پاکستان میں میوزک انڈسٹری کی تباہی
موسیقی کی تھیوری میں اور اس کی نشوونما میں مسلمان موسیقاروں اورگلوکاروں کا ہمیشہ سے گراں قدر حصہ رہا ہے
موسیقی کی تھیوری میں اور اس کی نشوونما میں مسلمان موسیقاروں اورگلوکاروں کا ہمیشہ سے گراں قدر حصہ رہا ہے بہت سے راگ ساز اورگانے جو کئی ملکوں میں رائج ہیں وہ مسلمان فنکاروں یا ہنرمندوں کی جدت طبع کے مرہون منت کہے جاسکتے ہیں۔ابو نصر فارابی کی ''موسیقی الکبیر'' اس فن کی عظیم ترین کتابوں میں سے ہے، جس کا اثر مغربی موسیقی پر بے پایاں ہے، اس کتاب کے مطابق عربی موسیقی یورپ میں اسپین کے راستے داخل ہوئی۔
اسلامی دنیا فارابی، مومن، اسحق موصلی، ذل ذل اور زریاب جیسے لاثانی موسیقاروں کو بطور ثبوت پیش کرسکتی ہے، ان لوگوں نے بلاشبہ فن موسیقی میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں یہ الگ بات ہے کہ مغرب نے ہند و پاک کے تمام موسیقاروں کو ہندو گردان کر ہندوستانی موسیقی کو محض ہندوؤں کا خصوصی فن سمجھا ہے۔ انھوں نے تعصب کی عینک پہن کر ہند میں اسلامی کلچر کی فنونی کوششوں اور کامیابیوں کو نہ صرف نظر انداز کیا ہے بلکہ ہندوؤں کے حق میں ایک تعصبانہ رویہ بھی اختیار کیا ہے اور مسلمانوں کی ثقافتی کامیابیوں کو تحقیر کی نظروں سے دیکھا ہے۔
بہرحال یہ امر مسلمہ ہے کہ فن موسیقی کے ارتقا میں مسلمانوں کا حصہ نمایاں رہا ہے۔ علاؤ الدین خلجی کے دور سے حضرت امیر خسرو کی رہبری میں مسلمان ثقافتی تحریکوں بالخصوص موسیقی کی صف اول کے رہنما رہے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ مسلمانوں میں موسیقی کے حوالے سے بے شمار اساتذہ فن کی خدمات (موسیقی کے حوالے سے) تاریخ کا حصہ ہیں اور ہر دور میں اس حوالے سے ایک دو نام نظر آجاتے ہیں۔
ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ انسان ماضی پرست ہوتا ہے۔ اپنے بزرگوں کے کارناموں پر فخر کرتا ہے اور انھیں بار بار بیان کرتا ہے۔ تاریخ کے کرداروں اور علم و ہنر سے متعلق افراد سے قطع نظر شوبز انڈسٹری پر ہی ایک نگاہ ڈالیے تو یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے۔
ایک زمانے میں لوگ تان سین، سہگل کے لحن پنکجھ ملک کو فراموش نہیں کرسکتے تھے مگر پھر زمانہ سکڑ گیا انسانی ذہن بھی مختصر ہوگیا۔ آج کا نوجوان سہگل کو تو کیا جانے گا وہ تو غلام علی، مکیش اور محمد رفیع تک سے ناآشنا ہوتا جا رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ ذرائع ابلاغ نے بے انتہا ترقی کرلی ہے پھر بھی کل کے لوگ آج فراموش کیے جاچکے ہیں یہی وقت کی افسوسناک سچائی ہے۔
افسوس صد افسوس ملک میں صلاحیت یا ٹیلنٹ کو فروغ دینے، اس کے پرچار یا اس کی ترقی و ترویج کا کوئی رواج ہی نہیں ہے۔ عرصہ دراز ہوگیا کانوں کو کوئی دھن بھلی لگے ہوئے۔ اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم نے مدتوں سے اپنی اصل موسیقی کے سارے رنگوں کو اپنے اجداد کی طرح سپرد خاک کردیا ہے۔ حالانکہ پوری دنیا ہماری موسیقی کاپی کر رہی ہے لیکن خود ہم نے اپنے راگ، اپنی راگنی، اپنے ساز یا اپنی موسیقی اور اپنی ثقافت کو زندہ درگور کرکے کب کا اسے طاق نسیاں پر رکھ دیا ہے اور اس کا مستند ریکارڈ تک نہیں رکھا۔
