بی آر بی نہر اور اُس کی تاریخ
65 کی جنگ میں اسی نہر نے اہلیان لاہور کی حفاظت کی اور دشمن کا لاہور جم خانہ میں چائے پینے کا خواب چکنا چور کیا۔
آم کے گھنے درخت تلے، بی آر بی نہر کنارے بنائے گئے ٹیوب ویل کے پانی سے قربانی کے بیل کو نہلاتے ہوئے ہماری ملاقات ہوئی نور محمد سے۔ اپنی دنیا میں مگن، ماتھے پر پسینے کے بہتے ہوئے قطرے چمکتی چاندنی کی صورت ان کے چہرے کو جگمگا رہے تھے۔
میں ستمبر 1965ء کی جنگ کی عینی شاہد کی تلاش میں اپنے دوست اسد کے ہمراہ بی آر بی کے کنارے بسے ان کے گاؤں واہگڑی آیا تھا۔ مجھے یہاں کسی بزرگ سے ملنا تھا۔ موٹر بائیک سے اترتے ہی نور محمد پر نظر پڑی۔ سلام کیا، اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو نور محمد فوراً بولے، پتر اے گلاں بمبی کنارے نئیں ہوندیاں (بیٹا! یہ باتیں نہر کنارے نہیں ہو سکتیں)۔ بس پھر ان کی دعوت پر نہر سے کچھ فاصلے پر موجود آم کے درخت کے نیچے چبوترے پر بیٹھ گئے۔ ستمبر 1965ء کا تذکرہ چھڑا تو ایک نگاہ آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا اور گویا ہوئے،
سچ پوچھیں تو میں نے 65ء کی جنگ کے جتنے بھی واقعات کتابوں میں پڑھے تھے یا بزرگوں کی زبانی سنے تھے ان میں پاک فوج کے جوانوں کے جذبہ ایمانی اور بہادری کے ساتھ ساتھ بی آر بی نہر کی داستانیں بھی تھیں۔ انہی داستانوں کو سننے کے لئے میں اس نہر کے کنارے پہنچا تھا۔ نور محمد جب جنگ کے واقعات بیان کر رہے تھے تو میرا بار بار دھیان بی آر بی کی جانب جاتا، بالاخر میں نے ان سے کہہ بھی ڈالا کہ کچھ تذکرہ اس نہر کا بھی کر دیں اور مجھے اس کے بارے میں بتائیں۔
نور محمد کے مطابق دیپالپور نہر جو کہ حسین والا ہیڈ ورکس فیروز پورسے دریائے ستلج کے دائیں جانب سے نکلتی تھی جس کا ہیڈ تو بھارت میں تھا مگر ساری نہر پاکستان کے اندر سے بہہ رہی تھی۔ جب پاکستان بنا تو بھارت نے دریائے راوی کا پانی مادھو پور ڈیم بنا کر روک لیا۔ 14 مئی 1948ء کو ہندوستان سے معاہدے کے بعد پاکستان نے مرالہ کے قریب سے دریائے چناب میں ایک نہر تعمیر کی جو سدھنوالی گائوں کے قریب دریائے روای میں ملتی ہے۔ یہ نہر دریائے روای کے نیچے سے بہتی ہے اور بیئیاں گاؤں کے قریب دیپالپور نہر میں مل جاتی ہے۔ اس کی تکمیل 1958ء کو ہوئی، اس لنک نہر بی آر بی ڈی کا اصل اور مکمل نام 'بمبانوالا راوی بیدیاں دیپالپور' نہر ہے۔ اس بی آر بی نہر سے لاہور کی نہر کو بھی پانی فراہم کیا گیا۔ گویا راوی کے کنارے آباد لاہور شہر کی اس نہر میں راوی کے بجائے چناب کا پانی دوڑتا ہے۔
جس طرح اس نہر کے نام کے پیچھے دلچسپ حقائق کارفرما ہیں اسی طرح اس نہر کو کھودے جانے کی بھی ایک اور دلچسپ وجہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع یہ نہر لاہور کی عوام کی جانب سے 1948ء میں کھودی گئی تھی۔ زندہ دلان لاہور نے صوبہ پنجاب کے پہلے وزیراعلیٰ افتخار حسین ممدوٹ کی اپیل پر یہ نہر اس وقت کھودی جب انہوں نے اعلان کیا کہ اس مقام پر نہر کھودنے سے پاکستان کو بھارتی افواج کی جانب سے ممکنہ شر انگیزی سے نجات حاصل ہوجائے گی۔ ان کی اپیل پر شہریوں نے 8 کلومیٹر رقبہ پر محیط یہ نہر محض چند دنوں میں بلا معاوضہ ہی کھود ڈالی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی اس نہر کی وجہ سے ہی بھارتی افواج کا لاہور میں ناشتہ کرنے کا خواب تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
