برادریاں ہی اصل ووٹ بینک ہے
۔ برادری ہے، شریکا ہے، دھڑے بندی ہے۔ ایک دھڑا رائے برادران کا ہے۔ دوسرا اس کے مخالف ۔
شفقت محمود میرے ذاتی دوست ہیں۔ آج کل تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات ہیں۔ اس جماعت کے انٹرنیٹ جہادی کراچی کے ایک فرزندِ دندان ساز کی قیادت میں مجھے ''لفافہ صحافی'' بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مگر وہ میرے اور شفقت کے باہمی تعلقات کو ختم نہیں کر سکتے۔ میں شفقت کی لکھی اور ٹیلی وژن پر کہی باتوں کو بھی بہت غور سے پڑھتا اور سنتا رہتا ہوں۔
منگل کو پنجاب میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے۔ دونوں پاکستان مسلم لیگ نواز کے نامزد کردہ امیدواروں نے جیت لیے۔ تحریک انصاف کو البتہ چیچہ وطنی میں ہونے والے مقابلے کا نتیجہ کافی حوصلہ افزا نظر آیا۔ یہاں سے رائے حسن نواز کہنے کو تو ''آزاد'' امیدوار تھے مگر انھوں نے اپنی انتخابی مہم عمران خان کے پوسٹروں کے سائے تلے چلائی تھی۔ مسلم لیگ نواز کے امیدوار کے مقابلے میں وہ صرف دس ہزار ووٹوں سے ہارے۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ چند ماہ پہلے ملتان میں بھی ہوا تھا۔
وہاں سے ایک بوسن نے بھی ''آزاد'' حیثیت میں یوسف رضا گیلانی کے فرزند کا مقابلہ کیا اور عبدالقادر گیلانی بڑی مشکل سے اپنی ''خاندانی نشست'' بچا پائے۔ چیچہ وطنی کے انتخاب کے دوسرے دن شفقت محمود انٹرنیٹ پر اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر بڑے متحرک ہو گئے۔ اپنے پیغامات کے ذریعے بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ملتان اور چیچہ وطنی کے ضمنی انتخابات کے بعد اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پنجاب میں آئندہ انتخابات کے دوران صرف دو جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہو گا۔ چونکہ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ''نظریاتی ووٹر'' کسی طور بھی نواز شریف کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا، اس لیے امید کرنی چاہیے کہ 2013 کے انتخاب میں وہ ان کی جماعت کو حقیقی شکست سے دو چار کرنے کے لیے تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دے گا اور یوں تبدیلی کے نشان والوں کی سونامی برپا ہو جائے گی۔
پیپلز پارٹی کا نام نہاد ''پکا اور نظریاتی ووٹر'' آئندہ انتخاب میں کیا کرے گا یا اسے کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کا جواب دینا میرا کام نہیں ہے۔ عملی سیاست کے بارے میں لکھنے والے ایک عام رپورٹر کی حیثیت میں کچھ اور باتیں ذہن میں آئی ہیں جنھیں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ رائے حسن نواز اور ان کا خاندان جنرل ضیاء کے بنائے نظام کے تحت ابھرتا ہوا بالآخر نواز شریف کے ساتھ جڑ گیا، جب وہ سعودی عرب بھیج دئیے گئے تو یہ خاندان جنرل مشرف کی پشت پناہی سے چلائے جانے والے نظام کا حصہ بن گیا۔ رائے خاندان کے طویل عرصۂ اقتدار میں یقیناً مقامی سطح کے بہت سارے معتبروں کو ان سے شکوے شکایت پیدا ہوئے ہوں گے مگر انھیں کوئی ایسا امیدوار نہیں مل رہا تھا جو رائے خاندان کے مقابلے میں بھر پور وسائل اور جی داری کے ساتھ ڈٹ سکے۔ بالآخر زاہد اقبال کی صورت میں ایک شخص ابھرا جو رائے مخالف دھڑے کو بھا گیا۔ 2008 کے انتخابات میں اس زاہد اقبال نے رائے خاندان کا پیپلز پارٹی کی ٹکٹ لے کر مقابلہ کیا اور ستر ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ رائے خاندان کے نمائندے کو 65 ہزار کے قریب ووٹ پڑے۔
دہری شہریت کی مصیبتوں کی وجہ سے جب زاہد اقبال مستعفی ہو کر دوبارہ الیکشن لڑنے کے قابل ہوئے تو انھوں نے نواز شریف کو پیغامات بھیجے۔ وہاں سے ترنت جواب نہ ملا تو پیپلز پارٹی سے دوبارہ ٹکٹ مانگ لیا۔ محترمہ فریال تالپور سے ان کی اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اپنے اسٹاف کو حکم دیا کہ زاہد اقبال کو پیپلز پارٹی کا امیدوار بنانے کی دستاویزات تیار کی جائیں۔ جب یہ دستاویزات تیار ہو رہی تھیں تو زاہد صاحب کو ان کے موبائل فون پر پیغام ملا کہ میاں نواز شریف ان سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ انھوں نے زرداری ہائوس کے اسٹاف کو بتایا کہ وہ کچھ دیر کو ڈالر بدلوانے بلیو ایریا جا رہے ہیں۔ وہاں سے نکل کر انھوں نے اپنی گاڑی لاہور جانے کے لیے موٹروے کی طرف موڑ لی اور اپنا موبائل بند کر دیا۔ دوسرے روز وہ ٹی وی اسکرینوں پر رائے ونڈ میں نواز شریف صاحب کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے پائے گئے اور پھر انتخابی مہم چلانے چیچہ وطنی چلے گئے۔ اب انھوں نے وہاں سے قومی اسمبلی کی نشست 70 نہیں بلکہ 75 ہزار ووٹ لے کر جیت لی ہے۔
پیپلز پارٹی کے نام نہاد ''پکے اور نظریاتی ووٹروں'' کی بنیادوں پر اپنی سیاسی حکمت عملی بنانے والوں سے میں جاننا چاہوں گا کہ کیا 2008 کے انتخابات میں زاہد اقبال کو چیچہ وطنی سے ملنے والے ووٹ ''نظریاتی'' تھے؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو منگل کو یہ ''نظریاتی'' کہاں چلے گئے تھے؟ اب کی بار زاہد اقبال نے 2008 کے مقابلے پانچ ہزار زیادہ ووٹ لیے ہیں۔ کیا اس سے ہم یہ فرض کر لیں کہ ان کے حلقے میں نواز شریف کے ''نظریاتی ووٹ'' صرف 5000 ہیں جو اس ضمنی انتخاب میں ان کے کھاتے پڑ گئے؟ اصل بات یہ ہے کہ ''نظریاتی'' ووٹ چیچہ وطنی کے اس حلقے میں نہ نواز شریف کا تھا اور نہ پیپلز پارٹی کا ہے۔
رائے خاندان کا ایک مضبوط دھڑا ہے۔ جس کے ساتھ 65 ہزار ووٹ ہر صورت کھڑے رہتے ہیں۔ پورے قصے میں سیاسی جماعتیں اور ان کے نظریات کہیں نظر نہیں آتے۔ برادری ہے، شریکا ہے، دھڑے بندی ہے۔ ایک دھڑا رائے برادران کا ہے۔ دوسرا اس کے مخالف، اور آج کل رائے مخالف دھڑے کا چہرہ زاہد اقبال ہے جو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لے یا نواز شریف کا فی الوقت جیت رہا ہے۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ انتخاب میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہو گی۔ تحریک انصاف کے ذریعے سونامی برپا کرنے کے جنون میں مبتلا لوگوں کو ان زمینی حقیقتوں کا علم ہونا چاہیے۔