جدید موسیقی جسے ''پاپ میوزک'' کہا جاتا ہے، ماضی میں اس سے وابستہ لوگ دنیا بھر میں اسے پھیلانے کا باعث بنے یہ پاپ سنگر ملک اور بیرون ملک انڈرگراؤنڈ بینڈز کے ساتھ مل کر پرفارم کیا کرتے تھے۔ تاہم ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، پائریسی اور میوزک انڈسٹری کی احسن طریقے سے ترویج نہ ہونے کی وجہ سے بڑے سنگر ملک سے باہر کنسرٹ میں پرفارم کرتے ہیں اور وہیں سے انھیں بیرون ملک میوزک انڈسٹری کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
بھارت جسے دنیا کی سب سے بڑی فلم اور میوزک انڈسٹری ہونے کا آج شرف حاصل ہے پاکستان کے گلوکاروں کے فن کو احسن طریقے سے کیش کرا رہی ہے۔ نصرت فتح علی خاں، استاد بڑے غلام علی خاں کے بعد غلام علی، راحت فتح علی خاں، عدنان سمیع خان، عاطف اسلم وغیرہ اس کی ٹھوس مثالیں ہیں۔
گھوم پھر کر بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ پاکستان کے جن گلوکاروں اور موسیقاروں کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی اور دنیا بھر کے نامور فنکاروں نے ان کے فن کا اعتراف کیا لیکن ہم ناقدروں نے انھیں کبھی کسی قدر کے لائق نہ سمجھا۔ دکھ، افسوس اور ہماری شوبزانڈسٹری کی بدقسمتی ہے کہ اس نے بڑے بڑے ہنرمندوں کو بہت جلد فراموش کردیا مثلاً ماسٹر غلام حیدر، استاد بڑے غلام علی خاں، فیروز نظامی،خواجہ خورشید انور، ماسٹر عنایت حسین اور رشید عطرے جیسے جید لوگوں کو ہم نے یکسر فراموش کردیا۔
ہم پاکستانیوں کی یہ بدبختی کہہ لیں یا خوبی سمجھ لیں کہ ہمیں اپنے قومی ہنرمندوں اور فنکاروں کی عظمت کا احساس دوسری قومیں دلاتی ہیں۔ ہمارے خمیر میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ''موسیقار اعظم'' کا لقب پانے والے لیجنڈری موسیقار نوشاد علی خود ہمارے موسیقار خواجہ خورشید انور کے فن اور ان کی موسیقی کے شیدائی تھے اور انھیں سب سے اچھا موسیقار مانتے تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ جب بھی سکون کی تلاش میں ہوتا ہوں تو فوراً خورشید انور کی دھن پر ان کا مرتب کردہ گیت:
چلی رے چلی رے میں تو دیس پیا کے چلی رے
بجانا شروع کردیتا ہوں اور سکون اور سرشاری کے سمندر میں اترتا چلا جاتا ہوں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انڈ و پاک دونوں جگہ اب اچھی موسیقی کا فقدان ہوگیا ہے ایک زمانے میں گانوں کے بغیر اچھی فلم کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ فلمی گیت جہاں فلموں کی خوبصورتی اورکامیابی میں اضافہ کرتے وہیں گیتوں کے متوالوں کے لیے راحت جاں اور سکون قلب بھی ہوتے۔
اکثر فلمیں بنیں اور ماتھے پہ ناپسندیدگی کا لیبل لگا کر ڈبوں میں بند ہوگئیں لیکن ان کے گیت آج بھی امر یا سدا بہار کہے جاسکتے ہیں، بھارتی فلموں کے ماضی کے نغمات دیکھ لیں روح سرشار ہوجاتی ہے لیکن اب عرصہ دراز سے بھارتی فلموں کے گائے سننے کے بجائے دیکھنے کی چیز بن کر رہ گئے (وہ بھی صاحب نظر کے لیے نہیں) بھارت میں اب طویل عرصے سے بیشتر فلمیں بغیر گانوں کے بنائی جا رہی ہیں اور انھیں سند قبولیت بھی مل رہی ہے۔
