ایم کیو ایم اسباب اور حقائق

جب بھی کوئی شے معرض وجود میں آتی ہے تو اس کا کوئی سبب ضرور ہوتا ہے۔

anisbaqar@hotmail.com

جب بھی کوئی شے معرض وجود میں آتی ہے تو اس کا کوئی سبب ضرور ہوتا ہے۔ خواہ وہ کوئی کیمیاوی جزو ہو یا سماجی عمل، یا کوئی تحریک، ان تمام محرکات کا جائزہ لینا ہی اسرار و رموز سے پردہ اٹھاتا ہے۔ واضح رہے کہ مارکیٹنگ بھی ان ہی پروڈکٹس کی ہوتی ہے جس پروڈکٹ کا خلا مارکیٹ میں موجود ہو، اس کے صارف ہوں مگر وہ پروڈکٹ عام لوگوں تک نہ پہنچ پاتی ہو اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ صارفین کا کیا وزن ہے، مقدار ہے، اس پروڈکٹ کے استعمال کرنے والوں کی معاشی حیثیت کیا ہے اور اگر وہ پروڈکٹ مارکیٹ میں آئے گی تو کیا وہ اکلوتی ہوگی یا اس کے مدمقابل کیا کیا ہوں گے۔

بالکل ایسا ہی سیاسی موضوعات کے لیے بھی ہے۔ کون لوگ ہیں، کتنی تعداد میں ہیں، ان کی کیا کیا محرومیاں ہیں، اور ان کے کن پہلوؤں کو منظر عام پر لانا چاہیے۔ جو ایسا عمل کامیابی سے کرتا ہے وہ لیڈر بن جاتا ہے۔ پاکستان تو 1947ء میں بنا مگر مہاجر فیکٹر کا خیال بنگلہ دیش تحریک کے دوران ہی کیوں کر پیدا ہوا؟ خصوصاً سب سے پہلے یہ خیال نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری محمود الحق عثمانی نے اپنی محفل میں عام کیا۔ گرومندر کراچی پر ان کے گھر کے بڑے ہال میں جب گفتگو ہوا کرتی تھی تو وہ اکثر یہ کہا کرتے تھے اور خان عبدالولی خان سے بھی اختلاف کرتے تھے کہ 4 قومیتوں کی بات اب نہ کی جائے بلکہ 5 قومیتوں کی بات ہونی چاہیے۔

گھر پر اردو بولنے والے دانشور اور دیگر سیاسی سماجی کارکن اپنی اپنی آرا کا کھلے عام اظہار کیا کرتے تھے لیکن عثمانی صاحب چونکہ کامریڈوں کے نرغے میں رہتے تھے اس لیے ان کی آواز کو آگے لے کر چلنے والے ان کو نہ ملے بلکہ ان کے چند کامریڈوں نے اپنے وسائل اور نوجوانوں کے ذریعے 1984ء میں جامعہ کراچی کا رخ کیا اور کئی سال کی محنت کے بعد کراچی یونیورسٹی میں اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے قائدین میں وہی لوگ رہے جو یکے بعد دیگرے منظرعام پر آتے رہے اور جاتے رہے، مگر رائے مشورے میں اختر رضوی، احمد الطاف ، ڈاکٹر اقبال، کبھی کبھی رئیس امروہوی اور دیگر اردو داں حضرات تھے، بقیہ کل جو لڑکے تھے تو آپ حضرات جانتے ہیں، رہنما بنے، جو اے پی ایم ایس او کے بانیان میں سے ہیں، مگر یہ تنظیم گو کہ بزرگوں کے ذریعے معرض تصور اور تفکر میں آئی مگر پھر بھی کلی طور پر ان کی تابع نہ تھی اور اپنی تنظیمی سرگرمیاں یہ حضرات ازخود چلاتے رہے۔ کم آمدنی سے ابتدا ہوئی اور رفتہ رفتہ جدوجہد کے ذریعے اپنا وجود پھیلاتے رہے۔

