مرحوم زاہد ملک کا تحفہ
وہ کسی بات کی نمائش نہیں کر رہے تھے اپنے اندر کے چھپے ہوئے ایمان کا اعتراف کر رہے تھے
یہ عجیب اتفاق ہے کہ میں متروکہ سامان میں سے کچھ تلاش کر رہا تھا کہ ایک غیرملکی صابن کی تین ٹکیوں کا ایک پیکٹ دکھائی دیا۔ میں نے وہ نکال لیا اور کئی پرانی باتیں یاد کرنے لگا۔ یاد آیا کہ مجھے یہ صابن پسند تھا۔ ایک غیرملکی دورے میں جہاں شاپنگ ضروری روایت سمجھی جاتی ہے، میں یہ صابن بھی تلاش کر رہا تھا۔ میں نے اسے الگ سے محفوظ کر لیا اور اس کے ساتھ کئی یادیں بھی۔
یہ میرے ایک غیرملکی دورے میں میرے ایک ہمسفر زاہد نے مجھے تحفے میں دی تھیں۔ میں اسے تلاش کر رہا تھا اور مل نہیں رہا تھا جب کہ زاہد کو کہیں سے مل گیا اور اس نے اس کا ایک پیکٹ بنا کر مجھے تحفے میں دیا کہ تم جسے تلاش کر رہے ہو وہ مجھے مل گیا، زاہد ملک کی پیاری رفاقت کی یہ ایک نشانی تھی۔ اب وہ نشانی ظاہر ہے کہ ختم ہو گئی ہے اور اب اس نشانی کو دینے والا بھی ختم ہو گیا ہے۔ زاہد ملک فوت ہو گیا ہے اور مجھے ایک دوست کی جدائی کا غم دے گیا ہے۔
زاہد ملک اسلام آباد میں رہتا تھا جہاں سے وہ اخبار چلاتا تھا اور مستقل شکوہ کرتا تھا کہ تم لوگ اسلام آباد آتے جاتے ہو مگر ملتے نہیں ہو۔ کبھی اتفاق سے ملاقات ہو گئی تو دوسری بات ہے۔ راولپنڈی میں ایک ریستوران تھا جہاں صحافی اور ان کے دوست بیٹھا کرتے تھے۔ اس علاقے میں قیام کے دوران کبھی وہاں جا نکلتے تو ملاقات ہو جاتی۔ پرجوش ملاقات جو راولپنڈی والے لاہوریوں کے لیے بچا کر رکھتے تھے۔ زاہد ملک اہل حدیث تھے اور سعودیوں کے ساتھ ان کے خصوصی تعلقات تھے۔ مجھے اس کا پتہ اس وقت چلا جب میں سعودی عرب کے سفر کے لیے کچھ مشکلات سے دوچار تھا۔
کسی نے زاہد کا حوالہ دیا اور میں نے جب اس سے بات کی تو اس نے پوچھا کہ مجھے اپنا پروگرام بتاؤ، باقی سب ٹھیک ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا بلکہ یہ سفارش اس قدر موقر تھی کہ میں سعودی حکومت کا مہمان بنتے بنتے مشکل سے بچا۔ ایسی مہمانیاں اور میزبانیاں بعض اوقات آپ کی آزادی میں رکاوٹ بن جاتی ہیں اس لیے میں نے زاہد کا بہت شکریہ ادا کیا جس نے مجھے بتایا کہ تم نے ایک اچھا موقع ضایع کر دیا۔
سعودی ایسے معاملات میں بہت محتاط ہوتے ہیں اور کنجوس بھی کیونکہ ان کے ہاں مہمان نوازی کے خواہشمندوں کی فہرست بہت طویل ہوتی ہے اور وہ جسے مہمان بناتے ہیں عرب روایات کے مطابق میزبانی کا حق ادا کرتے ہیں۔ میں اب میزبانی کے حقوق کا تذکرہ نہیں کروں گا۔ کسی خوش نصیب مہمان کو کوئی ایسا مقام دینے کی سعادت مل سکتی ہے جو سربراہان مملکت کو بھی شاید نہ مل سکے۔ میرے گھر میں جھاڑو کا ایک ٹکڑا پڑا ہے جو سبز غلاف میں ملفوف ہے اور گھر کی ایک دیوار کے ساتھ آویزاں ہے۔
میرے گھر میں اگر کچھ تھوڑی بہت برکت ہے تو اسی ایک ٹکڑے کی وجہ سے ہے جو مولانا کوثر نیازی مرحوم خانہ کعبہ کی زیارت سے فارغ ہو کر اپنے کھلے لباس میں چھپا کر باہر لے آئے تھے اور بعد میں اس کا ایک ٹکڑا میرے ساتھ قدیم رفاقت کی وجہ سے مجھے عطا کر دیا تھا جو پہلے تو میں نے نہ جانے کہاں کہاں محفوظ رکھا بالآخر بطور تبرک ایک غلاف میں لپیٹ کر سامنے کی دیوار پر آویزاں کر دیا جسے میں صبح و شام، دن رات دیکھتا رہتا ہوں اور برادرم نیازی کو یاد کرتا ہوں۔