نور محمد کے بیان کی تصدیق اس وقت پاکستان آرمی میں اگلے مورچوں پر لڑنے والے اقبال صاحب نے بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی افواج جب پاکستان کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں تو اس وقت بی آر بی نہر نے پاکستان کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان آرمی کی جانب سے بی آر بی نہر کا پانی سرحدی علاقوں میں چھوڑ دیا گیا، جس کی وجہ سے سرحد پر دلدل بن گئی اور دشمن کے ٹینکوں کی پیش قدمی رک کئی جبکہ دوسری جانب چونکہ پاکستانی فوج نے کامیابی سے اس نہر پر موجود پلوں کی حفاظت کی اور جہاں ان کی پوزیشن کمزور تھی ان پلوں کو تباہ کردیا گیا۔ یوں پاکستانی جوانوں نے بھارتی افواج کو اس وقت تک روکے رکھا جب تک کہ انہیں فوجی کمک نہ پہنچ گئی۔ جس کے بعد بھارتی افواج کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔ میجر عزیز بھٹی نے بھی اسی نہر پر جنگ لڑتے ہوئے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا اور نشان حیدر کے حق دار ٹھہرے۔
اقبال صاحب اور نور محمد دونوں نے اس جنگ کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ جب بھارت نے واہگہ بارڈر اور باٹا پور سیکٹر کی جانب پیش قدمی کی اور توپوں، ٹینکوں اور ٹڈی دل لشکر کے ساتھ حملہ کیا تو لاہور کا یہ سرحدی مشرقی علاقہ جو آج واہگہ نہالہ نروڑ ڈیال، جلو موڑ، باٹاپور بھین، بھانو چک، ساہنکے، پڈھانہ اور بڈیارہ برکی پر مشتمل ہے ایک خوفناک منظر پیش کر رہا تھا۔
سرحدی علاقہ کےعوام پاکستان آرمی کے پہنچنے سے پہلے ہی ہندوستانی افواج کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے۔ ہندوستانی افواج کا مقابلہ کلہاڑیوں، لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے کیا۔ بی آر بی پر بنے پلوں کے راستوں سے جانور اور بچے محفوظ کیمپوں کی جانب روانہ کردئیے، جبکہ ان دیہاتوں کی عورتیں اور بوڑھے بھی جوانوں کے ہمراہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
نور محمد کا کہنا تھا کہ میری والدہ اور دو بہنوں کو خاندان کے افراد نے بچوں کے ہمراہ روانہ ہونے کا کہا تھا مگر انہوں نے جانے کے بجائے بہادری سے لڑنا شروع کردیا اور میری بہنیں میرے والد سے کہنے لگیں کہ آپ ہمارے اندر حضرت صفیہ جیسی بہادری اور حضرت زینب جیسا صبر اور حوصلہ پائیں گے۔ اقبال صاحب کا کہنا تھا کہ نہر کی دوسری جانب سے لاہور کے رضاکار اور نوجوان اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے باٹا پور کی جانب چل پڑے تھے۔ لاہور کینال کے ساتھ ساتھ سرحدی علاقوں کے لوگ جب محفوظ مقامات کی جانب جارہے تھے تو لاہور کے رہائشی نہر کے پانی میں سے گزرتے ہوئے ہمیں کھانے پینے کی اشیاء پہنچا دیتے تھے۔
میں ان دو بزرگوں کی گفتگو سن کر تصور میں خود کو اس نہر کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا محسوس کررہا تھا۔ سرحدی علاقوں کی غازی خواتین ہوں یا لاہور اور پورے پاکستان کی وہ عفت ماب عورتیں جنہوں نے اپنے زیور دفاع وطن کی خاطر دے دئیے تھے، سبھی کے سراپے میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ نور محمد نے لسی کے ساتھ ہماری تواضع کی۔ ان کی محبت اور آنکھوں کی چمک گھنٹوں بیٹھنے پر مجبور کر رہی تھی مگر واپسی بھی ضروری تھی۔
