کیوں ملا نوبیل انعام انھیں
قابلِ فخر عالمی اعزاز پانے والوں کے ان کارناموں پر ایک نظر، جن کی بنا پر وہ اس انعام کے مستحق قرار پائے.
سب سے بڑا عالمی اعزاز تصور کیا جانے والا نوبیل انعام ہر سال کی طرح اس برس بھی مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کو ان کی محنت کے ثمر کی صورت میں ملا۔
آئیے! دیکھتے ہیں کہ ان انعام یافتگان کے وہ کون سے کارنامے ہیں، جن کے باعث انھیں اس انعام کا مستحق گردانا گیا۔
٭امن (یورپی یونین)
یورو کرنسی، عالمی کساد بازاری اور یورپی یونین کے ممبر ممالک میں عوامی انتشار سے نبرد آزما یورپی یونین تنظیم کو رواں برس امن کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔ لگ بھگ پچاس کروڑ افراد پر مشتمل یورپی یونین کے 27 ممالک اس غیرمتوقع اعلان پر خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں۔ 23جولائی1952کو پیرس میں تشکیل پانے والے اس اتحاد نے یورپی ممالک کو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے منفی اقتصادی اور سیاسی حالات سے بچا کر بہتری کی جانب لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور نوبیل کمیٹی کے مطابق یورپی یونین تنظیم اس مقصد میں کام یاب رہی ہے۔
اگرچہ کمیٹی نے یورپ میں حالیہ سماجی انتشار اور معاشی بحران کا اعتراف کیا ہے، لیکن مجموعی طور پر یورپی یونین کے گذشتہ ساٹھ سال کو خطے میں امن کے لیے کوششوں کا دور قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے کمیٹی کا کہنا ہے کہ گذشتہ چھے دہائیوں میں یورپی یونین نے یورپ میں جمہوریت کے تسلسل، امن کے قیام، مفاہمتی رویے اور انسانی حقوق کے حصول کی پیش رفت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بالخصوص اس حوالے سے کمیٹی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس اور جرمنی کے مابین مفاہمت، 1970کی دہائی میں اسپین، پرتگال اور یونان کی آمرانہ حکومتوں کے خاتمے کے بعد ان ممالک کو اقتصادی اور سیاسی تعاون فراہم کرنے میں یورپی یونین کے مثبت کردار کا ذکر کیا ہے۔ دوسری طرف بعض مبصرین یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی اختلافات، بے نتیجہ بجٹ مذاکرات اور غریب اور امیر یورپی یونین ممالک کے مابین فرق ختم کرنے میں ناکامی کے باوجود یورپی یونین تنظیم کو امن کا نوبیل انعام دینے پر مطمٔن نہیں ہیں اور ان حلقوں کی جانب سے نوبیل کمیٹی کا یہ فیصلہ تنقید کی زد پر ہے۔
٭ادب (Guan Moye )
رواں برس ادب کے نوبیل انعام کے حق دار چین سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب ''مویان'' ہیں۔ مویان17فروری1957کو چین کے شین ڈونگ صوبے کے قصبے ''گائومی'' میں پیدا ہوئے۔ اپنے اصل نام گویان موئے کے بجائے مویان کے قلمی نام سے معروف ادیب کی پہلی کہانی ''بہار کی رات میں برستی بارش'' 1981میں شایع ہو ئی تھی۔
مویان نے 1991میں بیجنگ نارمل یونیوسٹی سے ادب اور فن کے مضمون میں ماسٹرز کیا ہے۔ اپنے قلم کے زور پر دنیا بھر میں تحسین کی نظر سے دیکھے جانے والے مویان اس وقت چین میں رہائش پذیر ہیں اور موجودہ چینی حکومت کے سخت ناقدین میں شمار کئے جاتے ہیں مشرقی چین کی دیہی زندگی کے مسائل بالخصوص دیہاتیوں سے روا رکھے جانے والے مظالم پر ان کے 1987میں تحریر کیے جانے والے ناول ''Red Sorghum Clan'' نے مویان کو عالمی ادب کے منظر نامے پر اہم مقام دلانے میں کلیدی کردا ر ادا کیا ہے۔ انیس سو بیس کی دہائی کے دیہی مسائل کی منظر کشی کرتے ہوئے اس ناول پر چینی زبان میں فلم بھی بنائی گئی ہے۔
ستاون سالہ مویان، جن کے قلمی نام کا چینی زبان میں مطلب ''بولو مت'' ہے۔ اپنے اس انوکھے قلمی نام کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ نام دراصل ان کے والدین کی اس ہدایت کا عکاس ہے جو ان کے والدین انہیں 1950کی دہائی میں انقلاب کے دوران ان کے ذہن میں پروان چڑھنے والے متجسس جذبات کے اظہار سے منع کرنے کے لیے دیتے تھے کہ تم (مویان) باہر جاکر ایسی باتیں کسی سے ''بولو مت''، اور پھر یہی جملہ ان کا قلمی نام بن گیا۔
