ڈھاکا ۔۔۔۔۔ مسلم لیگ کی جنم بھومی
بنگلادیش کے دارلحکومت کے بارے میں دل چسپ حقائق
اِس نگری کی داستان بھی عجب ہے۔۔۔ 1906ء میں یہیں سے ایک ایسی لہر اٹھتی ہے، جو ہندوستان بھر میں یوں موج زَن ہوتی ہے کہ 41 برس میں ہندوستان کا جغرافیہ بدل ڈالتی ہے، پھر 24 برس بعد ایک اور بے چین لہر برپا ہوتی ہے، اور 1971ء میں ایک نئے کنارے سے جا لگتی ہے اور ایک بار پھر سرحدیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
یہ تذکرہ ہے، بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکے کا۔۔۔ جو مغل فرماں رواں کے نام پر 'جہانگیر نگر' بھی کہلایا، اسی مناسبت سے 1970ء میں وہاں 'جہانگیر نگر یونیورسٹی' بھی قائم کی گئی۔
سترہویں صدی میں جب برصغیر میں مغلوں کی تاج داری تھی، یہ پہلی بار بنگال کا دارالحکومت بنا۔۔۔ تجارتی مرکزیت کا یہ عالم تھا کہ ہندوستان میں مغلوں کی نصف آمدن فقط اس شہر کی ہوتی تھی۔ اسی شہر میں رواں دواں خلیج بنگال تک رسائی دینے والا دریا 'بوڑھی گنگا' مغلوں کو بھی حیران کرتا تھا۔ ڈھاکا میں جا بہ جا مغلیہ دور کے باغات، قلعے، مساجد اور دیگر تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔
اٹھارہویں صدی کے اوائل میں جب مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی، تو بنگال کے صوبے دار علی وردی خان نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور 1756ء میں اپنے نواسے نواب سراج الدولہ کو ولی عہد بنایا۔ اس دور میں انگریز اپنے قدم جما رہے تھے۔ ایسے میں سراج الدولہ نے کلکتے پر حملہ کرکے 20 جون 1757ء کو اسے اپنی عمل داری میں لے لیا اور مانک چند اور میرجعفر کو منتظم متعین کیا۔ بعدازاں میرجعفر نے غداری کرتے ہوئے انگریزوں کا ساتھ دیا، یہ فعل تاریخ میں میر جعفر کی غداری کے نام سے معروف ہے۔ پلاسی کے مقام پر انگریزوں اور باغیوں سے جنگ کے نتیجے میں سراج الدولہ کی حکومت ختم ہوئی اور انہیں شہید کردیا گیا اور پھر انگریز کی آشیر باد سے میر جعفر بنگال کا نواب بنا۔ انگریز کے دور میں بھی یہاں کے ریشم اور ململ کی بڑی شہرت رہی، 1851ء اور 1861ء میں لندن کی نمائشوں میں یہاں کی ململ کو اول انعام دیا گیا۔
ڈھاکا 'بوڑھی گنگا' کے شمال میں واقع ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں مغلوں نے پہلی بستی بسائی تھی۔ تاریخی مقامات میں صدر گھاٹ اور بادام تلی گھاٹ میں لوگ بہ ذریعہ کشتی دریا کی سیر کے لیے جاتے ہیں۔ صدر گھاٹ پر دو پرانی توپیں ہیں۔ ایک کا نام 'کالے جھم جھم' اور دوسری کا نام 'بی بی مریم' ہے۔ لوگ عام طور پر پہلی توپ کو مردانی توپ اور دوسری کو زنانی توپ کہتے ہیں۔
صدر گھاٹ سے مغرب کی طرف دو تاریخی عمارتیں الگ الگ واقع ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بڑا کٹڑا ابتدا میں ایک محل تھا۔ اس کے چوکور احاطے کے چاروں طرف 22 کمرے اور درمیان میں ایک صحن ہے۔ چھوٹا کٹڑا ایک سرائے تھی۔ بڑے کٹڑے کے جنوب میں سواری گھاٹ کے نام سے ایک مچھلی منڈی ہے۔
قلعہ لال باغ ایک نامکمل قلعہ ہے، جسے عالم گیر کے تیسرے بیٹے شہزادہ محمد اعظم نے شروع کرایا، پھر اس کی ذمے داری مغل گورنر شائستہ خان کو سونپی، جس کی بیٹی پری بی بی کی فوتگی کی بنا پر اس کی تعمیر مکمل نہ ہوسکی، اس کا مقبرہ یہیں واقع ہے۔ یہاں سیاہ پتھروں کی خان محمد مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے۔
