صدائے بیداری
مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ جمہوریت کے تین بنیادی ستون ہیں۔ چنانچہ دنیا کے جن معروف ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے
مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ جمہوریت کے تین بنیادی ستون ہیں۔ چنانچہ دنیا کے جن معروف ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے وہاں ریاستی کارکردگی کا دارومدار ان ہی تینوں بنیادی ستونوں کے درست اور فعال انداز میں اپنے اپنے کام کا سر انجام دینے پر ہے۔ ان میں ریاست کا ہر بنیادی شعبہ ہمہ وقت چوکنا، سرگرم اور جواب دہ ہوتا ہے۔ جمہوری ریاستوں میں پارلیمان پر سب سے بڑی ذمے داری پر عائد ہوتی ہے کہ وہ انتظامیہ کی سخت نگرانی کرے اور اس کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے۔ پارلیمان یہ کام مختلف طریقوں سے انجام دیتی ہے۔ ان تمام دستیاب طریقوں میں کمیٹیوں کا نظام سب سے اہم اور موثر تسلیم کیا جاتا ہے۔ برطانیہ اور امریکا اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
امریکی پارلیمان جو عرف عام میں کانگریس کہلاتی ہے، اس کی سب بڑی مثال ہے۔ گزشتہ چند برس کے عرصے میں امریکی کانگریس کی کمیٹیوں کے اختیارات میں بڑا زبردست اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں یہ کمیٹیاں بہت طاقتور ہوگئی ہیں اور انتظامیہ اور عدلیہ دونوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ سرکش یا بے لگام ہوجائے۔ امریکا میں اگرچہ صدارتی نظام رائج ہے مگر امریکی صدر شتر بے مہار ہرگز نہیں ہوسکتا جس کا سب سے بڑا سبب کانگریس کی مختلف کمیٹیاں ہیں۔ Checks and Balances کا یہ عمدہ نظام ہی امریکی جمہوریت کی اصل کامیابی کی کلید ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں بھی جمہوری نظام رائج ہے۔ چنانچہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں مختلف کمیٹیاں قائم ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کی اپنی اپنی کمیٹیاں اس کے علاوہ ہیں۔ ایوان بالا یعنی سینیٹ کی موجودہ کمیٹیوں کی مجموعی تعداد 49 ہے جب کہ ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کی کمیٹیوں کی تعداد 47 ہے۔ دوسری جانب صوبائی اسمبلیوں کی کمیٹیوں کی تعداد 18 سے لے کر 51 تک ہے۔ سب سے کم تعداد یعنی 18 بلوچستان اور سب سے زیادہ تعداد یعنی 51 پنجاب اسمبلی کی ہے۔
کمیٹی کے 25 فیصد ممبران کی مرضی سے کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی کمیٹی کے فعال ہونے میں بنیادی کردار اس کے چیئرمین ہوتا ہے، تاہم کمیٹی ممبران کا اپنا اثر بھی کافی وزن رکھتا ہے۔ یہ تمام کمیٹیاں وفاقی اور صوبائی وزارتوں اور محکموں کے امور کی نگراں ہوتی ہیں۔ مگر یہ انتظام محض مفت کا سودا نہیں ہے کیونکہ ان کے انتظام و انصرام پر بھی اچھے خاصے اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے لیے بھی حکومتی خزانے سے ہی بندوبست کیا جاتا ہے اور یہ تیل بھی عوام کے تلوں سے نکالا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت کے حسن کے چرچے تو بہت ہیں لیکن نفاذ جمہوریت کی شدید کمی ہے۔ چنانچہ ہمارا کمیٹیوں کا نظام بھی اس سے مبرا نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمارے حکومتی کرتا دھرتا خود کو شتر بے مہار تصور کرتے ہیں۔ کسی بھی مسئلے سے جان چھڑانے کے لیے ایک کمیٹی بنادی جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ مسئلہ عوام کی نظروں سے اوجھل ہوکر سرد خانے میں جاکر گم ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک نہیں بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ہماری بیوروکریسی جس مسئلے کی ذمے داری سے بچنا چاہتی ہے اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل کرا دیتی ہے۔ یہ سب سے آسان اور کارگر حربہ ہے جو مسلسل استعمال کیا جا رہا ہے۔
دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والا انتہائی المناک واقعہ اسی سلسلے کی ایک مثال ہے اس سانحے کے فوراً بعد ایک کمیٹی قائم کردی گئی تھی اور اس کی نگرانی کے لیے ریٹائرڈ جنرل ناصر جنجوعہ کی خدمات بھی حاصل کرلی گئی تھیں، مگر انجام سب کے سامنے ہے ۔ تازہ ترین واقعہ کوئٹہ اسپتال کا ہے 70 سے زائد قیمتی جانیں جس کی نذر ہوگئیں۔