یہ واحد پارٹی تھی جس نے طلبا تحریک سے سیاسی شکل اختیار کی اور 1986ء میں ایک بھرپور تحریک کی شکل اختیار کر لی اور ایسا لگا کہ یہ کراچی کے لوگوں کی آواز ہے۔ خاص طور سے بشریٰ زیدی کی حادثاتی موت نے پارٹی کو توانائی بخشی اور کراچی کے لوگوں کی ہمدردیاں پارٹی کے ساتھ ہوتی گئیں۔ آپ سوچیں گے کہ ایک لڑکی کی موت نے کیسے توانائی بخشی؟ درحقیقت اس موت نے اردو اسپیکنگ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا اور ٹرانسپورٹرز میں احساس ذمے داری پیدا کیا، مگر وہ بے راہ روی بھی تحریک میں رہی جو جوانی کے ادوار میں ہوتی ہے، یعنی سرعت اور شدت۔ بہرصورت اے پی ایم ایس او ایک پارٹی کی شکل اختیار کر گئی۔ بعد میں حکومت وقت اور دیگر لوگوں کے اعتراضات کی بنا پر لفظ مہاجر کو غالباً 1992ء میں متحدہ قومی موومنٹ کی شکل میں بدل دیا گیا، جس سے پارٹی وقتی طور پر دولخت ہوئی مگر متحدہ قومی موومنٹ ہی بالآخر کامیاب اور مرد میدان رہی۔

یہ تمہید اس لیے تحریر کی گئی تاکہ پارٹی کی ارتقائی تصویر لوگوں کے سامنے رکھی جا سکے کہ مرحلہ وار کون ترقی کرتا رہا اور مہاجر قومی موومنٹ کا وہ دھڑا آگے بڑھتا رہا جس کو متحدہ کا نام دیا گیا۔ گو کہ مہاجر اسٹوڈنٹس یونین سے متحدہ قومی موومنٹ بننے والی جماعت ہی آگے بڑھتی رہی اور بے نظیر بھٹو شہید نے اسی تنظیم کو حقیقت مان کر پہلی مرتبہ اتفاق کی مہر ثبت کی تھی۔ قیام پاکستان کے 37 یا 40 سال بعد کیونکر ایسی جماعت معرض وجود میں آئی اور اس وقت تک ڈی ایس ایف یعنی ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور اسلامی جمعیت طلبا ہی کیوں کراچی اور سندھ کے تمام علاقوں میں کامیاب ہوتی رہیں جب کہ قیام پاکستان کو ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا لفظ مہاجر اپنے اندر وسیع مفہوم اور معنویت کیونکر رکھتا گیا؟


اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ لفظ مہاجر جو بھارت سے آنے والے خود کو مہاجر نہیں کہلوانا چاہتے تھے، 36 یا 37 سال بعد انھوں نے یہ لفظ کیونکر قبول کر لیا اور وہ بھی خوش دلی سے؟ اگر اس کی تحقیق کی جائے اور حقیقت کا اندازہ لگانا مقصود ہو تو لفظ مہاجر پہلی مرتبہ بھٹو شہید کے Talented Cousin چچا زاد بھائی ممتاز بھٹو کی وجہ سے معرض وجود میں آیا۔ 1972ء میں ایک ایسا آرڈیننس نافذ کیا گیا جس سے اردو زبان بولنے والے بے حد غمگین ہوئے، کیونکہ اس آرڈیننس نے اردو کی حیثیت کم کر کے رکھ دی تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہاجر ہونے کا احساس اردو داں طبقے میں ہوا اور ان کے نعرے نے خصوصیت سے اردو زبان کے ان شعرا، ادبا اور دانشوروں کو بھی ہمنوا بنا لیا جو کبھی ان نعروں سے دور رہتے تھے۔ رئیس امروہوی بھی ان شعرا میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے اس آرڈیننس کے خلاف صبح کے روزنامے میں ایک طویل نظم ''اردو کا جنازہ'' لکھی۔