اسد کے مشورے سے راوی سائفن کی جانب جانے کا فیصلہ کیا۔ بی آر بی کے کنارے چلتے ہوئے جا بجا ہندوستانی فوج کے مورچے اور پاکستانی جانبازوں کی جراتوں کی داستانیں دیکھنے اور سننے کو ملیں۔ برکی پر میجرعزیز بھٹی کی جائے شہادت دیکھی جہاں انہوں نے جرات اور بہادری کی لازوال داستان رقم کی۔ مناواں کے مقام پر پاک فوج تیسری بلوچ رجمنٹ کے اُن 39 افراد کی یاد میں تعمیر کی گئی یادگار دیکھی جنہوں نے 1965ء کی جنگ میں واہگہ سیکٹر، باٹاپور پل بی آر بی کینال پر مادر وطن کا زبردست دفاع کیا اور 10 اور 11 ستمبر 1965ء کو دشمن پر جوابی حملہ کیا۔ لاہور شہر کا ذرہ ذرہ ان شہداء اور غازیوں کی یادوں سے بھرا ہوا ہے جس نے عددی اور عسکری اعتبار سے کئی گنا بڑے لشکر کو شکست دی۔
بی آر بی نہر کے دونوں جانب لگائے جانے والے مائنز کے بارے میں بعض افراد نے پروپیگنڈا کیا۔ لیکن شاید وہ لوگ اس کے محل وقوع سے واقف نہیں ہیں کیوںکہ اس کے دونوں جانب دیہات آباد ہیں اور مائنز لگانا ممکن نہیں۔ بی آر بی نہر حقیقت میں پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں اہم کردار کی حامل ہے۔ ایک جانب ملک کے آب پاشی کے نظام کو بہتر بنانے میں اس کا متبادل نہیں جبکہ دوسری جانب ہمارے ملک کے دفاع کو مضبوط اور مستحکم بنا رہی ہے۔ اسی نہر سے ایک اور نہر نکالی گئی ہے جو واہگڑیاں گاؤں سے شروع ہوتی ہے اور ٹھوکر نیاز بیگ تک جاتی ہے۔ جس کے دونوں جانب لگے ہوئے درخت نہر اور لاہور کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں۔ مگر اسی نہر کے گرد بنائے گئے رہائشی اسکیموں کا سیوریج اس حسین نہر کو آلودہ کر رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نہر کی خوبصورتی کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لئے حکومت اور عوام دونوں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ اہلیان لاہور بی آر بی اور لاہور کینال کے احسان مند رہتے ہوئے اس کا خیال بھی رکھیں کیوں کہ 65ء کی جنگ میں اسی نہر نے اہلیان لاہور کی حفاظت کی اور دشمن کا لاہور کے جم خانہ میں چائے پینے کا خواب چکنا چور کیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میں ستمبر 1965ء کی جنگ کی عینی شاہد کی تلاش میں اپنے دوست اسد کے ہمراہ بی آر بی کے کنارے بسے ان کے گاؤں واہگڑی آیا تھا۔ مجھے یہاں کسی بزرگ سے ملنا تھا۔ موٹر بائیک سے اترتے ہی نور محمد پر نظر پڑی۔ سلام کیا، اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو نور محمد فوراً بولے، پتر اے گلاں بمبی کنارے نئیں ہوندیاں (بیٹا! یہ باتیں نہر کنارے نہیں ہو سکتیں)۔ بس پھر ان کی دعوت پر نہر سے کچھ فاصلے پر موجود آم کے درخت کے نیچے چبوترے پر بیٹھ گئے۔ ستمبر 1965ء کا تذکرہ چھڑا تو ایک نگاہ آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا اور گویا ہوئے،
وہ اس وقت 25 برس کے تھے جب ہندوستان نے پاکستان کی سرحدوں پر حملے کی جسارت کی۔ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ آسمان سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے، ہندوستانی ٹینکوں کی آوازیں آج بھی ان کے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ لازوال جدوجہد اور جذبہ تھا۔
سچ پوچھیں تو میں نے 65ء کی جنگ کے جتنے بھی واقعات کتابوں میں پڑھے تھے یا بزرگوں کی زبانی سنے تھے ان میں پاک فوج کے جوانوں کے جذبہ ایمانی اور بہادری کے ساتھ ساتھ بی آر بی نہر کی داستانیں بھی تھیں۔ انہی داستانوں کو سننے کے لئے میں اس نہر کے کنارے پہنچا تھا۔ نور محمد جب جنگ کے واقعات بیان کر رہے تھے تو میرا بار بار دھیان بی آر بی کی جانب جاتا، بالاخر میں نے ان سے کہہ بھی ڈالا کہ کچھ تذکرہ اس نہر کا بھی کر دیں اور مجھے اس کے بارے میں بتائیں۔
