گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال نے سیمنٹ نے انڈسٹری کے لئے بحران کھڑا کردیا
موٹروے پولیس کے رویہ کو جواز بنایا گیا، سیمنٹ انڈسٹری کو کوئلے کی ترسیل پانچ روز سے معطل
گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال نے سیمنٹ انڈسٹری کے لیے بحران کھڑا کردیا ہے جس سے ملک کی تعمیراتی صنعت بھی لپیٹ میں آنے کا خدشہ ہے۔
گڈز ٹرانسپورٹرز نے راستے میں موٹروے پولیس کی پابندیوں اور بے تحاشہ چالان کو جواز بناکر ہڑتال کردی ہے جس سے سیمنٹ انڈسٹری کو کوئلے کی ترسیل گزشتہ پانچ روز سے معطل ہے۔ سیمنٹ فیکٹریوں کو کوئلے کی سپلائی بحال نہ کی گئی تو دو روز میں ملک بھر کی بیشتر سیمنٹ فیکٹریوں میں پیداوار بند ہونے کا خدشہ ہے جس سے نہ صرف مقامی سطح پر سیمنٹ کی قیمتوں کا بحران پیدا ہوگا بلکہ سیمنٹ کی ایکسپورٹ آرڈرز کی ڈیلیوری بھی رک جائے گی۔
آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق مطابق گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال گزشتہ پانچ روز سے جاری ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر کی سیمنٹ فیکٹریوں کو کراچی کی بندرگاہ سے کوئلے کی سپلائی بھی معطل ہوچکی ہے۔ گڈز ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ سندھ کی ہائی ویز پر موٹروے پولیس کی جانب سے ٹرکوں کے بلاجواز بے تحاشہ چالان کیے جارہے ہیں اور ڈرائیوروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ موٹر وے پولیس نے ٹرکوں پر 30.5 ٹن سے زائد کوئلہ لے جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
موٹروے پولیس نے ٹرک اور مال کا مجموعی وزن 58.5 ٹن مقرر کیا ہے جس میں صرف ٹرک کا وزن 28 ٹن ہے آل پاکستان مشترکہ گڈز ٹرانسپورٹ اونرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کو مطلع کیا ہے کہ موٹر وے پولیس کی جانب سے عائد کی جانے والی اس پابندی کے نتیجے میں ترسیل کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا، جس کا تمام بوجھ مال کی ترسیل کروانے والی فیکٹریوں کو اٹھانا پڑے گا۔
آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سیمنٹ کی پیداوار جاری رکھنے کے لیے کوئلے کی بلاتعطل ترسیل ناگزیر ہے۔ سیمنٹ کی پیداوار میں کوئلہ بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور بجلی کے بحران اور پیداواری لاگت میں اضافے کے سبب فیول آئل سے چلنے والے پلانٹس کوئلے پر منتقل کیے جا چکے ہیں۔
اس لیے خام مال کی طرح کوئلے کی بلارکاوٹ ترسیل بھی سیمنٹ کی پیداواری جاری رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ سیمنٹ انڈسٹری سالانہ 45لاکھ ٹن کوئلہ استعمال کرتی ہے اور یومیہ 15ہزار ٹن کوئلہ سیمنٹ فیکٹریوں کو ٹرکوں کے ذریعے کراچی پورٹ سے سپلائی کیا جاتا ہے ۔آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گڈز ٹرانسپورٹرز کے خدشات دور کرتے ہوئے ہڑتال جلد از جلد ختم کرائی جائے۔
بصورت دیگر ملک میں سیمنٹ کی قلت اور قیمت کے بحران کا سامنا ہوگا۔ ترجمان کے مطابق سیمنٹ انڈسٹری کو پہلے ہی بلند پیداواری لاگت کے ساتھ مقامی سطح پر کم ہوتی ہوئی طلب جیسے مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے سیمنٹ انڈسٹری گنجائش سے کم پیداواری استعداد پر چل رہی ہے۔ کوئلے کی ترسیل رکنے سے سیمنٹ سیکٹر کے ساتھ تعمیراتی صنعت بھی بری طرح متاثر ہو گی۔
