مندررام تیرتھ

ملتان میں ہندو دیوتا رام کی اساطیری آمد کی یادگار

ملتان میں ہندو دیوتا رام کی اساطیری آمد کی یادگار ۔ فوٹو : شاہد بشیر

MINGORA:
اقوام عالم میں ملتان شہر کی قدامت کے ساتھ ساتھ اس کی ہندو مت کا اہم ترین شہر ہونے کی حیثیت بھی مسلمہ ہے۔ ہندو مت کے حوالے سے ملتان کی وجہ شہرت یہاں بڑے بڑے دیوتاؤں، اوتاروں اور رشیوں کی آمد ہے اور انہی دیوتاؤں، اوتاروں کی یاد میں ملتان میں اہم ترین مندر بھی تعمیر کئے گئے۔

کہا جاتا ہے کہ قدیم عہد میں ملتان ہی ہندومت کا اہم ترین شہر تھا، کاشی، وارانسی، اجین، متھرا جیسے شہروں کی ھندومت کے حوالے سے مرکزیت بعد کے زمانوں میں قائم ہوئی، یہی وجہ ہے کہ ملتان کے تاریخی مندر ہندوستان بھر میں اپنی مذہبی اہمیت کے حوالے سے ایسی مرکزیت کے حامل تھے کہ صدیوں تک ہند' سندھ سے لوگ ننگے پاؤں ملتان کے مندروں کی یاترا کے لئے آتے رہے۔ ملتان میں مندر پر ہلاد بھگت' مندر نرسنگھ پوری' مندر جوگ مایہ' سورج کنڈ مندر' مندر توتلا دیوی' شومندر اور مندررام تیرتھ یہاں کی ہندو تہذیب کے اہم ترین آثار تھے۔

ملتان کے یہ تاریخی مندر انتہائی امیر کبیر اور ہندو مذہب کے حقیقی شکوہ کے مراکز تھے۔ ملتان کے پرہلاد مندر کی حیثیت ہر زمانے میں ہندومت کی یونیورسٹی کی رہی، اس یونیورسٹی نے بڑے بڑے ودیادان پیدا کئے، یہاں تک کہ ایک محقق کا خیال ہے کہ ''منوشاستر'' کے خالق منوجی بھی اس عظیم درسگاہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ ملتان میں برلب چناب ''مناں بھگت'' کے نام سے جواستھان واقع ہے اسی جگہ منوجی نے شاستر مدون کیے تھے...... لیکن ملتان کے ہندو آثار پرکام کرتے ہوئے یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ملتان میں قیام پاکستان کے بعد سے ہندو تاریخ اور شہر کے اہم ترین ہندو آثار نہ صرف زوال کا شکار ہیں بلکہ ایک تہذیبی مغائرت بھی ان آثار کا وجود ملتان کی سرزمین سے مٹاتی چلی جا رہی ہے۔

ہندوؤں کے ملتان سے چلے جانے کے بعد ایک تو یہاں ہندو تاریخ اور تہذیب کا تسلسل ٹوٹ گیا، دوسرا ملتان کی ہندومت کے حوالے سے جو مرکزیت اور اہمیت تھی اس کے تاریخی و مذہبی شواہد بھی ہندوؤں کے ملتان سے جانے کے بعد تاریخ کی گرد میں گم ہو گئے۔ اس کے باوجود ملتان کی تاریخ اور تہذیبی روایات میں ہندومت کے بہت سے مذہبی اور اساطیری حوالے آج بھی موجودہیں۔ ملتان کے ہندو آثار میں مندر رام تیرتھ بھی اپنی اساطیری روایات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آج ہم آپ کو اسی تاریخی مندر کی کہانی سنا رہے ہیں۔

ملتان کا مندر رام تیرتھ اپنی مذہبی تاریخ اور جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دراصل برصغیر میں رام تیرتھ کے نام سے دو مندر ہیں، ان میں ایک رام تیرتھ مندر امرتسر کا جبکہ دوسرا رام تیرتھ مندر ملتان کا ہے، یہ دونوں مندر اپنے قیام کے پس منظر میں خاص طرح کے مذہبی و اساطیری حوالے رکھتے ہیں۔ امرتسر کے رام تیرتھ مندر کی تاریخ یہ ہے کہ ایودھیا چھوڑنے کے بعد مہارانی سیتا نے امرتسر کے قریب والمیکی کے آشرم میں پناہ لی تھی، والمیکی کے اسی آشرم میں سیتا نے اپنے جڑواں بیٹوں لوہ اور کوش کو جنم دیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اسی آشرم میں سیتا نے والمیکی کو اپنی کہانی سنائی تھی اور اسی آشرم میں بیٹھ کر والمیکی نے رامائن لکھی تھی۔ مندر رام تیرتھ امرتسر سے 11کلومیٹر دور مغرب میں واقع ہے۔ امرتسر کے مندر رام تیرتھ کی کہانی جس طرح رام اور سیتا سے جڑی ہوئی ہے، اسی طرح ملتان کے مندر رام تیرتھ کے قیام کے پیچھے بھی ایسی ہی اساطیر دکھائی دیتی ہے۔ تیرتھ جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے کے لغوی معانی دریا' کنارا اور ساحل کے ہیں جبکہ اصطلاحی معنوں میں تیرتھ کا مطلب درشن' زیارت' یاترا' ایسا مقدس مقام جو دریا کے کنارے ہو' سنیاسی فقیروں کا خطاب' زیارت گاہ خاص و عام' اسی طرح تیرتھ یاترا کا مطلب یاترا کو جانا اور تیرتھ اشنان کا مطلب ہردوار اور دیگر مقدس مقامات پر اشنان کرنا ہے۔

