شتر بے مہار نسل اور اساتذہ
وہ زمانے تو ہوا ہوئے جب والدین استاد کے حوالے اپنے لخت جگر کوکرتے ہوئے کہتے تھے
وہ زمانے تو ہوا ہوئے جب والدین استاد کے حوالے اپنے لخت جگر کوکرتے ہوئے کہتے تھے۔ ''ہڈیاں ہماری کھال آپ کی'' یعنی تربیت کے لیے اگر شاگرد کی کھال بھی ادھیڑنی پڑے تو والدین کو اعتراض تو ہوتا ہی نہیں تھا، طالب علم بھی استاد کی شکایت گھر پہ کسی سے نہ کرتا تھا، لیکن آج استادکا وہ مقام ہی نہ رہا جس کی بنا پر اسے ''روحانی باپ'' کا درجہ حاصل تھا۔
پہلے تعلیم کے شعبے سے وہ لوگ منسلک ہوتے تھے جن کا رجحان ہی تدریس کی طرف ہوتا تھا، لیکن آج یہ صورتحال ہے کہ جنھیں کہیں نوکری نہ ملی وہ کسی بھی پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر بن گئے۔ ایم۔بی۔اے کرنے والا ہو یا ایم بی بی ایس، یا انجینئرنگ کی ڈگری رکھنے والا، ان سب کی کھپت شعبہ تعلیم میں خوب ہو جاتی ہے۔ البتہ کالج لیول پر وہ بھی گورنمنٹ کالجوں میں تعیناتی کے لیے متعلقہ مضمون میں ماسٹرز ڈگری لازمی ہے۔ اس کا حل بھی جعلی ڈگریوں کے طفیل ڈھونڈ لیا گیا ہے۔
خاص طور پر کسی سیاسی دور میں اور بالخصوص پچھلے ادوار میں جس رفتار سے من پسند افراد کو نوکریاں، سفارش، پیسہ اور جعلی ڈگریوں کی بنا پر عطا کی گئی ہیں، وہ ایک ہولناک ریکارڈ ہے۔ جس کو ڈگری کے مطابق پیسے دے کر بھی نوکری نہ ملی اسے محکمہ تعلیم نے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ ''سیاں بھئے کوتوال' اب ڈر کاہے کا'' گول خانے میں چوکھونٹی چیز نصب کرنے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ سب کو نظر آ رہا ہے۔ رہی سہی کسرکوچنگ سینٹرز نے پوری کر دی، جس کا جال پورے ملک میں بچھا ہے، لیکن سوائے چند ایک کو چھوڑ کر سب مال بنانے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ والدین کی سرپرستی بھی ان ٹیوشن سینٹرزکو نصیب ہے۔
سچ پوچھیے تو تعلیم کا بیڑہ غرق نیشنلائزیشن سے ہوا، لیکن اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ مجھے اور مجھ جیسی سوچ رکھنے والے بہت سے دردمندوں کے لیے یہ رویہ باعث تشویش ہے کہ استاد کا وقار بری طرح مجروح ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ والدین استاد کو بھی ایک ملازم سمجھتے ہیں۔ جو کسی بھی قصور پرگردن زدنی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
جن پرائیویٹ اداروں میں بالخصوص وہ تعلیمی ادارے جن میں طاقتور طبقات کے بچوں کی اکثریت پڑھتی ہے، وہاں مجال نہیں کہ کوئی استاد طلبا و طالبات کو سزا دینا تو درکنار انھیں غلط عادات، غلط رویوں اور نازیبا حرکات پہ روک ٹوک بھی کر سکے کہ دوسرے ہی دن ماں یا باپ میں سے کوئی ایک کھڑا ٹیچرکو لتاڑ رہا ہوتا ہے، اسے نوکری سے برخاست یا دور دراز علاقے میں ٹرانسفر کی دھمکی دیتا ہے اور بے چارہ ٹیچر معاشی مجبوری کے تحت سب کچھ سنتا ہے اور آنسو ضبط کر کے واپس کلاس روم میں چلا جاتا ہے۔
آج کل لوگ معیار تعلیم گرنے کا سارا ملبہ اسکولوں اور اساتذہ پر ڈال دیتے ہیں، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جب آپ نے استاد سے تربیت کا حق چھین لیا تو استاد کیا کرے۔ ہر بچے کی طبیعت اور نفسیات الگ ہوتی ہے۔کوئی ذہین ہوتا ہے،کوئی فطین،کوئی عام درمیانے درجے کا اسٹوڈنٹ اورکوئی سرے سے پڑھنا ہی نہیں چاہتا۔ اسی لیے ان کے ساتھ رویہ بھی مختلف ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے والدین کی عدم دلچسپی اور ناروا رویے کی وجہ سے کام چور، نکمے اور بدتمیز طلبا و طالبات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے؟ کیوں؟ اس لیے کہ والدین نے استاد سے تربیت کرنے کا حق چھین لیا ہے۔