اصل مسئلہ کمیٹیوں کے فقدان کا نہیں بلکہ ان کی کارکردگی اور نتیجہ خیزی کے ناقص ہونے کا ہے۔ ہمارے یہاں ایک عرصے سے National Counter - Terrorism Authority نامی ادارہ قائم ہے جسے عرف عام میں Necta کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے National Action Plan بنایا گیا تھا NHP جس کا مخفف ہے ۔
پھر اس منصوبے کی نگرانی کے لیے 15 سے زائد کمیٹیاں بھی بنائی جاچکی ہیں وفاقی وزیر داخلہ جن میں 11 کمیٹیوں کے چیئرمین ہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ NAP کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی ہوئی ہے مگر نتیجہ تاحال لاحاصل ہے۔ دوسری جانب دہشت گردی کے عفریت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنے کے لیے ہمارے فوجی اپنے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ ان حالات میںNAP کے نفاذ میں کوتاہی اور سست روی ناقابل برداشت ہے۔ چنانچہ اس صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار ایک فطری بات ہے جوکہ گزشتہ دنوں کور کمانڈروں کے اجلاس میں چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو کرنا پڑا۔ اسی سلسلے میں غور طلب بات یہ ہے کہ بری فوج کے سربراہ کا یہ تاثر قومی سلامتی کی کمیٹی کے اس حالیہ اجلاس کے بعد سامنے آیا ہے جس کی صدارتی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بذات خود کی تھی اور جس میں دیگر اہم شخصیات کے علاوہ جنرل راحیل شریف بھی بہ نفس نفیس تشریف فرما تھے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 20 نکاتی NAP دسمبر 2014 میں وزیر اعظم کے طلب کی گئی اس کانفرنس میں اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا جس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی غالب اکثریت نے انتہائی خلوص اور جذبہ حب الوطنی کے ساتھ شرکت کی تھی اور سول اور ملٹری دونوں ہی قیادتوں نے اسے انسداد دہشت گردی کے خلاف ایک روڈ میپ قرار دیا تھا۔ NAP کی اہمیت اس لیے بھی غیر معمولی ہے کیونکہ اسے ایک دوسرے کی شدید مخالف سیاسی جماعتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ نیز یہ کہ اس پر سول اور فوجی دونوں ہی قیادتوں نے مکمل اتفاق کا اظہار بھی کیا تھا۔
وفاقی حکومت اور وزیر اعظم نے NAP کے نفاذ کی نگرانی کے لیے نہ صرف کئی کمیٹیوں کے قیام کا اعلان کیا تھا بلکہ اس بارے میں ہونے والی پیش رفت کی ذاتی طور پر نگرانی کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمیٹیوں نے بھی اس کام میں ڈھیل اور غفلت کا مظاہرہ کیا اور خود وزیر اعظم کی توجہ بھی بعض دیگر امور کی وجہ سے اس پر پوری طرح مرکوز نہ رہ سکی۔ ممکن ہے کہ اس کا ایک سبب ان کی صحت کی خرابی بھی ہو جوکہ ظاہر ہے کہ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
بہرحال اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وفاقی سطح پر NAP پر عمل درآمد کی زیادہ تر ذمے داری وزارت داخلہ پر عائد ہوتی ہے جس کے بعد یہ ذمے داری صوبائی وزارتوں کی ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی متعلقہ کمیٹیاں بھی اس کی ذمے دار ہیں۔
یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ تمام متعلقہ سول ادارے اور شعبے NAP کے نفاذ میں مطلوبہ معیار اور توقعات پر پورے نہیں اتر سکے جس کے باعث بری فوج کے سربراہ کو عدم اطمینان کے اظہار پر مجبور ہونا پڑا جس کا ہونا قومی مفاد کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
دسمبر 2014 میں NAP کے اعلان کے بعد گزشتہ 19 ماہ کے دوران داخلہ اور منشیات کے کنٹرول سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے 20 اجلاس ہوچکے ہیں مگر ان میں سے صرف ایک مرتبہ کمیٹی کے ایجنڈے میں NAP پر بریفنگ شامل تھی۔ سینیٹ پی آئی اے کی کارکردگی سمیت بعض دیگر امور پر اسپیشل کمیٹیاں تو تشکیل دے چکی ہے لیکن NAP کے حوالے سے کوئی خصوصی کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی۔