قلعہ لال باغ کے مشرق میں مرکزی جیل ہے۔ اس کے شمال میں 1642ء میں تعمیر ہونے والی چار میناروں والی حسینی دالان مسجد واقع ہے۔ یہاں وضو کے لیے بنایا گیا میٹھے پانی کا چالیس فٹ گہرا تالاب اب بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ سات گنبد مسجد بھی قابل ذکر ہے، جو 1680ء میں تعمیر ہوئی۔ مشہور مسجد بیت المکرم مشرقی پاکستان کے زمانے میں تعمیر ہوئی، یہ کمشنر ڈھاکا جناب جی اے مدنی نے تعمیر کرائی، جو کراچی میں بھی اس زمانے میں مسجد خضرا تعمیر کرا چکے تھے۔ مسجدوں کے اس شہر میں جہاں تبلیغی جماعت کا سب سے بڑا اجتماع منعقد ہوتا ہے، وہیں اس شہر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ یہاں شنکریا بازار کے نام سے 300 سال پرانی ایک 'ہندو گلی' بھی موجود ہے۔
ڈھاکا کا نام 'ڈھک' نامی درخت کی کثرت کی وجہ سے ڈھاکا ہوا، جب کہ ایک روایت کے مطابق 'ڈھکش وَری' سے ڈھاکا ہوا۔ 1983ء تک ڈھاکا کی انگریزی ہجے Dacca تھی، جسے Dhaka کیا گیا۔ 17 ملین آبادی کے اس شہر کی جدید تعمیر انیسویں صدی میں ہوئی۔ 1887ء میں ڈھاکے کو ضلعے کا درجہ دیا گیا۔ 1905ء میں تقسیم بنگال کے بعد ڈھاکا مشرقی بنگال اور آسام کا دارالحکومت قرار پایا۔ یہ تقسیم 1912ء تک برقرار رہی۔ تقسیم بنگال کے دوران ڈھاکے کا کرزن ہال تعمیر ہوا، جو جنرل پوسٹ آفس کے قریب واقع ہے۔ کرزن ہال میں مغل طرز تعمیر کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
ڈھاکا شہر کا وہ حصہ جو برطانوی نوآبادیاتی دور میں تعمیر ہوا، برٹش سٹی کہا جاتا ہے۔ اس میں مشہور جگہ بانگا بھابن ہے، جو صدر بنگلا دیش کی اقامت گاہ ہے، سو برس پرانی یہ عمارت برطانوی دور میں گورنر ہاؤس کے طور پر بھی استعمال ہوئی، موتی جھیل کی طرف نیشنل اسٹیڈیم واقع ہے۔ 1872ء میں تعمیر ہونے والی تاریخی احسن منزل ڈھاکا کے نواب خاندان کا مسکن رہی، اب اسے عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔
اپنے قیام کے بعد سے بہتیرے سیاسی مدوجزر دیکھنے والی اس حویلی کو ہی ''آل انڈیا مسلم لیگ' کی جنم بھومی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 30 دسمبر 1906ء کو اسی جگہ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس ڈھاکا میں منعقد ہوئی، نواب وقار الملک (1841ء تا 1917ء) کے زیر صدارت اس جلسے میں مسلمانان برصغیر کے مسائل پر غوروخوص ہوا اور ایک سیاسی تنظیم بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی گئی، یہ کار انجام پایا نواب آف ڈھاکا سلیم اللہ خان (1871ء تا 1915ء) کے ہاتھوں۔۔۔ نواب محسن الملک (1837ء تا 1907ء) بھی ان کے ہم رکاب تھے۔
1940ء میں جب لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی، تو اسے پیش کرنے والے شیر بنگال اے کے فضل الحق بھی ڈھاکے میں آسودۂ خاک ہیں، یہی نہیں ان کے ساتھ تحریک پاکستان کے مزید دو راہ نما اور پاکستان کے سابق وزرائے اعظم خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی بھی ابدی نیند سو رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے لیے 1946ء کے انتخابات میں ہندوستان بھر کی جن 30 نشستوں پر مسلم لیگ نے میدان مارا، ان میں بالترتیب چھے، چھے نشستیں بنگال اور پنجاب کی بھی تھیں اور ایک نشست سندھ، جب کہ باقی 17 نشستیں دلی، بمبئی، بہار، اور یوپی وغیرہ سمیت اُن علاقوں کی تھیں، جو کبھی پاکستان کا حصہ نہ بن سکے۔
