مردان ضلع کچہری میں خود کش حملہ
افغانستان کی حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی اجازت دے
لاہور:
ضلع کچہری مردان میں جمعے کو یکے بعد دیگرے دو دھماکوں میں پولیس اہلکار سمیت 12افراد شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔ پہلے حملے میں خود کش بمبار نے ضلع کچہری کے گیٹ پر تلاشی سے بچنے کے لیے دستی بم سے حملہ کیا اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے بعد وہاں قیامت صغریٰ برپا ہو گئی۔ ادھر پشاور میں ورسک ڈیم کے قریب ورسک کالونی میں صبح سویرے گولہ بارود اور اسلحے سے لیس چار دہشت گرد داخل ہو گئے مگر پولیس اور سیکیورٹی فورسز سے مقابلے میں چاروں خود کش بمبار ہلاک ہو گئے جب کہ دو ایف سی اہلکار' ایک پولیس کانسٹیبل اور دو شہری زخمی ہو گئے۔
صدر ممنون حسین' وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے مردان کچہری میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف صورتحال کا جائزہ لینے مردان پہنچ گئے۔ ادھر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے پشاور میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن پر سیکیورٹی فورسز اور پولیس کو خراج تحسین پیش کیا۔
کچھ عرصہ قبل دہشت گردوں نے کوئٹہ میں وکلاء کو نشانہ بنایا تھا اب انھوں نے ضلع کچہری مردان میں حملہ کر کے خوف و ہراس پیدا کیا اور ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ خبروں کے مطابق ورسک کالونی پشاور میں بمباروں کو پناہ دینے والے دو سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دہشت گردوں نے دسمبر 2015ء میں مردان میں نادرا کے دفتر پر بھی خود کش حملہ کیا تھا جس میں 26افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ گزشتہ چند عشروں سے جاری دہشت گردی کی لہر کے دوران میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت ہزاروں شہری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ اب دہشت گردوں نے وکلاء کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے' آخر اس کے پیچھے ان کے کیا ناپاک عزائم ہیں اور وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق جب عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس سے ملک میں خوف و ہراس تو پیدا ہوتا ہے مگر عوامی سطح پر منظم احتجاج نہیں ہوتا' جب کسی قوم' تنظیم' گروہ یا ادارے پر حملہ کرکے اسے نقصان پہنچایا جاتا ہے تو اس سے متاثرہ فریق سڑکوں پر آ کر حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج اور توڑ پھوڑ کرتا ہے' اس سے اندرونی خلفشار میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ایک جانب دہشت گردوں نے ضلع کچہری مردان میں حملہ کیا تو دوسری جانب ورسک کالونی پشاور میں دہشت گردی کی کوشش کی' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے پیچھے موجود ماسٹر مائنڈ بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی کارروائیاں کر کے ملک کو ہر سطح پر نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے بڑی تگ و دو کی ضرورت ہے بالخصوص ان کے سہولت کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ بیرونی امداد اور داخلی سطح پر سہولت کاروں کی اعانت کے بغیر دہشت گردی کی منظم کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ جہاں تک بیرونی ریشہ دوانیوں کا تعلق ہے تو یہ اطلاعات سامنے آ چکی ہیں کہ بھارت اور افغانستان مشترکہ طور پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ بھارت پاکستان کے خلاف بڑے پیمانے پر سازشوں کے جال بن رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ 1971ء میں پاکستان توڑنے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا' اب بھارتی ایئرچیف مارشل اروپ راہا نے بھی اعتراف کیا ہے کہ 1971ء میں بھارت کی تینوں مسلح افواج نے مل کر بنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستانی حکومت کو اس اعتراف کے بعد بھارتی حکومت سے شدید احتجاج کرنے کے علاوہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورم پر اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے' اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق کسی بھی دوسرے ملک کی سلامتی سے کھیلنا عالمی جرم ہے' پاکستان توڑنے کے جرم میں اور موجودہ مغربی پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے پر بھارت کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ حکومت کو سرحدوں پر نگرانی کا نظام مزید سخت کرنا ہو گا کیونکہ دہشت گردوں کو سرحد پار سے بھرپور اعانت مل رہی ہے اور وہ دہشت گردی کی واردات کے بعد سرحد پار کر کے اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔
افغانستان کی حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی اجازت دے۔ سیاسی اور عسکری قیادت بارہا اس عزم کا اظہار کر چکی ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے' جس انداز میں پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر کے انھیں شدید نقصان پہنچا رہی ہے اس سے یہ امید ابھرتی ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ جلد ہی ہو جائے گا۔
