قانون کا دائرہ
جب تک عدالت میں سماعت جاری ہے۔ بیانات، جوابی بیانات، بحث و مباحثہ، ثبوت، جرح وغیرہ چلتے رہتے ہیں .
SIALKOT:
آخر وہ کون سا شخص ہے جس کا میٹر کبھی نہ کبھی نہیں گھومتا؟کیوں نہ گھومے جب کہ وہ جس زمین پر رہتا ہے وہ لٹو کی طرح گھوم رہی ہے۔ سورج کے اطراف پروانے کی طرح چکر لگا رہی ہے۔ اور تواور سارا نظام شمسی خلاؤں میں کٹی پتنگ کی طرح ڈولتا پھر رہا ہے۔
امریکا کے ایک طاقتور امریکی صدر جنرل آئزن ہاور نے ایک دعوت میں اپنے دوست کو ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے بتایا ''میں اپنے دور صدارت میں صرف اس شخص سے خوفزدہ رہتا تھا اور اس شخص نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی مجھے خوفزدہ کرنے کی''۔ وہ شخص سپریم کورٹ کا چیف جسٹس تھا۔
جب تک عدالت میں سماعت جاری ہے۔ بیانات، جوابی بیانات، بحث و مباحثہ، ثبوت، جرح وغیرہ چلتے رہتے ہیں، لیکن جونہی فیصلہ آجائے پھر صرف ایک ہی آپشن بچتا ہے، فیصلے کا اس کی روح کے مطابق نفاذ، جس کے آگے آئزن ہاورجیسا امریکی صدر بے بس!
حیدر آباد دکن پر ساتویں نظام میر عثمان علی خان کی حکومت تھی۔ نظام ملوکیت میں بادشاہ کا کہا ہوا بھی قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ عدالت کھچا کھچ بھری ہوئی ہے کسی اہم کیس کا فیصلہ آنے والا تھا۔ عزت مآب جج کا انتظار ہو رہا تھا جو فیصلہ سنانے کے لیے کسی بھی وقت آنے والے تھے۔ کمرہ عدالت میں شاہی ہرکارہ داخل ہوا، اتنے میں عزت مآب جج آگئے۔ شاہی ہرکارے نے ان کے آگے ایک سفید لفافہ رکھ دیا، جج نے لفافہ غور سے دیکھا، کچھ سوچا پھر لفافہ میز پر رکھ دیا، ہرکارے سے کہا کہ فیصلہ سنانے کے بعد لے کر جائے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا لکھا ہوا فیصلہ سنایا۔ پھر لفافے کی پشت پر شاہی القابات وغیرہ لکھنے کے بعد مطلب کا ایک جملہ بھی لکھ دیا۔''میں نے انصاف کیا ہے، ظلِ سبحانی کا نام روشن کیا ہے''۔ سفید لفافہ واپس ہرکارے کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد شاہی عتاب کا انتظار کرنے لگے لیکن ہوا کیا؟جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ جتنا سیاستدان لچکدار ہوتا ہے اتنا ہی جج بے لچک (Rigid) ۔ اب رہا قانون تو وہ ہوتا ہی اندھا ہے۔
فرض کریں کہ فیصلہ حکومت وقت کے خلاف ہے۔ (سپریم کورٹ کے فیصلے عموماً بعض استثنیٰ کے ،حکومت وقت کے خلاف ہی ہوتے ہیں) اور حکومت وقت اس کے نفاذ میں مخلص نہیں ہے ایسی صورت میں عدالت کے پاس آخری آپشن ''فوج کی مدد'' کا ہے جب کہ فوج حکومت وقت کا (جس کے خلاف عدالتی فیصلے کا نفاذ درکار ہے) ماتحت ادارہ ہے۔ ایسی صورتحال میں فوج کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب اگر مگر سے مبرّا دو ٹوک (فوجی انداز میں) ہونا چاہیے کیونکہ فوج کی بنیاد بھی بے لچک ڈسپلن ہے۔