ملتان کے مندر رام تیرتھ کا تاریخی واساطیری پس منظر خاصا دلچسپ ہے، مقامی ہندو اساطیر و تاریخ کے مطابق شری رام چندر جی مہاراج بحالت بن باس یہاں شریف لائے تھے۔ 1876ء میں شائع ہونے والی منشی حکم چند کی کتاب ''تواریخ ملتان'' میں اس مندر کے محل وقوع تاریخی و مذہبی پس منظر اور تعمیر کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔

منشی حکم چند کے مطابق ''یہ مندر شہر سے بافاصلہ ایک میل واقع ہے، ایک تالاب پختہ اور ایک دھرم شالہ بنی ہوئی ہے، کنارہء تالاب پر سمادھ کیشو پوری فقیر کی بنی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں بحالت بن باس رام چندرجی تیرتھ یاترا کرتے ہوئے اسی جگہ تشریف لائے جس مقام پر ڈیرہ رام چندرجی کا ہوا، اس جگہ تالاب واسطے یادگار کے بنایا گیا اور شری رام چندرجی نے بردیا کہ جو کوئی اس تالاب میں اشنان کرے گا اس کو تیرتھ اشنان کا پھل ملے گا' پہلے تالاب خام تھا' ساٹھ برس پہلے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پختہ بنوایا' بعملداری سکھاں چاہ ملکیت و معافی متعلق اس مندر کے تھی اور یومیہ دو روپیہ مقرر تھے' عملداری سرکار انگلشیہ میں صرف ایک سو روپیہ سال تمام ملتا ہے''۔ منشی حکم چند کی طرح 1925 میں شائع ہونے والی لالہ بال کشن بترا ابر ملتانی کی کتاب ''تواریخ ملتان'' میں بھی اس مندر کے قیام کے حوالے سے ایسے ہی اساطیری حوالے موجود ہیں۔

ہندو تاریخ کے مطابق شری رام چندر جی کی پیدائش کا سن 5114 ق م ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی تاریخ کے مطابق رام چندرجی کے بن باس کا سارا زمانہ جنوبی ہند میں گزرا' رام چندرجی کے 14 سالہ بن باس کا روٹ بھی ہندوتاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، اس کے باوجود ملتان کی ہندو اساطیرو روایات میں یہ بات بڑے وثوق سے سامنے آتی ہے کہ رام چندرجی مہاراج اور مہارانی سیتا اس علاقے میں تشریف لائے تھے۔ اس حوالے سے مولانا نور احمد فریدی اپنی کتاب ''تاریخ ملتان'' (جلد اول) میں لکھتے ہیں ''رامائن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جن دنوں ایودھیا پر راجہ دشرتھ کی حکومت تھی، سندھ کی وادی ان دنوں ''کیکیا'' نامی ایک سلطنت کے زیرنگیں تھی۔

راجہ دشرتھ کی حسین وجمیل بیوی جس کی تریاہٹ نے رام چندرجی کو چودہ سال کے لئے بن باس پر مجبور کر دیا تھا، اسی ملک کے راجہ کی بہن تھی' دوسرے معنوں میں یوں سمجھئے ملتان پر ان دنوں راجہ دشرتھ کے نسبتی بھائی کی حکومت تھی اور اسی وجہ سے رام کی سوتیلی ماں کیکئی یعنی ملک کیکیا والی کہلاتی تھی۔ ملتان اور اس کے ملحقات کو رانی کیکئی سے جو تقرب حاصل ہے اس کا ثبوت رام چونترہ اور مندر رام تیرتھ سے ملتا ہے۔

عام طور پر مشہور تو یہی ہے کہ مہاراجہ رام چندرجی بحالت بن باس اس جانب تشریف لائے تھے مگر یہ امر قرین قیاس نہیں کیونکہ بن باس کے دوران رام چندرجی کا سارا وقت جنوبی ہند میں گزرا' غالب گمان یہ ہے کہ مہاراجہ رام چندر جی رانی سیتا سے شادی کرنے کے بعد بغرض سیر و تفریح اپنی سوتیلی ماں کے وطن تشریف لائے ہونگے' رام چونترہ اور بالخصوص مندر رام تیرتھ اس بات کا بڑا ثبوت ہیں کہ ملتان ہی رانی کیکئی کے بھائی کا دارالحکومت تھا کیونکہ شمالی پنجاب میں کوئی ایسا مقام نہیں جہاں مہاراجہ رام چندر جی کا جانا ثابت ہوتا ہو، یاکوئی مقام ان سے منسوب ہو، یہ شرف صرف ملتان کی پوتر بھومی کو ہی حاصل ہے''۔

گو ہندو تاریخ سے بن باس کے دوران رام چندر جی کا ملتان آنا ثابت نہیں ہوتا لیکن بعض مقامی اساطیر و روایات تاریخ سے زیادہ راسخ ہوتی ہیں کیونکہ خطہ ملتان میں شری رام چندر جی اور مہارانی سیتا کی آمد کی نشانی صرف مندر رام تیرتھ ہی نہیں ہے' اس مندر سے قریباً 70 کلو میٹر میل دور شمال میں بہنے والے دریائے راوی کے کنارے پرانے ہیڈ سدھنائی سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر موضع رام چونترہ میں واقع مندر رام چونترہ' سیتا کنڈ اور لکمشن کنڈ بھی اس علاقے میں رام اور سیتا کی آمد کی ہی نشانیاں ہیں۔ ہندو روایات کے مطابق مہاراجہ رام چندرجی اپنی پتنی سیتا اور بھائی لکمشن کے ساتھ بغرض سیرو تفریح اس علاقے میں تشریف لائے' سب نے سیتا کنڈ کے مقام پر قیام کیا' پھر رام چندر جی اور لکمشن اشنان کی غرض سے دریا میں کود پڑے اور نہاتے ہوئے آٹھ میل دور چلے گئے مگر مہارانی سیتا برابر انہیں دیکھتی رہیں یہ بھی پیچھے مڑ کر رانی کو دیکھ لیتے تھے۔