چین کے ماضی کے حوالے سے کئی مختصر مگر جان دار تحریریں قارئین کی نظر کرنے والے مویان کے قابل ذکر ناولوں میں زندگی اور موت، جمہوریۂ شراب، سینڈل وڈ کی موت اور ایک بچہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا قلم مختصر کہانیاں لکھنے کے حوالے سے بھی نہایت رواں اور یکتا ہے۔ مویان کی کاٹ دار جملوں پر مشتمل کہانیوں میں سے بیشتر کا موضوع دوسری جنگ عظیم میں جاپان اور چین تنائو، انیس سو گیارہ کا انقلاب اور مائوزے تنگ کی ثقافتی اور سیاسی اصلاحات پر مبنی ہے۔
٭معیشت واقتصادیات (Lloyd Shapley Alvin Elliot Roth)
معیشت کا نوبیل انعام دو امریکی معیشت دانوں کو مارکیٹ میں موجود مختلف کاروباری نمونوں کے درمیان تعلق اور توازن قائم رکھنے کے لیے کی گئی تحقیق پر دیا گیا ہے۔ بزرگ معیشت داں89سالہ لائیڈ اسٹوویل شیپلے (Lloyd Stowell shapely) کو معیشت اور ریاضی کے شعبے میں ان کی طویل خدمات پر انعام دیا گیا ہے۔ لائیڈ اسٹویل شیپلے امریکا کی مردم خیز ریاست میساچیوٹس کے شہر کیمبرج میں2جون 1923کو پیدا ہوئے۔ پروفیسر لائیڈ کے والد Harlow Shapleyمشہور ماہر فلکیات تھے۔
لائیڈ نے ابتدائی تعلیم ریاست نیوہیمپشائر کی مشہور زمانہ فلپ ایکسیٹر اکیڈمی سے حاصل کی، جس کے بعد1943میں ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اس دوران دوسری جنگِ عظیم میں انہوں نے امریکی فضائیہ میں بطور سارجنٹ خدمات انجام دیتے ہوئے سوویت یونین کا موسم سے متعلق خفیہ کوڈ ڈی کوڈ کرکے شہرت حاصل کی۔ جنگ کے بعد وہ دوبارہ ہارورڈ یونیورسٹی آگئے، جہاں سے امتیازی نمبروں میں1948میں ریاضی میں گریجویشن کیا۔ گریجویشن کے بعد انہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی سے 1953میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ معاشیات اور ریاضی کی 15سے زاید کتابوں اور لاتعداد مضامین کے مصنف اور متعدد نئے معاشی نظریوں کے خالق پروفیسر لائیڈ شیپلے 1981سے تادم تحریر جامعہ کیلی فورنیا لاس اینجلس(UCLA) میں درس و تدریس اور محققانہ سرگرمیوں کی نگرانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
معیشت کے شعبے میں انعام کے دوسرے مشترکہ حق دار ''ایلن ایلیٹ روتھ(Alvin Elliot Roth)'' ہیں، جو 18دسمبر1951کو نیویارک سٹی امریکا میں پیدا ہوئے۔ پروفیسر ایلن نے 1971میں مین ہیٹن شہر میں واقع کولمبیا یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد کیلی فورنیا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز اور پھر1974میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ان کی تحقیق کا میدان معیشت میں ''آپریشن ریسرچ'' تھا۔ معیشت کے موضوع پر سات کتابوں اور ان گنت مضامین کے خالق ایلن ''امریکی نیشنل بیورو اکنامکس ریسرچ'' کے ممبر بھی ہیں۔ ایلن روتھ 80کی دہائی میں اس وقت مشہور ہوئے تھے، جب انہوں نے میڈیکل کے طالب علموں کے کالج اور اسپتالوں کے مابین کام کی مارکیٹ میں طلب و رسد کے مسائل سے نمٹنے کے طریقے وضع کیے تھے۔ پروفیسر ایلن روتھ 1982سے مختلف جامعات میں درس وتدریس کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔
٭کیمیا(Robert Lefkowitz ، Brian Kobilka)
رواں برس شعبۂ کیمیا میں گراں قدر خدمات اور تحقیق کے اعتراف میں نوبیل انعام دو امریکی استاد اور شاگرد کیمیا دانوں نے حاصل کیا ہے۔ ان کی تحقیق کا دائرہ کار لاتعداد انسانی خلیوں کے بیرونی حالات اور ان کے اردگرد کے ماحول میں وقوع ہونے والی کیمیائی سرگرمیوں میں آخذے (Receptors) کی دریافت اور مطالعے پر دیا گیا ہے۔ انعام کے دونوں حق دار کیمیادانوں میں سے ایک میری لینڈ میں واقع ''ہورڈ ہیوز میڈیکل انسٹی ٹیوٹ'' کے ڈاکٹر رابرٹ لیفکویٹز (Robert Lefkowitz)ہیں۔ ڈاکٹر رابرٹ 15اپریل 1943کو نیویارک میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم نیویارک کے علاقے برونکس میں واقع ''برونکس ہائی اسکول برائے سائنس'' سے حاصل کی، جس کے بعد 1962میں انہوں نے کولمبیا کالج سے بی اے کی سند حاصل کی، جب کہ 1966میں کولمبیا یونیورسٹی برائے فزیشن اور سرجن سے ڈاکٹر آف میڈیسن کی سند حاصل کی، جس کے بعد وہ مختلف شعبوں میں پڑھانے کے بعد1973میں شمالی کیرولینا میں واقع ''ڈیوک یونیورسٹی میڈیکل سینٹر'' میں ایسوسی ایٹ پروفیسر برائے میڈیسن اور اسسٹنٹ پروفیسر برائے بائیو کیمسٹری پر فائز ہوگئے، جہاں وہ1977 میں دونوں شعبوں میں پروفیسر بنادیے گئے اور اب اسی یونیورسٹی میں بطور محقق اور کیمیاداں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
کیمیا کے شعبے میں انعام کے دوسرے مشترکہ حق دار ڈاکٹر برائن کوبیلکا ہیں، جو1955میں امریکی ریاست مینی سوٹا کے شہر لٹل فالز میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر برائن نے کیمسٹری اور بائیو لوجی میں مینی سوٹا یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد Yaleیونیورسٹی آف میڈیسن سے ماسٹرز کیا، جب کہ پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق کے لیے انہوں نے ڈیوک یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ ڈاکٹر برائن اس وقت اسٹین فورڈ یونیورسٹی برائے میڈیسن میں بحیثیت پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر برائن کوبیلکا، پروفیسر رابرٹ لیفکویٹز کے شاگرد ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان دونوں حضرات کی جانب سے عضلات اور خلیات کے مابین نامعلوم گزرگاہوں اور اعصابی نظام اور ہارمون کے درمیان پیغامات کے پیچیدہ ترسیلی نظام کی وضاحت کرنے والی یہ تحقیق بیماریوں کے علاج کے دوران معالجوں کے لیے دوائوں کو اپنے ہدف تک پہچانے میں انتہائی کارآمد ثابت ہوگی۔
٭طبیعیات(Serge HarocheDavid Jeffrey Wineland)
شعبہ طبیعیات میں بھی دو ماہرین طبیعیات کو نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔ ان میں سے ایک فرانس سے تعلق رکھنے والے ماہر طبیعیات ''سرج ہروش'' 11ستمبر 1944کو سابق فرانسیسی نوآبادی مراکش میں پیدا ہوئے۔ سرج ہروش کے والدین1956میں فرانس منتقل ہوگئے تھے۔ انہوں نے گریجویشن پیرس میں واقع Ecole Normale Superieure سے کرنے کے بعد 1971میں پیرسVIیونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ دوران تعلیم 1967سے1975تک ریسرچ سائنٹسٹ اور اسی دوران 1972سے1973تک اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے اور پھر 1975میں پیرس VIیونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کے عہدے پر تعینات کر دیے گئے۔
اسی دوران وہ1994تک مختلف اداروں میں درس و تدریس سے وابستہ رہے اور1994کے بعد سے 2000تک Ecole Normale Superieureادارے کے طبیعیات کے شعبے کے سربراہ کے عہدے پر فائز رہے۔ سرج ہروش Colloge De Franceمیں شعبے کوائنٹم فزکس میں بطور پروفیسر علم کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ سرج ہروش کی تحقیق کا میدان ایٹمی فزکس اورکوائنٹم آپٹکس ہے، جس میں ان کا کارنامہ روشنی کے انفرادی ذروں کی رفتار اور معائنہ کرنے کے ناممکن سمجھے جانے والے کام کو ممکن بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں کے ذروں کے معائنے کے لیے ان کی رفتار کم کرنے کا طریقہ کار دریافت کیا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک مخصوص شفاف مادے سے ایک ایسا آلہ بنایا ہے جس کے ذریعے روشنی کے زروں کی رفتار اور ''رَویّوں'' کو جانچنا ممکن ہوسکا ہے۔