داخلہ اور منشیات کے کنٹرول سے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے دسمبر 2014 تا اگست 2016 منعقدہ 120 اجلاسوں کے ایجنڈوں میں بھی اسمبلی کی ویب سائٹ پر NAP کے زیر غور آنے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ اس موضوع پر صوبائی اسمبلیوں کی کمیٹیوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ ان میں سے کسی بھی کمیٹی کو NAP کے نفاذ پر غور کرنے کی توفیق نہیں ہوئی اور تو اور ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں نے بھی NAP کے عمل درآمد پر بحث کے لیے اپنا مکمل اجلاس طلب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یہ صورتحال افسوسناک بھی ہے اور فوری کارروائی اور عمل کی متقاضی بھی کیونکہ NAP پر عمل درآمد میں مزید غفلت یا سست روی قومی مفاد کے حق میں زہر قاتل سے کم نہ ہوگی۔ اس تناظر میں چیف آف آرمی اسٹاف کے الفاظ کو صدائے بیداری یا Wake Up Call ہی کہا جاسکتا ہے۔
امریکی پارلیمان جو عرف عام میں کانگریس کہلاتی ہے، اس کی سب بڑی مثال ہے۔ گزشتہ چند برس کے عرصے میں امریکی کانگریس کی کمیٹیوں کے اختیارات میں بڑا زبردست اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں یہ کمیٹیاں بہت طاقتور ہوگئی ہیں اور انتظامیہ اور عدلیہ دونوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ سرکش یا بے لگام ہوجائے۔ امریکا میں اگرچہ صدارتی نظام رائج ہے مگر امریکی صدر شتر بے مہار ہرگز نہیں ہوسکتا جس کا سب سے بڑا سبب کانگریس کی مختلف کمیٹیاں ہیں۔ Checks and Balances کا یہ عمدہ نظام ہی امریکی جمہوریت کی اصل کامیابی کی کلید ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں بھی جمہوری نظام رائج ہے۔ چنانچہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں مختلف کمیٹیاں قائم ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کی اپنی اپنی کمیٹیاں اس کے علاوہ ہیں۔ ایوان بالا یعنی سینیٹ کی موجودہ کمیٹیوں کی مجموعی تعداد 49 ہے جب کہ ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کی کمیٹیوں کی تعداد 47 ہے۔ دوسری جانب صوبائی اسمبلیوں کی کمیٹیوں کی تعداد 18 سے لے کر 51 تک ہے۔ سب سے کم تعداد یعنی 18 بلوچستان اور سب سے زیادہ تعداد یعنی 51 پنجاب اسمبلی کی ہے۔
کمیٹی کے 25 فیصد ممبران کی مرضی سے کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی کمیٹی کے فعال ہونے میں بنیادی کردار اس کے چیئرمین ہوتا ہے، تاہم کمیٹی ممبران کا اپنا اثر بھی کافی وزن رکھتا ہے۔ یہ تمام کمیٹیاں وفاقی اور صوبائی وزارتوں اور محکموں کے امور کی نگراں ہوتی ہیں۔ مگر یہ انتظام محض مفت کا سودا نہیں ہے کیونکہ ان کے انتظام و انصرام پر بھی اچھے خاصے اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے لیے بھی حکومتی خزانے سے ہی بندوبست کیا جاتا ہے اور یہ تیل بھی عوام کے تلوں سے نکالا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت کے حسن کے چرچے تو بہت ہیں لیکن نفاذ جمہوریت کی شدید کمی ہے۔ چنانچہ ہمارا کمیٹیوں کا نظام بھی اس سے مبرا نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمارے حکومتی کرتا دھرتا خود کو شتر بے مہار تصور کرتے ہیں۔ کسی بھی مسئلے سے جان چھڑانے کے لیے ایک کمیٹی بنادی جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ مسئلہ عوام کی نظروں سے اوجھل ہوکر سرد خانے میں جاکر گم ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک نہیں بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ہماری بیوروکریسی جس مسئلے کی ذمے داری سے بچنا چاہتی ہے اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل کرا دیتی ہے۔ یہ سب سے آسان اور کارگر حربہ ہے جو مسلسل استعمال کیا جا رہا ہے۔
دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والا انتہائی المناک واقعہ اسی سلسلے کی ایک مثال ہے اس سانحے کے فوراً بعد ایک کمیٹی قائم کردی گئی تھی اور اس کی نگرانی کے لیے ریٹائرڈ جنرل ناصر جنجوعہ کی خدمات بھی حاصل کرلی گئی تھیں، مگر انجام سب کے سامنے ہے ۔ تازہ ترین واقعہ کوئٹہ اسپتال کا ہے 70 سے زائد قیمتی جانیں جس کی نذر ہوگئیں۔
اصل مسئلہ کمیٹیوں کے فقدان کا نہیں بلکہ ان کی کارکردگی اور نتیجہ خیزی کے ناقص ہونے کا ہے۔ ہمارے یہاں ایک عرصے سے National Counter - Terrorism Authority نامی ادارہ قائم ہے جسے عرف عام میں Necta کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے National Action Plan بنایا گیا تھا NHP جس کا مخفف ہے ۔
