اخلاقیات اور دم توڑتا کاروبار چل پڑا

سوشل میڈیا کی مثبت طاقت اجاگر کرنے والا اچھوتا واقعہ

سوشل میڈیا کی مثبت طاقت اجاگر کرنے والا اچھوتا واقعہ ۔ فوٹو : فائل

چالیس برس قبل جان میکین معقول ملازمت کی تلاش میں سکاٹ لینڈ سے کینیڈا پہنچا۔ وہ بہ لحاظ پیشہ الیکٹریشن تھا۔ اگلے 23 سال وہ مختلف کمپنیوں میں ملازمتیں کرتا رہا۔ جب اس کے پاس خاصی رقم جمع ہوگئی' تو جان نے کینیڈین شہر، لیتھ برج میں مچھلی اور چپس فرائی کرنے والا ایک چھوٹا سا ریستوران کھول لیا۔ جان کو یقین تھا کہ اس کا چھوٹا سا کاروبار چل پڑے گا اور وہ بڑھاپے میں اپنے بچوں یا حکومت کا محتاج ہونے سے بچ سکے گا۔

جان کاروباری تو تھا نہیں' اسے دیر بعد احسا س ہوا کہ اس نے ایک الگ تھلگ سے مقام پر ریستوران کھول لیا ہے۔ لوگ وہاں آتے اور اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر گذر جاتے۔ روزانہ پانچ چھ گاہک ہی ریستوران کا رخ کرتے ' کبھی کبھی دس پندرہ بھی آ پہنچتے۔ غرض کاروبار نہ چل سکا اور جان پریشان رہنے لگا۔ اس نے تو ساری جمع پونجی اپنا ریستوران کھولنے میں لگا دی تھی۔ اب وہ اسے بند کرتا' تو مجبوراً جان کو بوڑھوں کے کسی سرکاری مرکز میں پناہ لینا پڑتی۔ وہ اپنے بچوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس نے ساری عمر اپنی محنت و مشقت کی کمائی کھائی تھی اور اب بھی اسی اصول پر عمل پیرا تھا۔

یہ ایک ہفتہ قبل کی بات ہے' لیتھ برج کا رہائشی 25 سالہ نوجوان کو لن راس ریستوران کے اوپر واقع کارپارکنگ میں اپنی گاڑی کھڑی کر رہا تھا ۔ اتفاقاً اس کی نظر نیچے کونے میں کھلے ریستوران کے بورڈ پر جا پڑی۔ کولن راس چند سال سے اس علاقے میں مقیم تھا اور نوجوان نے پہلی بار یہ ریستوران دیکھا تھا۔ ''فش اینڈ چپس'' کا نام پڑھ کر اس کی بھوک چمک اٹھی اور منہ میں پانی آ گیا۔ چناں چہ وہ سیدھا ریستوران پہنچ گیا۔

کولن نے دیکھا کہ ریستوران خالی ہے، بس اداس و پریشان سا ایک بوڑھا کرسی پر بیٹھا تھا۔ وہ ریستوران کا مالک نکلا۔ کولن نے مچھلی و چپس کا آرڈر دیا' تو ایک ملازم کھانا تیار کرنے لگا۔ ادھر نوجوان بوڑھے سے مصروف گفتگو ہو گیا۔باتوں باتوں میں کولن کو پتا چلا کہ ریستوران کا بوڑھا مالک سخت مایوس ہے۔ اس کا ریستوان چل نہیں پا رہا تھا۔ حتیٰ کہ پچھلے پانچ ماہ سے روزانہ اخراجات بھی پورے نہ ہو پاتے۔


اب وہ اسے بند کرنے کا سوچ رہا تھا، کولن ایک رحم دل اور ہمدرد انسان تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس پریشان حال بوڑھے کی ہر ممکن مدد کرے گا۔ کولن لیتھ برج کی ایک بڑی کمپنی میں بطور مارکیٹنگ مینجر کام کرتا تھا ۔ چناںچہ وہ شہر کے کئی لوگوں سے ملتا ملاتا تھا۔ فیس بک پر اس کے دو ہزار سے زائد دوست موجود تھے، کولن کو ویسے بھی وہ چھوٹا سا صاف ستھرا ریستوران پسند آیا۔ کھانا بھی پسند تھا اور وہ انگلیاں چاٹتا رہ گیا۔ غرض وہ بوڑھے اور ریستوران سے از حد متاثر ہوا، گھر پہنچ کر اس نے پھر ایک فیس بک پوسٹ کے ذریعے اپنے دوستوں سے ریستوران کا تعارف کرایا۔ پوسٹ میں اس نے جذبات انگیز انداز میں اپنی روداد بیان کی' ریستوران کے محاسن بتائے اور دوستوں سے اپیل کی کہ کہ وہ بوڑھے کے ڈوبتے کاروبار کو بچانے کی خاطر بڑھ چڑھ کر اس کی مدد کریں۔