طبیعیات کے نوبیل انعام کے دوسرے فاتح امریکا کے طبیعیات داں ''ڈاکٹر ڈیوڈ جیفری وائن لینڈ ''ہیں، جو24فروری1944کو امریکی ریاست ویس کونسن میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر ڈیوڈ نے 1961میں Encina ہائی اسکول کیلیفورنیا سے گریجویشن کرنے کے بعد 1965میں کیلیفورنیا یونیورسٹی بارکلے سے ماسٹرز کیا اور پھر1975میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر ڈیوڈ ''نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی(NIST)'' سے وابستہ ہوگئے، جہاں وہ ابھی تک بہ حیثیت طبیعیات داں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر ڈیوڈ وائن لینڈ کی وجہِ شہرت ایٹمی برقی روانوں یا Ions کو مقید کرکے روشنی کی مدد سے مطالعہ کرنے کا طریقہ دریافت کرنا ہے۔ تاہم نوبیل کمیٹی نے ان دونوں حضرات کو مجموعی طور پر کوائنٹم نظام میں روشنی اور ایٹمی ذرات پر تحقیق کرنے کے لیے نئے نظام وضع کرنے پر انعام کا حق دار قرار دیا ہے۔ان دونوں ماہرینِ طبیعیات کی کاوشوں سے اب کوانٹم کمپیوٹر کی تشکیل ممکن ہوسکے گی، جو موجودہ سپر کمپیوٹرز سے کئی گنا بہتر کارکردگی کے حامل ہوں گے، اسی طرح ماہرین کے مطابق یہ تحقیقات مستقبل میں مواصلات کے شعبوں میں بھی انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔
٭طب اور فعلیات (John Gurdon Shinya Yamanaka)
طب کا نوبیل انعام مشترکہ طور پر دو اصحاب کو دیا گیا ہے، جن میں برطانیہ کے بزرگ ماہر طب ''جان گرڈن'' اور جاپان کے ''شنیا یمنا کا(Shinya Yamanaka)'' شامل ہیں۔ ان دونوں کو بالغ خلیوں کی تجدید یا ''ری پروگرامنگ'' کرکے اسٹیم سیل میں تبدیل کرنے کی تیکنیک میں تحقیق پر نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔
79سالہ بزرگ ماہر طب سر جان برٹرینڈ گرڈن2 اکتوبر1933میں متحدہ برطانیہ کی کائونٹی سرے کے نواحی علاقے ڈپن ہال میں پیدا ہوئے۔ جان گرڈن نے ابتدائی تعلیم برک شائر کائونٹی کے ایٹون کالج سے حاصل کی، جس کے بعد وہ کرائسٹ چرچ کالج آکسفورڈ کے شعبۂ حیوانیات میں داخل ہوگئے۔ گرڈن نے اسی ادارے سے ڈاکٹریٹ کی سند بھی حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد وہ کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ہوگئے اور پھر واپس آکر دوبارہ کرائسٹ چرچ آکسفورڈ میں پڑھانے لگے۔ تعلیم کے حصول کے بعد جان گرڈن کا بحیثیت مدرس بیشتر عرصہ جامعہ کیمبرج میں گزرا اور وہ آج بھی اس جامعہ سے وابستہ ہیں۔ بابائے کلوننگ کہلائے جانے والے جان گرڈن کو اپنے شعبے میں اس وقت شہرت حاصل ہوئی تھی۔ جب انہوں نے1962میں مینڈک کی کلوننگ کا کام یاب تجربہ کیا تھا، جو دراصل موجودہ دور میں کلون کی جانے والی ''ڈولی'' بھیڑ پر کی جانے والی کلوننگ کا ابتدائی تجربہ تھا۔
شعبۂ طب میں نوبیل انعام کے دوسرے حق دار جاپان کے ''شنیا یمناکا'' ہیں، جو4ستمبر 1962کو جاپان کے شہر اوساکا میں پیدا ہوئے۔ اگرچہ شنیا یمناکا کی تحقیق جان گرڈن کی تحقیق کا تسلسل ہی ہے، لیکن اس لحاظ سے منفرد ہے کہ انہوں نے جینیاتی خوبیوں کو کسی دوسرے بالغ خلیے میں داخل کرنے کے بجائے اس خلیے کی جینیاتی خوبیوں اور معلومات کو خلیے کے اندر ہی رہتے ہوئے تبدیل کرنے کی تیکنیک دریافت کی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تیکنیک خُلیوں اور اجسام کی تخلیق میں نہایت مددگار ثابت ہوگی۔ شنیا یمناکا نے ابتدائی تعلیم مقامی ٹینوجی ہائی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد1987میں کوبے یونیورسٹی سے MDاور پھر1993میں اوساکا سٹی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے کے بعد وہ نیشنل اوساکا اسپتال میں آرتھوپیڈک سرجری کے شعبے میں خدمات انجام دیتے رہے۔
بعدازاں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشپ کے لیے جامعہ کیلی فورنیا سان فرانسسکو سے متعلق ''گلیڈاسٹون انسٹی ٹیوٹ برائے کارڈیوواسکیولر امراض ''سے وابستہ ہوگئے، جہاں وہ 1993سے1996تک خدمات انجام دینے کے بعد 1996سے1999تک اوسکا سٹی یونیورسٹی میڈیکل اسکول میں بہ حیثیت اسسٹنٹ پروفیسر تدریس سے وابستہ رہے، جس کے بعد شنیا یمناکا 1999سے2003تک جاپان کے شمال مغربی شہر نارا میں''نار اانسٹی ٹیوٹ آف سائنس آف ٹیکنالوجی'' میں بہ حیثیت اسسٹنٹ پروفیسر پڑھاتے رہے ہیں۔''میراتھون ریس'' اور''رگبی'' کے کھیل سے شغف رکھنے والے شنیا یمناکااس وقت جامعہ کویوٹو کے تحقیقی مرکزبرائے iPSسیل ریسرچ سینٹر میں بہ حیثیت ڈ ائریکٹر او ر پروفیسر خدمات انجام دے رہے۔
آئیے! دیکھتے ہیں کہ ان انعام یافتگان کے وہ کون سے کارنامے ہیں، جن کے باعث انھیں اس انعام کا مستحق گردانا گیا۔
٭امن (یورپی یونین)
یورو کرنسی، عالمی کساد بازاری اور یورپی یونین کے ممبر ممالک میں عوامی انتشار سے نبرد آزما یورپی یونین تنظیم کو رواں برس امن کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔ لگ بھگ پچاس کروڑ افراد پر مشتمل یورپی یونین کے 27 ممالک اس غیرمتوقع اعلان پر خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں۔ 23جولائی1952کو پیرس میں تشکیل پانے والے اس اتحاد نے یورپی ممالک کو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے منفی اقتصادی اور سیاسی حالات سے بچا کر بہتری کی جانب لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور نوبیل کمیٹی کے مطابق یورپی یونین تنظیم اس مقصد میں کام یاب رہی ہے۔
اگرچہ کمیٹی نے یورپ میں حالیہ سماجی انتشار اور معاشی بحران کا اعتراف کیا ہے، لیکن مجموعی طور پر یورپی یونین کے گذشتہ ساٹھ سال کو خطے میں امن کے لیے کوششوں کا دور قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے کمیٹی کا کہنا ہے کہ گذشتہ چھے دہائیوں میں یورپی یونین نے یورپ میں جمہوریت کے تسلسل، امن کے قیام، مفاہمتی رویے اور انسانی حقوق کے حصول کی پیش رفت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بالخصوص اس حوالے سے کمیٹی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس اور جرمنی کے مابین مفاہمت، 1970کی دہائی میں اسپین، پرتگال اور یونان کی آمرانہ حکومتوں کے خاتمے کے بعد ان ممالک کو اقتصادی اور سیاسی تعاون فراہم کرنے میں یورپی یونین کے مثبت کردار کا ذکر کیا ہے۔ دوسری طرف بعض مبصرین یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی اختلافات، بے نتیجہ بجٹ مذاکرات اور غریب اور امیر یورپی یونین ممالک کے مابین فرق ختم کرنے میں ناکامی کے باوجود یورپی یونین تنظیم کو امن کا نوبیل انعام دینے پر مطمٔن نہیں ہیں اور ان حلقوں کی جانب سے نوبیل کمیٹی کا یہ فیصلہ تنقید کی زد پر ہے۔
٭ادب (Guan Moye )
رواں برس ادب کے نوبیل انعام کے حق دار چین سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب ''مویان'' ہیں۔ مویان17فروری1957کو چین کے شین ڈونگ صوبے کے قصبے ''گائومی'' میں پیدا ہوئے۔ اپنے اصل نام گویان موئے کے بجائے مویان کے قلمی نام سے معروف ادیب کی پہلی کہانی ''بہار کی رات میں برستی بارش'' 1981میں شایع ہو ئی تھی۔
مویان نے 1991میں بیجنگ نارمل یونیوسٹی سے ادب اور فن کے مضمون میں ماسٹرز کیا ہے۔ اپنے قلم کے زور پر دنیا بھر میں تحسین کی نظر سے دیکھے جانے والے مویان اس وقت چین میں رہائش پذیر ہیں اور موجودہ چینی حکومت کے سخت ناقدین میں شمار کئے جاتے ہیں مشرقی چین کی دیہی زندگی کے مسائل بالخصوص دیہاتیوں سے روا رکھے جانے والے مظالم پر ان کے 1987میں تحریر کیے جانے والے ناول ''Red Sorghum Clan'' نے مویان کو عالمی ادب کے منظر نامے پر اہم مقام دلانے میں کلیدی کردا ر ادا کیا ہے۔ انیس سو بیس کی دہائی کے دیہی مسائل کی منظر کشی کرتے ہوئے اس ناول پر چینی زبان میں فلم بھی بنائی گئی ہے۔
ستاون سالہ مویان، جن کے قلمی نام کا چینی زبان میں مطلب ''بولو مت'' ہے۔ اپنے اس انوکھے قلمی نام کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ نام دراصل ان کے والدین کی اس ہدایت کا عکاس ہے جو ان کے والدین انہیں 1950کی دہائی میں انقلاب کے دوران ان کے ذہن میں پروان چڑھنے والے متجسس جذبات کے اظہار سے منع کرنے کے لیے دیتے تھے کہ تم (مویان) باہر جاکر ایسی باتیں کسی سے ''بولو مت''، اور پھر یہی جملہ ان کا قلمی نام بن گیا۔
چین کے ماضی کے حوالے سے کئی مختصر مگر جان دار تحریریں قارئین کی نظر کرنے والے مویان کے قابل ذکر ناولوں میں زندگی اور موت، جمہوریۂ شراب، سینڈل وڈ کی موت اور ایک بچہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا قلم مختصر کہانیاں لکھنے کے حوالے سے بھی نہایت رواں اور یکتا ہے۔ مویان کی کاٹ دار جملوں پر مشتمل کہانیوں میں سے بیشتر کا موضوع دوسری جنگ عظیم میں جاپان اور چین تنائو، انیس سو گیارہ کا انقلاب اور مائوزے تنگ کی ثقافتی اور سیاسی اصلاحات پر مبنی ہے۔
٭معیشت واقتصادیات (Lloyd Shapley Alvin Elliot Roth)
معیشت کا نوبیل انعام دو امریکی معیشت دانوں کو مارکیٹ میں موجود مختلف کاروباری نمونوں کے درمیان تعلق اور توازن قائم رکھنے کے لیے کی گئی تحقیق پر دیا گیا ہے۔ بزرگ معیشت داں89سالہ لائیڈ اسٹوویل شیپلے (Lloyd Stowell shapely) کو معیشت اور ریاضی کے شعبے میں ان کی طویل خدمات پر انعام دیا گیا ہے۔ لائیڈ اسٹویل شیپلے امریکا کی مردم خیز ریاست میساچیوٹس کے شہر کیمبرج میں2جون 1923کو پیدا ہوئے۔ پروفیسر لائیڈ کے والد Harlow Shapleyمشہور ماہر فلکیات تھے۔
لائیڈ نے ابتدائی تعلیم ریاست نیوہیمپشائر کی مشہور زمانہ فلپ ایکسیٹر اکیڈمی سے حاصل کی، جس کے بعد1943میں ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اس دوران دوسری جنگِ عظیم میں انہوں نے امریکی فضائیہ میں بطور سارجنٹ خدمات انجام دیتے ہوئے سوویت یونین کا موسم سے متعلق خفیہ کوڈ ڈی کوڈ کرکے شہرت حاصل کی۔ جنگ کے بعد وہ دوبارہ ہارورڈ یونیورسٹی آگئے، جہاں سے امتیازی نمبروں میں1948میں ریاضی میں گریجویشن کیا۔ گریجویشن کے بعد انہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی سے 1953میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ معاشیات اور ریاضی کی 15سے زاید کتابوں اور لاتعداد مضامین کے مصنف اور متعدد نئے معاشی نظریوں کے خالق پروفیسر لائیڈ شیپلے 1981سے تادم تحریر جامعہ کیلی فورنیا لاس اینجلس(UCLA) میں درس و تدریس اور محققانہ سرگرمیوں کی نگرانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
معیشت کے شعبے میں انعام کے دوسرے مشترکہ حق دار ''ایلن ایلیٹ روتھ(Alvin Elliot Roth)'' ہیں، جو 18دسمبر1951کو نیویارک سٹی امریکا میں پیدا ہوئے۔ پروفیسر ایلن نے 1971میں مین ہیٹن شہر میں واقع کولمبیا یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد کیلی فورنیا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز اور پھر1974میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ان کی تحقیق کا میدان معیشت میں ''آپریشن ریسرچ'' تھا۔ معیشت کے موضوع پر سات کتابوں اور ان گنت مضامین کے خالق ایلن ''امریکی نیشنل بیورو اکنامکس ریسرچ'' کے ممبر بھی ہیں۔ ایلن روتھ 80کی دہائی میں اس وقت مشہور ہوئے تھے، جب انہوں نے میڈیکل کے طالب علموں کے کالج اور اسپتالوں کے مابین کام کی مارکیٹ میں طلب و رسد کے مسائل سے نمٹنے کے طریقے وضع کیے تھے۔ پروفیسر ایلن روتھ 1982سے مختلف جامعات میں درس وتدریس کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔
٭کیمیا(Robert Lefkowitz ، Brian Kobilka)
رواں برس شعبۂ کیمیا میں گراں قدر خدمات اور تحقیق کے اعتراف میں نوبیل انعام دو امریکی استاد اور شاگرد کیمیا دانوں نے حاصل کیا ہے۔ ان کی تحقیق کا دائرہ کار لاتعداد انسانی خلیوں کے بیرونی حالات اور ان کے اردگرد کے ماحول میں وقوع ہونے والی کیمیائی سرگرمیوں میں آخذے (Receptors) کی دریافت اور مطالعے پر دیا گیا ہے۔ انعام کے دونوں حق دار کیمیادانوں میں سے ایک میری لینڈ میں واقع ''ہورڈ ہیوز میڈیکل انسٹی ٹیوٹ'' کے ڈاکٹر رابرٹ لیفکویٹز (Robert Lefkowitz)ہیں۔ ڈاکٹر رابرٹ 15اپریل 1943کو نیویارک میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم نیویارک کے علاقے برونکس میں واقع ''برونکس ہائی اسکول برائے سائنس'' سے حاصل کی، جس کے بعد 1962میں انہوں نے کولمبیا کالج سے بی اے کی سند حاصل کی، جب کہ 1966میں کولمبیا یونیورسٹی برائے فزیشن اور سرجن سے ڈاکٹر آف میڈیسن کی سند حاصل کی، جس کے بعد وہ مختلف شعبوں میں پڑھانے کے بعد1973میں شمالی کیرولینا میں واقع ''ڈیوک یونیورسٹی میڈیکل سینٹر'' میں ایسوسی ایٹ پروفیسر برائے میڈیسن اور اسسٹنٹ پروفیسر برائے بائیو کیمسٹری پر فائز ہوگئے، جہاں وہ1977 میں دونوں شعبوں میں پروفیسر بنادیے گئے اور اب اسی یونیورسٹی میں بطور محقق اور کیمیاداں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
کیمیا کے شعبے میں انعام کے دوسرے مشترکہ حق دار ڈاکٹر برائن کوبیلکا ہیں، جو1955میں امریکی ریاست مینی سوٹا کے شہر لٹل فالز میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر برائن نے کیمسٹری اور بائیو لوجی میں مینی سوٹا یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد Yaleیونیورسٹی آف میڈیسن سے ماسٹرز کیا، جب کہ پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق کے لیے انہوں نے ڈیوک یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ ڈاکٹر برائن اس وقت اسٹین فورڈ یونیورسٹی برائے میڈیسن میں بحیثیت پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر برائن کوبیلکا، پروفیسر رابرٹ لیفکویٹز کے شاگرد ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان دونوں حضرات کی جانب سے عضلات اور خلیات کے مابین نامعلوم گزرگاہوں اور اعصابی نظام اور ہارمون کے درمیان پیغامات کے پیچیدہ ترسیلی نظام کی وضاحت کرنے والی یہ تحقیق بیماریوں کے علاج کے دوران معالجوں کے لیے دوائوں کو اپنے ہدف تک پہچانے میں انتہائی کارآمد ثابت ہوگی۔
٭طبیعیات(Serge HarocheDavid Jeffrey Wineland)
شعبہ طبیعیات میں بھی دو ماہرین طبیعیات کو نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔ ان میں سے ایک فرانس سے تعلق رکھنے والے ماہر طبیعیات ''سرج ہروش'' 11ستمبر 1944کو سابق فرانسیسی نوآبادی مراکش میں پیدا ہوئے۔ سرج ہروش کے والدین1956میں فرانس منتقل ہوگئے تھے۔ انہوں نے گریجویشن پیرس میں واقع Ecole Normale Superieure سے کرنے کے بعد 1971میں پیرسVIیونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ دوران تعلیم 1967سے1975تک ریسرچ سائنٹسٹ اور اسی دوران 1972سے1973تک اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے اور پھر 1975میں پیرس VIیونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کے عہدے پر تعینات کر دیے گئے۔
اسی دوران وہ1994تک مختلف اداروں میں درس و تدریس سے وابستہ رہے اور1994کے بعد سے 2000تک Ecole Normale Superieureادارے کے طبیعیات کے شعبے کے سربراہ کے عہدے پر فائز رہے۔ سرج ہروش Colloge De Franceمیں شعبے کوائنٹم فزکس میں بطور پروفیسر علم کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ سرج ہروش کی تحقیق کا میدان ایٹمی فزکس اورکوائنٹم آپٹکس ہے، جس میں ان کا کارنامہ روشنی کے انفرادی ذروں کی رفتار اور معائنہ کرنے کے ناممکن سمجھے جانے والے کام کو ممکن بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں کے ذروں کے معائنے کے لیے ان کی رفتار کم کرنے کا طریقہ کار دریافت کیا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک مخصوص شفاف مادے سے ایک ایسا آلہ بنایا ہے جس کے ذریعے روشنی کے زروں کی رفتار اور ''رَویّوں'' کو جانچنا ممکن ہوسکا ہے۔