جب پاکستان بنا، تو مشرقی بنگال مشرقی پاکستان کہلایا اور ڈھاکا اس کا دارالحکومت۔ ملک کے مغربی حصہ اس سے جغرافیائی طور پر ہزاروں میل دور تھا۔ 1948ء میں پہلی بار اسی شہر میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کی بات نکلی، تو فوراً قائداعظم ڈھاکے گئے اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ملک کی قومی زبان صرف اردو ہی ہوگی، البتہ صوبے چاہیں، تو اپنے صوبوں میں اردو کے ساتھ اپنی زبان رائج کرسکتے ہیں۔ اس وقت تو یہ معاملہ دب گیا، لیکن لیاقت علی خان کے قتل کے بعد یہ مسئلہ پھر سر اٹھانے لگا، 21 فروری 1952ء کو بنگالی زبان کے حق میں طلبہ نے ایک مظاہرہ کیا، جس میں صورت حال خراب ہوئی، پولیس کی فائرنگ سے چار طلبا عبدالسلام، رفیق الدین احمد، ابوالبرکات اور عبدالجبار جان سے گئے۔
ان طلبہ کی یاد میں 23 فروری کو ایک مینار بنایا گیا، جسے تین روز بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مسمار کر دیا۔ 1954ء میں یہ مینار دوبارہ تعمیر کیا گیا، اس کے بعد جگتو فرنٹ کی صوبائی حکومت کے دوران بھی اس کی تعمیر کا سلسلہ رہا، 1971ء کی شورش میں اسے خاصا نقصان پہنچا، بنگلادیش بننے کے بعد اس مینار کی ازسرنو تعمیر کی گئی۔ نومبر 1999ء میں21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا گیا اور 2000ء میں پہلی بار یہ دن منایا گیا۔ایسے میں یہاں کے چوک بازار میں واقع ''اردو روڈ'' کی موجودگی حیران کرتی ہے۔
پاکستان کے 1962ء کے دستور میں ڈھاکے کو لیجسلیٹو دارالحکومت قرار دیا گیا، 1960ء میں دارلحکومت کی کراچی سے منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کا مرکز تو اسلام آباد قرار پایا، لیکن قومی اسمبلی ڈھاکا میں بنی۔ 1965ء کے صدارتی چناؤ میں سرزمین بنگال نے ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی، پلٹن میدان ڈھاکا میں اُن کا تاریخی استقبال کیا گیا۔ ڈھاکا کا تاریخی سہروردی پارک (رمنا ریس کورس) ہائی کورٹ کے قریب واقع ہے۔ یہ وہی مقام ہے، جہاں نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے کے بعد مارچ 1971ء میں شیخ مجیب الرحمن نے مغربی پاکستان سے اعلانیہ بغاوت کے بعد سلامی لی اور بنگلادیشی پرچم لہرائے گئے، جس کے بعد فوج نے آپریشن سرچ لائٹ کیا اور ایسے حالات پیدا ہوئے کہ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالے اور بنگلادیش کے قیام کا اعلان ہوا۔
حکیم محمد سعید ڈھاکا کے ایک سفرنامے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے 1950ء میں خود دیکھا کہ ڈھاکا کے ایک غیر مقامی کمشنر نے ڈھاکا کلب پر یہ احکامات آویزاں کر دیے تھے کہ یہاں بنگالیوں کا داخلہ ممنوع ہے، جس سے بنگلادیش کے قیام کے کواکب عیاں ہیں۔