ضلع کچہری مردان میں جمعے کو یکے بعد دیگرے دو دھماکوں میں پولیس اہلکار سمیت 12افراد شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔ پہلے حملے میں خود کش بمبار نے ضلع کچہری کے گیٹ پر تلاشی سے بچنے کے لیے دستی بم سے حملہ کیا اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے بعد وہاں قیامت صغریٰ برپا ہو گئی۔ ادھر پشاور میں ورسک ڈیم کے قریب ورسک کالونی میں صبح سویرے گولہ بارود اور اسلحے سے لیس چار دہشت گرد داخل ہو گئے مگر پولیس اور سیکیورٹی فورسز سے مقابلے میں چاروں خود کش بمبار ہلاک ہو گئے جب کہ دو ایف سی اہلکار' ایک پولیس کانسٹیبل اور دو شہری زخمی ہو گئے۔
صدر ممنون حسین' وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے مردان کچہری میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف صورتحال کا جائزہ لینے مردان پہنچ گئے۔ ادھر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے پشاور میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن پر سیکیورٹی فورسز اور پولیس کو خراج تحسین پیش کیا۔
کچھ عرصہ قبل دہشت گردوں نے کوئٹہ میں وکلاء کو نشانہ بنایا تھا اب انھوں نے ضلع کچہری مردان میں حملہ کر کے خوف و ہراس پیدا کیا اور ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ خبروں کے مطابق ورسک کالونی پشاور میں بمباروں کو پناہ دینے والے دو سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دہشت گردوں نے دسمبر 2015ء میں مردان میں نادرا کے دفتر پر بھی خود کش حملہ کیا تھا جس میں 26افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ گزشتہ چند عشروں سے جاری دہشت گردی کی لہر کے دوران میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت ہزاروں شہری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ اب دہشت گردوں نے وکلاء کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے' آخر اس کے پیچھے ان کے کیا ناپاک عزائم ہیں اور وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق جب عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس سے ملک میں خوف و ہراس تو پیدا ہوتا ہے مگر عوامی سطح پر منظم احتجاج نہیں ہوتا' جب کسی قوم' تنظیم' گروہ یا ادارے پر حملہ کرکے اسے نقصان پہنچایا جاتا ہے تو اس سے متاثرہ فریق سڑکوں پر آ کر حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج اور توڑ پھوڑ کرتا ہے' اس سے اندرونی خلفشار میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ایک جانب دہشت گردوں نے ضلع کچہری مردان میں حملہ کیا تو دوسری جانب ورسک کالونی پشاور میں دہشت گردی کی کوشش کی' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے پیچھے موجود ماسٹر مائنڈ بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی کارروائیاں کر کے ملک کو ہر سطح پر نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے بڑی تگ و دو کی ضرورت ہے بالخصوص ان کے سہولت کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ بیرونی امداد اور داخلی سطح پر سہولت کاروں کی اعانت کے بغیر دہشت گردی کی منظم کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ جہاں تک بیرونی ریشہ دوانیوں کا تعلق ہے تو یہ اطلاعات سامنے آ چکی ہیں کہ بھارت اور افغانستان مشترکہ طور پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ بھارت پاکستان کے خلاف بڑے پیمانے پر سازشوں کے جال بن رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ 1971ء میں پاکستان توڑنے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا' اب بھارتی ایئرچیف مارشل اروپ راہا نے بھی اعتراف کیا ہے کہ 1971ء میں بھارت کی تینوں مسلح افواج نے مل کر بنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستانی حکومت کو اس اعتراف کے بعد بھارتی حکومت سے شدید احتجاج کرنے کے علاوہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورم پر اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے' اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق کسی بھی دوسرے ملک کی سلامتی سے کھیلنا عالمی جرم ہے' پاکستان توڑنے کے جرم میں اور موجودہ مغربی پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے پر بھارت کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ حکومت کو سرحدوں پر نگرانی کا نظام مزید سخت کرنا ہو گا کیونکہ دہشت گردوں کو سرحد پار سے بھرپور اعانت مل رہی ہے اور وہ دہشت گردی کی واردات کے بعد سرحد پار کر کے اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔
افغانستان کی حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی اجازت دے۔ سیاسی اور عسکری قیادت بارہا اس عزم کا اظہار کر چکی ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے' جس انداز میں پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر کے انھیں شدید نقصان پہنچا رہی ہے اس سے یہ امید ابھرتی ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ جلد ہی ہو جائے گا۔