ہم پرانی طرز کے مسلمانوں کے لیے یہی وہ تحفے ہیں جن کی برکت سے ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔ میرے پاس غلاف بیت اللہ کا ایک ٹکڑا تھا جواس وقت کے سیکولر گورنر چوہدری الطاف حسین صاحب نے مجھ سے گویا چھین لیا اور اسے لپیٹتے ہوئے یہ کہہ کر محفوظ کر لیا کہ اگر کفن کے ساتھ اسے بھی رکھ دیا جائے تو اچھا ہو گا۔ میں نے بڑے بڑے نامور سیکولر مسلمان دیکھے ہیں جن کے سینوں میں ایمان کی شمع بھی روشن تھی۔ محترم فیض صاحب گاؤں جا کر جمعہ کی نماز پڑھا کر آتے تھے۔
وہ کسی بات کی نمائش نہیں کر رہے تھے اپنے اندر کے چھپے ہوئے ایمان کا اعتراف کر رہے تھے۔ فیض صاحب عربی زبان میں ایم اے تھے اور اسلامی تعلیمات کو سمجھتے تھے۔ میں ان کی ادارت میں ہفت روزہ لیل و نہار کے عملے میں شامل رہا اور اس طرح بعض مضامین کی تصحیح اور منظوری کے لیے ان سے علیحدگی میں بھی رابطہ ہو جاتا تھا۔ انھیں شکایت تھی کہ ہم مسلمانوں نے اپنے دین کو صحیح طریقے سے سمجھا نہیں اور اس میں قصور سراسر ہمارے دینی علماء کا ہے۔
بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ایک بات جو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ فیض احمد فیض مسلمان بھی تھے وہ پروپگنڈے کے مطابق صرف کمیونسٹ ہی نہیں تھے۔ کمیونسٹوں نے ضرورت کے تحت انھیں کمیونسٹ بنا دیا تھا کیونکہ کمیونسٹوں خصوصاً پاکستانی کمیونسٹوں کا خانہ خالی تھا ان کی صفوں میں کوئی ایسی مقتدر شخصیت نہیں تھی جس کا وہ حوالہ دے سکتے۔ فیض صاحب کے اسم گرامی سے وہ خانہ پری کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن خود فیض صاحب ان کا پورا ساتھ نہیں دیتے تھے۔
میں کئی برس تک اس ہفت روزہ رسالے میں ملازمت کرتا رہا جس کے فیض صاحب اور سید سبط حسن جیسے لوگ ایڈیٹر تھے جن کے کمیونزم کا حوالہ دیا جاتا تھا۔ سبط صاحب تو بڑی حد تک ایک کمیونسٹ تھے لیکن فیض صاحب پر کمیونزم کی مہر لگانا آسان نہ تھا کیونکہ جب بھی موقع ملتا وہ اندر سے مسلمان نکل آتے تھے اس لیے کہ وہ مسلمان تھے ان پر کمیونزم کا الزام لگانا آسان نہ تھا۔
پاکستان میں کمیونزم اگر تھا بھی تو جھجکتا ہوا، یہاں اسلام کی جڑیں اتنی گہری تھیں کہ ان کو اکھاڑ کر ان کی جگہ کسی دوسرے نظریے کو کاشت نہیں کیا جا سکتا تھا۔ فیض صاحب تو ایک وضعدار زندگی بسر کرتے تھے اور ان کا عام رویہ مصالحانہ تھا یعنی شریفانہ لیکن سبط صاحب ایک کٹر کمیونسٹ تھے۔ وہ جتنے اچھے انسان تھے اتنے ہی اچھے کمیونسٹ بھی تھے۔
لاہور میں ان کے ساتھ کام کرنے والوں میں سے ایک صاحب کراچی گئے اور ان سے ملنے چلے گئے۔ انھوں نے ان کی جیب میں بہت ساری رقم ڈال دی کہ میں ان دنوں یہاں ایک کمپنی میں کام کر رہا ہوں تنخواہ زیادہ ہے اور بچ جاتی ہے جو میں بانٹ دیتا ہوں۔ یہ کچھ پیسے تم لے جاؤ اور پرانے ساتھیوں میں سے کوئی کراچی آئے تو کہہ دینا کہ مجھے مل کر جائے۔ سید سبط حسن ایک سچے کمیونسٹ تھے اور عالم و فاضل بھی۔ وہ ایک دلکش شخصیت کے مالک تھے اور نہایت ہی عزت وآبرو کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔
یہ میرے ایک غیرملکی دورے میں میرے ایک ہمسفر زاہد نے مجھے تحفے میں دی تھیں۔ میں اسے تلاش کر رہا تھا اور مل نہیں رہا تھا جب کہ زاہد کو کہیں سے مل گیا اور اس نے اس کا ایک پیکٹ بنا کر مجھے تحفے میں دیا کہ تم جسے تلاش کر رہے ہو وہ مجھے مل گیا، زاہد ملک کی پیاری رفاقت کی یہ ایک نشانی تھی۔ اب وہ نشانی ظاہر ہے کہ ختم ہو گئی ہے اور اب اس نشانی کو دینے والا بھی ختم ہو گیا ہے۔ زاہد ملک فوت ہو گیا ہے اور مجھے ایک دوست کی جدائی کا غم دے گیا ہے۔
زاہد ملک اسلام آباد میں رہتا تھا جہاں سے وہ اخبار چلاتا تھا اور مستقل شکوہ کرتا تھا کہ تم لوگ اسلام آباد آتے جاتے ہو مگر ملتے نہیں ہو۔ کبھی اتفاق سے ملاقات ہو گئی تو دوسری بات ہے۔ راولپنڈی میں ایک ریستوران تھا جہاں صحافی اور ان کے دوست بیٹھا کرتے تھے۔ اس علاقے میں قیام کے دوران کبھی وہاں جا نکلتے تو ملاقات ہو جاتی۔ پرجوش ملاقات جو راولپنڈی والے لاہوریوں کے لیے بچا کر رکھتے تھے۔ زاہد ملک اہل حدیث تھے اور سعودیوں کے ساتھ ان کے خصوصی تعلقات تھے۔ مجھے اس کا پتہ اس وقت چلا جب میں سعودی عرب کے سفر کے لیے کچھ مشکلات سے دوچار تھا۔
کسی نے زاہد کا حوالہ دیا اور میں نے جب اس سے بات کی تو اس نے پوچھا کہ مجھے اپنا پروگرام بتاؤ، باقی سب ٹھیک ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا بلکہ یہ سفارش اس قدر موقر تھی کہ میں سعودی حکومت کا مہمان بنتے بنتے مشکل سے بچا۔ ایسی مہمانیاں اور میزبانیاں بعض اوقات آپ کی آزادی میں رکاوٹ بن جاتی ہیں اس لیے میں نے زاہد کا بہت شکریہ ادا کیا جس نے مجھے بتایا کہ تم نے ایک اچھا موقع ضایع کر دیا۔
سعودی ایسے معاملات میں بہت محتاط ہوتے ہیں اور کنجوس بھی کیونکہ ان کے ہاں مہمان نوازی کے خواہشمندوں کی فہرست بہت طویل ہوتی ہے اور وہ جسے مہمان بناتے ہیں عرب روایات کے مطابق میزبانی کا حق ادا کرتے ہیں۔ میں اب میزبانی کے حقوق کا تذکرہ نہیں کروں گا۔ کسی خوش نصیب مہمان کو کوئی ایسا مقام دینے کی سعادت مل سکتی ہے جو سربراہان مملکت کو بھی شاید نہ مل سکے۔ میرے گھر میں جھاڑو کا ایک ٹکڑا پڑا ہے جو سبز غلاف میں ملفوف ہے اور گھر کی ایک دیوار کے ساتھ آویزاں ہے۔
میرے گھر میں اگر کچھ تھوڑی بہت برکت ہے تو اسی ایک ٹکڑے کی وجہ سے ہے جو مولانا کوثر نیازی مرحوم خانہ کعبہ کی زیارت سے فارغ ہو کر اپنے کھلے لباس میں چھپا کر باہر لے آئے تھے اور بعد میں اس کا ایک ٹکڑا میرے ساتھ قدیم رفاقت کی وجہ سے مجھے عطا کر دیا تھا جو پہلے تو میں نے نہ جانے کہاں کہاں محفوظ رکھا بالآخر بطور تبرک ایک غلاف میں لپیٹ کر سامنے کی دیوار پر آویزاں کر دیا جسے میں صبح و شام، دن رات دیکھتا رہتا ہوں اور برادرم نیازی کو یاد کرتا ہوں۔
