کراچی اور ایم کیوایم
الطاف حسین مقبولیت کے نشہ میں بدمست ہو چکے تھے
اوائل 1992ء کی بات ہے۔ رات آدھی بیت چکی تھی۔کراچی کسی زمانے میں راتوں کوجاگتا ہوگا، مگراب ایسا نہیں تھااور سرشام ہی شہر کے گلی کوچوں میں ویرانی برسنے لگتی تھی۔ روشنیوں کاشہرکہنے کواب بھی میونسپل کمیٹی کے قمقموں میں نہارہاتھا، مگراس کی روایتی رونق کا کہیںنام ونشان نہ تھا۔ آج بھی دن کوپہیہ جام ہڑتال تھی۔ میں اورمیرا دوست علی مزاری شاہراہ فیصل سے گزررہے تھے۔
علی مزاری بہت پڑھا لکھا سندھی نوجوان تھااورکراچی سے اس کوبڑا لگاؤتھا۔ وہ یہیں پلابڑھا اورجوان ہواتھا۔سڑک پرگہرا سناٹا طاری تھا۔ علی مزاری نے تشویش بھرے لہجہ میں کہا،آج تو بالکل ہی سناٹاہے یار۔ اس کے مضطرب ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کراچی میں ان دنوں رات کا سفرخطرے سے خالی نہیں سمجھاجاتاتھا۔ ہم اپنی باتوں میں مگن تھے کہ دفعتاً سرخ بتی پرگاڑی رک گئی۔ اگلے چند لمحوں میں ہمارے پیچھے ایک موٹر سائیکل آکے رک گئی۔ موٹر سائیکل پرسوارنوجوان نے چہرے پررومال باندھا ہوا تھا، جو پہلا اندیشہ ہمارے ذہن میں پیداہوا، وہ یہ تھا کہ ہو نہ ہو یہ کوئی دہشتگرد ہے۔
علی نے ڈرائیور سے کہا،گاڑی بھگالو۔ اتنی دیرمیں نوجوان کی موٹر سائیکل بند ہوگئی۔ اس نے اس کوسٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگرکامیاب نہ ہوا اوردیکھتے ہی دیکھتے موٹر سائیکل سے کودااور ایک طرف کوسر پٹ بھاگنے لگا۔ علی کے ڈرائیور نے زور سے قہقہہ لگایااور کہا، صاحب لگتا ہے، جس طرح ہم اس سے کوئی 'ٹارگٹ کلر'سمجھ رہے تھے، وہ بھی ہم کو 'ٹارگٹ کلر' سمجھ رہا تھا۔'ٹارگٹ گلر'کی اصطلاح کا بے دریغ استعمال پہلی بارمیں نے کراچی میں ہی سنا۔
کراچی میں ان دنوں، میں ایک موقر اردو جریدے کے نمایندہ خصوصی کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا تھا۔ کراچی صدر کے گنجان آبادعلاقہ میں واقع ہوٹل میرا مستقل ٹھکانہ تھا۔ اس ہوٹل میں پہلی بار میں1990ء کے الیکشن کے دنوں میں آیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب کراچی شہر میں الطاف حسین کی مقبولیت اپنے عروج پرتھی۔ ایم کیوایم کا یہ دوسرا الیکشن تھا۔ پہلے الیکشن میں ایم کیوایم کے ہاتھوں ماضی کی سیاست کے تمام برج زمیں بوس ہوچکے تھے۔
کراچی میں بہت کچھ بدل چکاتھا اوربہت کچھ بدل رہاتھا۔ مگر تبدیلی کی یہ لہریں، جس شدت کے ساتھ کراچی میں موجود اپنی حریف پارٹیوں سے ٹکرا رہی تھیں، اتنی ہی شدت کے ساتھ آپس میں بھی ٹکرارہی تھیں۔ الطاف حسین مقبولیت کے نشہ میں بدمست ہو چکے تھے اورکچھ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ ایم کیوایم کے باہر اپنے مخالفوں کوتسخیر کرنے کے بعداب ایم کیوایم کے اندربھی اپنے مخالفوں کوکچل دینا چاہتے ہیں۔
'جو قائد کا غدارہے، وہ موت کاحق دارہے' نعرے لگنا شروع ہوگئے تھے۔ ایم کیوایم کے اندریہ کشمکش اب ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ بعض علاقوں میں الطاف کے حامی اور مخالف گروہوں کے درمیان خون خرابہ معمول بن چکاتھا۔ ان حالات میں رینجرزکی کراچی میں موجودگی عام سی بات لگتی تھی اورجگہ جگہ ریت کی بوریوں کے پیچھے ریفلیں تانے رینجرزکراچی کے منظرنامے کامستقل حصہ بن گئے تھے۔