جس ملک کی اشرافیہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرنے کے بجائے مذاق اڑانے لگے، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی سوالیہ نشان بن جائے، اس سے فائدہ اٹھا کر ملک کی بدمعاشیہ اپنی کمین گاہوں سے نکل کر سڑکوں پر آجاتی ہے اور پولیس بکتر بند گاڑیوں میں گھس جاتی ہے۔ نہ اشرافیہ کا کچھ بگڑتا ہے نہ بدمعاشیہ کا۔ ملک کا معاشی پہیہ جام ہوجاتا ہے اور عوام کے مقدر میں بیروزگاری، اسٹریٹ کرائم، بھتہ خوری، مہنگائی، ٹارگٹ کلنگ لکھ دی جاتی ہے۔ سب صاحبان عقل و خرد بھی کراچی کے مقتل میں گرنے والی لاشوں کا منظر کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ایک اہم سوال یہ بھی قابل غور ہے مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں تاکہ تصادم کی نوبت ہی نہ آئے۔ مجھ ناچیز کا خیال ہے یہ ناممکن ہے۔ مثلاً عدلیہ کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ ریاستی اداروں میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قائم رہے۔ اس کے لیے اس کو مداخلت تو کرنا ہے (چاہے سوموٹو کے ذریعے ہی سہی)۔میڈیا کا فرض یہ ہے کہ اس راز کو افشا کرے جس کو سرکار چھپانا چاہتی ہے۔تاکہ جھوٹ 20 برس بعد افشا نا ہو۔مگر یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب وہ دوسروں کی حدود میں ''تاک جھانک'' کریں۔
قانون کیا ہے؟ معاشرے کے تمام افراد کا باہمی معاہدہ۔ مثلاً ہم ایک دوسرے سے فراڈ نہیں کریں گے، دوسرے کی ناک اور اپنی آزادی کا خیال رکھیں گے۔ اور یہ بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی ایسا کرے گا تو وہ مجوزہ سزا بھگتے گا۔ چنانچہ جب کوئی فراڈ کرتا ہے تو دفعہ 420 کے تحت اس کی سزا بھی بھگتتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کی خلاف ورزی پر سزا تو دی جاتی ہے لیکن قانون کی پابندی پر انعام نہیں دیا جاتا۔ کیونکہ اس کا انعام خوشگوار مستحکم معاشرہ ہے جو پورے معاشرے کا انعام ہے۔مطلب؟ اگر قانون کی حکمرانی ہے تو مستحکم معاشرہ بھی ہے اور خوشگوار ماحول بھی، اگر ایسا نہیں ہے تو ہمارا مقدر بھی وہی ہے جیساکہ ہم بھگت رہے ہیں۔کب تک بھگتتے رہیں گے۔ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔
جب ملکی قانون نہیں چلے گا تو اس کی جگہ جنگل کا قانون لے لے گا اور جنگل کا قانون بولے تو 98 فیصد گھاس کھانے والوں پر دو فیصد خون پینے والوں کی حکومت! راہ فرار ہے کوئی؟
آخر وہ کون سا شخص ہے جس کا میٹر کبھی نہ کبھی نہیں گھومتا؟کیوں نہ گھومے جب کہ وہ جس زمین پر رہتا ہے وہ لٹو کی طرح گھوم رہی ہے۔ سورج کے اطراف پروانے کی طرح چکر لگا رہی ہے۔ اور تواور سارا نظام شمسی خلاؤں میں کٹی پتنگ کی طرح ڈولتا پھر رہا ہے۔
امریکا کے ایک طاقتور امریکی صدر جنرل آئزن ہاور نے ایک دعوت میں اپنے دوست کو ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے بتایا ''میں اپنے دور صدارت میں صرف اس شخص سے خوفزدہ رہتا تھا اور اس شخص نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی مجھے خوفزدہ کرنے کی''۔ وہ شخص سپریم کورٹ کا چیف جسٹس تھا۔
جب تک عدالت میں سماعت جاری ہے۔ بیانات، جوابی بیانات، بحث و مباحثہ، ثبوت، جرح وغیرہ چلتے رہتے ہیں، لیکن جونہی فیصلہ آجائے پھر صرف ایک ہی آپشن بچتا ہے، فیصلے کا اس کی روح کے مطابق نفاذ، جس کے آگے آئزن ہاورجیسا امریکی صدر بے بس!