10جنوری 1972ء کو سقوط ڈھاکا کے بعد جب عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن لندن سے برطانیہ کے 'رائل ایئر فورس' کے طیارے میں براستہ دلی ڈھاکا پہنچے، تو ایک بہت بڑے مجمع نے ان کا والہانہ استقبال کیا، لیکن کسے پتا تھا کہ اس تاریخ ساز سواگت کرنے والے ڈھاکے میں ہی وہ محض ساڑھے تین برس بعد (15 اگست 1975ء کو) اپنے بھائی، بیوی، تین بیٹوں، دو بہوؤں، بھتیجے اور سالے سمیت قتل کردیے جائیں گے، شیخ مجیب کے اہل خانہ سمیت 20 افراد کے اس قتل کے بعد ان کے خاندان میں صرف دو بیٹیاں شیخ ریحانہ اور شیخ حسینہ مغربی جرمنی میں ہونے کے باعث بچ گئیں۔ شیخ حسینہ کار زار سیاست میں اتریں، تو2010ء میں اس واقعے میں ملوث پانچ فوجی افسران کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
٭اسٹاک ایکس چینج سے سائیکل رکشوں تک
ڈھاکا کی دیگر خصوصیات کا جائزہ لیا جائے، تو ڈھاکا اسٹاک ایکس چینج کا شمار جنوبی ایشیا کی نمایاں ترین اسٹاک ایکس چینج میں ہوتا ہے۔ ڈھاکا میں سالانہ بنیادوں پر کئی ثقافتی اور روایتی میلوں کا انعقاد ہوتا ہے، جن میں Ekushey بک فیئر اور ڈھاکا ادبی میلہ قابل ذکر ہیں۔ بڑی تعداد میں چلنے والے سائیکل رکشے آج بھی اس شہر کا خاصہ ہیں، اسی بنا پر اسے رکشا کیپٹل ان دی ورلڈ بھی کہا جاتا ہے۔ چائے کے ڈھابوں سے آراستہ اس شہر میں رکشے ڈرائیور روزانہ 20 پیالیاں تک پینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ڈھاکے میں چاول، اور مچھلی اور جھینگے کے روایتی کھانوں کے ساتھ خطے کے خاص پکوان بریانی اور کباب کے شوقین بھی موجود ہیں۔ ناریل اور پٹ سن تو بنگال بھر کی سوغات کہا جاتا ہے۔ ڈھاکا کا چڑیا گھر مرکز شہر سے تقریباً 16 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 1921ء میں قائم ہونے والی تاریخی ڈھاکا یونی ورسٹی ڈھائی سو ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔
٭محصور پاکستانیوں کے کیمپ
ڈھاکے میں ساڑھے تین لاکھ پناہ گزین محصور پاکستانیوں (بہاریوں) کے کیمپ آج بھی اس تاریخ کی الم ناک یاد دلاتے ہیں۔ 45 سال سے یہاں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو لانے کے لیے اسلامی کانفرنس تنظیم، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی طرف سے امداد بھی دی جاتی رہی۔ 1974ء اور 1981ء کے بعد محصورین کی کچھ تعداد 1992ء میں پاکستان لائی گئی۔ آخری بار لائے گئے بہاریوں کو سندھ کے بہ جائے پنجاب (میاں چنوں) میں لاکر بسایا گیا۔ بدقسمتی سے اس کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔
دگرگوں حالت ایسی ہے کہ اوسطاً ایک کمرے میں نو افراد رہنے پر مجبور ہیں اور 100 لوگوں کے لیے ایک بیت الخلا ہے۔ سماجی تنظیم ''اوبیٹ ہیلپرز'' کے روح رواں انوار خان نے دو برس قبل ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وہاں کا آنکھوں دیکھا یوں بتایا کہ 'بہاریوں کے کیمپوں میں خواتین تک کو غسل خانے میسر نہیں، حالت یہ تھی کہ اس موقع پر گلی کے دونوں سروں پر بچوں کو کھڑا کر دیا جاتا تھا۔' 2008ء میں ڈھاکا ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ 1971ء کے بعد پیدا ہونے والوں کی شہریت اور حق رائے دہی کو تسلیم کیا جائے، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے شہریت لی، جب کہ پرانے لوگ اب بھی پاکستان کی امید پر زندہ ہیں۔ 2014ء میں عوامی لیگ کی آشیر باد سے ان لوگوں پر حملہ کیا گیا اور ایک خاندان کے آٹھ افراد سمیت نو افراد کو زندہ جلانے کا اندوہ ناک سانحہ پیش آیا۔
