حلقہ بندیوں کیلیے مردم شماری لازمی ہے موجودہ حالات میں آئندہ انتخابات ہوتے نظرنہیں آرہے چیف جسٹس
مردم شماری قابل اعتبار بنانے کے لیے فوج کی شمولیت ضروری ہے،اٹارنی جنرل
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے ہیں کہ انتخابی حلقہ بندیوں کیلیے مردم شماری لازمی ہے، ایسے حالات میں 2018 کے عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے مردم شماری سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
اٹارنی جنرل نے حکومتی رپورٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ مردم شماری کو تمام ریاستی اکائیوں کی نظر میں قابل اعتبار بنانے کیلیے ضروری ہے کہ تمام پراسیس فوج کی نگرانی میں مکمل کیا جائے جبکہ امن و امان کی صورتحال کے باعث بھی فوج کی شمولیت ضروری ہے، مشترکہ مفادات کونسل نے اس کی منظوری دی ہے اور بجٹ بھی مختص ہوگیا ہے۔ فوج جوں ہی دستیاب ہوگی تو پراسیس شروع ہوجائے گا۔جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کیاحکومت کی اپنی کوئی ساکھ نہیںکہ اسے فوج کی مدد کی ضرورت ہے؟حکومت حساسیت کے نام پر اہم قومی اور آئینی ذمے داریاں ٹال دیتی ہے، اس نے مردم شماری کرنی ہے جنگ نہیں لڑنی کہ فوج کی ضرورت ہے،ویسے بھی ملک کے اکثریتی علاقوں میں فوج تعینات کرنے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر یہی حالات رہے تو پھر اگلے عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے،حلقہ بندیوں کیلیے مردم شماری لازمی ہے۔
مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیوں کو چیلنج کردیا جائے گا اور کوئی بھی شخص الیکشن رکوانے عدالت پہنچ جائے گا۔ انھوں نے استفسار کیا کہ کیا لاہور اور اسلام آباد سمیت بڑے شہروں میں مردم شماری کیلیے فوج کی سیکیورٹی ضروری ہے؟ آپ اس اہم معاملے پر حکومت سے ہدایات لے کر اپنا موقف پیش کریں۔اے پی پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ اگرمردم شماری نہیں کی جاتی تو ایسے حالات میں 2018 میں عام انتخابات ہوتے نظرنہیں آرہے، عدالت کوبتایا جائے کہ لاہوراور دیگربڑے شہروں میں مردم شماری کے دوران فوج کی سئکیورٹی کیوں ضروری ہے؟ اٹارنی جنرل کے مہلت مانگنے پر سماعت ستمبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔
اٹارنی جنرل نے حکومتی رپورٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ مردم شماری کو تمام ریاستی اکائیوں کی نظر میں قابل اعتبار بنانے کیلیے ضروری ہے کہ تمام پراسیس فوج کی نگرانی میں مکمل کیا جائے جبکہ امن و امان کی صورتحال کے باعث بھی فوج کی شمولیت ضروری ہے، مشترکہ مفادات کونسل نے اس کی منظوری دی ہے اور بجٹ بھی مختص ہوگیا ہے۔ فوج جوں ہی دستیاب ہوگی تو پراسیس شروع ہوجائے گا۔جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کیاحکومت کی اپنی کوئی ساکھ نہیںکہ اسے فوج کی مدد کی ضرورت ہے؟حکومت حساسیت کے نام پر اہم قومی اور آئینی ذمے داریاں ٹال دیتی ہے، اس نے مردم شماری کرنی ہے جنگ نہیں لڑنی کہ فوج کی ضرورت ہے،ویسے بھی ملک کے اکثریتی علاقوں میں فوج تعینات کرنے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر یہی حالات رہے تو پھر اگلے عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے،حلقہ بندیوں کیلیے مردم شماری لازمی ہے۔
مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیوں کو چیلنج کردیا جائے گا اور کوئی بھی شخص الیکشن رکوانے عدالت پہنچ جائے گا۔ انھوں نے استفسار کیا کہ کیا لاہور اور اسلام آباد سمیت بڑے شہروں میں مردم شماری کیلیے فوج کی سیکیورٹی ضروری ہے؟ آپ اس اہم معاملے پر حکومت سے ہدایات لے کر اپنا موقف پیش کریں۔اے پی پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ اگرمردم شماری نہیں کی جاتی تو ایسے حالات میں 2018 میں عام انتخابات ہوتے نظرنہیں آرہے، عدالت کوبتایا جائے کہ لاہوراور دیگربڑے شہروں میں مردم شماری کے دوران فوج کی سئکیورٹی کیوں ضروری ہے؟ اٹارنی جنرل کے مہلت مانگنے پر سماعت ستمبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