حیدر آباد دکن پر ساتویں نظام میر عثمان علی خان کی حکومت تھی۔ نظام ملوکیت میں بادشاہ کا کہا ہوا بھی قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ عدالت کھچا کھچ بھری ہوئی ہے کسی اہم کیس کا فیصلہ آنے والا تھا۔ عزت مآب جج کا انتظار ہو رہا تھا جو فیصلہ سنانے کے لیے کسی بھی وقت آنے والے تھے۔ کمرہ عدالت میں شاہی ہرکارہ داخل ہوا، اتنے میں عزت مآب جج آگئے۔ شاہی ہرکارے نے ان کے آگے ایک سفید لفافہ رکھ دیا، جج نے لفافہ غور سے دیکھا، کچھ سوچا پھر لفافہ میز پر رکھ دیا، ہرکارے سے کہا کہ فیصلہ سنانے کے بعد لے کر جائے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا لکھا ہوا فیصلہ سنایا۔ پھر لفافے کی پشت پر شاہی القابات وغیرہ لکھنے کے بعد مطلب کا ایک جملہ بھی لکھ دیا۔''میں نے انصاف کیا ہے، ظلِ سبحانی کا نام روشن کیا ہے''۔ سفید لفافہ واپس ہرکارے کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد شاہی عتاب کا انتظار کرنے لگے لیکن ہوا کیا؟جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ جتنا سیاستدان لچکدار ہوتا ہے اتنا ہی جج بے لچک (Rigid) ۔ اب رہا قانون تو وہ ہوتا ہی اندھا ہے۔
فرض کریں کہ فیصلہ حکومت وقت کے خلاف ہے۔ (سپریم کورٹ کے فیصلے عموماً بعض استثنیٰ کے ،حکومت وقت کے خلاف ہی ہوتے ہیں) اور حکومت وقت اس کے نفاذ میں مخلص نہیں ہے ایسی صورت میں عدالت کے پاس آخری آپشن ''فوج کی مدد'' کا ہے جب کہ فوج حکومت وقت کا (جس کے خلاف عدالتی فیصلے کا نفاذ درکار ہے) ماتحت ادارہ ہے۔ ایسی صورتحال میں فوج کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب اگر مگر سے مبرّا دو ٹوک (فوجی انداز میں) ہونا چاہیے کیونکہ فوج کی بنیاد بھی بے لچک ڈسپلن ہے۔
جس ملک کی اشرافیہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرنے کے بجائے مذاق اڑانے لگے، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی سوالیہ نشان بن جائے، اس سے فائدہ اٹھا کر ملک کی بدمعاشیہ اپنی کمین گاہوں سے نکل کر سڑکوں پر آجاتی ہے اور پولیس بکتر بند گاڑیوں میں گھس جاتی ہے۔ نہ اشرافیہ کا کچھ بگڑتا ہے نہ بدمعاشیہ کا۔ ملک کا معاشی پہیہ جام ہوجاتا ہے اور عوام کے مقدر میں بیروزگاری، اسٹریٹ کرائم، بھتہ خوری، مہنگائی، ٹارگٹ کلنگ لکھ دی جاتی ہے۔ سب صاحبان عقل و خرد بھی کراچی کے مقتل میں گرنے والی لاشوں کا منظر کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ایک اہم سوال یہ بھی قابل غور ہے مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں تاکہ تصادم کی نوبت ہی نہ آئے۔ مجھ ناچیز کا خیال ہے یہ ناممکن ہے۔ مثلاً عدلیہ کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ ریاستی اداروں میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قائم رہے۔ اس کے لیے اس کو مداخلت تو کرنا ہے (چاہے سوموٹو کے ذریعے ہی سہی)۔میڈیا کا فرض یہ ہے کہ اس راز کو افشا کرے جس کو سرکار چھپانا چاہتی ہے۔تاکہ جھوٹ 20 برس بعد افشا نا ہو۔مگر یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب وہ دوسروں کی حدود میں ''تاک جھانک'' کریں۔
قانون کیا ہے؟ معاشرے کے تمام افراد کا باہمی معاہدہ۔ مثلاً ہم ایک دوسرے سے فراڈ نہیں کریں گے، دوسرے کی ناک اور اپنی آزادی کا خیال رکھیں گے۔ اور یہ بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی ایسا کرے گا تو وہ مجوزہ سزا بھگتے گا۔ چنانچہ جب کوئی فراڈ کرتا ہے تو دفعہ 420 کے تحت اس کی سزا بھی بھگتتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کی خلاف ورزی پر سزا تو دی جاتی ہے لیکن قانون کی پابندی پر انعام نہیں دیا جاتا۔ کیونکہ اس کا انعام خوشگوار مستحکم معاشرہ ہے جو پورے معاشرے کا انعام ہے۔مطلب؟ اگر قانون کی حکمرانی ہے تو مستحکم معاشرہ بھی ہے اور خوشگوار ماحول بھی، اگر ایسا نہیں ہے تو ہمارا مقدر بھی وہی ہے جیساکہ ہم بھگت رہے ہیں۔کب تک بھگتتے رہیں گے۔ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔
جب ملکی قانون نہیں چلے گا تو اس کی جگہ جنگل کا قانون لے لے گا اور جنگل کا قانون بولے تو 98 فیصد گھاس کھانے والوں پر دو فیصد خون پینے والوں کی حکومت! راہ فرار ہے کوئی؟