﷺ سے اس عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پست قدہے تو آپ ﷺنے فرمایا!تم نے غیبت کی ہے''(ابن کثیر)
لنگڑے کی طرح چلنا، ٹیڑھی آنکھیں بنانا کہ اس سے کسی کا حال واضح ہوجائے یہ سب غیبت ہے۔ اگر نام لے کر نہ کہے اورکہے،ایک آدمی نے ایسا کیا تو یہ غیبت نہیں ہے مگر جب حاضرین کو پتہ چل جائے کہ اس سے مرادکونسا آدمی ہے تو پھر اس طرح بیان کرنا حرام ہوگا کیونکہ قائل کا مقصد سمجھانا ہے وہ کسی بھی طریقے سے ہو۔
امام غزالی ؒکی مذکورہ بالاوضا حت سے پتہ چلتا ہے کسی کی نقل کرنابھی غیبت ہے، مثلاًکوئی لنگڑا ہے تو اس کے لنگڑے پن کی نقل کرنا،کسی کی آواز درست نہیں ہے تو اس کی نقل کرنا وغیرہ۔یہ سب بھی حرام اور جہنم میں لے جانے والے اعمال ہیں ۔مدرسوں اور اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کی نقلیں کرکے خوب ہنسی مذاق کرتے نظر آتے ہیں۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ غیبت ہے جوکہ حرام فعل ہے ۔
اسی طرح ایک روایت ہے کہ، انسان قیامت کے روز اپنا نامہ اعمال نیکیوں سے خالی دیکھ کر گھبراکر کہے گا،میں نے جو فلاں فلاں نیکیاں کی تھیں، وہ کہاں گئیں۔کہاجائے گاکہ ، تو نے جو غیبتیں کی تھیں اس وجہ سے مٹادی گئی ہیں ''۔
غیبت کرناتو گناہ کبیرہ ہے ہی غیبت سننا بھی گنا ہ کبیرہ ہے۔لہٰذا کوئی بھی شخص غیبت کررہا ہو توہمیں اس کو روکنا چاہئے۔
''جو اپنے (مسلما ن)بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اﷲتعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کردے ''(مسند امام احمد )
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے غیبت سے منع فرمایاہے اورغیبت کرنے والے کومردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے ۔
پیارے آقا حضور محمد مصطفیٰﷺنے ارشاد فرمایا:
''غیبت سے اجتناب کرو،کیونکہ غیبت زنا سے زیادہ بری چیز ہے، زنا کی توبہ قبول کرلی جاتی ہے لیکن غیبت کی توبہ قبول نہیں کی جاتی، جب تک وہ آدمی جس کی غیبت کی گئی ہوو ہ معاف نہ کردے۔ ''
حدیث شریف میں ہے کہ:
''غیبت یہ ہے کہ مسلمان بھائی کی پیٹھ پیچھے ایسی بات کہی جائے جو اسے ناگوارگزرے ۔اگر وہ بات سچی ہے تو غیبت ہے ورنہ بہتان''۔
معلوم ہوا کہ کسی کی عدم موجودگی میںایسی بات نہ کہی جائے جو اسے ناپسند ہو،اگرچہ کہنے والے نے سچ کہا ہو۔اگر وہ بات جوکسی کی غیر موجودگی میں کہی گئی، جھوٹ ہے تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے۔
ذیل میں ہم چند ایسی باتوں کا ذکر کر تے ہیں جو غیبت کے زمرے میں آتی ہیں لیکن ہم علم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ خیال رہے کہ ایسی ہربات جس سے کسی کی برائی واضح ہوتی ہو، چاہے اس کا تعلق اس کے لباس، جسم ،اس کے فعل یا قول کے متعلق ہو،جیسے جسم کے بارے میں کہا جائے، وہ طویل القامت یاسیاہ فارم ہے یااحوال (بھینگا )ہے ۔ یا کسی کے بارے میں غلط بیانی کی جائے۔
یا اخلاق کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بری عادتوں والاہے۔یامغرور، بدزبان، کمزور دل ہے، یاافعال کے بارے میں ہوکہ وہ چور، خائن، بے نمازی ہے ،نمازمیں ارکان کو سکون سے ادانہیں کرتا، قرآن پاک غلط پڑھتاہے یا کہے کہ اپنے کپڑوں کو نجاست سے پاک نہیں رکھتا یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا یاحرام مال کھاتا ہے، زبان چلاتا ہے، بہت کھاتا ہے، بہت سوتا ہے، لباس کے بارے میں کہاجائے کہ کھلی آستین والاکپڑا پہنتا ہے۔ درازدامن یامیلاکچیلا لباس پہنتا ہے، یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں ۔