پھر اس منصوبے کی نگرانی کے لیے 15 سے زائد کمیٹیاں بھی بنائی جاچکی ہیں وفاقی وزیر داخلہ جن میں 11 کمیٹیوں کے چیئرمین ہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ NAP کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت کی ہوئی ہے مگر نتیجہ تاحال لاحاصل ہے۔ دوسری جانب دہشت گردی کے عفریت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنے کے لیے ہمارے فوجی اپنے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ ان حالات میںNAP کے نفاذ میں کوتاہی اور سست روی ناقابل برداشت ہے۔ چنانچہ اس صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار ایک فطری بات ہے جوکہ گزشتہ دنوں کور کمانڈروں کے اجلاس میں چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو کرنا پڑا۔ اسی سلسلے میں غور طلب بات یہ ہے کہ بری فوج کے سربراہ کا یہ تاثر قومی سلامتی کی کمیٹی کے اس حالیہ اجلاس کے بعد سامنے آیا ہے جس کی صدارتی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بذات خود کی تھی اور جس میں دیگر اہم شخصیات کے علاوہ جنرل راحیل شریف بھی بہ نفس نفیس تشریف فرما تھے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 20 نکاتی NAP دسمبر 2014 میں وزیر اعظم کے طلب کی گئی اس کانفرنس میں اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا جس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی غالب اکثریت نے انتہائی خلوص اور جذبہ حب الوطنی کے ساتھ شرکت کی تھی اور سول اور ملٹری دونوں ہی قیادتوں نے اسے انسداد دہشت گردی کے خلاف ایک روڈ میپ قرار دیا تھا۔ NAP کی اہمیت اس لیے بھی غیر معمولی ہے کیونکہ اسے ایک دوسرے کی شدید مخالف سیاسی جماعتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ نیز یہ کہ اس پر سول اور فوجی دونوں ہی قیادتوں نے مکمل اتفاق کا اظہار بھی کیا تھا۔
وفاقی حکومت اور وزیر اعظم نے NAP کے نفاذ کی نگرانی کے لیے نہ صرف کئی کمیٹیوں کے قیام کا اعلان کیا تھا بلکہ اس بارے میں ہونے والی پیش رفت کی ذاتی طور پر نگرانی کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمیٹیوں نے بھی اس کام میں ڈھیل اور غفلت کا مظاہرہ کیا اور خود وزیر اعظم کی توجہ بھی بعض دیگر امور کی وجہ سے اس پر پوری طرح مرکوز نہ رہ سکی۔ ممکن ہے کہ اس کا ایک سبب ان کی صحت کی خرابی بھی ہو جوکہ ظاہر ہے کہ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
بہرحال اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وفاقی سطح پر NAP پر عمل درآمد کی زیادہ تر ذمے داری وزارت داخلہ پر عائد ہوتی ہے جس کے بعد یہ ذمے داری صوبائی وزارتوں کی ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی متعلقہ کمیٹیاں بھی اس کی ذمے دار ہیں۔
یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ تمام متعلقہ سول ادارے اور شعبے NAP کے نفاذ میں مطلوبہ معیار اور توقعات پر پورے نہیں اتر سکے جس کے باعث بری فوج کے سربراہ کو عدم اطمینان کے اظہار پر مجبور ہونا پڑا جس کا ہونا قومی مفاد کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
دسمبر 2014 میں NAP کے اعلان کے بعد گزشتہ 19 ماہ کے دوران داخلہ اور منشیات کے کنٹرول سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے 20 اجلاس ہوچکے ہیں مگر ان میں سے صرف ایک مرتبہ کمیٹی کے ایجنڈے میں NAP پر بریفنگ شامل تھی۔ سینیٹ پی آئی اے کی کارکردگی سمیت بعض دیگر امور پر اسپیشل کمیٹیاں تو تشکیل دے چکی ہے لیکن NAP کے حوالے سے کوئی خصوصی کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی۔
داخلہ اور منشیات کے کنٹرول سے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے دسمبر 2014 تا اگست 2016 منعقدہ 120 اجلاسوں کے ایجنڈوں میں بھی اسمبلی کی ویب سائٹ پر NAP کے زیر غور آنے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ اس موضوع پر صوبائی اسمبلیوں کی کمیٹیوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ ان میں سے کسی بھی کمیٹی کو NAP کے نفاذ پر غور کرنے کی توفیق نہیں ہوئی اور تو اور ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں نے بھی NAP کے عمل درآمد پر بحث کے لیے اپنا مکمل اجلاس طلب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یہ صورتحال افسوسناک بھی ہے اور فوری کارروائی اور عمل کی متقاضی بھی کیونکہ NAP پر عمل درآمد میں مزید غفلت یا سست روی قومی مفاد کے حق میں زہر قاتل سے کم نہ ہوگی۔ اس تناظر میں چیف آف آرمی اسٹاف کے الفاظ کو صدائے بیداری یا Wake Up Call ہی کہا جاسکتا ہے۔