اب وکلاء نشانے پر
کوئٹہ کے بعد مردان میں بھی دہشت گردوں نے آئین اور قانون کے متوالوں کو نشانہ بنایا۔
کوئٹہ کے بعد مردان میں بھی دہشت گردوں نے آئین اور قانون کے متوالوں کو نشانہ بنایا۔ اس کا فوری سبب؟ اس بارے میں وکلاء رہنما ہی بتا سکتے ہیں۔ اس وقت یہ پیارے پاکستان کا سب سے منظم گروپ ہے۔ ان کی سڑیٹ پاور سے ہی جنرل مشرف کا آہنی اقتدار مسمار ہوا۔ جس دن اُنہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو غیر فعال کیا، ہم اپنے کچھ دوستوںکے ساتھ تھے۔ ہمارے ایک سینئر صحافی دوست نے آکر بتایا کہ جنرل مشرف نے چیف جسٹس کو ہٹا دیا ہے۔ وہاں پر موجود بہت سے چیف جسٹس کا نام تک نہیں جانتے تھے۔
مجھ ناچیز نے کہا کہ جنرل صاحب سے ایک بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ دوستوں نے کہا کہ '' کچھ نہیں ہو گا''۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا، عوام تماشہ دیکھتے رہے۔ ہم نے ڈکٹیٹر ضیا کی آمریت کے دنوں میں وکلاء کے جوش و خروش کو دیکھا تھا۔ جب پورے ملک میں ہو کا عالم تھا تو وکلاء نے لاہور کے مال روڈ پر ایک جلوس نکالا۔ معزز قارئین! اُن دنوں ضیا کے خلاف اس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ یہ جلوس جمہوریت کے پرستاروں کے کسی استعارے سے کم نہیں تھا۔ اپوزیشن اتحاد کو بھی حوصلہ ملا۔ لیاقت وڑائچ ایک معروف وکیل تھے۔
اُنہوں نے سیاسی اسیروں کی رہائی کے لیے کمیٹی بنائی۔آمریت کے موسم میں جو ہوا کاخوشگوار جھونکا ثابت ہوئی۔ لیاقت وڑائچ نے اپنی پریکٹس چھوڑ کر سیاسی قیدیوں کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ کئی بار گرفتار بھی ہوئے۔ افسوس صد افسوس! سیاسی قیدیوں کو رہائی دلانے والا ایک دن عجب انداز میں زندگی سے رہائی پا گیا۔ ایک حادثے میں زخمی ہونے کے بعد وہ جنرل اسپتال میں کئی دن نامعلوم شخص کے طور پر داخل رہے۔ وہیں پر دم توڑ گئے۔ اس سے پہلے کہ لاوارثوں کے قبرستان میں دفن ہوتے، اُن کی شناخت ہو گئی۔برج نرائن چکبستؔ کا ایک شعر بھی یاد آیا۔
ایک ساغر بھی عنایت نہ ہوا یاد رہے
ساقیا جاتے ہیں محفل تری آباد رہے
آج کی محفل میں ایک سے بڑھ کر ایک نام ہے۔ ''اسٹارز وار '' نے وکلاء کو بھی تقسیم کر چھوڑاہے۔ اب وہ اپنی ''بقا'' میں لگے رہتے ہیں۔بات مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف تک جا پہنچی ہے۔ کاش! وکلاء کی قیادت ہماری سیاسی جماعتوں کی اسیر نہ بنتی۔مجھے کہنے دیجئے! دولت جب دروازے سے داخل ہوتی ہے، تو انسانیت کھڑکی اور روشندان سے نکل جاتی ہے۔ غریب ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔اب بم دھماکوں کی ٹائمنگ بھی ہماری سیاست کی گردش میں شامل ہوتی جا رہی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک مفروضہ ہے۔ '' حکومت کے خلاف تحریک کے دنوں میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے''۔'' ان حالات کے پیش ِ نظر اپوزیشن کو اپنی تحریک ختم کر دینی چاہیے''۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی ریاستی ایشو ہے۔
قوم تو ایک نظر آتی ہے لیکن سیاست دان ... صرف بیانات میں ہی اپنے جذبات کا اظہار کر دیتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی روز کی بنیاد پر سیاست کو پورے ملک میں جیسے لاگو کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے پرچم سے الطاف حسین کی تصویر نکال دی ہے۔ اسمبلی میں متفقہ قرارداد بھی منظور ہو گئی۔ لیکن ... دل ہے کہ مانتا نہیں۔ فاروق ستار کی اسمبلی میں تقریر سے شکوک اور بڑھ گئے۔ چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں۔ اُن کے نو منتخب میئر نے ''جئے بھٹو، عمران خان زندہ باد'' کے نعرے بھی لگائے۔ ایم کیو ایم کا ایشو نعروں اور دفاتر کو مسمار کرنے سے حل نہیں ہو گا۔ الطاف حسین پہلے بھی ناٹک کرتے رہے ہیں۔ ان کا ایک سے بڑھ کر ایک اسکرپٹ ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار پر کسی کو یقین نہیں آ رہا ۔ ایم کیو ایم پر ادارے بھی ایک صف میں نہیں۔ یہ صورتحال خوش آیند نہیں۔ ہر آنے والا دن ایک نئی خبر کے ساتھ طلوع ہو رہا ہے۔ اس کا انجام... رئیس ؔ امروہوی کا ایک شعر بھی اس میں شامل کرتے ہیں۔
نہ جانے کونسے سانچے میں ڈھالیں
ابھی تو صرف پگھلایا گیا ہوں
صرف کے بعد...ایک ریاستی مسئلہ سیاست دانوں کے درمیان فٹ بال بن گیا ہے۔ بہت سے ایشوز پہلے ہی اس '' کھیل '' کی نذر ہو چکے ہیں۔ مردان دھماکے سے ایک روز قبل وزیراعظم نے گوادر میں خطاب کیا۔ اُسی روز گلگت میں آرمی چیف کا بھی خطاب تھا۔ دونوں کا مرکزی خیال ایک تھا۔ انداز اور الفاظ مختلف تھے۔ جنرل راحیل شریف نے کھل کر بات کی۔ جس سے اُن کی مقبولت میں اور اضافہ ہوا۔ نواز شریف سیاست دان ہیں۔ بہت سے ایشوز پر وہ کچھ زیادہ ہی تکلف سے کام لیتے ہیں۔وزراء اسے ایک خاص پالیسی کہتے ہیں۔
اُن کے پاس پیارے عوام کا مینڈیٹ ہے۔ عمران خان بھی اُسے تسلیم کرتے ہیں۔ پھر کس بات کی حکمت عملی؟ یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ مینڈیٹ ملنے کے بعد حکمران خود کوکسی بت سے کم نہیں سمجھتے۔ ایک اہم بات کہ بت بنانے والے ، جب چاہیں، اُسے گرا سکتے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کے ساتھ دو مرتبہ ایسا ہو چکا ہے۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے نئے مینڈیٹ کی باتیں چلنا شروع ہو چکی ہیں۔
یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ یہ بھی کہتے چلیں کہ آئین ِ پاکستان میں مڈٹرم الیکشن کی گنجائش ہے۔ جہلم اور بوریوالا کے ضمنی الیکشن میں بظاہر حکومت جیت گئی ۔ کم مارجن کی جیت سے اُس کے مینڈیٹ ازم کو دھچکا لگا ہے۔ آرمی چیف اور عمران خان کی اتفاقی ملاقات پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔ اگر چیف صاحب حکمرانوں سے مل سکتے ہیں تو اپوزیشن سے ملاقات میں کیا حرج ہے۔ عمران خان کی جماعت کے پاس تو ایک صوبے کی حکومت بھی ہے۔ آئینی ترمیم کے بعد فوج بھی سرکاری معاملات میں شریک ہے۔ جب کسی حکومت کی رٹ کمزور پڑ جاتی ہے تو کوئی چھوٹی سی افواہ بھی کسی سیاسی طوفان سے کم نہیں ہوتی ۔
مجھ ناچیز نے کہا کہ جنرل صاحب سے ایک بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ دوستوں نے کہا کہ '' کچھ نہیں ہو گا''۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا، عوام تماشہ دیکھتے رہے۔ ہم نے ڈکٹیٹر ضیا کی آمریت کے دنوں میں وکلاء کے جوش و خروش کو دیکھا تھا۔ جب پورے ملک میں ہو کا عالم تھا تو وکلاء نے لاہور کے مال روڈ پر ایک جلوس نکالا۔ معزز قارئین! اُن دنوں ضیا کے خلاف اس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ یہ جلوس جمہوریت کے پرستاروں کے کسی استعارے سے کم نہیں تھا۔ اپوزیشن اتحاد کو بھی حوصلہ ملا۔ لیاقت وڑائچ ایک معروف وکیل تھے۔
اُنہوں نے سیاسی اسیروں کی رہائی کے لیے کمیٹی بنائی۔آمریت کے موسم میں جو ہوا کاخوشگوار جھونکا ثابت ہوئی۔ لیاقت وڑائچ نے اپنی پریکٹس چھوڑ کر سیاسی قیدیوں کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ کئی بار گرفتار بھی ہوئے۔ افسوس صد افسوس! سیاسی قیدیوں کو رہائی دلانے والا ایک دن عجب انداز میں زندگی سے رہائی پا گیا۔ ایک حادثے میں زخمی ہونے کے بعد وہ جنرل اسپتال میں کئی دن نامعلوم شخص کے طور پر داخل رہے۔ وہیں پر دم توڑ گئے۔ اس سے پہلے کہ لاوارثوں کے قبرستان میں دفن ہوتے، اُن کی شناخت ہو گئی۔برج نرائن چکبستؔ کا ایک شعر بھی یاد آیا۔
ایک ساغر بھی عنایت نہ ہوا یاد رہے
ساقیا جاتے ہیں محفل تری آباد رہے
آج کی محفل میں ایک سے بڑھ کر ایک نام ہے۔ ''اسٹارز وار '' نے وکلاء کو بھی تقسیم کر چھوڑاہے۔ اب وہ اپنی ''بقا'' میں لگے رہتے ہیں۔بات مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف تک جا پہنچی ہے۔ کاش! وکلاء کی قیادت ہماری سیاسی جماعتوں کی اسیر نہ بنتی۔مجھے کہنے دیجئے! دولت جب دروازے سے داخل ہوتی ہے، تو انسانیت کھڑکی اور روشندان سے نکل جاتی ہے۔ غریب ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔اب بم دھماکوں کی ٹائمنگ بھی ہماری سیاست کی گردش میں شامل ہوتی جا رہی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک مفروضہ ہے۔ '' حکومت کے خلاف تحریک کے دنوں میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے''۔'' ان حالات کے پیش ِ نظر اپوزیشن کو اپنی تحریک ختم کر دینی چاہیے''۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردی ریاستی ایشو ہے۔
قوم تو ایک نظر آتی ہے لیکن سیاست دان ... صرف بیانات میں ہی اپنے جذبات کا اظہار کر دیتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی روز کی بنیاد پر سیاست کو پورے ملک میں جیسے لاگو کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے پرچم سے الطاف حسین کی تصویر نکال دی ہے۔ اسمبلی میں متفقہ قرارداد بھی منظور ہو گئی۔ لیکن ... دل ہے کہ مانتا نہیں۔ فاروق ستار کی اسمبلی میں تقریر سے شکوک اور بڑھ گئے۔ چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں۔ اُن کے نو منتخب میئر نے ''جئے بھٹو، عمران خان زندہ باد'' کے نعرے بھی لگائے۔ ایم کیو ایم کا ایشو نعروں اور دفاتر کو مسمار کرنے سے حل نہیں ہو گا۔ الطاف حسین پہلے بھی ناٹک کرتے رہے ہیں۔ ان کا ایک سے بڑھ کر ایک اسکرپٹ ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار پر کسی کو یقین نہیں آ رہا ۔ ایم کیو ایم پر ادارے بھی ایک صف میں نہیں۔ یہ صورتحال خوش آیند نہیں۔ ہر آنے والا دن ایک نئی خبر کے ساتھ طلوع ہو رہا ہے۔ اس کا انجام... رئیس ؔ امروہوی کا ایک شعر بھی اس میں شامل کرتے ہیں۔
نہ جانے کونسے سانچے میں ڈھالیں
ابھی تو صرف پگھلایا گیا ہوں
صرف کے بعد...ایک ریاستی مسئلہ سیاست دانوں کے درمیان فٹ بال بن گیا ہے۔ بہت سے ایشوز پہلے ہی اس '' کھیل '' کی نذر ہو چکے ہیں۔ مردان دھماکے سے ایک روز قبل وزیراعظم نے گوادر میں خطاب کیا۔ اُسی روز گلگت میں آرمی چیف کا بھی خطاب تھا۔ دونوں کا مرکزی خیال ایک تھا۔ انداز اور الفاظ مختلف تھے۔ جنرل راحیل شریف نے کھل کر بات کی۔ جس سے اُن کی مقبولت میں اور اضافہ ہوا۔ نواز شریف سیاست دان ہیں۔ بہت سے ایشوز پر وہ کچھ زیادہ ہی تکلف سے کام لیتے ہیں۔وزراء اسے ایک خاص پالیسی کہتے ہیں۔
اُن کے پاس پیارے عوام کا مینڈیٹ ہے۔ عمران خان بھی اُسے تسلیم کرتے ہیں۔ پھر کس بات کی حکمت عملی؟ یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ مینڈیٹ ملنے کے بعد حکمران خود کوکسی بت سے کم نہیں سمجھتے۔ ایک اہم بات کہ بت بنانے والے ، جب چاہیں، اُسے گرا سکتے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کے ساتھ دو مرتبہ ایسا ہو چکا ہے۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے نئے مینڈیٹ کی باتیں چلنا شروع ہو چکی ہیں۔
یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ یہ بھی کہتے چلیں کہ آئین ِ پاکستان میں مڈٹرم الیکشن کی گنجائش ہے۔ جہلم اور بوریوالا کے ضمنی الیکشن میں بظاہر حکومت جیت گئی ۔ کم مارجن کی جیت سے اُس کے مینڈیٹ ازم کو دھچکا لگا ہے۔ آرمی چیف اور عمران خان کی اتفاقی ملاقات پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔ اگر چیف صاحب حکمرانوں سے مل سکتے ہیں تو اپوزیشن سے ملاقات میں کیا حرج ہے۔ عمران خان کی جماعت کے پاس تو ایک صوبے کی حکومت بھی ہے۔ آئینی ترمیم کے بعد فوج بھی سرکاری معاملات میں شریک ہے۔ جب کسی حکومت کی رٹ کمزور پڑ جاتی ہے تو کوئی چھوٹی سی افواہ بھی کسی سیاسی طوفان سے کم نہیں ہوتی ۔