اﷲتبارک وتعالیٰ نے غیبت سے منع فرمانے کے بعد فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، پھرفرمایا! کہ تمہیں یہ گوارانہ ہوگا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ۔مطلب یہ کہ طبعی طور پر تم یہ گوارا نہیں کرو گے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاؤ۔بالکل اسی طرح تم شرعاً یہ گوارا ہی نہ کرو کہ تم کسی کی غیبت کر و۔
سیدعالم ﷺ جب جہاد کیلئے روانہ ہوتے اور سفر فرماتے توہردومال داروں کے ساتھ ایک غریب مسلمان کوکردیتے تاکہ وہ غریب ان کی خدمت کرے اور وہ بدلے میں اسے کھلائیں پلائیں، تاکہ ہر ایک کا کام چلے۔ اسی طرح ایک موقع پر حضرت سلمان ؓ دوآدمیوں کے ساتھ روانہ کئے گئے۔ایک روزآپ سوگئے اورکھانا تیار نہ کرسکے تو ان دونوں نے انہیں کھانے کا بندو بست کر نے کے لیے رسول اﷲﷺکی خدمت میں بھیجا، حضور ﷺکے خادم مطبخ حضرت اُسامہ ؓ تھے ان کے پاس بھی اُس وقت کھانے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔
انہوں نے فرمایا میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔حضرت سلمان ؓنے یہی بات آکراُنہیںکہہ دی، تو ان دونوں رفیقوں نے کہا کہ اُسامہ ؓ نے بخل کیا۔ جب وہ حضور نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے توآپ ﷺنے فرمایا کہ میں تمہارے منہ میں گوشت کی رنگت دیکھتاہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو گوشت کھایا ہی نہیں۔ فرمایا!تم نے غیبت کی ہے اور جو مسلمان غیبت کرے، اس نے مسلمان کا گوشت کھایا۔
غیبت کتنی ہلاکت خیز بلاہے، اس بات سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ یہ نماز وروزہ جیسی بلند پایہ عبادت کی نورانیت کو ختم کردیتی ہے۔چناچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ''دوروزہ دار جب عصرکی نماز سے فارغ ہوئے تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا! تم دونوں وضو کرواور نمازکو ازسرنو پڑھو اور روزہ پوراکرواوردوسرے دن روزے کی قضا کرنا۔انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ! یہ حکم کس لئے؟۔ نبی کریم ﷺنے فرمایاتم نے فلاں کی غیبت کی ہے ''(بیہقی)
حضرت حسان بن مخارقؓ فرماتے ہیںکہ :''ایک عورت اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس آئی، جب وہ جانے کے لیے کھڑی ہوئی تو حضرت عائشہ ؓ نے پیارے آقا ﷺ سے اس عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پست قدہے تو آپ ﷺنے فرمایا!تم نے غیبت کی ہے''(ابن کثیر)
لنگڑے کی طرح چلنا، ٹیڑھی آنکھیں بنانا کہ اس سے کسی کا حال واضح ہوجائے یہ سب غیبت ہے۔ اگر نام لے کر نہ کہے اورکہے،ایک آدمی نے ایسا کیا تو یہ غیبت نہیں ہے مگر جب حاضرین کو پتہ چل جائے کہ اس سے مرادکونسا آدمی ہے تو پھر اس طرح بیان کرنا حرام ہوگا کیونکہ قائل کا مقصد سمجھانا ہے وہ کسی بھی طریقے سے ہو۔
امام غزالی ؒکی مذکورہ بالاوضا حت سے پتہ چلتا ہے کسی کی نقل کرنابھی غیبت ہے، مثلاًکوئی لنگڑا ہے تو اس کے لنگڑے پن کی نقل کرنا،کسی کی آواز درست نہیں ہے تو اس کی نقل کرنا وغیرہ۔یہ سب بھی حرام اور جہنم میں لے جانے والے اعمال ہیں ۔مدرسوں اور اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کی نقلیں کرکے خوب ہنسی مذاق کرتے نظر آتے ہیں۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ غیبت ہے جوکہ حرام فعل ہے ۔
اسی طرح ایک روایت ہے کہ، انسان قیامت کے روز اپنا نامہ اعمال نیکیوں سے خالی دیکھ کر گھبراکر کہے گا،میں نے جو فلاں فلاں نیکیاں کی تھیں، وہ کہاں گئیں۔کہاجائے گاکہ ، تو نے جو غیبتیں کی تھیں اس وجہ سے مٹادی گئی ہیں ''۔
غیبت کرناتو گناہ کبیرہ ہے ہی غیبت سننا بھی گنا ہ کبیرہ ہے۔لہٰذا کوئی بھی شخص غیبت کررہا ہو توہمیں اس کو روکنا چاہئے۔
''جو اپنے (مسلما ن)بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اﷲتعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کردے ''(مسند امام احمد )