یہ شعلہ نوائی لوگوں کو گھروں سے نکال لائی اور کراچی میں ایک بھونچال برپا ہو گیا، سیکڑوں زخمی ہوئے، دسیوں شہید ہوئے اور پھر اس آرڈیننس میں ترمیم کی گئی۔ یہ بھٹو کی کابینہ کے لیے پہلا جھٹکا تھا، یعنی کسی خیال فکر اور نئی بندش نے نئے سیاسی حالات کو جنم دیا، اس کے بعد سندھ میں کوٹہ سسٹم کا آغاز۔ یہ تمام وہ عوامل تھے جس نے 1947ء کے بعد نئے سیاسی حالات کو جنم دیا۔ درحقیقت مہاجرین آئے تو لٹے پٹے آئے تھے مگر وہ اپنا وزیراعظم بھی ساتھ لائے تھے، جسے پاکستان میں گولی کا نشانہ بنایا گیا، اس نے بھی ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کے دلوں میں وسوسے جنم دیے۔ ایم کیو ایم کی تحریک کی مضبوطی اور کوٹہ سسٹم اور دیگر محرومیوں نے نوجوانوں کو مہاجر کاز کے اردگرد اکٹھا کر دیا۔

لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایم کیو ایم کی تشکیل میں ان اسباب کا بڑا دخل ہے، جس سبب اس خیال نے ایک تحریک کی شکل اختیار کی۔ غرض حکمرانوں کی غلط پالیسیاں اس تنظیم کو بنانے کی واحد وجہ ہیں، لہٰذا اب چونکہ بہت دیر ہو چکی ہے، جب شہید بے نظیر بھٹو نے پارٹی کو تسلیم کر لیا اور پہلا معاہدہ کیا تو پھر اس کو ختم کرنا، پابندی لگانا، غیر دانشمندانہ عمل ہو گا۔ مصطفیٰ کمال اور ان کے رفقا کو اب موجودہ حالات میں ہی ان کا مقابلہ کرنا ہو گا، پارٹی پر پابندی لگانے سے بہتر یہ ہو گا کہ وہ اسباب یکسر ختم کر دیں جن کی بنا پر پارٹی نے جنم لیا۔

ٹی وی چینل پر اینکر پرسن جمع کر کے پارٹی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پارٹی کو جتنی مشکلات بھوک ہڑتال کے خاتمے والے روز 22 اگست کو اٹھانی پڑیں اور فاروق ستار نے قائد تحریک سے جس قدر جلد دوری اختیار کر لی، وہ کافی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ چینل جو ایم کیو ایم مخالف لوگوں کو رائے زنی کا بے تحاشا موقع دے رہے ہیں یہ کوئی اچھا عمل نہیں، کیونکہ خوف سے ایک حد تک لوگوں کو دبایا جا سکتا ہے، زیادہ عرصے تک خوف طاری نہیں رہتا اور خصوصاً آج کے دور میں یہ عمل بے سود ہے۔ ایم کیو ایم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی جو لوگ حکومت کو ترغیب دے رہے ہیں وہ سیاست سے نابلد اور لگتا ہے وہ محض دوسروں کے لکھے الفاظ دہرا رہے ہیں۔

میرا ایم کیو ایم سے کوئی لینا دینا نہیں، بس میری ٹی وی چینلز کے اہل دانش سے یہی گزارش ہے کہ وہ لوگ جن کے سیاسی مقاصد ہیں ان کو اپنے پلیٹ فارم سے اتنا بولنے کا موقع نہ دیں جس سے چینل کی بینائی کمزور ہو جائے۔ جو لوگ ٹی وی پر آ کر دماغوں کو پراگندہ کرنے میں مشغول ہیں وہ نہ سیاست سے واقف ہیں اور نہ ان اثرات سے جو زبان درازی سے پیدا ہو سکتے ہیں، ملک کی کوئی سیاسی پارٹی ایم کیو ایم کو بندش میں رکھنا نہیں چاہتی، کیونکہ بھوک ہڑتال والے روز کے آخری لمحے جو تقریر بیرون ملک سے ہوئی نہ کسی نے اس کی ستائش کی اور نہ کرنے کو تیار ہے۔ جب کہ فاروق ستار نے اس موضوع کو ہی ختم کر دیا اور جو بار بار یہ موضوع نکالتا ہے وہ ایک قسم کی بار بار یاد دہانی کراتا ہے کیونکہ علامہ مشرقی، خان عبدالغفار خان، ولی خان اور جی ایم سید اسی قسم کے جملے ماضی میں کئی بار ادا کر چکے ہیں، مگر وہ قصہ پارینہ ہو چکے اور پاکستان ہنوز ایک تابندہ حقیقت ہے۔
Load Next Story