یہ انھی دنوں کی بات ہے کہ برنس روڈ پرایم کیوایم کا انتخابی جلسہ ہوا، تاحد نگاہ انسانوں کا سمندر۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنابڑا اور اتنا پرجوش جلسہ پہلی باردیکھاتھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملکی سیاست میں کنسرٹ ٹائپ جلسوں کا آغاز عمران خان سے بہت سال پہلے ایم کیوایم کرچکی ہے، نغمے، ترانے، بھنگڑا وغیرہ۔ الطاف حسین،عظیم احمدطارق کے ہمراہ کہیں رات گئے جلسہ گاہ میں آئے تھے۔ عظیم احمد طارق، جو ایم کیوایم کے 'چیئرمین' کہلاتے تھے ، بڑے ہی مرنجان مرنج آدمی تھے۔
جب پہلی باربرادرمکرم نصیر احمد سلیمی کی معرفت نائن زیرو میںان سے ملنے کا اتفاق ہوا، توان کودیکھ کر یہ باور کرنا مشکل تھاکہ ایم کیوایم جیسی جارحانہ جماعت کی تنظیم اس دھان پان شخص کے ہاتھ میں ہے۔ اپنے انداز نشست وبرخاست میں عظیم احمد طارق سیاست دان لگتے ہی نہیں تھے۔ لہجہ اتنانرم جیسے کوئی کوی(شاعر) آپ کو اپنی کویتا(شاعری)سنا رہاہو۔ افسوس کہ عظیم احمد طارق بھی بعد میں ایم کیوایم کی باہمی لڑائیوں میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ برنس روڈ کے اس انتخابی جلسہ میں ایم کیوایم کی پوری قیادت جمع تھی۔ الطاف حسین نے اس رات بھی حسب معمول طویل خطاب کیا۔ مگراس زمانے میںان کی تقریروں میں زیادہ ترکراچی اورمہاجروں کے مسائل پربات ہوتی تھی اوروہ اشتعال انگیزی نہیں پائی جاتی تھی، جولندن میں مستقلاًرہنے کے بعدان کاشعار ہوگئی تھی۔
یہی وہ الیکشن تھے، جس میں اسلامی جمہوری اتحاد،جس کی سربراہی نوازشریف کر رہے تھے، اور ایم کیوایم، جس کی سربراہی الطاف حسین کر رہے تھے، کے درمیان آخری مرحلہ میں ایڈجسٹمنٹ ہو گئی اوراسلامی جمہوری اتحاد نے کراچی میں ایم کیوایم کے مقابلہ میں کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیاتھا،جس پرناراض ہوکر جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد نے اسلامی جمہوری اتحاد کی جنرل سیکریٹری شپ سے استعفا دے دیا تھا۔ کہنے کو ایم کیوایم الیکشن جیت گئی، اورہرنشست پر اس کی برتری ساٹھ ستر ہزار سے زائد تھی،لیکن اگلے سال ڈیڑھ سال کے اندراندرکراچی میں حالات اتنی تیزی سے خراب ہوئے کہ الطاف حسین نے بھی کراچی سے نکلنے ہی میں عافیت سمجھی۔ پہلے دبئی گئے اور اس کے بعد لندن سدھارگئے،جہاں سے آج تک لوٹ کرنہیں آسکے۔
بہرحال بانی ایم کیوایم کے لندن پہنچتے ہی کراچی میں پہلا فوجی آپریشن شروع ہو گیا۔ کراچی میں دوسرا آپریشن بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں وزیرداخلہ جنرل نصیراﷲ بابر کی کمانڈمیںہوا، اس میں پھر ایم کیوایم کے باغی گروپ کو آگے لانے کی کوشش کی گئی، مگر یہ کامیاب نہ ہو سکی۔ 1997ء میں نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو کراچی میں تیسرے آپریشن کی نگرانی سندھ کے مشیر اعلیٰ غوث علی شاہ نے کی۔ تاہم یہ آپریشن بھی بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوگیا۔ گویا اب یہ چوتھا آپریشن ہے، جو ان دنوںکراچی میں ہو رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تین فوجی آپریشنز میں سے گزرنے کے باوجودجنرل مشرف کی فوجی حکومت کے ساتھ ایم کیوایم کے مراسم انتہائی خوشگوار رہے، بلکہ اس دور میں ایم کیوایم کوغیر رسمی طور پرجنرل پرویزمشرف کا'حلقہ انتخاب'کہاجاتاتھا۔2013ء کے الیکشن میں جنرل مشرف نے جن حلقوں سے الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، ان میں کراچی کاحلقہ بھی شامل تھا،جہاں سے ان کی کامیابی یقینی سمجھی جارہی تھی۔
کراچی میں موجودہ رینجرز آپریشن کی افادیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن کچھ عرصہ پیشترجب سپریم کورٹ نے کراچی میں مختلف پارٹیوں میں مسلح گروہوں کی موجودگی کی نشاندہی کی تھی تو اس میں تنہا ایم کیوایم کا نام نہیں تھا۔ آج مگر عام تاثر یہ ہے کراچی آپریشن کا رخ تنہا ایم کیوایم کی طرف ہے ا وریہی کراچی آپریشن کا کمزور پہلو ہے، اور اگربظاہرکامیاب نظر آنے والاحالیہ آپریشن بھی کراچی کے حالات میں کوئی پائیدار تبدیلی نہ لاسکاتو اس کی واحد وجہ یہی ہوگی۔
آج برسوں بعدرات کے اس پہرجب میں کراچی سے بہت دور اپنے گھر میں بیٹھا اس کے لیے یہ ٹوٹی پھوٹی سطریں لکھ رہاہوں، تومیری آنکھوں میں برسوں پرانی وہ بے انت رات پھر سے جاگ اٹھی ہے، میں کراچی صدر ہوٹل کے ایک کمرے میں بیٹھا ہوں، نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے اورذہن میں علی مزاری کایہ سوال باربارکسی ہتھوڑے کی طرح برس رہاہے کہ اس شہرکوکس کی نظر کھا گئی ہے، اس شہر کوکس کی نظرکھا گئی ہے، آج سوچتا ہوں،کہیں ایسا تو نہیں ، وہ جوشاعر نے کہا تھا ،
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھرکوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
علی مزاری بہت پڑھا لکھا سندھی نوجوان تھااورکراچی سے اس کوبڑا لگاؤتھا۔ وہ یہیں پلابڑھا اورجوان ہواتھا۔سڑک پرگہرا سناٹا طاری تھا۔ علی مزاری نے تشویش بھرے لہجہ میں کہا،آج تو بالکل ہی سناٹاہے یار۔ اس کے مضطرب ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کراچی میں ان دنوں رات کا سفرخطرے سے خالی نہیں سمجھاجاتاتھا۔ ہم اپنی باتوں میں مگن تھے کہ دفعتاً سرخ بتی پرگاڑی رک گئی۔ اگلے چند لمحوں میں ہمارے پیچھے ایک موٹر سائیکل آکے رک گئی۔ موٹر سائیکل پرسوارنوجوان نے چہرے پررومال باندھا ہوا تھا، جو پہلا اندیشہ ہمارے ذہن میں پیداہوا، وہ یہ تھا کہ ہو نہ ہو یہ کوئی دہشتگرد ہے۔
علی نے ڈرائیور سے کہا،گاڑی بھگالو۔ اتنی دیرمیں نوجوان کی موٹر سائیکل بند ہوگئی۔ اس نے اس کوسٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگرکامیاب نہ ہوا اوردیکھتے ہی دیکھتے موٹر سائیکل سے کودااور ایک طرف کوسر پٹ بھاگنے لگا۔ علی کے ڈرائیور نے زور سے قہقہہ لگایااور کہا، صاحب لگتا ہے، جس طرح ہم اس سے کوئی 'ٹارگٹ کلر'سمجھ رہے تھے، وہ بھی ہم کو 'ٹارگٹ کلر' سمجھ رہا تھا۔'ٹارگٹ گلر'کی اصطلاح کا بے دریغ استعمال پہلی بارمیں نے کراچی میں ہی سنا۔