رام چندر جی جب اس مقام پر پہنچے جہاں اب رام چونترہ ہے تو دریا سے نکل کر ایک اونچے مقام پر عبادت میں مشغول ہوگئے اور لچھمن بھی عین ان کے سامنے بیٹھ کر عبادت کرنے لگے۔ رام چندر جی نے پیچھے مڑ کر سیتا جی کو دیکھنا چاہا تو وہ انہیں نظر نہ آئیں کیونکہ اس مقام پر دریا سیدھا نہیں تھا' رام چندر جی کے اشنان اور سیتا جی کی توجہ سے سیدھا ہوگیا' ایک اور روایت کے مطابق جب رام چندر جی دریا میں اشنان کرتے ہوئے آٹھ میل دور نکل گئے تو معاً انہیں سیتا جی کا خیال آیا انہوں نے کھڑے ہوکر دیکھا تو درمیان کے تمام حجابات ہٹ گئے اور دریا سیدھا ہوگیا''۔

مندرام چونترہ سرائے سدھو سے شمال مشرق کی جانب دریائے راوی کے کنارے واقع ہے، اس کے ساتھ ہی لچھمن چونترہ ہے اور اس مقام سے آٹھ میل دور سیتا کنڈ ہے، سیتا کنڈ سے رام چونترہ تک دریا تیر کی طرح سیدھا بہتا ہے ہزاروں سال سے یہی صورت چلی آرہی ہے، دریا نے کبھی ان دو مقامات کے درمیان بے اعتدالی نہیں کی' آج بھی سیتا کنڈ سے رام چونترہ دکھائی دیتا ہے حالانکہ ان کے درمیان آٹھ میل کا فاصلہ ہے۔ خواہ کچھ بھی ہو اس مقام پر دریا کا سیدھا ہونا ایک تعجب خیز معاملہ ہے کیونکہ اور کسی بھی مقام پر دریائے راوی سیدھا نہیں ہے۔

اسی وجہ سے سدھنائے یعنی سیدھا دریا کی اصطلاع وجود میں آئی۔ مسلمانوں کی بھی اس حوالے سے اپنی روایات ہیں، کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے عہد میں ارد گرد کی آبادیوں کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے اس دریا کے رخ کو سیدھا کیا گیا تاہم عالمگیر نامہ کے مطابق ''اورنگزیب عالم گیر نے اپنے بھائی دارا شکوہ کا پیچھا کرتے ہوئے ملتان سے تیس میل دور راوی اور چناب کے سنگم پر قیام کیا تھا روایت ہے کہ شکست دیکھ کر دارا شکوہ نے مغل تاج راوی میں پھینک دیا تھا' جب تخت مل گیا تو اورنگزیب عالمگیر نے تاج ڈھونڈنے کے لئے راوی کا رخ ہی بدل ڈالا اور مغرب میں سدھنائی کے مقام پر اسے چناب سے ملا دیا''۔

موضع رام چونترہ سرائے سدھو میں رام' سیتا اور لچھمن کی آمد کی نشانیاں صدیوں تک یہاں کے ہندوؤں کے لئے متبرک مقامات رہے' بعد کے زمانوں میں ان تینوں مقامات پر مندر بنائے گئے اور درمیانی دس میل میں دریا کے دونوں جانب کھجور' برگد اور شیشم کے گھنے درخت لگائے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر بادشاہ کے عہد میں بندر رابن سے سوامی سیتا نندجی مہاراج یہاں تشریف لائے اور متبرک جگہ دیکھ کر یہاں قیام کیا اور پوجا میں مشغول ہوگئے' بادشاہ نے قصبہ ملحقہ معاف کر دیا' یہ معافی قیام پاکستان تک قائم رہی' بیساکھی کے موقع پر یہاں ایک بہت بڑا میلہ لگتا تھآ جس میں دور دراز سے ہندو شریک ہوتے تھے۔

مندر رام چونترہ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ سکھوں کے لیے بھی ایک مقدس مقام تھا، قیام پاکستان سے پہلے اس جگہ بیساکھی کے موقع پر بہت بڑا میلہ لگتا تھا، بیساکھی چونکہ سکھوں کا تہوار ہے اس لیے اس میلہ میں سکھ بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے تھے، مندر رام چونترہ ہی وہ مقام ہے جہاں ''سنگ'' (بیساکھی میں شرکت کرنے والے قافلے) جمع ہوتے تھے اور یہیں سے سنگ سخی سرورؒ کی طرف جایا کرتے تھے۔

ملتان کا مندر رام تیرتھ جس مقام پر واقع ہے یہاں بھی کبھی دریائے راوی بہا کرتا تھا' جب دریائے راوی ملتان سے دور چلا گیا تو ایک طویل عرصہ یہ علاقہ دریا کے کنارے کے طور پر معروف رہا' ہندو روایات کے مطابق اس علاقے میں رام چندر جی کی آمد ہزاروں سال پہلے بنتی ہے، ملتان کی تاریخ پر لکھی گئی کتابوں میں اس مندر کی تعمیر کے حوالے سے کوئی بھی حتمی تاریخ سامنے نہیں آتی، تاہم تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ رام چندر جی کی یاد میں یہاں صدیوں پہلے ایک خام یاد گار تعمیر کی گئی تھی بعد ازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1820ء کے قریب یہاں پختہ مندر اور تالاب تعمیر کرایا تھا۔