پنجاب میں سیاسی جماعتوں اور ان کے فرض کیے گئے ''نظریاتی ووٹوں'' کے مقابلے میں مقامی سطح پر معتبر شخصیت کے اردگرد بنے ''دھڑے'' کی طاقت اور قوت کو سمجھنا ہو تو صوبائی اسمبلی کی اس نشست کے ضمنی انتخاب پر بھی نگاہ ڈال لیں جو نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں ہوا۔ یہاں گوجر برادری کی اکثریت ہے۔ بہت عرصے تک چوہدری انور عزیز اس برادری کے واحد نمائندہ ہوا کرتے تھے۔1997 میں انھوں نے اپنے بیٹے دانیال عزیز کے لیے جگہ بنانی شروع کر دی۔ ان ہی کی برادری کے طارق انیس ان کے ''شریک'' بن گئے۔ طارق انیس نے ڈاکٹر طاہر جاوید کو 2008 میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی بھجوایا۔ مگر وہاں پہنچنے کے بعد یہ ڈاکٹر شہباز شریف کی ''اصولی سیاست'' کے حامی ہو گئے۔
دہری شہریت آڑے آئی تو یہ سیٹ چھوڑ کر اپنے والد کو اس پر کھڑا کر دیا۔ نواز شریف کی جماعت کا ٹکٹ بھی انھیں مل گیا۔ طارق انیس نے عمر شریف کو گجراتی چوہدریوں کی سرپرستی دلوا دی مگر انور عزیز نے مولوی غیاث کو ''آزاد'' کھڑا کر دیا اور وہ ایک کانٹے دار مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے۔ نواز شریف کا امیدوار تیسرے نمبر پر رہا۔ اس حلقے کے نتائج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف ''شیر'' کا انتخابی نشان لاہور سے محض دو گھنٹے دور شکر گڑھ میں بھی اپنا جلوہ نہیں دکھا سکتا۔ اس نشان کو ایک طاقتور دھڑے والے امیدوار کی بھی ضرورت ہے اور اگر دانیال عزیز آئندہ انتخاب میں نواز شریف کی ٹکٹ پر یہاں سے قومی اسمبلی کی نشست کا انتخاب لڑیں تو ان کی جیت یقینی ہے۔ باقی سب تجزیے ہیں جو انگریزی اخباروں، شہروں کے خوشحال ڈرائنگ روموں اور انٹرنیٹ پر بہت مزے دار سنائی دیتے ہیں۔
منگل کو پنجاب میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے۔ دونوں پاکستان مسلم لیگ نواز کے نامزد کردہ امیدواروں نے جیت لیے۔ تحریک انصاف کو البتہ چیچہ وطنی میں ہونے والے مقابلے کا نتیجہ کافی حوصلہ افزا نظر آیا۔ یہاں سے رائے حسن نواز کہنے کو تو ''آزاد'' امیدوار تھے مگر انھوں نے اپنی انتخابی مہم عمران خان کے پوسٹروں کے سائے تلے چلائی تھی۔ مسلم لیگ نواز کے امیدوار کے مقابلے میں وہ صرف دس ہزار ووٹوں سے ہارے۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ چند ماہ پہلے ملتان میں بھی ہوا تھا۔
وہاں سے ایک بوسن نے بھی ''آزاد'' حیثیت میں یوسف رضا گیلانی کے فرزند کا مقابلہ کیا اور عبدالقادر گیلانی بڑی مشکل سے اپنی ''خاندانی نشست'' بچا پائے۔ چیچہ وطنی کے انتخاب کے دوسرے دن شفقت محمود انٹرنیٹ پر اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر بڑے متحرک ہو گئے۔ اپنے پیغامات کے ذریعے بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ملتان اور چیچہ وطنی کے ضمنی انتخابات کے بعد اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پنجاب میں آئندہ انتخابات کے دوران صرف دو جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہو گا۔ چونکہ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ''نظریاتی ووٹر'' کسی طور بھی نواز شریف کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا، اس لیے امید کرنی چاہیے کہ 2013 کے انتخاب میں وہ ان کی جماعت کو حقیقی شکست سے دو چار کرنے کے لیے تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دے گا اور یوں تبدیلی کے نشان والوں کی سونامی برپا ہو جائے گی۔
پیپلز پارٹی کا نام نہاد ''پکا اور نظریاتی ووٹر'' آئندہ انتخاب میں کیا کرے گا یا اسے کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کا جواب دینا میرا کام نہیں ہے۔ عملی سیاست کے بارے میں لکھنے والے ایک عام رپورٹر کی حیثیت میں کچھ اور باتیں ذہن میں آئی ہیں جنھیں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ رائے حسن نواز اور ان کا خاندان جنرل ضیاء کے بنائے نظام کے تحت ابھرتا ہوا بالآخر نواز شریف کے ساتھ جڑ گیا، جب وہ سعودی عرب بھیج دئیے گئے تو یہ خاندان جنرل مشرف کی پشت پناہی سے چلائے جانے والے نظام کا حصہ بن گیا۔ رائے خاندان کے طویل عرصۂ اقتدار میں یقیناً مقامی سطح کے بہت سارے معتبروں کو ان سے شکوے شکایت پیدا ہوئے ہوں گے مگر انھیں کوئی ایسا امیدوار نہیں مل رہا تھا جو رائے خاندان کے مقابلے میں بھر پور وسائل اور جی داری کے ساتھ ڈٹ سکے۔ بالآخر زاہد اقبال کی صورت میں ایک شخص ابھرا جو رائے مخالف دھڑے کو بھا گیا۔ 2008 کے انتخابات میں اس زاہد اقبال نے رائے خاندان کا پیپلز پارٹی کی ٹکٹ لے کر مقابلہ کیا اور ستر ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ رائے خاندان کے نمائندے کو 65 ہزار کے قریب ووٹ پڑے۔
دہری شہریت کی مصیبتوں کی وجہ سے جب زاہد اقبال مستعفی ہو کر دوبارہ الیکشن لڑنے کے قابل ہوئے تو انھوں نے نواز شریف کو پیغامات بھیجے۔ وہاں سے ترنت جواب نہ ملا تو پیپلز پارٹی سے دوبارہ ٹکٹ مانگ لیا۔ محترمہ فریال تالپور سے ان کی اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اپنے اسٹاف کو حکم دیا کہ زاہد اقبال کو پیپلز پارٹی کا امیدوار بنانے کی دستاویزات تیار کی جائیں۔ جب یہ دستاویزات تیار ہو رہی تھیں تو زاہد صاحب کو ان کے موبائل فون پر پیغام ملا کہ میاں نواز شریف ان سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ انھوں نے زرداری ہائوس کے اسٹاف کو بتایا کہ وہ کچھ دیر کو ڈالر بدلوانے بلیو ایریا جا رہے ہیں۔ وہاں سے نکل کر انھوں نے اپنی گاڑی لاہور جانے کے لیے موٹروے کی طرف موڑ لی اور اپنا موبائل بند کر دیا۔ دوسرے روز وہ ٹی وی اسکرینوں پر رائے ونڈ میں نواز شریف صاحب کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے پائے گئے اور پھر انتخابی مہم چلانے چیچہ وطنی چلے گئے۔ اب انھوں نے وہاں سے قومی اسمبلی کی نشست 70 نہیں بلکہ 75 ہزار ووٹ لے کر جیت لی ہے۔