طبیعیات کے نوبیل انعام کے دوسرے فاتح امریکا کے طبیعیات داں ''ڈاکٹر ڈیوڈ جیفری وائن لینڈ ''ہیں، جو24فروری1944کو امریکی ریاست ویس کونسن میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر ڈیوڈ نے 1961میں Encina ہائی اسکول کیلیفورنیا سے گریجویشن کرنے کے بعد 1965میں کیلیفورنیا یونیورسٹی بارکلے سے ماسٹرز کیا اور پھر1975میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر ڈیوڈ ''نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی(NIST)'' سے وابستہ ہوگئے، جہاں وہ ابھی تک بہ حیثیت طبیعیات داں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر ڈیوڈ وائن لینڈ کی وجہِ شہرت ایٹمی برقی روانوں یا Ions کو مقید کرکے روشنی کی مدد سے مطالعہ کرنے کا طریقہ دریافت کرنا ہے۔ تاہم نوبیل کمیٹی نے ان دونوں حضرات کو مجموعی طور پر کوائنٹم نظام میں روشنی اور ایٹمی ذرات پر تحقیق کرنے کے لیے نئے نظام وضع کرنے پر انعام کا حق دار قرار دیا ہے۔ان دونوں ماہرینِ طبیعیات کی کاوشوں سے اب کوانٹم کمپیوٹر کی تشکیل ممکن ہوسکے گی، جو موجودہ سپر کمپیوٹرز سے کئی گنا بہتر کارکردگی کے حامل ہوں گے، اسی طرح ماہرین کے مطابق یہ تحقیقات مستقبل میں مواصلات کے شعبوں میں بھی انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔
٭طب اور فعلیات (John Gurdon Shinya Yamanaka)
طب کا نوبیل انعام مشترکہ طور پر دو اصحاب کو دیا گیا ہے، جن میں برطانیہ کے بزرگ ماہر طب ''جان گرڈن'' اور جاپان کے ''شنیا یمنا کا(Shinya Yamanaka)'' شامل ہیں۔ ان دونوں کو بالغ خلیوں کی تجدید یا ''ری پروگرامنگ'' کرکے اسٹیم سیل میں تبدیل کرنے کی تیکنیک میں تحقیق پر نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔
79سالہ بزرگ ماہر طب سر جان برٹرینڈ گرڈن2 اکتوبر1933میں متحدہ برطانیہ کی کائونٹی سرے کے نواحی علاقے ڈپن ہال میں پیدا ہوئے۔ جان گرڈن نے ابتدائی تعلیم برک شائر کائونٹی کے ایٹون کالج سے حاصل کی، جس کے بعد وہ کرائسٹ چرچ کالج آکسفورڈ کے شعبۂ حیوانیات میں داخل ہوگئے۔ گرڈن نے اسی ادارے سے ڈاکٹریٹ کی سند بھی حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد وہ کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ہوگئے اور پھر واپس آکر دوبارہ کرائسٹ چرچ آکسفورڈ میں پڑھانے لگے۔ تعلیم کے حصول کے بعد جان گرڈن کا بحیثیت مدرس بیشتر عرصہ جامعہ کیمبرج میں گزرا اور وہ آج بھی اس جامعہ سے وابستہ ہیں۔ بابائے کلوننگ کہلائے جانے والے جان گرڈن کو اپنے شعبے میں اس وقت شہرت حاصل ہوئی تھی۔ جب انہوں نے1962میں مینڈک کی کلوننگ کا کام یاب تجربہ کیا تھا، جو دراصل موجودہ دور میں کلون کی جانے والی ''ڈولی'' بھیڑ پر کی جانے والی کلوننگ کا ابتدائی تجربہ تھا۔
شعبۂ طب میں نوبیل انعام کے دوسرے حق دار جاپان کے ''شنیا یمناکا'' ہیں، جو4ستمبر 1962کو جاپان کے شہر اوساکا میں پیدا ہوئے۔ اگرچہ شنیا یمناکا کی تحقیق جان گرڈن کی تحقیق کا تسلسل ہی ہے، لیکن اس لحاظ سے منفرد ہے کہ انہوں نے جینیاتی خوبیوں کو کسی دوسرے بالغ خلیے میں داخل کرنے کے بجائے اس خلیے کی جینیاتی خوبیوں اور معلومات کو خلیے کے اندر ہی رہتے ہوئے تبدیل کرنے کی تیکنیک دریافت کی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تیکنیک خُلیوں اور اجسام کی تخلیق میں نہایت مددگار ثابت ہوگی۔ شنیا یمناکا نے ابتدائی تعلیم مقامی ٹینوجی ہائی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد1987میں کوبے یونیورسٹی سے MDاور پھر1993میں اوساکا سٹی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے کے بعد وہ نیشنل اوساکا اسپتال میں آرتھوپیڈک سرجری کے شعبے میں خدمات انجام دیتے رہے۔
بعدازاں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشپ کے لیے جامعہ کیلی فورنیا سان فرانسسکو سے متعلق ''گلیڈاسٹون انسٹی ٹیوٹ برائے کارڈیوواسکیولر امراض ''سے وابستہ ہوگئے، جہاں وہ 1993سے1996تک خدمات انجام دینے کے بعد 1996سے1999تک اوسکا سٹی یونیورسٹی میڈیکل اسکول میں بہ حیثیت اسسٹنٹ پروفیسر تدریس سے وابستہ رہے، جس کے بعد شنیا یمناکا 1999سے2003تک جاپان کے شمال مغربی شہر نارا میں''نار اانسٹی ٹیوٹ آف سائنس آف ٹیکنالوجی'' میں بہ حیثیت اسسٹنٹ پروفیسر پڑھاتے رہے ہیں۔''میراتھون ریس'' اور''رگبی'' کے کھیل سے شغف رکھنے والے شنیا یمناکااس وقت جامعہ کویوٹو کے تحقیقی مرکزبرائے iPSسیل ریسرچ سینٹر میں بہ حیثیت ڈ ائریکٹر او ر پروفیسر خدمات انجام دے رہے۔