قدیم عہد میں مندر رام تیرتھ کی طرف قلعہ کہنہ کے سکھی دروازہ سے راستہ آتا تھا' سکھی دروازہ جو قلعہ سے مشرق کی جانب کھلتا تھا یہیں سے ایک راستہ مندر رام تیرتھ کی طرف آتا تھا' مندر رام تیرتھ کے مشرق میں کسی دور میں قلعہ سکہ بھی ہوا کرتا تھا۔ قلعہ سکہ جسے محمد بن قاسم نے بھی فتح کیا تھا ملتان شہر سے دس کوس دور تھا۔ ملتان کے نامور مؤرخ شیخ اکرام الحق کے مطابق قلعہ سکہ کا علاقہ وہ ہے جہاں اب سیتل ماڑی واقع ہے جبکہ مولانا نور احمد فریدی کا اصرار ہے کہ قلعہ سکہ دراصل قصبہ لاڑ کے قریب واقع سرور شکوٹ کا علاقہ ہے' جہاں حضرت سخی سرورؒ کے والد محترم حضرت زین العابدینؒ کا مزار ہے۔

ملتان کے معروف شاعر اور موسیقی دان اے ڈی نسیم کے مطابق ''دریائے راوی کے کنارے جو اس وقت ملتان کے نواح میں بہتا تھا ایک قلعہ سکہ طلائی کے نام سے مشہور تھا، یہ نام اس کے آہنی بڑے دروازے کی وجہ سے تھا، معتبر ہندو کتب تواریخ میں اس قلعہ میں ایک مشہور سنگیت ودیالے کا ذکر کیا گیا ہے جہاں رقص و موسیقی اور نرت کاری کی تعلیم دی جاتی تھی''۔

یوں تو ملتان شہر کا ہر گوشہ ہندو مت کے اہم ترین مقامات پر مشتمل ہے لیکن بیرون دہلی گیٹ سے سیتل ماڑی تک کا علاقہ ہندو مذہب و معاشرت کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ملتان کے مرکزی شہر سے قریب ہونے کے ناطے ہی اس علاقہ میں اہم ترین ہندو عبادت گاہیں اور کمیونٹی سنٹرز قائم کئے گئے تھے۔ یہاں قریب ہی دسہرا گراؤنڈ' گؤ شالا' ہندو دنگل اور گیان تھلہ کی وسیع و عریض عمارات ہوا کرتی تھیں۔ گیان تھلہ میں ہر شام گیانی گیان کرتے تھے، سادھو اور اپدیشک بھی ہر شام یہاں جمع رہتے تھے، اس علاقے میں مندروں کا بھی ایک طویل سلسلہ تھا جس کا آخری بڑا مندر، مندر رام تیرتھ ہی تھا۔

مندر رام تیرتھ کا علاقہ جو اب سلطان آباد کہلاتا ہے موضع جمعہ خالصہ (اصل لفظ جمع خالص) میں واقع ہے اس علاقہ میں ملتان کے دو مواضعات طرف جمعہ خالصہ اور طرف راوی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ یہ علاقہ مرکزی شہر سے خاصے نشیب میں واقع ہے، اس لئے اسے شہر کا مشرقی نشیب کہا جاتا ہے۔ کسی دور میں شمال اور مشرق کی سمت سے ملتان آنے والوں کیلئے مندر رام تیرتھ ہی ملتان کا گیٹ وے بھی تھا۔

دراصل قدیم عہد میں ملتان شہر میں داخل ہونے کے دو ہی معروف زمینی راستے تھے ایک راستہ جو تھل، کوہ سلیمان اور مظفر گڑھ سے ملتان آنے کے لیے تھا سورج کنڈ مندر کے ساتھ سے گزرتا تھا، اس مندر میں بھی اشنان کے لیے تالاب بنا ہوا تھا جبکہ دہلی، اجودھن، لاہور اور چولستان سے ملتان میں داخل ہونے کا راستہ مندر رام تیرتھ کے پاس سے ہی گزرتا تھا۔ کسی دور میں ملتان شہر کے اطراف ایسے بہت سے مندر تھے جن کے تالابوں میں اشنان کر کے ہی لوگ ملتان میں داخل ہوا کرتے تھے، لطف کی بات یہ ہے کہ یہ پابندی صرف ہندوؤں پر ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں پر بھی عائد ہوتی تھی کیونکہ ملتان ہندو مت کا ایک پوتر اور مقدس شہر تھا۔

مندر رام تیرتھ سے ایک راستہ دہلی اور اجودھن کی طرف بھی جا رہا ہے، بابا گرونانک اسی راستے سے ہوتے ہوئے ملتان سے 3 بار اجودھن گئے اور پھر اسی راستہ سے واپس بھی آئے۔ 1865ء کے قریب انڈس دہلی ریلوے ٹریک کو کوٹری تک بڑھایا گیا تو یہ ریلوے ٹریک مندر رام تیرتھ کے دائیں طرف سے ہی گزارا گیا کسی دور میں مندر رام تیرتھ کی عالیشان عمارت ملتان سے خانیوال جاتے ہوئے ٹرین میں بیٹھ کر دیکھی جا سکتی تھی۔ مندر رام تیرتھ کا علاقہ جسے پرانے لوگ آج بھی بستی رام تیرتھ کہتے ہیں، قیام پاکستان سے پہلے یہاں کوئی آبادی نہیں تھی، چونگی نمبر 14 چوک پر کھڑے ہو کر مندر رام تیرتھ کی وسیع و عریض عمارت صاف دکھائی دیتی تھی۔ مندر رام تیرتھ کے احاطے میں دراصل ایک نہیں دو عمارات تھیں جن میں ایک مندر رام تیرتھ اور دوسری ہندوؤں کے ایک درویش کیشو پوری کی سمادھی تھی۔