نور محمد کے مطابق دیپالپور نہر جو کہ حسین والا ہیڈ ورکس فیروز پورسے دریائے ستلج کے دائیں جانب سے نکلتی تھی جس کا ہیڈ تو بھارت میں تھا مگر ساری نہر پاکستان کے اندر سے بہہ رہی تھی۔ جب پاکستان بنا تو بھارت نے دریائے راوی کا پانی مادھو پور ڈیم بنا کر روک لیا۔ 14 مئی 1948ء کو ہندوستان سے معاہدے کے بعد پاکستان نے مرالہ کے قریب سے دریائے چناب میں ایک نہر تعمیر کی جو سدھنوالی گائوں کے قریب دریائے روای میں ملتی ہے۔ یہ نہر دریائے روای کے نیچے سے بہتی ہے اور بیئیاں گاؤں کے قریب دیپالپور نہر میں مل جاتی ہے۔ اس کی تکمیل 1958ء کو ہوئی، اس لنک نہر بی آر بی ڈی کا اصل اور مکمل نام 'بمبانوالا راوی بیدیاں دیپالپور' نہر ہے۔ اس بی آر بی نہر سے لاہور کی نہر کو بھی پانی فراہم کیا گیا۔ گویا راوی کے کنارے آباد لاہور شہر کی اس نہر میں راوی کے بجائے چناب کا پانی دوڑتا ہے۔
جس طرح اس نہر کے نام کے پیچھے دلچسپ حقائق کارفرما ہیں اسی طرح اس نہر کو کھودے جانے کی بھی ایک اور دلچسپ وجہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع یہ نہر لاہور کی عوام کی جانب سے 1948ء میں کھودی گئی تھی۔ زندہ دلان لاہور نے صوبہ پنجاب کے پہلے وزیراعلیٰ افتخار حسین ممدوٹ کی اپیل پر یہ نہر اس وقت کھودی جب انہوں نے اعلان کیا کہ اس مقام پر نہر کھودنے سے پاکستان کو بھارتی افواج کی جانب سے ممکنہ شر انگیزی سے نجات حاصل ہوجائے گی۔ ان کی اپیل پر شہریوں نے 8 کلومیٹر رقبہ پر محیط یہ نہر محض چند دنوں میں بلا معاوضہ ہی کھود ڈالی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی اس نہر کی وجہ سے ہی بھارتی افواج کا لاہور میں ناشتہ کرنے کا خواب تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
نور محمد کے بیان کی تصدیق اس وقت پاکستان آرمی میں اگلے مورچوں پر لڑنے والے اقبال صاحب نے بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی افواج جب پاکستان کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں تو اس وقت بی آر بی نہر نے پاکستان کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان آرمی کی جانب سے بی آر بی نہر کا پانی سرحدی علاقوں میں چھوڑ دیا گیا، جس کی وجہ سے سرحد پر دلدل بن گئی اور دشمن کے ٹینکوں کی پیش قدمی رک کئی جبکہ دوسری جانب چونکہ پاکستانی فوج نے کامیابی سے اس نہر پر موجود پلوں کی حفاظت کی اور جہاں ان کی پوزیشن کمزور تھی ان پلوں کو تباہ کردیا گیا۔ یوں پاکستانی جوانوں نے بھارتی افواج کو اس وقت تک روکے رکھا جب تک کہ انہیں فوجی کمک نہ پہنچ گئی۔ جس کے بعد بھارتی افواج کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔ میجر عزیز بھٹی نے بھی اسی نہر پر جنگ لڑتے ہوئے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا اور نشان حیدر کے حق دار ٹھہرے۔
اقبال صاحب اور نور محمد دونوں نے اس جنگ کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ جب بھارت نے واہگہ بارڈر اور باٹا پور سیکٹر کی جانب پیش قدمی کی اور توپوں، ٹینکوں اور ٹڈی دل لشکر کے ساتھ حملہ کیا تو لاہور کا یہ سرحدی مشرقی علاقہ جو آج واہگہ نہالہ نروڑ ڈیال، جلو موڑ، باٹاپور بھین، بھانو چک، ساہنکے، پڈھانہ اور بڈیارہ برکی پر مشتمل ہے ایک خوفناک منظر پیش کر رہا تھا۔
سرحدی علاقہ کےعوام پاکستان آرمی کے پہنچنے سے پہلے ہی ہندوستانی افواج کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے۔ ہندوستانی افواج کا مقابلہ کلہاڑیوں، لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے کیا۔ بی آر بی پر بنے پلوں کے راستوں سے جانور اور بچے محفوظ کیمپوں کی جانب روانہ کردئیے، جبکہ ان دیہاتوں کی عورتیں اور بوڑھے بھی جوانوں کے ہمراہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