کراچی میں ان دنوں، میں ایک موقر اردو جریدے کے نمایندہ خصوصی کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا تھا۔ کراچی صدر کے گنجان آبادعلاقہ میں واقع ہوٹل میرا مستقل ٹھکانہ تھا۔ اس ہوٹل میں پہلی بار میں1990ء کے الیکشن کے دنوں میں آیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب کراچی شہر میں الطاف حسین کی مقبولیت اپنے عروج پرتھی۔ ایم کیوایم کا یہ دوسرا الیکشن تھا۔ پہلے الیکشن میں ایم کیوایم کے ہاتھوں ماضی کی سیاست کے تمام برج زمیں بوس ہوچکے تھے۔
کراچی میں بہت کچھ بدل چکاتھا اوربہت کچھ بدل رہاتھا۔ مگر تبدیلی کی یہ لہریں، جس شدت کے ساتھ کراچی میں موجود اپنی حریف پارٹیوں سے ٹکرا رہی تھیں، اتنی ہی شدت کے ساتھ آپس میں بھی ٹکرارہی تھیں۔ الطاف حسین مقبولیت کے نشہ میں بدمست ہو چکے تھے اورکچھ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ ایم کیوایم کے باہر اپنے مخالفوں کوتسخیر کرنے کے بعداب ایم کیوایم کے اندربھی اپنے مخالفوں کوکچل دینا چاہتے ہیں۔
'جو قائد کا غدارہے، وہ موت کاحق دارہے' نعرے لگنا شروع ہوگئے تھے۔ ایم کیوایم کے اندریہ کشمکش اب ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ بعض علاقوں میں الطاف کے حامی اور مخالف گروہوں کے درمیان خون خرابہ معمول بن چکاتھا۔ ان حالات میں رینجرزکی کراچی میں موجودگی عام سی بات لگتی تھی اورجگہ جگہ ریت کی بوریوں کے پیچھے ریفلیں تانے رینجرزکراچی کے منظرنامے کامستقل حصہ بن گئے تھے۔
یہ انھی دنوں کی بات ہے کہ برنس روڈ پرایم کیوایم کا انتخابی جلسہ ہوا، تاحد نگاہ انسانوں کا سمندر۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنابڑا اور اتنا پرجوش جلسہ پہلی باردیکھاتھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملکی سیاست میں کنسرٹ ٹائپ جلسوں کا آغاز عمران خان سے بہت سال پہلے ایم کیوایم کرچکی ہے، نغمے، ترانے، بھنگڑا وغیرہ۔ الطاف حسین،عظیم احمدطارق کے ہمراہ کہیں رات گئے جلسہ گاہ میں آئے تھے۔ عظیم احمد طارق، جو ایم کیوایم کے 'چیئرمین' کہلاتے تھے ، بڑے ہی مرنجان مرنج آدمی تھے۔
جب پہلی باربرادرمکرم نصیر احمد سلیمی کی معرفت نائن زیرو میںان سے ملنے کا اتفاق ہوا، توان کودیکھ کر یہ باور کرنا مشکل تھاکہ ایم کیوایم جیسی جارحانہ جماعت کی تنظیم اس دھان پان شخص کے ہاتھ میں ہے۔ اپنے انداز نشست وبرخاست میں عظیم احمد طارق سیاست دان لگتے ہی نہیں تھے۔ لہجہ اتنانرم جیسے کوئی کوی(شاعر) آپ کو اپنی کویتا(شاعری)سنا رہاہو۔ افسوس کہ عظیم احمد طارق بھی بعد میں ایم کیوایم کی باہمی لڑائیوں میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ برنس روڈ کے اس انتخابی جلسہ میں ایم کیوایم کی پوری قیادت جمع تھی۔ الطاف حسین نے اس رات بھی حسب معمول طویل خطاب کیا۔ مگراس زمانے میںان کی تقریروں میں زیادہ ترکراچی اورمہاجروں کے مسائل پربات ہوتی تھی اوروہ اشتعال انگیزی نہیں پائی جاتی تھی، جولندن میں مستقلاًرہنے کے بعدان کاشعار ہوگئی تھی۔