یہ تذکرہ ہے، بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکے کا۔۔۔ جو مغل فرماں رواں کے نام پر 'جہانگیر نگر' بھی کہلایا، اسی مناسبت سے 1970ء میں وہاں 'جہانگیر نگر یونیورسٹی' بھی قائم کی گئی۔
سترہویں صدی میں جب برصغیر میں مغلوں کی تاج داری تھی، یہ پہلی بار بنگال کا دارالحکومت بنا۔۔۔ تجارتی مرکزیت کا یہ عالم تھا کہ ہندوستان میں مغلوں کی نصف آمدن فقط اس شہر کی ہوتی تھی۔ اسی شہر میں رواں دواں خلیج بنگال تک رسائی دینے والا دریا 'بوڑھی گنگا' مغلوں کو بھی حیران کرتا تھا۔ ڈھاکا میں جا بہ جا مغلیہ دور کے باغات، قلعے، مساجد اور دیگر تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔
اٹھارہویں صدی کے اوائل میں جب مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی، تو بنگال کے صوبے دار علی وردی خان نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور 1756ء میں اپنے نواسے نواب سراج الدولہ کو ولی عہد بنایا۔ اس دور میں انگریز اپنے قدم جما رہے تھے۔ ایسے میں سراج الدولہ نے کلکتے پر حملہ کرکے 20 جون 1757ء کو اسے اپنی عمل داری میں لے لیا اور مانک چند اور میرجعفر کو منتظم متعین کیا۔ بعدازاں میرجعفر نے غداری کرتے ہوئے انگریزوں کا ساتھ دیا، یہ فعل تاریخ میں میر جعفر کی غداری کے نام سے معروف ہے۔ پلاسی کے مقام پر انگریزوں اور باغیوں سے جنگ کے نتیجے میں سراج الدولہ کی حکومت ختم ہوئی اور انہیں شہید کردیا گیا اور پھر انگریز کی آشیر باد سے میر جعفر بنگال کا نواب بنا۔ انگریز کے دور میں بھی یہاں کے ریشم اور ململ کی بڑی شہرت رہی، 1851ء اور 1861ء میں لندن کی نمائشوں میں یہاں کی ململ کو اول انعام دیا گیا۔
ڈھاکا 'بوڑھی گنگا' کے شمال میں واقع ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں مغلوں نے پہلی بستی بسائی تھی۔ تاریخی مقامات میں صدر گھاٹ اور بادام تلی گھاٹ میں لوگ بہ ذریعہ کشتی دریا کی سیر کے لیے جاتے ہیں۔ صدر گھاٹ پر دو پرانی توپیں ہیں۔ ایک کا نام 'کالے جھم جھم' اور دوسری کا نام 'بی بی مریم' ہے۔ لوگ عام طور پر پہلی توپ کو مردانی توپ اور دوسری کو زنانی توپ کہتے ہیں۔
صدر گھاٹ سے مغرب کی طرف دو تاریخی عمارتیں الگ الگ واقع ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بڑا کٹڑا ابتدا میں ایک محل تھا۔ اس کے چوکور احاطے کے چاروں طرف 22 کمرے اور درمیان میں ایک صحن ہے۔ چھوٹا کٹڑا ایک سرائے تھی۔ بڑے کٹڑے کے جنوب میں سواری گھاٹ کے نام سے ایک مچھلی منڈی ہے۔
قلعہ لال باغ ایک نامکمل قلعہ ہے، جسے عالم گیر کے تیسرے بیٹے شہزادہ محمد اعظم نے شروع کرایا، پھر اس کی ذمے داری مغل گورنر شائستہ خان کو سونپی، جس کی بیٹی پری بی بی کی فوتگی کی بنا پر اس کی تعمیر مکمل نہ ہوسکی، اس کا مقبرہ یہیں واقع ہے۔ یہاں سیاہ پتھروں کی خان محمد مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے۔