پاکستان میں برسہا برس ہوگئے اچھی دلکش یا دلنواز موسیقی کی حامل کسی فلم کو دیکھے ہوئے۔ مہدی حسن، نور جہاں، احمد رشدی، رونا لیلیٰ، مسعود رانا، مجیب عالم، مہناز، اے نیر، ناہید اختر، اخلاق احمد اور نیرہ نور وغیرہ کے نغمات آج بھی چلتے قدموں کو روک دیتے ہیں۔ ان گیتوں میں کچھ ایسی بات ہے ایسا جادو ہے جو آنیوالے دنوں میں بھی انھیں اسی طرح ترو تازہ رکھے گا۔
فن موسیقی کے زوال، انحطاط یا جمود کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی چلی آرہی ہے کہ ہمارے ہاںگانے بجانے کو معیوب یا حرام سمجھا جاتا ہے باوجود اس حقیقت یا سچائی کے بھی کہ موسیقی انسان کے لاشعور میں رچی بسی ہے اور ایک شیر خوار بچہ تک موسیقی کو لے یا سر تال پر جھومنے لگتا ہے۔ ہمارے ہاں فن موسیقی کے زوال کی ایک اور بہت بڑی وجہ ہمارے عظیم، جید اور لازوال موسیقاروں اور گلوکاروں کا اس دنیا سے چلے جانا بھی ہے۔
بعدازاں ہماری فلمی صنعت کی زبوں حالی یا بربادی نے بھی جہاں فلم کے دیگر شعبوں اور اس سے وابستہ لوگوں کو بھی تباہی مایوسی اور بے کاری سے دوچار کردیا بالکل اسی طرح فن موسیقی پر بھی جمود طاری کردیا۔ ہمارے ملک میں اب بھی اچھے میوزیشن اور اچھے سنگر (موسیقار اور گلوکار) موجود ہیں لیکن ان کو پروموٹ نہیں کیا گیا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو قومیں اپنے ماضی سے تمام رشتے توڑ لیتی ہیں وہ مستقبل میں بھی پس ماندہ رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ اور ترقی یافتہ اقوام نے اپنی تاریخ، تہذیب و ثقافت اور قدیم قدروں کو بہت احتیاط سے سنبھال کر رکھا ہے۔ آج کا حال کل کا مستقبل ہوگا جس طرح کل کا ماضی قوموں کا سرمایہ ہوتا ہے۔ کاش ہم اس حقیقت پر غور کریں اور پھر اسے اپنا شعار بھی بنالیں۔
اسلامی دنیا فارابی، مومن، اسحق موصلی، ذل ذل اور زریاب جیسے لاثانی موسیقاروں کو بطور ثبوت پیش کرسکتی ہے، ان لوگوں نے بلاشبہ فن موسیقی میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں یہ الگ بات ہے کہ مغرب نے ہند و پاک کے تمام موسیقاروں کو ہندو گردان کر ہندوستانی موسیقی کو محض ہندوؤں کا خصوصی فن سمجھا ہے۔ انھوں نے تعصب کی عینک پہن کر ہند میں اسلامی کلچر کی فنونی کوششوں اور کامیابیوں کو نہ صرف نظر انداز کیا ہے بلکہ ہندوؤں کے حق میں ایک تعصبانہ رویہ بھی اختیار کیا ہے اور مسلمانوں کی ثقافتی کامیابیوں کو تحقیر کی نظروں سے دیکھا ہے۔
بہرحال یہ امر مسلمہ ہے کہ فن موسیقی کے ارتقا میں مسلمانوں کا حصہ نمایاں رہا ہے۔ علاؤ الدین خلجی کے دور سے حضرت امیر خسرو کی رہبری میں مسلمان ثقافتی تحریکوں بالخصوص موسیقی کی صف اول کے رہنما رہے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ مسلمانوں میں موسیقی کے حوالے سے بے شمار اساتذہ فن کی خدمات (موسیقی کے حوالے سے) تاریخ کا حصہ ہیں اور ہر دور میں اس حوالے سے ایک دو نام نظر آجاتے ہیں۔
ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ انسان ماضی پرست ہوتا ہے۔ اپنے بزرگوں کے کارناموں پر فخر کرتا ہے اور انھیں بار بار بیان کرتا ہے۔ تاریخ کے کرداروں اور علم و ہنر سے متعلق افراد سے قطع نظر شوبز انڈسٹری پر ہی ایک نگاہ ڈالیے تو یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے۔
ایک زمانے میں لوگ تان سین، سہگل کے لحن پنکجھ ملک کو فراموش نہیں کرسکتے تھے مگر پھر زمانہ سکڑ گیا انسانی ذہن بھی مختصر ہوگیا۔ آج کا نوجوان سہگل کو تو کیا جانے گا وہ تو غلام علی، مکیش اور محمد رفیع تک سے ناآشنا ہوتا جا رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ ذرائع ابلاغ نے بے انتہا ترقی کرلی ہے پھر بھی کل کے لوگ آج فراموش کیے جاچکے ہیں یہی وقت کی افسوسناک سچائی ہے۔
افسوس صد افسوس ملک میں صلاحیت یا ٹیلنٹ کو فروغ دینے، اس کے پرچار یا اس کی ترقی و ترویج کا کوئی رواج ہی نہیں ہے۔ عرصہ دراز ہوگیا کانوں کو کوئی دھن بھلی لگے ہوئے۔ اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم نے مدتوں سے اپنی اصل موسیقی کے سارے رنگوں کو اپنے اجداد کی طرح سپرد خاک کردیا ہے۔ حالانکہ پوری دنیا ہماری موسیقی کاپی کر رہی ہے لیکن خود ہم نے اپنے راگ، اپنی راگنی، اپنے ساز یا اپنی موسیقی اور اپنی ثقافت کو زندہ درگور کرکے کب کا اسے طاق نسیاں پر رکھ دیا ہے اور اس کا مستند ریکارڈ تک نہیں رکھا۔
جدید موسیقی جسے ''پاپ میوزک'' کہا جاتا ہے، ماضی میں اس سے وابستہ لوگ دنیا بھر میں اسے پھیلانے کا باعث بنے یہ پاپ سنگر ملک اور بیرون ملک انڈرگراؤنڈ بینڈز کے ساتھ مل کر پرفارم کیا کرتے تھے۔ تاہم ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، پائریسی اور میوزک انڈسٹری کی احسن طریقے سے ترویج نہ ہونے کی وجہ سے بڑے سنگر ملک سے باہر کنسرٹ میں پرفارم کرتے ہیں اور وہیں سے انھیں بیرون ملک میوزک انڈسٹری کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
بھارت جسے دنیا کی سب سے بڑی فلم اور میوزک انڈسٹری ہونے کا آج شرف حاصل ہے پاکستان کے گلوکاروں کے فن کو احسن طریقے سے کیش کرا رہی ہے۔ نصرت فتح علی خاں، استاد بڑے غلام علی خاں کے بعد غلام علی، راحت فتح علی خاں، عدنان سمیع خان، عاطف اسلم وغیرہ اس کی ٹھوس مثالیں ہیں۔
گھوم پھر کر بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ پاکستان کے جن گلوکاروں اور موسیقاروں کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی اور دنیا بھر کے نامور فنکاروں نے ان کے فن کا اعتراف کیا لیکن ہم ناقدروں نے انھیں کبھی کسی قدر کے لائق نہ سمجھا۔ دکھ، افسوس اور ہماری شوبزانڈسٹری کی بدقسمتی ہے کہ اس نے بڑے بڑے ہنرمندوں کو بہت جلد فراموش کردیا مثلاً ماسٹر غلام حیدر، استاد بڑے غلام علی خاں، فیروز نظامی،خواجہ خورشید انور، ماسٹر عنایت حسین اور رشید عطرے جیسے جید لوگوں کو ہم نے یکسر فراموش کردیا۔
ہم پاکستانیوں کی یہ بدبختی کہہ لیں یا خوبی سمجھ لیں کہ ہمیں اپنے قومی ہنرمندوں اور فنکاروں کی عظمت کا احساس دوسری قومیں دلاتی ہیں۔ ہمارے خمیر میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ''موسیقار اعظم'' کا لقب پانے والے لیجنڈری موسیقار نوشاد علی خود ہمارے موسیقار خواجہ خورشید انور کے فن اور ان کی موسیقی کے شیدائی تھے اور انھیں سب سے اچھا موسیقار مانتے تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ جب بھی سکون کی تلاش میں ہوتا ہوں تو فوراً خورشید انور کی دھن پر ان کا مرتب کردہ گیت:
چلی رے چلی رے میں تو دیس پیا کے چلی رے
بجانا شروع کردیتا ہوں اور سکون اور سرشاری کے سمندر میں اترتا چلا جاتا ہوں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انڈ و پاک دونوں جگہ اب اچھی موسیقی کا فقدان ہوگیا ہے ایک زمانے میں گانوں کے بغیر اچھی فلم کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ فلمی گیت جہاں فلموں کی خوبصورتی اورکامیابی میں اضافہ کرتے وہیں گیتوں کے متوالوں کے لیے راحت جاں اور سکون قلب بھی ہوتے۔
اکثر فلمیں بنیں اور ماتھے پہ ناپسندیدگی کا لیبل لگا کر ڈبوں میں بند ہوگئیں لیکن ان کے گیت آج بھی امر یا سدا بہار کہے جاسکتے ہیں، بھارتی فلموں کے ماضی کے نغمات دیکھ لیں روح سرشار ہوجاتی ہے لیکن اب عرصہ دراز سے بھارتی فلموں کے گائے سننے کے بجائے دیکھنے کی چیز بن کر رہ گئے (وہ بھی صاحب نظر کے لیے نہیں) بھارت میں اب طویل عرصے سے بیشتر فلمیں بغیر گانوں کے بنائی جا رہی ہیں اور انھیں سند قبولیت بھی مل رہی ہے۔
پاکستان میں برسہا برس ہوگئے اچھی دلکش یا دلنواز موسیقی کی حامل کسی فلم کو دیکھے ہوئے۔ مہدی حسن، نور جہاں، احمد رشدی، رونا لیلیٰ، مسعود رانا، مجیب عالم، مہناز، اے نیر، ناہید اختر، اخلاق احمد اور نیرہ نور وغیرہ کے نغمات آج بھی چلتے قدموں کو روک دیتے ہیں۔ ان گیتوں میں کچھ ایسی بات ہے ایسا جادو ہے جو آنیوالے دنوں میں بھی انھیں اسی طرح ترو تازہ رکھے گا۔
فن موسیقی کے زوال، انحطاط یا جمود کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی چلی آرہی ہے کہ ہمارے ہاںگانے بجانے کو معیوب یا حرام سمجھا جاتا ہے باوجود اس حقیقت یا سچائی کے بھی کہ موسیقی انسان کے لاشعور میں رچی بسی ہے اور ایک شیر خوار بچہ تک موسیقی کو لے یا سر تال پر جھومنے لگتا ہے۔ ہمارے ہاں فن موسیقی کے زوال کی ایک اور بہت بڑی وجہ ہمارے عظیم، جید اور لازوال موسیقاروں اور گلوکاروں کا اس دنیا سے چلے جانا بھی ہے۔
بعدازاں ہماری فلمی صنعت کی زبوں حالی یا بربادی نے بھی جہاں فلم کے دیگر شعبوں اور اس سے وابستہ لوگوں کو بھی تباہی مایوسی اور بے کاری سے دوچار کردیا بالکل اسی طرح فن موسیقی پر بھی جمود طاری کردیا۔ ہمارے ملک میں اب بھی اچھے میوزیشن اور اچھے سنگر (موسیقار اور گلوکار) موجود ہیں لیکن ان کو پروموٹ نہیں کیا گیا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو قومیں اپنے ماضی سے تمام رشتے توڑ لیتی ہیں وہ مستقبل میں بھی پس ماندہ رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ اور ترقی یافتہ اقوام نے اپنی تاریخ، تہذیب و ثقافت اور قدیم قدروں کو بہت احتیاط سے سنبھال کر رکھا ہے۔ آج کا حال کل کا مستقبل ہوگا جس طرح کل کا ماضی قوموں کا سرمایہ ہوتا ہے۔ کاش ہم اس حقیقت پر غور کریں اور پھر اسے اپنا شعار بھی بنالیں۔