خوف تلے جیتا مستقبل۔۔۔ ریاست بچوں تک کو تحفظ دینے میں ناکام ہوگئی
ملک بھر کے والدین اپنے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے پریشان ہو گئے
ڈیڑھ سال قبل 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول جیسا خوف ناک سانحہ ہوا۔۔۔ اور ملک بھر کے والدین اپنے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے پریشان ہو گئے۔۔۔ اب اچانک بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات نے انہیں مزید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ پہلے صرف اسکولوں میں کسی ناخوش گوار حادثے کا خدشہ تھا، تو اب یہ اندیشے گھر کی دہلیز تک پہنچ گئے ہیں۔۔۔
پنجاب اور بالخصوص لاہور میں تین سال سے تیرہ سال تک کے بچوں کے اغوا کے پے درپے واقعات نے ملک بھر میں سراسیمگی پھیلا دی ہے۔۔۔ اور اب کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس طرح کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بچوں کے اغوا کے واقعات پر حکام نے یہ موقف اختیار کیا کہ بچے والدین کی سختی کی وجہ سے گھر سے بھاگ رہے ہیں، یوں صورت حال مزید دگرگوں ہوتی رہی، اور سپریم کورٹ کو ان واقعات کا ازخود نوٹس لینا پڑا، جس پر پنجاب پولیس نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ رواں برس صوبے میں 767 بچے اغوا ہوئے ہیں، جن میں سے 715 بازیاب کرا لیے گئے۔ گزشتہ چھے برسوں کے دوران 6 ہزار 793 بچے اغوا ہوئے، جن میں سے چھے ہزار 654 بچے بازیاب کرا لیے گئے، جب کہ 139 بچے تاحال لاپتا ہیں۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ بچوں کے اغوا کی خبریں گزشتہ دنوں بہت زیادہ آئیں، لیکن پولیس رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بچے 2011ء میں اغوا ہوئے، جن کی تعداد ایک ہزار 272 ہے، ان میں سے ایک ہزار 264 بازیاب کرالیے گئے۔ 2012ء میں ایک ہزار 260 مغوی بچوں میں سے ایک ہزار 156 کو بازیاب کرائے، 2013ء میں اغوا ہونے والے ایک ہزار 156 بچوں میں سے صرف 16 بچے بازیاب نہ ہو سکے۔ 2014ء میں ایک ہزار 203 بچوں کے اغوا کے مقدمات درج کیے گئے اور پولیس نے ایک ہزار 185 کو تلاش کرلیا۔ 2015ء میں اغوا کی ایک ہزار 134 وارداتیں ہوئیں اور ایک ہزار 93 بچے بازیاب کرا لیے گئے۔ رواں سال ابھی تک 767 بچے اغوا ہوئے اور ان میں سے 715 بچے اپنے گھر پہنچ چکے ہیں، یعنی پولیس کے مطابق صوبے بھر میں صرف 52 بچے ایسے ہیں، جو بازیاب نہیں ہو سکے۔
والدین نے اغوا کاروں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جا سکے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364 اے خاص طورپر کم عمر بچوں کے اغوا اور اس کی سزا سے متعلق ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364 اے کے مطابق اگر کوئی شخص 14سال سے کم عمر بچے کو اغوا کرتا ہے اور اس دوران وہ قتل ہو جاتا ہے، اس پر شدید تشدد ہوتا ہے یا اسے غلام بنایا جاتا ہے یا پھر جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو ایسے جرم کی سزا موت یا عمر قید بامشقت بھی ہو سکتی ہے۔ اس جرم کی کم سے کم قید کی سزا سات سال قید بامشقت اور زیادہ سے زیادہ 14 سال قید بامشقت ہے۔ اغوا کیے گئے بچے کی جان کو خطرہ ہو، درد ناک چوٹ پہنچنے کا خدشہ ہو، غلام بنائے جانے یا زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کا اندیشہ ہو تو ایسے جرم پر عمر قید یا سات سے 14 سال قید بامشقت کے علاوہ سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ بچوں کے اغوا کے پس پشت کون سے عناصر کارفرما ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔ ملک بھر میں خبروں کے ساتھ بہت سی افواہیں بھی پھیل رہی ہیں، جن میں بچوں سے جبری مشقت اور زیادتی سے لے کر ان کے اعضا نکالنے اور قتل تک کی اطلاعات ہیں۔ 16 برس قبل لاہور میں ہی 100 بچوں کے قتل کی لرزہ خیز واردات بھی پیش آچکی، اور پولیس ملزم کا سراغ لگانے میں ناکام رہی تھی، یہاں تک کہ اُس نے خود گرفتاری پیش کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر اسی دل خراش واہموں نے جگہ بنالی ہے۔
فکر مند ماؤں نے بچوں کے اکیلے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی ہے۔۔۔ بچوں کو اسکول یا مدرسے بھیجنا والدین کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکا ہے۔ گلی، محلوں میں شام ڈھلے بچوں کے کھیل کود کی ساری رونقیں ماند پڑ چکی ہیں۔۔۔ ایک غیر یقینی کی سی فضا ہے، بازاروں میں بڑوں کی انگلی تھامے ننھے بچوں کی معصوم ہنسی اور شوخیوں کی جگہ خوف اور سہمی ہوئی صورتوں نے لے لی ہے۔ وہ ہر شخص کو خوف زدہ نظروں سے دیکھتے ہیں، تفریح گاہیں سونی اور ویران ہو گئی ہیں۔۔۔ ہمارا مستقبل، ایک ڈر کے سہارے جینے پر مجبور ہو گیا ہے۔
ایسے حالات میں جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کی جانب سے لوگوں کے جان ومال کے تحفظ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں، تو دوسری طرف والدین بالخصوص ماؤں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت نہ برتیں۔ اپنی دیگر مصروفیات کو موقوف کر کے بچوں کی اچھی طرح خبر گیری کریں۔ انہیں گھر سے باہر نکلنے کے حوالے سے ازسرنو ہدایات دیں۔ بلا اضرورت گھر سے باہر نہ نکلنے دیں، جب بھی گھر سے باہر جانا ہو تو خود ساتھ جائیں یا انہیں کسی بڑے کے ساتھ بھیجیں۔ اسکول اور مدرسے جاتے اور آتے ہوئے کسی بھی اَن جان فرد سے دور رہنے کا کہیں۔ کسی اجنبی سے کچھ لے کر کھانے پینے سے سختی سے منع کریں۔اسکول یا مدرسے کے اندر بھی کوئی ایسا مشکوک فرد نظر آئے، تو اس کے حوالے سے اپنے اساتذہ کو خبر کریں۔ سنسان رستوں کے بہ جائے پر رونق راستوں کو اختیار کریں۔ کوئی زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کرے، تو اس کی مزاحمت کریں اور فوراً کسی بھی قریبی دکان یا گھر میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔
عید قرباں کی آمد آمد ہے، ایسے میں اکثر علاقوں میں چھوٹے چھوٹے بچے قربانی کے جانور دیکھنے کے لیے نہ صرف کافی دیر گھر سے باہر رہتے ہیں، بلکہ گھر سے بہت دور بھی نکل آتے ہیں۔ اس موقع پر خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے۔ گھروں میں بچوں کی خواہش پر کافی دن پہلے سے جانور لے آئے جاتے ہیں، اور پھر بچوں کی ساری فرصتیں ان جانوروں کی دیکھ بھال کی نذر ہوتی ہیں۔ اس موقع پر اپنے ہمسایوں کے ہم راہ کوئی ایسی حکمت عملی ترتیب دیں کہ جس سے گھر کے اردگرد کا ماحول محفوظ ہو سکے۔ عام حالات کے لیے بھی اپنی گلی، اپارٹمنٹ یا قرب وجوار میں ایسے کسی ناخوش گوار واقعے کے تدارک کے حوالے سے کوئی مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔ بدقسمتی سے شہری زندگی میں پڑوسیوں اور اہل محلہ سے اتنا میل جول نہیں ہوتا، جتنا پہلے ہوتا تھا، لیکن یہ مسئلہ ایسا ہے کہ ہر فرد ہی اپنے بچوں کے لیے فکر مند ہے۔ اس کا حل کسی اجتماعی حکمت عملی میں پنہاں ہے۔ اس لیے ہم سایوں سے مل جل کر بچوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔
پنجاب اور بالخصوص لاہور میں تین سال سے تیرہ سال تک کے بچوں کے اغوا کے پے درپے واقعات نے ملک بھر میں سراسیمگی پھیلا دی ہے۔۔۔ اور اب کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس طرح کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بچوں کے اغوا کے واقعات پر حکام نے یہ موقف اختیار کیا کہ بچے والدین کی سختی کی وجہ سے گھر سے بھاگ رہے ہیں، یوں صورت حال مزید دگرگوں ہوتی رہی، اور سپریم کورٹ کو ان واقعات کا ازخود نوٹس لینا پڑا، جس پر پنجاب پولیس نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ رواں برس صوبے میں 767 بچے اغوا ہوئے ہیں، جن میں سے 715 بازیاب کرا لیے گئے۔ گزشتہ چھے برسوں کے دوران 6 ہزار 793 بچے اغوا ہوئے، جن میں سے چھے ہزار 654 بچے بازیاب کرا لیے گئے، جب کہ 139 بچے تاحال لاپتا ہیں۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ بچوں کے اغوا کی خبریں گزشتہ دنوں بہت زیادہ آئیں، لیکن پولیس رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بچے 2011ء میں اغوا ہوئے، جن کی تعداد ایک ہزار 272 ہے، ان میں سے ایک ہزار 264 بازیاب کرالیے گئے۔ 2012ء میں ایک ہزار 260 مغوی بچوں میں سے ایک ہزار 156 کو بازیاب کرائے، 2013ء میں اغوا ہونے والے ایک ہزار 156 بچوں میں سے صرف 16 بچے بازیاب نہ ہو سکے۔ 2014ء میں ایک ہزار 203 بچوں کے اغوا کے مقدمات درج کیے گئے اور پولیس نے ایک ہزار 185 کو تلاش کرلیا۔ 2015ء میں اغوا کی ایک ہزار 134 وارداتیں ہوئیں اور ایک ہزار 93 بچے بازیاب کرا لیے گئے۔ رواں سال ابھی تک 767 بچے اغوا ہوئے اور ان میں سے 715 بچے اپنے گھر پہنچ چکے ہیں، یعنی پولیس کے مطابق صوبے بھر میں صرف 52 بچے ایسے ہیں، جو بازیاب نہیں ہو سکے۔
والدین نے اغوا کاروں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جا سکے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364 اے خاص طورپر کم عمر بچوں کے اغوا اور اس کی سزا سے متعلق ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364 اے کے مطابق اگر کوئی شخص 14سال سے کم عمر بچے کو اغوا کرتا ہے اور اس دوران وہ قتل ہو جاتا ہے، اس پر شدید تشدد ہوتا ہے یا اسے غلام بنایا جاتا ہے یا پھر جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو ایسے جرم کی سزا موت یا عمر قید بامشقت بھی ہو سکتی ہے۔ اس جرم کی کم سے کم قید کی سزا سات سال قید بامشقت اور زیادہ سے زیادہ 14 سال قید بامشقت ہے۔ اغوا کیے گئے بچے کی جان کو خطرہ ہو، درد ناک چوٹ پہنچنے کا خدشہ ہو، غلام بنائے جانے یا زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کا اندیشہ ہو تو ایسے جرم پر عمر قید یا سات سے 14 سال قید بامشقت کے علاوہ سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ بچوں کے اغوا کے پس پشت کون سے عناصر کارفرما ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔ ملک بھر میں خبروں کے ساتھ بہت سی افواہیں بھی پھیل رہی ہیں، جن میں بچوں سے جبری مشقت اور زیادتی سے لے کر ان کے اعضا نکالنے اور قتل تک کی اطلاعات ہیں۔ 16 برس قبل لاہور میں ہی 100 بچوں کے قتل کی لرزہ خیز واردات بھی پیش آچکی، اور پولیس ملزم کا سراغ لگانے میں ناکام رہی تھی، یہاں تک کہ اُس نے خود گرفتاری پیش کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر اسی دل خراش واہموں نے جگہ بنالی ہے۔