قلعہ لال باغ کے مشرق میں مرکزی جیل ہے۔ اس کے شمال میں 1642ء میں تعمیر ہونے والی چار میناروں والی حسینی دالان مسجد واقع ہے۔ یہاں وضو کے لیے بنایا گیا میٹھے پانی کا چالیس فٹ گہرا تالاب اب بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ سات گنبد مسجد بھی قابل ذکر ہے، جو 1680ء میں تعمیر ہوئی۔ مشہور مسجد بیت المکرم مشرقی پاکستان کے زمانے میں تعمیر ہوئی، یہ کمشنر ڈھاکا جناب جی اے مدنی نے تعمیر کرائی، جو کراچی میں بھی اس زمانے میں مسجد خضرا تعمیر کرا چکے تھے۔ مسجدوں کے اس شہر میں جہاں تبلیغی جماعت کا سب سے بڑا اجتماع منعقد ہوتا ہے، وہیں اس شہر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ یہاں شنکریا بازار کے نام سے 300 سال پرانی ایک 'ہندو گلی' بھی موجود ہے۔
ڈھاکا کا نام 'ڈھک' نامی درخت کی کثرت کی وجہ سے ڈھاکا ہوا، جب کہ ایک روایت کے مطابق 'ڈھکش وَری' سے ڈھاکا ہوا۔ 1983ء تک ڈھاکا کی انگریزی ہجے Dacca تھی، جسے Dhaka کیا گیا۔ 17 ملین آبادی کے اس شہر کی جدید تعمیر انیسویں صدی میں ہوئی۔ 1887ء میں ڈھاکے کو ضلعے کا درجہ دیا گیا۔ 1905ء میں تقسیم بنگال کے بعد ڈھاکا مشرقی بنگال اور آسام کا دارالحکومت قرار پایا۔ یہ تقسیم 1912ء تک برقرار رہی۔ تقسیم بنگال کے دوران ڈھاکے کا کرزن ہال تعمیر ہوا، جو جنرل پوسٹ آفس کے قریب واقع ہے۔ کرزن ہال میں مغل طرز تعمیر کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
ڈھاکا شہر کا وہ حصہ جو برطانوی نوآبادیاتی دور میں تعمیر ہوا، برٹش سٹی کہا جاتا ہے۔ اس میں مشہور جگہ بانگا بھابن ہے، جو صدر بنگلا دیش کی اقامت گاہ ہے، سو برس پرانی یہ عمارت برطانوی دور میں گورنر ہاؤس کے طور پر بھی استعمال ہوئی، موتی جھیل کی طرف نیشنل اسٹیڈیم واقع ہے۔ 1872ء میں تعمیر ہونے والی تاریخی احسن منزل ڈھاکا کے نواب خاندان کا مسکن رہی، اب اسے عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔
اپنے قیام کے بعد سے بہتیرے سیاسی مدوجزر دیکھنے والی اس حویلی کو ہی ''آل انڈیا مسلم لیگ' کی جنم بھومی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 30 دسمبر 1906ء کو اسی جگہ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس ڈھاکا میں منعقد ہوئی، نواب وقار الملک (1841ء تا 1917ء) کے زیر صدارت اس جلسے میں مسلمانان برصغیر کے مسائل پر غوروخوص ہوا اور ایک سیاسی تنظیم بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی گئی، یہ کار انجام پایا نواب آف ڈھاکا سلیم اللہ خان (1871ء تا 1915ء) کے ہاتھوں۔۔۔ نواب محسن الملک (1837ء تا 1907ء) بھی ان کے ہم رکاب تھے۔
1940ء میں جب لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی، تو اسے پیش کرنے والے شیر بنگال اے کے فضل الحق بھی ڈھاکے میں آسودۂ خاک ہیں، یہی نہیں ان کے ساتھ تحریک پاکستان کے مزید دو راہ نما اور پاکستان کے سابق وزرائے اعظم خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی بھی ابدی نیند سو رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے لیے 1946ء کے انتخابات میں ہندوستان بھر کی جن 30 نشستوں پر مسلم لیگ نے میدان مارا، ان میں بالترتیب چھے، چھے نشستیں بنگال اور پنجاب کی بھی تھیں اور ایک نشست سندھ، جب کہ باقی 17 نشستیں دلی، بمبئی، بہار، اور یوپی وغیرہ سمیت اُن علاقوں کی تھیں، جو کبھی پاکستان کا حصہ نہ بن سکے۔