نور محمد کا کہنا تھا کہ میری والدہ اور دو بہنوں کو خاندان کے افراد نے بچوں کے ہمراہ روانہ ہونے کا کہا تھا مگر انہوں نے جانے کے بجائے بہادری سے لڑنا شروع کردیا اور میری بہنیں میرے والد سے کہنے لگیں کہ آپ ہمارے اندر حضرت صفیہ جیسی بہادری اور حضرت زینب جیسا صبر اور حوصلہ پائیں گے۔ اقبال صاحب کا کہنا تھا کہ نہر کی دوسری جانب سے لاہور کے رضاکار اور نوجوان اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے باٹا پور کی جانب چل پڑے تھے۔ لاہور کینال کے ساتھ ساتھ سرحدی علاقوں کے لوگ جب محفوظ مقامات کی جانب جارہے تھے تو لاہور کے رہائشی نہر کے پانی میں سے گزرتے ہوئے ہمیں کھانے پینے کی اشیاء پہنچا دیتے تھے۔
میں ان دو بزرگوں کی گفتگو سن کر تصور میں خود کو اس نہر کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا محسوس کررہا تھا۔ سرحدی علاقوں کی غازی خواتین ہوں یا لاہور اور پورے پاکستان کی وہ عفت ماب عورتیں جنہوں نے اپنے زیور دفاع وطن کی خاطر دے دئیے تھے، سبھی کے سراپے میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ نور محمد نے لسی کے ساتھ ہماری تواضع کی۔ ان کی محبت اور آنکھوں کی چمک گھنٹوں بیٹھنے پر مجبور کر رہی تھی مگر واپسی بھی ضروری تھی۔
اسد کے مشورے سے راوی سائفن کی جانب جانے کا فیصلہ کیا۔ بی آر بی کے کنارے چلتے ہوئے جا بجا ہندوستانی فوج کے مورچے اور پاکستانی جانبازوں کی جراتوں کی داستانیں دیکھنے اور سننے کو ملیں۔ برکی پر میجرعزیز بھٹی کی جائے شہادت دیکھی جہاں انہوں نے جرات اور بہادری کی لازوال داستان رقم کی۔ مناواں کے مقام پر پاک فوج تیسری بلوچ رجمنٹ کے اُن 39 افراد کی یاد میں تعمیر کی گئی یادگار دیکھی جنہوں نے 1965ء کی جنگ میں واہگہ سیکٹر، باٹاپور پل بی آر بی کینال پر مادر وطن کا زبردست دفاع کیا اور 10 اور 11 ستمبر 1965ء کو دشمن پر جوابی حملہ کیا۔ لاہور شہر کا ذرہ ذرہ ان شہداء اور غازیوں کی یادوں سے بھرا ہوا ہے جس نے عددی اور عسکری اعتبار سے کئی گنا بڑے لشکر کو شکست دی۔
بی آر بی نہر کے دونوں جانب لگائے جانے والے مائنز کے بارے میں بعض افراد نے پروپیگنڈا کیا۔ لیکن شاید وہ لوگ اس کے محل وقوع سے واقف نہیں ہیں کیوںکہ اس کے دونوں جانب دیہات آباد ہیں اور مائنز لگانا ممکن نہیں۔ بی آر بی نہر حقیقت میں پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں اہم کردار کی حامل ہے۔ ایک جانب ملک کے آب پاشی کے نظام کو بہتر بنانے میں اس کا متبادل نہیں جبکہ دوسری جانب ہمارے ملک کے دفاع کو مضبوط اور مستحکم بنا رہی ہے۔ اسی نہر سے ایک اور نہر نکالی گئی ہے جو واہگڑیاں گاؤں سے شروع ہوتی ہے اور ٹھوکر نیاز بیگ تک جاتی ہے۔ جس کے دونوں جانب لگے ہوئے درخت نہر اور لاہور کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں۔ مگر اسی نہر کے گرد بنائے گئے رہائشی اسکیموں کا سیوریج اس حسین نہر کو آلودہ کر رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نہر کی خوبصورتی کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لئے حکومت اور عوام دونوں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ اہلیان لاہور بی آر بی اور لاہور کینال کے احسان مند رہتے ہوئے اس کا خیال بھی رکھیں کیوں کہ 65ء کی جنگ میں اسی نہر نے اہلیان لاہور کی حفاظت کی اور دشمن کا لاہور کے جم خانہ میں چائے پینے کا خواب چکنا چور کیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