ان دونوں عمارات کے درمیان ایک پختہ تالاب تھا' اسی تالاب کے حوالے سے شری رام چندر نے بر دیا تھا جو کوئی اس تالاب میں اشنان کرے گا، اسے تیرتھ اشنان کا پھل ملے گا، دراصل اس مندر کی ساری اہمیت اسی تالاب کی وجہ سے تھی۔ تیرتھ اشنان عموماً ہر دوار کے مقام پر گنگا میں کیا جاتا ہے، اس تالاب میں اشنان چونکہ گنگا اشنان کے برابر تھا' اس لئے ملتان کے مقامی ہندوؤں میں یہ تالاب ''گنگا'' کے نام سے ہی مشہور تھا۔ یوں بھی ہندو روایات کے مطابق مخصوص تالابوں میں اشنان کرنے سے بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں اور جسم پوتر ہو جاتا ہے، اس حوالے سے ملتان کے تین اہم مندروں کے تالاب بہت زیادہ متبرک خیال کیے جاتے تھے جن میں مندر رام چونترہ، مندر رام تیرتھ اور سورج کنڈ شامل ہیں۔

اس مندر میں ایک وسیع بارہ دری میں ایک دھرم شالا بھی قائم تھی، اس دھرم شالا کی عمارت 20 سال پہلے بھی کسی حد تک موجود تھی لیکن اب اس دھرم شالا کا نام و نشان بھی مٹ گیا ہے۔ اسی طرح مندر رام تیرتھ کا تاریخی کنواں اور وہ انتہائی مقدس تالاب جس میں اشنان کو گنگا اشنان کا درجہ حاصل تھا بھی پاٹ دیئے گئے ہیں' اب اس جگہ تعمیرات کر لی گئی ہیں۔ ملتان کے ڈسٹرکٹ گزٹئر 1883-4ء کے مطابق مندر رام تیرتھ کے اندر بھیروں' کالی ماتا اور ہنومان کی مورتیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ ہندو وقف املاک بورڈ کے ریکارڈ کے مطابق مندر رام تیرتھ کی وقف اراضی 38 کنال 10مرلہ پر مشتمل تھی، 1947ء میں اس مندر کے قریب ایک بھی رہائشی مکان نہ تھا لیکن 1960ء کے قریب مندر رام تیرتھ کی اراضی پر 147 مکانات تعمیر ہو چکے تھے، بعد ازاں 1990ء کے سروے میں اس علاقہ کو کچی آبادی قرار دیدیا گیا۔ مندررام تیرتھ جو ملتان میں ہندو معاشرت کا اہم ترین مرکز تھا کی اہمیت اس حوالہ سے بھی تھی کہ اس مندر کے جنوب میں ہندوؤں کا ایک وسیع و عریض اور تاریخی شمشان گھاٹ موجود تھا۔ ملتانی زبان میں شمشان کیلئے چونکہ مسوان کا لفظ رائج ہے اسی لئے اس بستی کا نام ''بستی مسوانہ'' ہے جہاں یہ شمشان گھاٹ واقع ہے۔

کڑی جمنداں سے ممتاز آباد کی طرف جائیں تو ناصر آباد پلی سے پہلے بائیں ہاتھ کو بستی مسوانہ شروع ہو جاتی ہے۔ اس تاریخی شمشان گھاٹ کا مندر رام تیرتھ کے قریب ہونا بھی ہندو تہذیب کی اہم ترین علامت ہے کیونکہ ہندو عقائد کے مطابق مرنے والوں کی چتا جلانے کے بعد راکھ گنگا میں بہائی جاتی ہے اور گنگا اشنان بھی کیا جاتا ہے۔ ملتان میں چونکہ رام تیرتھ کا تالاب ''گنگا'' کے درجے کا حامل تھا اس لئے یہاں کے مقامی لوگ اپنے مردوں کی راکھ تو گنگا میں بہاتے تھے لیکن چتا جلانے کے بعد مندر رام تیرتھ کے تالاب میں اشنان کرکے ہی گھروں کو جاتے تھے۔ یوں بھی ہندو دھرم کے مطابق کسی بھی شخص کی آخری رسومات میں شرکت کرنے والوں پر اشنان کرنا واجب ہوتا ہے، اس لئے ملتان شہر کا مرکزی شمشان گھاٹ مندر رام تیرتھ کے قریب ہی بنایا گیا۔

مندر رام تیرتھ سے ہی میلسی، وہاڑی اور دنیا پور کیلئے بھی راستے نکل رہے ہیں۔ آج پرانا دنیا پور روڈ ہیڈ نوبہار سے شروع ہوتا ہے لیکن قیام پاکستان سے پہلے دنیا پور روڈ چونگی نمبر 14 سے شروع ہوتا تھا، چونگی نمبر 14 پر ہی کسی دور میں دنیا پور روڈ کا بورڈ لگا ہوا تھا، دراصل جس سڑک سے ملحقہ آبادی میں مندر رام تیرتھ واقع ہے یہی ملتان کا پرانا دنیا پور روڈ ہے، اس لئے تاریخ ملتان سے متعلق تمام کتابوں میں مندر رام تیرتھ کا محل وقوع یہ لکھا گیا ہے کہ یہ میلسی اور دنیا پور کو جانے والی سڑکوں کے سنگم پر ہے لیکن اب میلسی روڈ وہاڑی چوک سے اور دنیا پور روڈ ہیڈ نوبہار سے شروع ہو رہا ہے، اس لئے وہ لوگ جو پرانی کتابوں میں مندر رام تیرتھ کا محل وقوع پڑھتے ہیں وہ کسی صورت بھی اس مقام تک نہیں پہنچ پاتے۔