کسی بچے یا بچی کو ٹیچر نے سرزنش کی اور اس نے گھر جا کر والدہ محترمہ کو اس انداز میں جا کر بتایا کہ وہ بغیر سوچے سمجھے دوسرے دن اسکول جا پہنچیں اور زمین آسمان ایک کر دیا۔ ہزار پرنسپل اور ٹیچر سمجھا رہی ہیں کہ آپ کی بچی کا رویہ بہت جارحانہ ہوتا ہے۔ وہ ساتھی طلبا و طالبات اور کلاس فیلوز سے ناحق الجھتی ہے۔ آئے دن اس کی شکایتیں آتی ہیں لیکن وہ بچی کی بات کو سچ سمجھتی ہیں، پرنسپل اور ٹیچر کو جھوٹا۔ یہی رویہ مائیں اس وقت رکھتی ہیں جب بیٹیاں بیاہ کر سسرال جاتی ہیں اور چند دن بعد ہی سسرال والوں خصوصاً ساس اور نند کے متعلق جھوٹی شکایتیں آ کر والدہ محترمہ کے گوش گزار کرتی ہیں۔
جواب میں اماں جان وہی رویہ اختیار کرتی ہیں جو بچپن میں کلاس ٹیچر سے کیا تھا۔ بیٹی کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سسرال کی اور شوہر کی جیسی بھی جتنی بھی جھوٹی شکایتیں ماں اور باپ سے کر لے گی وہ الفاظ کے ڈنڈے اور سازشوں کے تیر کمان لے کر سسرال والوں پہ چڑھ دوڑیں گے۔ داماد بے چارہ ویسے ہی سازشوں کے طلسم میں پھنس کر والدین کو کھو بیٹھا ہے۔ پھر یہ تربیت کے فقدان کا سلسلہ اگلی نسلوں تک چلتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر ایک غلط عورت بہو یا بیوی بن کر گھر میں آ جائے تو کئی نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔
آج کل والدین اولاد کے معاملے میں بہت زیادہ حساس ہو گئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ پہلے اسکول جا کر اصل حقیقت معلوم کریں اور اگر غلطی اپنی اولاد کی ہو تو انھیں معذرت کرنی چاہیے اور بچی کو بھی سمجھانا چاہیے، تا کہ اس کے دل میں استاد کی عزت و احترام پیدا ہو۔ لیکن ایسا اب ہوتا نہیں ہے۔ اسی لیے ہر طرف ایک طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے۔ استاد کسی طالب علم کو ڈانٹ بھی نہیں سکتا۔ ہوم ورک نہ کرنے پر سزا نہیں دے سکتا۔ کلاس میں موبائل فون لانے سے روک نہیں سکتا۔
باپ کا جتنا بڑا عہدہ اتنا ہی طالب علم بدتمیز۔ وردی والے، صنعت کار، اور سرمایہ دار تو رہے ایک طرف اب تو ایک انگوٹھا چھاپ سیاست دان بھی استاد کو ٹھوکروں میں رکھتا ہے۔ کبھی کسی نے سوچا کہ آخر گریڈ کیسے بدل جاتے ہیں۔ کاپیاں کیسے تبدیل ہو جاتی ہیں؟ یہ سب متذکرہ بالا لوگ اپنا اپنا اثر و رسوخ استعمال کروا کے کاپیوں، پریکٹیکل اور مارکس شیٹ میں من مانا اضافہ نمبروں اور گریڈ میں کیسے کرواتے ہیں۔ حقیقت جان جائیں تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے، لیکن آخر میں پکڑا جاتا ہے پگڑی والا، چاہے جرم کیا ہو ٹوپی والے نے۔
انھی تلخ حقائق کو جان لینے کے بعد اساتذہ نے بھی شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کر لی ہیں۔ وہ صرف نصاب پڑھاتا ہے، غلطیاں خود درست کرتا ہے اور کاپی پہ V. Good کا ریمارکس بھی دیتا ہے کہ اس کے سر پر والدین کے ناروا رویے اور اسکول کے مالک کی تلوار بھی لٹک رہی ہوتی ہے۔ آج نئی نسل وہ خود رو پودے ہیں جن کی کانٹ چھانٹ اور انھیں سیدھا رکھنے کی ذمے داری تجربہ کار مالی سے لے لی گئی ہے۔ یہ پودے بے ہنگم انداز میں جدھر اور جس طرح بڑھ رہے ہیں اس کی طرف توجہ دینے کی فرصت ماں باپ کو تو سرے سے نہیں رہی۔ جو تھوڑی بہت ذمے داری ایک سچا، اچھا اور مخلص ٹیچر نبھاتا ہے اس نے مایوس ہو کر آنکھیں بند کر لی ہیں۔
پہلے تعلیم کے شعبے سے وہ لوگ منسلک ہوتے تھے جن کا رجحان ہی تدریس کی طرف ہوتا تھا، لیکن آج یہ صورتحال ہے کہ جنھیں کہیں نوکری نہ ملی وہ کسی بھی پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر بن گئے۔ ایم۔بی۔اے کرنے والا ہو یا ایم بی بی ایس، یا انجینئرنگ کی ڈگری رکھنے والا، ان سب کی کھپت شعبہ تعلیم میں خوب ہو جاتی ہے۔ البتہ کالج لیول پر وہ بھی گورنمنٹ کالجوں میں تعیناتی کے لیے متعلقہ مضمون میں ماسٹرز ڈگری لازمی ہے۔ اس کا حل بھی جعلی ڈگریوں کے طفیل ڈھونڈ لیا گیا ہے۔
خاص طور پر کسی سیاسی دور میں اور بالخصوص پچھلے ادوار میں جس رفتار سے من پسند افراد کو نوکریاں، سفارش، پیسہ اور جعلی ڈگریوں کی بنا پر عطا کی گئی ہیں، وہ ایک ہولناک ریکارڈ ہے۔ جس کو ڈگری کے مطابق پیسے دے کر بھی نوکری نہ ملی اسے محکمہ تعلیم نے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ ''سیاں بھئے کوتوال' اب ڈر کاہے کا'' گول خانے میں چوکھونٹی چیز نصب کرنے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ سب کو نظر آ رہا ہے۔ رہی سہی کسرکوچنگ سینٹرز نے پوری کر دی، جس کا جال پورے ملک میں بچھا ہے، لیکن سوائے چند ایک کو چھوڑ کر سب مال بنانے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ والدین کی سرپرستی بھی ان ٹیوشن سینٹرزکو نصیب ہے۔
سچ پوچھیے تو تعلیم کا بیڑہ غرق نیشنلائزیشن سے ہوا، لیکن اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ مجھے اور مجھ جیسی سوچ رکھنے والے بہت سے دردمندوں کے لیے یہ رویہ باعث تشویش ہے کہ استاد کا وقار بری طرح مجروح ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ والدین استاد کو بھی ایک ملازم سمجھتے ہیں۔ جو کسی بھی قصور پرگردن زدنی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
جن پرائیویٹ اداروں میں بالخصوص وہ تعلیمی ادارے جن میں طاقتور طبقات کے بچوں کی اکثریت پڑھتی ہے، وہاں مجال نہیں کہ کوئی استاد طلبا و طالبات کو سزا دینا تو درکنار انھیں غلط عادات، غلط رویوں اور نازیبا حرکات پہ روک ٹوک بھی کر سکے کہ دوسرے ہی دن ماں یا باپ میں سے کوئی ایک کھڑا ٹیچرکو لتاڑ رہا ہوتا ہے، اسے نوکری سے برخاست یا دور دراز علاقے میں ٹرانسفر کی دھمکی دیتا ہے اور بے چارہ ٹیچر معاشی مجبوری کے تحت سب کچھ سنتا ہے اور آنسو ضبط کر کے واپس کلاس روم میں چلا جاتا ہے۔
آج کل لوگ معیار تعلیم گرنے کا سارا ملبہ اسکولوں اور اساتذہ پر ڈال دیتے ہیں، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جب آپ نے استاد سے تربیت کا حق چھین لیا تو استاد کیا کرے۔ ہر بچے کی طبیعت اور نفسیات الگ ہوتی ہے۔کوئی ذہین ہوتا ہے،کوئی فطین،کوئی عام درمیانے درجے کا اسٹوڈنٹ اورکوئی سرے سے پڑھنا ہی نہیں چاہتا۔ اسی لیے ان کے ساتھ رویہ بھی مختلف ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے والدین کی عدم دلچسپی اور ناروا رویے کی وجہ سے کام چور، نکمے اور بدتمیز طلبا و طالبات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے؟ کیوں؟ اس لیے کہ والدین نے استاد سے تربیت کرنے کا حق چھین لیا ہے۔