گڈز ٹرانسپورٹرز نے راستے میں موٹروے پولیس کی پابندیوں اور بے تحاشہ چالان کو جواز بناکر ہڑتال کردی ہے جس سے سیمنٹ انڈسٹری کو کوئلے کی ترسیل گزشتہ پانچ روز سے معطل ہے۔ سیمنٹ فیکٹریوں کو کوئلے کی سپلائی بحال نہ کی گئی تو دو روز میں ملک بھر کی بیشتر سیمنٹ فیکٹریوں میں پیداوار بند ہونے کا خدشہ ہے جس سے نہ صرف مقامی سطح پر سیمنٹ کی قیمتوں کا بحران پیدا ہوگا بلکہ سیمنٹ کی ایکسپورٹ آرڈرز کی ڈیلیوری بھی رک جائے گی۔
آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق مطابق گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال گزشتہ پانچ روز سے جاری ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر کی سیمنٹ فیکٹریوں کو کراچی کی بندرگاہ سے کوئلے کی سپلائی بھی معطل ہوچکی ہے۔ گڈز ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ سندھ کی ہائی ویز پر موٹروے پولیس کی جانب سے ٹرکوں کے بلاجواز بے تحاشہ چالان کیے جارہے ہیں اور ڈرائیوروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ موٹر وے پولیس نے ٹرکوں پر 30.5 ٹن سے زائد کوئلہ لے جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
موٹروے پولیس نے ٹرک اور مال کا مجموعی وزن 58.5 ٹن مقرر کیا ہے جس میں صرف ٹرک کا وزن 28 ٹن ہے آل پاکستان مشترکہ گڈز ٹرانسپورٹ اونرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کو مطلع کیا ہے کہ موٹر وے پولیس کی جانب سے عائد کی جانے والی اس پابندی کے نتیجے میں ترسیل کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا، جس کا تمام بوجھ مال کی ترسیل کروانے والی فیکٹریوں کو اٹھانا پڑے گا۔
آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سیمنٹ کی پیداوار جاری رکھنے کے لیے کوئلے کی بلاتعطل ترسیل ناگزیر ہے۔ سیمنٹ کی پیداوار میں کوئلہ بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور بجلی کے بحران اور پیداواری لاگت میں اضافے کے سبب فیول آئل سے چلنے والے پلانٹس کوئلے پر منتقل کیے جا چکے ہیں۔
اس لیے خام مال کی طرح کوئلے کی بلارکاوٹ ترسیل بھی سیمنٹ کی پیداواری جاری رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ سیمنٹ انڈسٹری سالانہ 45لاکھ ٹن کوئلہ استعمال کرتی ہے اور یومیہ 15ہزار ٹن کوئلہ سیمنٹ فیکٹریوں کو ٹرکوں کے ذریعے کراچی پورٹ سے سپلائی کیا جاتا ہے ۔آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گڈز ٹرانسپورٹرز کے خدشات دور کرتے ہوئے ہڑتال جلد از جلد ختم کرائی جائے۔
بصورت دیگر ملک میں سیمنٹ کی قلت اور قیمت کے بحران کا سامنا ہوگا۔ ترجمان کے مطابق سیمنٹ انڈسٹری کو پہلے ہی بلند پیداواری لاگت کے ساتھ مقامی سطح پر کم ہوتی ہوئی طلب جیسے مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے سیمنٹ انڈسٹری گنجائش سے کم پیداواری استعداد پر چل رہی ہے۔ کوئلے کی ترسیل رکنے سے سیمنٹ سیکٹر کے ساتھ تعمیراتی صنعت بھی بری طرح متاثر ہو گی۔