فکر مند ماؤں نے بچوں کے اکیلے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی ہے۔۔۔ بچوں کو اسکول یا مدرسے بھیجنا والدین کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکا ہے۔ گلی، محلوں میں شام ڈھلے بچوں کے کھیل کود کی ساری رونقیں ماند پڑ چکی ہیں۔۔۔ ایک غیر یقینی کی سی فضا ہے، بازاروں میں بڑوں کی انگلی تھامے ننھے بچوں کی معصوم ہنسی اور شوخیوں کی جگہ خوف اور سہمی ہوئی صورتوں نے لے لی ہے۔ وہ ہر شخص کو خوف زدہ نظروں سے دیکھتے ہیں، تفریح گاہیں سونی اور ویران ہو گئی ہیں۔۔۔ ہمارا مستقبل، ایک ڈر کے سہارے جینے پر مجبور ہو گیا ہے۔
ایسے حالات میں جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کی جانب سے لوگوں کے جان ومال کے تحفظ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں، تو دوسری طرف والدین بالخصوص ماؤں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت نہ برتیں۔ اپنی دیگر مصروفیات کو موقوف کر کے بچوں کی اچھی طرح خبر گیری کریں۔ انہیں گھر سے باہر نکلنے کے حوالے سے ازسرنو ہدایات دیں۔ بلا اضرورت گھر سے باہر نہ نکلنے دیں، جب بھی گھر سے باہر جانا ہو تو خود ساتھ جائیں یا انہیں کسی بڑے کے ساتھ بھیجیں۔ اسکول اور مدرسے جاتے اور آتے ہوئے کسی بھی اَن جان فرد سے دور رہنے کا کہیں۔ کسی اجنبی سے کچھ لے کر کھانے پینے سے سختی سے منع کریں۔اسکول یا مدرسے کے اندر بھی کوئی ایسا مشکوک فرد نظر آئے، تو اس کے حوالے سے اپنے اساتذہ کو خبر کریں۔ سنسان رستوں کے بہ جائے پر رونق راستوں کو اختیار کریں۔ کوئی زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کرے، تو اس کی مزاحمت کریں اور فوراً کسی بھی قریبی دکان یا گھر میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔
عید قرباں کی آمد آمد ہے، ایسے میں اکثر علاقوں میں چھوٹے چھوٹے بچے قربانی کے جانور دیکھنے کے لیے نہ صرف کافی دیر گھر سے باہر رہتے ہیں، بلکہ گھر سے بہت دور بھی نکل آتے ہیں۔ اس موقع پر خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے۔ گھروں میں بچوں کی خواہش پر کافی دن پہلے سے جانور لے آئے جاتے ہیں، اور پھر بچوں کی ساری فرصتیں ان جانوروں کی دیکھ بھال کی نذر ہوتی ہیں۔ اس موقع پر اپنے ہمسایوں کے ہم راہ کوئی ایسی حکمت عملی ترتیب دیں کہ جس سے گھر کے اردگرد کا ماحول محفوظ ہو سکے۔ عام حالات کے لیے بھی اپنی گلی، اپارٹمنٹ یا قرب وجوار میں ایسے کسی ناخوش گوار واقعے کے تدارک کے حوالے سے کوئی مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔ بدقسمتی سے شہری زندگی میں پڑوسیوں اور اہل محلہ سے اتنا میل جول نہیں ہوتا، جتنا پہلے ہوتا تھا، لیکن یہ مسئلہ ایسا ہے کہ ہر فرد ہی اپنے بچوں کے لیے فکر مند ہے۔ اس کا حل کسی اجتماعی حکمت عملی میں پنہاں ہے۔ اس لیے ہم سایوں سے مل جل کر بچوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