یہی وہ الیکشن تھے، جس میں اسلامی جمہوری اتحاد،جس کی سربراہی نوازشریف کر رہے تھے، اور ایم کیوایم، جس کی سربراہی الطاف حسین کر رہے تھے، کے درمیان آخری مرحلہ میں ایڈجسٹمنٹ ہو گئی اوراسلامی جمہوری اتحاد نے کراچی میں ایم کیوایم کے مقابلہ میں کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیاتھا،جس پرناراض ہوکر جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد نے اسلامی جمہوری اتحاد کی جنرل سیکریٹری شپ سے استعفا دے دیا تھا۔ کہنے کو ایم کیوایم الیکشن جیت گئی، اورہرنشست پر اس کی برتری ساٹھ ستر ہزار سے زائد تھی،لیکن اگلے سال ڈیڑھ سال کے اندراندرکراچی میں حالات اتنی تیزی سے خراب ہوئے کہ الطاف حسین نے بھی کراچی سے نکلنے ہی میں عافیت سمجھی۔ پہلے دبئی گئے اور اس کے بعد لندن سدھارگئے،جہاں سے آج تک لوٹ کرنہیں آسکے۔
بہرحال بانی ایم کیوایم کے لندن پہنچتے ہی کراچی میں پہلا فوجی آپریشن شروع ہو گیا۔ کراچی میں دوسرا آپریشن بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں وزیرداخلہ جنرل نصیراﷲ بابر کی کمانڈمیںہوا، اس میں پھر ایم کیوایم کے باغی گروپ کو آگے لانے کی کوشش کی گئی، مگر یہ کامیاب نہ ہو سکی۔ 1997ء میں نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو کراچی میں تیسرے آپریشن کی نگرانی سندھ کے مشیر اعلیٰ غوث علی شاہ نے کی۔ تاہم یہ آپریشن بھی بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوگیا۔ گویا اب یہ چوتھا آپریشن ہے، جو ان دنوںکراچی میں ہو رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تین فوجی آپریشنز میں سے گزرنے کے باوجودجنرل مشرف کی فوجی حکومت کے ساتھ ایم کیوایم کے مراسم انتہائی خوشگوار رہے، بلکہ اس دور میں ایم کیوایم کوغیر رسمی طور پرجنرل پرویزمشرف کا'حلقہ انتخاب'کہاجاتاتھا۔2013ء کے الیکشن میں جنرل مشرف نے جن حلقوں سے الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، ان میں کراچی کاحلقہ بھی شامل تھا،جہاں سے ان کی کامیابی یقینی سمجھی جارہی تھی۔
کراچی میں موجودہ رینجرز آپریشن کی افادیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن کچھ عرصہ پیشترجب سپریم کورٹ نے کراچی میں مختلف پارٹیوں میں مسلح گروہوں کی موجودگی کی نشاندہی کی تھی تو اس میں تنہا ایم کیوایم کا نام نہیں تھا۔ آج مگر عام تاثر یہ ہے کراچی آپریشن کا رخ تنہا ایم کیوایم کی طرف ہے ا وریہی کراچی آپریشن کا کمزور پہلو ہے، اور اگربظاہرکامیاب نظر آنے والاحالیہ آپریشن بھی کراچی کے حالات میں کوئی پائیدار تبدیلی نہ لاسکاتو اس کی واحد وجہ یہی ہوگی۔
آج برسوں بعدرات کے اس پہرجب میں کراچی سے بہت دور اپنے گھر میں بیٹھا اس کے لیے یہ ٹوٹی پھوٹی سطریں لکھ رہاہوں، تومیری آنکھوں میں برسوں پرانی وہ بے انت رات پھر سے جاگ اٹھی ہے، میں کراچی صدر ہوٹل کے ایک کمرے میں بیٹھا ہوں، نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے اورذہن میں علی مزاری کایہ سوال باربارکسی ہتھوڑے کی طرح برس رہاہے کہ اس شہرکوکس کی نظر کھا گئی ہے، اس شہر کوکس کی نظرکھا گئی ہے، آج سوچتا ہوں،کہیں ایسا تو نہیں ، وہ جوشاعر نے کہا تھا ،
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھرکوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے