ننھے بچے ماحول سے بہت تیزی سے متاثر ہوتے ہیں
چھوٹے بچے بڑوں کے مقابلے میں زیادہ تیز حواس کے مالک ہوتے ہیں، تحقیق
CAIRO:
ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے، تو وہ اپنے اردگرد کے لوگوں اور ماحول سے آشنا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے رشتے داروںکو جانتا ہے اور نہ اچھے بروں کو ۔ بس ماں کو دیکھتا ہے اور اس سے آشنائی حاصل کرتا ہے اور شروع میں دوسرے لوگوں کے پاس جاتے ہی رونا شروع کر دیتا ہے، لیکن آہستہ آہستہ وہ اپنے قریب کے لوگوں کو پہچاننا شروع کر دیتا ہے۔ اُن کے چہروں اور آواز وغیرہ کو شناخت کر لیتاہے۔ اُن میں گھل مل جاتا ہے۔ اِسی بات کو سمجھتے ہوئے مختلف سائنس دانوں نے اس امر پر تحقیق کی کہ آخر اتنا چھوٹا سا بچہ اتنی جلدی سب کو کیسے پہچاننے لگتا ہے۔
حال ہی میں نیو یارک میں کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ چھوٹے بچے بڑوں کے مقابلے میں زیادہ تیز حواس کے مالک ہوتے ہیں۔ اُن میںکوئی بھی چیز پہچاننے کی صلاحیت فطری طور پر زیادہ ہوتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی دنیا میں آنے والی نسلیں گزشتہ لوگوں سے زیادہ ذہین اور تیز ہیں۔ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ تین سے چار ماہ کا بچہ تصویروں میں ایسے باریک فرق کو بھی سمجھ لیتا ہے، جسے عام طور پر بڑے لوگ محسوس نہیں کر پاتے۔
اس تحقیق کے لیے تین سے آٹھ ماہ کے بچوں کا مشاہدہ کیا گیا کہ وہ کسی بھی تصویر کو کتنی دیر تک دیکھتے ہیں، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ بچے ایسی تصویریں جن کو وہ پہلے دیکھ چکے ہوتے ہیں یا پھر ان سے ملتی جلتی تصویروں کو بچے کم وقت کے لیے دیکھتے ہیں، جب کہ نئی یا مختلف تصویروں کو زیا دہ غور اور زیادہ دیر تک دیکھتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ کم عمر بچے تصویر کو بہت باریک بینی سے دیکھتے ہیں اور تصویروں کا انتہائی اور باریک پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں، جب کہ بچے زیادہ چمک دار اور مدھم تصاویر کو بھی زیادہ بہتر انداز میں سمجھ لیتے ہیں۔
بچوں کی اس صلاحیت کو ان کے بقا کے نظام سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ جیسے ایک بچہ اندھیرے اور تاریک غار سے باہر روشنی کی جانب سفر کرے۔ امریکی سائنس میگزین میں شائع ہونے والی تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی طرح تصویروں کو سمجھنے کی یہ صلاحیت آنکھوں اور دماغ کے درمیان تعلق اور بصری دھوکے کو بہتر انداز میں دیکھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسی لیے بچے چھوٹی عمر میں ہر فرق کو واضح طور پہ سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ وہ فرق والدین، رشتے داروں یا کسی غیر کو ہو۔ بچے یہ بات بہت اچھی طرح جان جاتے ہیں کہ اب ہم کس کی گود میں موجود ہیں۔ اسی لیے بچوں کے دماغ بڑوں کے معاملے میں زیادہ تیزی سے کام کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی گہری چیزکو بہتر اور جلدی سمجھ لیتے ہیں۔
والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم سن بچوں کے سامنے بھی اچھے رویوں کا مظاہرہ کیا کریں، یہ نہ سوچیں کہ یہ بچہ ہے، اسے الفاظ کے معنی چاہے سمجھ میں نہ آئیں، لیکن اونچی آواز اور تلخ لب ولہجہ اس کی شخصیت کے اندر بہت سے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ چیزیں اس کے مزاج میں بھی شامل ہو سکتی ہیں، یا پھر اس کا کوئی برا ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ اس کے بعد والدین یہی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے بچوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے، یہ پتا نہیں اس کو کہاں کی ہوا لگ گئی، جب کہ یہ دراصل عہد کم سنی میں والدین سے ہی سیکھی گئی ساری تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔
ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے، تو وہ اپنے اردگرد کے لوگوں اور ماحول سے آشنا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے رشتے داروںکو جانتا ہے اور نہ اچھے بروں کو ۔ بس ماں کو دیکھتا ہے اور اس سے آشنائی حاصل کرتا ہے اور شروع میں دوسرے لوگوں کے پاس جاتے ہی رونا شروع کر دیتا ہے، لیکن آہستہ آہستہ وہ اپنے قریب کے لوگوں کو پہچاننا شروع کر دیتا ہے۔ اُن کے چہروں اور آواز وغیرہ کو شناخت کر لیتاہے۔ اُن میں گھل مل جاتا ہے۔ اِسی بات کو سمجھتے ہوئے مختلف سائنس دانوں نے اس امر پر تحقیق کی کہ آخر اتنا چھوٹا سا بچہ اتنی جلدی سب کو کیسے پہچاننے لگتا ہے۔
حال ہی میں نیو یارک میں کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ چھوٹے بچے بڑوں کے مقابلے میں زیادہ تیز حواس کے مالک ہوتے ہیں۔ اُن میںکوئی بھی چیز پہچاننے کی صلاحیت فطری طور پر زیادہ ہوتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی دنیا میں آنے والی نسلیں گزشتہ لوگوں سے زیادہ ذہین اور تیز ہیں۔ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ تین سے چار ماہ کا بچہ تصویروں میں ایسے باریک فرق کو بھی سمجھ لیتا ہے، جسے عام طور پر بڑے لوگ محسوس نہیں کر پاتے۔
اس تحقیق کے لیے تین سے آٹھ ماہ کے بچوں کا مشاہدہ کیا گیا کہ وہ کسی بھی تصویر کو کتنی دیر تک دیکھتے ہیں، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ بچے ایسی تصویریں جن کو وہ پہلے دیکھ چکے ہوتے ہیں یا پھر ان سے ملتی جلتی تصویروں کو بچے کم وقت کے لیے دیکھتے ہیں، جب کہ نئی یا مختلف تصویروں کو زیا دہ غور اور زیادہ دیر تک دیکھتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ کم عمر بچے تصویر کو بہت باریک بینی سے دیکھتے ہیں اور تصویروں کا انتہائی اور باریک پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں، جب کہ بچے زیادہ چمک دار اور مدھم تصاویر کو بھی زیادہ بہتر انداز میں سمجھ لیتے ہیں۔
بچوں کی اس صلاحیت کو ان کے بقا کے نظام سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ جیسے ایک بچہ اندھیرے اور تاریک غار سے باہر روشنی کی جانب سفر کرے۔ امریکی سائنس میگزین میں شائع ہونے والی تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی طرح تصویروں کو سمجھنے کی یہ صلاحیت آنکھوں اور دماغ کے درمیان تعلق اور بصری دھوکے کو بہتر انداز میں دیکھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسی لیے بچے چھوٹی عمر میں ہر فرق کو واضح طور پہ سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ وہ فرق والدین، رشتے داروں یا کسی غیر کو ہو۔ بچے یہ بات بہت اچھی طرح جان جاتے ہیں کہ اب ہم کس کی گود میں موجود ہیں۔ اسی لیے بچوں کے دماغ بڑوں کے معاملے میں زیادہ تیزی سے کام کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی گہری چیزکو بہتر اور جلدی سمجھ لیتے ہیں۔
والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم سن بچوں کے سامنے بھی اچھے رویوں کا مظاہرہ کیا کریں، یہ نہ سوچیں کہ یہ بچہ ہے، اسے الفاظ کے معنی چاہے سمجھ میں نہ آئیں، لیکن اونچی آواز اور تلخ لب ولہجہ اس کی شخصیت کے اندر بہت سے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ چیزیں اس کے مزاج میں بھی شامل ہو سکتی ہیں، یا پھر اس کا کوئی برا ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ اس کے بعد والدین یہی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے بچوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے، یہ پتا نہیں اس کو کہاں کی ہوا لگ گئی، جب کہ یہ دراصل عہد کم سنی میں والدین سے ہی سیکھی گئی ساری تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