کسی بچے یا بچی کو ٹیچر نے سرزنش کی اور اس نے گھر جا کر والدہ محترمہ کو اس انداز میں جا کر بتایا کہ وہ بغیر سوچے سمجھے دوسرے دن اسکول جا پہنچیں اور زمین آسمان ایک کر دیا۔ ہزار پرنسپل اور ٹیچر سمجھا رہی ہیں کہ آپ کی بچی کا رویہ بہت جارحانہ ہوتا ہے۔ وہ ساتھی طلبا و طالبات اور کلاس فیلوز سے ناحق الجھتی ہے۔ آئے دن اس کی شکایتیں آتی ہیں لیکن وہ بچی کی بات کو سچ سمجھتی ہیں، پرنسپل اور ٹیچر کو جھوٹا۔ یہی رویہ مائیں اس وقت رکھتی ہیں جب بیٹیاں بیاہ کر سسرال جاتی ہیں اور چند دن بعد ہی سسرال والوں خصوصاً ساس اور نند کے متعلق جھوٹی شکایتیں آ کر والدہ محترمہ کے گوش گزار کرتی ہیں۔
جواب میں اماں جان وہی رویہ اختیار کرتی ہیں جو بچپن میں کلاس ٹیچر سے کیا تھا۔ بیٹی کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سسرال کی اور شوہر کی جیسی بھی جتنی بھی جھوٹی شکایتیں ماں اور باپ سے کر لے گی وہ الفاظ کے ڈنڈے اور سازشوں کے تیر کمان لے کر سسرال والوں پہ چڑھ دوڑیں گے۔ داماد بے چارہ ویسے ہی سازشوں کے طلسم میں پھنس کر والدین کو کھو بیٹھا ہے۔ پھر یہ تربیت کے فقدان کا سلسلہ اگلی نسلوں تک چلتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر ایک غلط عورت بہو یا بیوی بن کر گھر میں آ جائے تو کئی نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔
آج کل والدین اولاد کے معاملے میں بہت زیادہ حساس ہو گئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ پہلے اسکول جا کر اصل حقیقت معلوم کریں اور اگر غلطی اپنی اولاد کی ہو تو انھیں معذرت کرنی چاہیے اور بچی کو بھی سمجھانا چاہیے، تا کہ اس کے دل میں استاد کی عزت و احترام پیدا ہو۔ لیکن ایسا اب ہوتا نہیں ہے۔ اسی لیے ہر طرف ایک طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے۔ استاد کسی طالب علم کو ڈانٹ بھی نہیں سکتا۔ ہوم ورک نہ کرنے پر سزا نہیں دے سکتا۔ کلاس میں موبائل فون لانے سے روک نہیں سکتا۔
باپ کا جتنا بڑا عہدہ اتنا ہی طالب علم بدتمیز۔ وردی والے، صنعت کار، اور سرمایہ دار تو رہے ایک طرف اب تو ایک انگوٹھا چھاپ سیاست دان بھی استاد کو ٹھوکروں میں رکھتا ہے۔ کبھی کسی نے سوچا کہ آخر گریڈ کیسے بدل جاتے ہیں۔ کاپیاں کیسے تبدیل ہو جاتی ہیں؟ یہ سب متذکرہ بالا لوگ اپنا اپنا اثر و رسوخ استعمال کروا کے کاپیوں، پریکٹیکل اور مارکس شیٹ میں من مانا اضافہ نمبروں اور گریڈ میں کیسے کرواتے ہیں۔ حقیقت جان جائیں تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے، لیکن آخر میں پکڑا جاتا ہے پگڑی والا، چاہے جرم کیا ہو ٹوپی والے نے۔
انھی تلخ حقائق کو جان لینے کے بعد اساتذہ نے بھی شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کر لی ہیں۔ وہ صرف نصاب پڑھاتا ہے، غلطیاں خود درست کرتا ہے اور کاپی پہ V. Good کا ریمارکس بھی دیتا ہے کہ اس کے سر پر والدین کے ناروا رویے اور اسکول کے مالک کی تلوار بھی لٹک رہی ہوتی ہے۔ آج نئی نسل وہ خود رو پودے ہیں جن کی کانٹ چھانٹ اور انھیں سیدھا رکھنے کی ذمے داری تجربہ کار مالی سے لے لی گئی ہے۔ یہ پودے بے ہنگم انداز میں جدھر اور جس طرح بڑھ رہے ہیں اس کی طرف توجہ دینے کی فرصت ماں باپ کو تو سرے سے نہیں رہی۔ جو تھوڑی بہت ذمے داری ایک سچا، اچھا اور مخلص ٹیچر نبھاتا ہے اس نے مایوس ہو کر آنکھیں بند کر لی ہیں۔