پیپلز پارٹی کے نام نہاد ''پکے اور نظریاتی ووٹروں'' کی بنیادوں پر اپنی سیاسی حکمت عملی بنانے والوں سے میں جاننا چاہوں گا کہ کیا 2008 کے انتخابات میں زاہد اقبال کو چیچہ وطنی سے ملنے والے ووٹ ''نظریاتی'' تھے؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو منگل کو یہ ''نظریاتی'' کہاں چلے گئے تھے؟ اب کی بار زاہد اقبال نے 2008 کے مقابلے پانچ ہزار زیادہ ووٹ لیے ہیں۔ کیا اس سے ہم یہ فرض کر لیں کہ ان کے حلقے میں نواز شریف کے ''نظریاتی ووٹ'' صرف 5000 ہیں جو اس ضمنی انتخاب میں ان کے کھاتے پڑ گئے؟ اصل بات یہ ہے کہ ''نظریاتی'' ووٹ چیچہ وطنی کے اس حلقے میں نہ نواز شریف کا تھا اور نہ پیپلز پارٹی کا ہے۔
رائے خاندان کا ایک مضبوط دھڑا ہے۔ جس کے ساتھ 65 ہزار ووٹ ہر صورت کھڑے رہتے ہیں۔ پورے قصے میں سیاسی جماعتیں اور ان کے نظریات کہیں نظر نہیں آتے۔ برادری ہے، شریکا ہے، دھڑے بندی ہے۔ ایک دھڑا رائے برادران کا ہے۔ دوسرا اس کے مخالف، اور آج کل رائے مخالف دھڑے کا چہرہ زاہد اقبال ہے جو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لے یا نواز شریف کا فی الوقت جیت رہا ہے۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ انتخاب میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہو گی۔ تحریک انصاف کے ذریعے سونامی برپا کرنے کے جنون میں مبتلا لوگوں کو ان زمینی حقیقتوں کا علم ہونا چاہیے۔
پنجاب میں سیاسی جماعتوں اور ان کے فرض کیے گئے ''نظریاتی ووٹوں'' کے مقابلے میں مقامی سطح پر معتبر شخصیت کے اردگرد بنے ''دھڑے'' کی طاقت اور قوت کو سمجھنا ہو تو صوبائی اسمبلی کی اس نشست کے ضمنی انتخاب پر بھی نگاہ ڈال لیں جو نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں ہوا۔ یہاں گوجر برادری کی اکثریت ہے۔ بہت عرصے تک چوہدری انور عزیز اس برادری کے واحد نمائندہ ہوا کرتے تھے۔1997 میں انھوں نے اپنے بیٹے دانیال عزیز کے لیے جگہ بنانی شروع کر دی۔ ان ہی کی برادری کے طارق انیس ان کے ''شریک'' بن گئے۔ طارق انیس نے ڈاکٹر طاہر جاوید کو 2008 میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی بھجوایا۔ مگر وہاں پہنچنے کے بعد یہ ڈاکٹر شہباز شریف کی ''اصولی سیاست'' کے حامی ہو گئے۔
دہری شہریت آڑے آئی تو یہ سیٹ چھوڑ کر اپنے والد کو اس پر کھڑا کر دیا۔ نواز شریف کی جماعت کا ٹکٹ بھی انھیں مل گیا۔ طارق انیس نے عمر شریف کو گجراتی چوہدریوں کی سرپرستی دلوا دی مگر انور عزیز نے مولوی غیاث کو ''آزاد'' کھڑا کر دیا اور وہ ایک کانٹے دار مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے۔ نواز شریف کا امیدوار تیسرے نمبر پر رہا۔ اس حلقے کے نتائج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف ''شیر'' کا انتخابی نشان لاہور سے محض دو گھنٹے دور شکر گڑھ میں بھی اپنا جلوہ نہیں دکھا سکتا۔ اس نشان کو ایک طاقتور دھڑے والے امیدوار کی بھی ضرورت ہے اور اگر دانیال عزیز آئندہ انتخاب میں نواز شریف کی ٹکٹ پر یہاں سے قومی اسمبلی کی نشست کا انتخاب لڑیں تو ان کی جیت یقینی ہے۔ باقی سب تجزیے ہیں جو انگریزی اخباروں، شہروں کے خوشحال ڈرائنگ روموں اور انٹرنیٹ پر بہت مزے دار سنائی دیتے ہیں۔