برطانوی دور حکومت میں مندر رام تیرتھ سے شمال کی جانب برٹن کاٹن گروئنگ ایسوسی ایشن کے نام سے کاٹن جننگ اور پریسنگ کا ایک صنعتی یونٹ قائم کیا گیا، یہ برطانوی دور میں اس علاقہ میں ہونے والی بڑی تعمیر تھی، اسی صنعتی یونٹ کی دیکھا دیکھی قیام پاکستان سے پہلے اس علاقے میں چھوٹے بڑے بہت سے صنعتی یونٹ کام کر رہے تھے، قیام پاکستان کے بعد بھی اس علاقے میں بڑی بڑی صنعتیں قائم کی گئیں۔ قیام پاکستان سے پہلے مندر رام تیرتھ کے قریب اہم ترین سرکاری عمارت ٹی بی ہسپتال کی تھی، اسی طرح ٹی بی ہسپتال سے ملحقہ جس جگہ اب گرلز کالج اور پانی والی ٹینکی ہے اسی جگہ ہندوؤں کا دسہرا گراؤنڈ ہوا کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے فوری بعد ملتان امپرومنٹ ٹرسٹ کے زیر اہتمام مندر رام تیرتھ کے شمالی علاقے میں ایک جدید کالونی قائم کی گئی۔

1960ء میں قائم ہونے والی اس کالونی کا نام اس وقت کی صوبائی حکومت نے سیٹلائٹ ٹاؤن رکھا تھا لیکن جس اراضی پر یہ کالونی قائم کی گئی وہ اراضی سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ کی تھی، اس لئے انہی کے نام پر اس کالونی کا نام ممتاز آباد رکھا گیا۔ آج مندر رام تیرتھ کے قریب واقع اہم ترین علاقہ ممتاز آباد ہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مندر رام تیرتھ کے قریب ایک علاقہ حیدر پورہ کے نام سے آباد ہوا ملک غلام حیدر جھنڈیر جن کے نام پر یہ محلہ آباد ہوا قیام پاکستان سے پہلے اسی جگہ آباد تھے، اب جہاں محلہ حیدر پورہ واقع ہے۔

قیام پاکستان سے پہلے اور فوری بعد اس جگہ کو چاہ کھجی والا کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں کثرت سے کھجور کے درخت تھے اور ساتھ ہی کچھ زرعی اراضی بھی تھی، اس علاقے میں کسی درویش کا ایک غیر مسقف مزار بھی ہے جنہیں کھجی پیر کہا جاتا ہے۔ اس علاقہ میں قیام پاکستان سے پہلے جھنڈیر برادری کے کچھ گھر تھے، اس خاندان کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ڈیڑھ سو سال سے اس علاقہ میں مقیم ہیں۔ مندر رام تیرتھ کے مشرق میں جہاں اب جنرل بس سٹینڈ واقع ہے ایک علاقہ سیتل ماڑی کے نام سے معروف ہے۔

ملتان شہر کی تاریخ میں مندر رام تیرتھ کا تاریخی پس منظر تو کسی نہ کسی صورت موجود ہے لیکن سیتل ماڑی کے بارے میں کوئی مستند تاریخ یا حوالہ موجود نہیں۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جب اس علاقہ میں شری رام چندر جی کی آمد کی نشانی موجود ہے تو مہارانی سیتا کی آمد کی بھی کوئی نہ کوئی نشانی ضرور ہو گی۔ سیتل ماڑی یا مندر سیتلا دیوی کے حوالہ سے دو باتیں کہی جا سکتی ہیں یا تو یہ عمارت مہارانی سیتا کے قیام ملتان کی یادگار کے طور پر قائم کی گئی اور اسے خواتین کی عبادت گاہ کیلئے مخصوص کر دیا گیا کیونکہ ملتان کے تمام مؤرخین کے نزدیک اس علاقہ میں مندروں کا ایک طویل سلسلہ موجود تھا، جب ایسے افراد سے پوچھا جنہوں نے قیام پاکستان کے فوری بعد سیتل ماڑی کو دیکھا تھاتو ان کا کہنا ہے کہ سیتل ماڑی ایک وسیع عمارت تھی جس کے چار طرف بارہ دریاں بنی ہوئی تھیں درمیان میں ایک تالاب تھا۔

قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے مختلف علاقوں سے آنے والے مہاجرین کو یہ عمارت الاٹ کر دی گئی، اس عمارت میں موجود تالاب پاٹ دیا گیا' اس کے علاوہ بھی اس میں ہندو تہذیب کی جو نشانیاں تھیں مٹا دی گئیں۔ سیتل ماڑی کے علاقے میں ایک آبادی ''بستی تالاب والی'' کے نام سے معروف ہے یہاں بھی کسی دیوی کا ہی مندر تھا۔ یہ عمارت آج بھی موجود ہے، قیام پاکستان کے بعد اس علاقہ میں آباد ہونے والے بزرگوں نے بتایا کہ اس عمارت کے اندر خانوں اور روشن دانوں میں ہندو دیویوں کی بہت سی چھوٹی چھوٹی مورتیاں رکھی ہوئی تھیں، اس عمارت کے باہر ایک تالاب تھا، یہ تالاب بھی اب ختم ہو چکا ہے۔ سیتل ماڑی کے تاریخی و تہذیبی پس منظر کے حوالے سے دوسری بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ اس عمارت میں شاید سیتلا دیوی کا مندر تھا۔