جب پاکستان بنا، تو مشرقی بنگال مشرقی پاکستان کہلایا اور ڈھاکا اس کا دارالحکومت۔ ملک کے مغربی حصہ اس سے جغرافیائی طور پر ہزاروں میل دور تھا۔ 1948ء میں پہلی بار اسی شہر میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کی بات نکلی، تو فوراً قائداعظم ڈھاکے گئے اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ملک کی قومی زبان صرف اردو ہی ہوگی، البتہ صوبے چاہیں، تو اپنے صوبوں میں اردو کے ساتھ اپنی زبان رائج کرسکتے ہیں۔ اس وقت تو یہ معاملہ دب گیا، لیکن لیاقت علی خان کے قتل کے بعد یہ مسئلہ پھر سر اٹھانے لگا، 21 فروری 1952ء کو بنگالی زبان کے حق میں طلبہ نے ایک مظاہرہ کیا، جس میں صورت حال خراب ہوئی، پولیس کی فائرنگ سے چار طلبا عبدالسلام، رفیق الدین احمد، ابوالبرکات اور عبدالجبار جان سے گئے۔
ان طلبہ کی یاد میں 23 فروری کو ایک مینار بنایا گیا، جسے تین روز بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مسمار کر دیا۔ 1954ء میں یہ مینار دوبارہ تعمیر کیا گیا، اس کے بعد جگتو فرنٹ کی صوبائی حکومت کے دوران بھی اس کی تعمیر کا سلسلہ رہا، 1971ء کی شورش میں اسے خاصا نقصان پہنچا، بنگلادیش بننے کے بعد اس مینار کی ازسرنو تعمیر کی گئی۔ نومبر 1999ء میں21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا گیا اور 2000ء میں پہلی بار یہ دن منایا گیا۔ایسے میں یہاں کے چوک بازار میں واقع ''اردو روڈ'' کی موجودگی حیران کرتی ہے۔
پاکستان کے 1962ء کے دستور میں ڈھاکے کو لیجسلیٹو دارالحکومت قرار دیا گیا، 1960ء میں دارلحکومت کی کراچی سے منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کا مرکز تو اسلام آباد قرار پایا، لیکن قومی اسمبلی ڈھاکا میں بنی۔ 1965ء کے صدارتی چناؤ میں سرزمین بنگال نے ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی، پلٹن میدان ڈھاکا میں اُن کا تاریخی استقبال کیا گیا۔ ڈھاکا کا تاریخی سہروردی پارک (رمنا ریس کورس) ہائی کورٹ کے قریب واقع ہے۔ یہ وہی مقام ہے، جہاں نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے کے بعد مارچ 1971ء میں شیخ مجیب الرحمن نے مغربی پاکستان سے اعلانیہ بغاوت کے بعد سلامی لی اور بنگلادیشی پرچم لہرائے گئے، جس کے بعد فوج نے آپریشن سرچ لائٹ کیا اور ایسے حالات پیدا ہوئے کہ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالے اور بنگلادیش کے قیام کا اعلان ہوا۔
حکیم محمد سعید ڈھاکا کے ایک سفرنامے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے 1950ء میں خود دیکھا کہ ڈھاکا کے ایک غیر مقامی کمشنر نے ڈھاکا کلب پر یہ احکامات آویزاں کر دیے تھے کہ یہاں بنگالیوں کا داخلہ ممنوع ہے، جس سے بنگلادیش کے قیام کے کواکب عیاں ہیں۔
10جنوری 1972ء کو سقوط ڈھاکا کے بعد جب عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن لندن سے برطانیہ کے 'رائل ایئر فورس' کے طیارے میں براستہ دلی ڈھاکا پہنچے، تو ایک بہت بڑے مجمع نے ان کا والہانہ استقبال کیا، لیکن کسے پتا تھا کہ اس تاریخ ساز سواگت کرنے والے ڈھاکے میں ہی وہ محض ساڑھے تین برس بعد (15 اگست 1975ء کو) اپنے بھائی، بیوی، تین بیٹوں، دو بہوؤں، بھتیجے اور سالے سمیت قتل کردیے جائیں گے، شیخ مجیب کے اہل خانہ سمیت 20 افراد کے اس قتل کے بعد ان کے خاندان میں صرف دو بیٹیاں شیخ ریحانہ اور شیخ حسینہ مغربی جرمنی میں ہونے کے باعث بچ گئیں۔ شیخ حسینہ کار زار سیاست میں اتریں، تو2010ء میں اس واقعے میں ملوث پانچ فوجی افسران کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
٭اسٹاک ایکس چینج سے سائیکل رکشوں تک
ڈھاکا کی دیگر خصوصیات کا جائزہ لیا جائے، تو ڈھاکا اسٹاک ایکس چینج کا شمار جنوبی ایشیا کی نمایاں ترین اسٹاک ایکس چینج میں ہوتا ہے۔ ڈھاکا میں سالانہ بنیادوں پر کئی ثقافتی اور روایتی میلوں کا انعقاد ہوتا ہے، جن میں Ekushey بک فیئر اور ڈھاکا ادبی میلہ قابل ذکر ہیں۔ بڑی تعداد میں چلنے والے سائیکل رکشے آج بھی اس شہر کا خاصہ ہیں، اسی بنا پر اسے رکشا کیپٹل ان دی ورلڈ بھی کہا جاتا ہے۔ چائے کے ڈھابوں سے آراستہ اس شہر میں رکشے ڈرائیور روزانہ 20 پیالیاں تک پینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ڈھاکے میں چاول، اور مچھلی اور جھینگے کے روایتی کھانوں کے ساتھ خطے کے خاص پکوان بریانی اور کباب کے شوقین بھی موجود ہیں۔ ناریل اور پٹ سن تو بنگال بھر کی سوغات کہا جاتا ہے۔ ڈھاکا کا چڑیا گھر مرکز شہر سے تقریباً 16 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 1921ء میں قائم ہونے والی تاریخی ڈھاکا یونی ورسٹی ڈھائی سو ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔
٭محصور پاکستانیوں کے کیمپ
ڈھاکے میں ساڑھے تین لاکھ پناہ گزین محصور پاکستانیوں (بہاریوں) کے کیمپ آج بھی اس تاریخ کی الم ناک یاد دلاتے ہیں۔ 45 سال سے یہاں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو لانے کے لیے اسلامی کانفرنس تنظیم، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی طرف سے امداد بھی دی جاتی رہی۔ 1974ء اور 1981ء کے بعد محصورین کی کچھ تعداد 1992ء میں پاکستان لائی گئی۔ آخری بار لائے گئے بہاریوں کو سندھ کے بہ جائے پنجاب (میاں چنوں) میں لاکر بسایا گیا۔ بدقسمتی سے اس کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔
دگرگوں حالت ایسی ہے کہ اوسطاً ایک کمرے میں نو افراد رہنے پر مجبور ہیں اور 100 لوگوں کے لیے ایک بیت الخلا ہے۔ سماجی تنظیم ''اوبیٹ ہیلپرز'' کے روح رواں انوار خان نے دو برس قبل ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وہاں کا آنکھوں دیکھا یوں بتایا کہ 'بہاریوں کے کیمپوں میں خواتین تک کو غسل خانے میسر نہیں، حالت یہ تھی کہ اس موقع پر گلی کے دونوں سروں پر بچوں کو کھڑا کر دیا جاتا تھا۔' 2008ء میں ڈھاکا ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ 1971ء کے بعد پیدا ہونے والوں کی شہریت اور حق رائے دہی کو تسلیم کیا جائے، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے شہریت لی، جب کہ پرانے لوگ اب بھی پاکستان کی امید پر زندہ ہیں۔ 2014ء میں عوامی لیگ کی آشیر باد سے ان لوگوں پر حملہ کیا گیا اور ایک خاندان کے آٹھ افراد سمیت نو افراد کو زندہ جلانے کا اندوہ ناک سانحہ پیش آیا۔