ہم پرانی طرز کے مسلمانوں کے لیے یہی وہ تحفے ہیں جن کی برکت سے ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔ میرے پاس غلاف بیت اللہ کا ایک ٹکڑا تھا جواس وقت کے سیکولر گورنر چوہدری الطاف حسین صاحب نے مجھ سے گویا چھین لیا اور اسے لپیٹتے ہوئے یہ کہہ کر محفوظ کر لیا کہ اگر کفن کے ساتھ اسے بھی رکھ دیا جائے تو اچھا ہو گا۔ میں نے بڑے بڑے نامور سیکولر مسلمان دیکھے ہیں جن کے سینوں میں ایمان کی شمع بھی روشن تھی۔ محترم فیض صاحب گاؤں جا کر جمعہ کی نماز پڑھا کر آتے تھے۔
وہ کسی بات کی نمائش نہیں کر رہے تھے اپنے اندر کے چھپے ہوئے ایمان کا اعتراف کر رہے تھے۔ فیض صاحب عربی زبان میں ایم اے تھے اور اسلامی تعلیمات کو سمجھتے تھے۔ میں ان کی ادارت میں ہفت روزہ لیل و نہار کے عملے میں شامل رہا اور اس طرح بعض مضامین کی تصحیح اور منظوری کے لیے ان سے علیحدگی میں بھی رابطہ ہو جاتا تھا۔ انھیں شکایت تھی کہ ہم مسلمانوں نے اپنے دین کو صحیح طریقے سے سمجھا نہیں اور اس میں قصور سراسر ہمارے دینی علماء کا ہے۔
بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ایک بات جو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ فیض احمد فیض مسلمان بھی تھے وہ پروپگنڈے کے مطابق صرف کمیونسٹ ہی نہیں تھے۔ کمیونسٹوں نے ضرورت کے تحت انھیں کمیونسٹ بنا دیا تھا کیونکہ کمیونسٹوں خصوصاً پاکستانی کمیونسٹوں کا خانہ خالی تھا ان کی صفوں میں کوئی ایسی مقتدر شخصیت نہیں تھی جس کا وہ حوالہ دے سکتے۔ فیض صاحب کے اسم گرامی سے وہ خانہ پری کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن خود فیض صاحب ان کا پورا ساتھ نہیں دیتے تھے۔
میں کئی برس تک اس ہفت روزہ رسالے میں ملازمت کرتا رہا جس کے فیض صاحب اور سید سبط حسن جیسے لوگ ایڈیٹر تھے جن کے کمیونزم کا حوالہ دیا جاتا تھا۔ سبط صاحب تو بڑی حد تک ایک کمیونسٹ تھے لیکن فیض صاحب پر کمیونزم کی مہر لگانا آسان نہ تھا کیونکہ جب بھی موقع ملتا وہ اندر سے مسلمان نکل آتے تھے اس لیے کہ وہ مسلمان تھے ان پر کمیونزم کا الزام لگانا آسان نہ تھا۔
پاکستان میں کمیونزم اگر تھا بھی تو جھجکتا ہوا، یہاں اسلام کی جڑیں اتنی گہری تھیں کہ ان کو اکھاڑ کر ان کی جگہ کسی دوسرے نظریے کو کاشت نہیں کیا جا سکتا تھا۔ فیض صاحب تو ایک وضعدار زندگی بسر کرتے تھے اور ان کا عام رویہ مصالحانہ تھا یعنی شریفانہ لیکن سبط صاحب ایک کٹر کمیونسٹ تھے۔ وہ جتنے اچھے انسان تھے اتنے ہی اچھے کمیونسٹ بھی تھے۔
لاہور میں ان کے ساتھ کام کرنے والوں میں سے ایک صاحب کراچی گئے اور ان سے ملنے چلے گئے۔ انھوں نے ان کی جیب میں بہت ساری رقم ڈال دی کہ میں ان دنوں یہاں ایک کمپنی میں کام کر رہا ہوں تنخواہ زیادہ ہے اور بچ جاتی ہے جو میں بانٹ دیتا ہوں۔ یہ کچھ پیسے تم لے جاؤ اور پرانے ساتھیوں میں سے کوئی کراچی آئے تو کہہ دینا کہ مجھے مل کر جائے۔ سید سبط حسن ایک سچے کمیونسٹ تھے اور عالم و فاضل بھی۔ وہ ایک دلکش شخصیت کے مالک تھے اور نہایت ہی عزت وآبرو کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