نوجوان دل سے مایوس و پراگندہ خاطر جان میکین کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ چناںچہ اس نے بڑے جذباتی الفاظ میں پوسٹ لکھی۔ نیت نیک تھی لہٰذا اس کی ادا اوپر والے کو پسند آ گئی۔ جلد ہی کولن کے دوست اس کی پوسٹ کو ''لائک'' کرنے لگے۔ یہ پوسٹ پھر فیس بک کی وسیع و عریض دنیا میں پر لگا کر اڑنے لگی اور اگلے بارہ گھنٹوں میں اسے ''چھیاسی ہزار'' لائکس مل گئے۔ اپنی پوسٹ کی مقبولیت دیکھ کر کولن بہت خوش اور حیران ہوا۔

لیکن حقیقی حیرانی تو جان میکملن کی منتظر تھی۔ جب وہ صبح اپنا ریستوران کھولنے پہنچا' تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دروازے پر گاہک قطار بنائے کھڑے ہیں۔ ان میں مرد' عورتیں اور بچے سبھی شامل تھے۔ پچھلے سات برس میں یہ پہلا موقع تھا کہ گاہک اس کی آمد کا انتظار کرتے پائے گئے۔ اس نے شدید حیرت کے عالم میں ریستوران کھولا اور گاہکوں کے آرڈر پورے کرنے میں مصروف ہو گیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آج اچانک کئی گاہکوں نے ریستوران کا رخ کیسے کر لیا۔ گاہکوں کی تعداد میں کمی نہ آئی بلکہ ان کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اور بوڑھے جان پر تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ کام اتنا بڑھ گیا کہ اسے فون کر کے اپنے اور رشتے دار بلانے پڑے۔ دوپہر تک وہ اتنی زیادہ کمائی کر چکا تھا جو پچھلے پانچ ماہ کی آمدن کے برابر تھی۔

آخر سہ پہر کو کولن راس اپنے پسندید ریستوران آ پہنچا، یہ دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ریستوران گاہکوں سے بھرا پڑا تھا ، وہ پھر بوڑھے جان سے ملا اور اسے ساری داستان سنائی۔ جان کمپیوٹر اور سوشل میڈیا سے زیادہ واقف نہ تھا۔ اب اسے سوشل میڈیا کی طاقت معلوم ہوئی تو وہ گنگ رہ گیا۔ اسے بہ مشکل یقین آیا کہ کولن راس کی ایک پوسٹ نے اس کے الگ تھلگ اور غیر معروف ریستوران کو لیتھ برج یا کینیڈا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مشہور کر دیا ہے۔ بوڑھے جان کو پھر نوجوان کی ہمدردی کا احساس ہوااور اس نے کولن کا بہت شکریہ ادا کیا ۔ یہ کولن کے جذبہ ہمدری کا نتیجہ تھا کہ بوڑھے کا ڈوبتا کاروبار سنبھل گیا۔ اب جان کو یقین ہے کہ ایک لاکھ آبادی والے شہر میں روزانہ اتنے گاہک ضرور آئیں گے کہ اس کا ریستوران منافع میں آ جائے۔

محبت' ہمدردی ' خلوص اور ایثار کی مہک سے مہکتا یہ واقعہ سوشل میڈیا کی خوبیاں عیاں کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ابھی انسانیت زندہ ہے اور جب غیر بھی کسی انسان کو مصیبت و دکھ میں دیکھیں' تو مل جل کر اس کی مدد کرنے کو کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ فیس بک' ٹویٹر اور وٹس اپ آج ایسے دیو ہیکل پلیٹ فارم بن چکے جہاں دنیا بھر کے کروڑوں لوگ جمع ہیں۔ ان لوگوں کے عظیم الشان اکٹھ سے خیر و بھلائی کے بہت سے کام لیتے جا سکتے ہیں۔ جیسے ایک دل والے کنیڈین نوجوان کی صرف ایک پوسٹ مایوس و درماندہ بوڑھے کی اجاڑ زندگی میںخوشیوں و مسرتوں کی بہار لے آئی۔
Load Next Story