ہندو روایات کے مطابق ہولی کے دو تین ہفتوں بعد جب اناج پک جاتا ہے، اس دوران چونکہ کسان فصل میں مشغول ہوتا ہے تو کوئی خاص تہوار نہیں منایا جاتا۔ صرف عورتیں چیچک دور کرنے والی دیوی سیتلا کا پوجن کرکے بھگوان سے دعا کرتی ہیں کہ ان کے بچے اس مرض سے ہلاک نہ ہوں کیونکہ یہ چیچک کا موسم ہے۔ سیتلا دیوی کا ایک مندر ملتان کے علاوہ لیہ میں بھی موجود ہے، کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے چیچک اور گرمی دانوں (Chiken Poks) میں مبتلا مریضوں کو اس مندر پر لایا جاتا تھا۔

ملتانی ہندو تہذیب میں سیتلا دیوی کو مائی ماتا بھی کہا جاتا تھا اور اسی حوالے سے ملتانی زبان میں گرمی دانوں کو بھی ''ماتا'' کہا جاتا ہے کہ فلاں کو ماتا نکل آئی ہے، ملتان میں سیتل دیوی کے مندر پر قیام پاکستان سے پہلے نوزائیدہ بچوں کی جھنڈ بھی اتاری جاتی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سیتل ماڑی ایک نجی عمارت تھی جو کسی متمول ہندو نے عبادات کے لیے مخصوص کر دی تھی اور اس علاقے کا نام سیتل رام نامی ایک ہندو کی وجہ سے پڑا، اس علاقہ میں مقیم کچھ بزرگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بدھلہ سنت کے میلہ میں شرکت کرنے والے بڑی تعداد میں پہلے سیتل ماڑی آتے تھے۔

ملتان کا مندر رام تیرتھ جو ہندو تہذیب کا اہم ترین مرکز تھا کی ہندوؤں میں بہت زیادہ قدرو منزلت تھی، شہر کے ہندو یہاں روزانہ عبادت اور اشنان کے لیے جاتے تھے، ہر اتوار کو تو یہاں شہر اور مضافات سے آنے والوں کی بڑی تعداد جمع ہوتی تھی، بھادوں کے مہینے میں پورن ماشی کی رات یہاں بہت بڑا میلہ لگتا تھا جس میں دور دراز شہروں سے بھی ہندو شریک ہوتے تھے۔

مندر رام تیرتھ پر کچھ مخصوص ایام میں ''اشنان میلے'' بھی ہوا کرتے تھے، یہاں پانی کی پوجا کے تہوار بھی منائے جاتے تھے، چاند کی بعض تاریخوں کے حساب سے بھی یہاں میلے لگتے تھے۔ مندرام تیرتھ کے شمال مشرق میں دسہرا گراؤنڈ ہوا کرتا تھا، دسہرا کے موقع پر رام لیلا کی منڈلیوں میں رامائن اور مہا بھارت کے واقعات ناٹک کی صورت پیش کیے جاتے تھے، رام لیلا کی منڈلیوں میں ایسے ناٹک پیش کیے جاتے تھے جن کا بیشتر حصہ موسیقی سے مرتب ہوتا تھا، اس موقع پر عنبرو گلال کی گلابی اور قرمزی دھول میں شعاعوں کو معکوس کیا جاتا تھا، جن کی بو قلموں روشنی میں چندن کی پتلیوں جیسی سندر رقاصائیں تتلیوں کی طرح رقص کرتی نظر آتی تھیں۔

مندر رام تیرتھ جو ملتان میں ہندو تہذیب کی اہم ترین علامت تھا قیام پاکستان کے بعد تہذیبی زوال کا شکار ہو گیا، اس مندر کی وسیع و عریض عمارت جو کبھی اس علاقہ کی واحد عمارت تھی آج بہت سی بے ہنگم عمارات کے پیچھے چھپ چکی ہے، مند رام تیرتھ کی دھرم شالا، کنواں اور وہ مقدس تالاب جس کا اشنان تیرتھ اشنان کے برابر تھا قصیہ پارینہ ہو چکے۔ مند رام تیرتھ اور سمادھ کیشو پوری جو پہلے ایک ہی احاطہ میں تھے اب ان کے درمیان دو گلیاں اور متعدد مکانات حائل ہو چکے ہیں۔

کیشو پوری کی سمادھ والی عمارت اور مندر رام تیرتھ کی عمارت دونوں رہائش کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو ملتان ایسے کثیر الثقافتی شہر میں ہندوؤں کے مذہبی آثار کی بے حرمتی اور شکستگی ایک روایت بن چکی ہے حالانکہ تہذیبیں ایک دوسرے کے سہارے زندہ رہتی ہیں۔ ملتان شہر میں موجود ہندوؤں کے مذہبی آثار صرف ہندوؤں کے نہیں ہیں یہ آثار ملتان کی صدیوں پرانی تہذیب اور تاریخ کے آثار ہیں اور ان کی حفاظت بھی اب ملتان کے شہریوں کی ہی ذمہ داری ہے، اسی لیے تو رفعت عباس نے کہا تھا:

شہر مسیتاں والے دے وچ گرجا گھر وی ہوندن
مندر وی جے ہوندے ہن تاں آپ رنگاونے پوندن
شہر قدیم اچ رمز اللہ دی ایہا جانیم ر فعت
مندر وی کوئی چھوڑ ونجے تاں ڈیوے بالنے پوندن

ترجمہ: (وہ شہر جس میں بہت سی مساجد ہوں وہاں گرجا گھر بھی ہوتے ہیں اور اگر مندر بھی ہوں تو ان کی تزئین و آرائش شہر کے لوگوں کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے، رفعت میں نے اس قدیم شہر میں رہتے ہوئے خدا کا یہی راز جانا ہے کہ ہجرت کرنے والے اگر اپنے مندر بھی چھوڑ گئے ہیں تو شہریوں کو وہاں چراغ جلا کر انہیں آباد کرنا چاہیے)

مندر رام تیرتھ میں ہندوسنت کیشو پوری کی سمادھی
مندر رام تیرتھ کے احاطہ کے اندر دراصل دو عمارتیں تھیں، یہ دونوں عمارتیں مندر کے انداز میں بنی ہوئی تھیں ان میں ایک قدرے چھوٹی عمارت میں مندر رام تیرتھ یاراما کنڈ کی عمارت تھی جبکہ دوسری طرف ہندو سنت کیشو پوری کی سمادھی تھی۔ مندر رام تیرتھ اور کیشو پوری کی سمادھ کے درمیان وہ مقدس تالاب تھا جسے گنگا کہا جاتا تھا۔ ہندوؤں کے نزدیک سنت کیشو پوری کون تھے ان کا عہد کون سا تھا، اس بارے میں تاریخ کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے، ہندو انہیں اپنا شمس بھی قرار دیتے ہیں۔

بعض ہندو تاریخ دانوں کے نزدیک ملتان کا نام کیشو پور اسی فقیر کی وجہ سے پڑا تھا، جس عمارت میں کیشو پوری کی سمادھ تھی وہاں چاروں کو نوں میں مٹی کی مورتیاں بنی ہوئی تھیں درمیان میں کیشو پوری کی سمادھ تھی جسے قیام پاکستان کے بعد یہاں رہائش رکھنے والوں نے توڑ کر فرش ہموار کر دیا لیکن اس عمارت میں نصب سیاہ اور سفید سنگ مر مر کا فرش آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔

اس عمارت کے اندر چند اور سمادھیں اور دیوتاؤں کی مورتیاں بھی بنی ہوئی تھیں۔ مندر رام تیرتھ ہندو سادھوؤں کا بھی بہت بڑا مرکز تھا، یہ تمام سادھو کیشو پوری کے ماننے والے تھے مندر رام تیرتھ کے احاطہ کے اندر ہی ایسے سردابے (سرد خانے) بنے ہوئے تھے جہاں گرمیوں کی دوپہروں میں بڑی تعداد میں سادھو پڑے رہتے تھے، اب اس سمادھ کا کلس جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، 1848ء میں سکھوں اور انگریزوں کی لڑائی کے وقت اس عمارت میں سکھ فوج نے مورچہ بنا رکھا تھا اس عمارت کے کلس پر گولیوں کے نشانات آج بھی آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔

1848ء میں یہاں سکھوں اور برطانوی فوج کے درمیان سخت معرکہ ہوا
1848ء میں ملتان پر سکھ گورنر دیوان مولراج حکومت کر رہا تھا 1845 کی پہلی جنگ پنجاب کے نتیجے میں لاہور میں انگریز ریذیڈنٹ کی تعیناتی ہوئی تو صوبے کے مختلف اضلاع میں ریونیو طے کرنے کے لیے افسروں کو بھیجنا پڑا، انگریز ریذیڈنٹ سے محصولات کے معاملے پر اختلاف ہونے کی وجہ سے ملتان کا سکھ گورنر دیوان مولراج مستعفی ہو گیا۔ یوں انتقال اقتدار کے لیے دو انگریز مسٹر ایگنیو اور مسٹر اینڈرسن ملتان آئے ان افسران کو اپریل 1948ء میں عید گاہ کے مقام پر مار دیا گیا تو انگریز فوج بڑے وحشیانہ انداز میں ملتان میں داخل ہوئی۔

انگریز فوج مشرقی سمت سے دراصل مندر رام تیرتھ کے قریب سے ہی ملتان میں داخل ہوئی۔ جان ڈنلپ کی کتاب ''ملتان دوران محاصرہ اور مابعد'' کے مطابق 18، 19 اگست کو جنرل وش کی فوج کے راوی اور ستلج والے دستے سیتل ماڑی کے مقام پر آپس میں ملے اور پڑاؤ ڈال کر فصیل شکن توپوں کا انتظار کرنے لگے، 7 ستمبر کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ کٹی بیراگی اور مندر رام تیرتھ کے درمیان خندقیں کھودی جائیں۔

25 ستمبر کو بنگالی دستہ دوبارہ سیتل ماڑی میں رکا جنرل وش نے آگے بڑھ کر مندر رام تیرتھ پر قبضہ کر لیا اور عام حملہ شروع ہو گیا، شام تک یہ مورچہ فتح ہو گیا ہر طرف خون ہی خون تھا۔ ڈسٹرکٹ گزٹیئر ملتان 1923-24ء کے مطابق ''مندر رام تیرتھ کی عمارت پر گولیوں کے نشانات ابھی تک دیکھے جا سکتے ہیں''۔ اس مقام پر سکھوں کا دفاع کرنے والے گورکھے سپاہی تھے، یہ وہی گورگھے سپاہی تھے جو لاہور سے مسٹر ایگنیو اور مسٹر اینڈرسن کی حفاظت کے لیے ملتان آئے تھے لیکن بعد ازاں مولراج کی سکھ فوج سے جا ملے تھے۔
Load Next Story