جنرل راحیل شریف کے نام

؎ خدا کرے میری ارضِ پاک پر اترے۔ وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

پچھلے دنوں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کسی محفل میں احمد ندیم قاسمیؔ کی مشہور دعائیہ نظم کایہ شعر پڑھا تھا کہ

؎ خدا کرے میری ارضِ پاک پر اترے۔ وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو۔ اُسی وقت اس پر کچھ تحریر کرنے کا ارادہ کیا لیکن کچھ اور موضوعات آڑے آگئے اور پھر سوچا کہ موضوع بہت اہم ہے اس لیے اسے قائدؒ کی برسی کے موقع پر تحریر کرونگا۔ روحِ قائدؒ کو گواہ بناکر۔

جنرل صاحب! آپ کے کچھ ہم جماعتوں کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہم سے دوسال جونئیر تھے، اس لیے ہمارا آپ پر claimبھی ہے۔ آرمی چیف کی حیثیت سے بلاشبہ آپ نے ثابت کیا ہے کہ آپ ایک پروفیشنل سولجر، دلیر اور ایماندار شخض ہیں اس لیے فوج اور عوام دونوں میں بہت مقبول ہیں آپکی مقبولیّت ہرراوین کے لیے باعثِ مسرّت ہے۔ آپ نے جو دعا مانگی ہے وہ دربارِ الٰہی میں قبول ہوسکتی ہے اور انشااﷲ ضرور قبول ہوگی مگر اس کے لیے خودآپ کو اور آپکے رفقاء کوکلیدی کردار ادا کرنا ہوگا اور اس ارضِ پاک کے روشن مستقبل کے لیے چند ضروری اقدامات کرنے ہونگے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا بھر کے دانشوروں اورمعاشی ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے ، جس ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو معاشی خوشحالی اس سے روٹھ جاتی ہے ۔ جنرل صاحب! سیاسی استحکام کی چابی بھی آپ کے پاس ہے اور تالہ بھی ، اگر آپ 11ستمبرکو کراچی جاکر قوم کے محسنِ اعظم اور بانیء پاکستان کے مزار پر دعا کرنے کے بعد یہ اعلان کردیں کہ فوج براہِ راست یا بالواسطہ کبھی سیاست میں حصّہ نہیں لیگی اور کسی منتخب سیاسی حکومت کو ہٹانے یا غیر مستحکم کرنے میں کبھی کوئی کردار ادا نہیں کریگی۔

اس سلسلے میں کسی چینل یا اینکر کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی، حکومتیں بننے اور ٹوٹنے کا عمل صرف اور صرف آئین کے مطابق ہوگاتوآپ کے اس ایک منٹ کے اعلان سے ملک میں سیاسی استحکام آئیگا اورارضِ پاک پر فصلِ گل اترناشروع ہوجائے گی۔ اس سے ایک طرف ملکی اور غیر ملکی Investorsکا اعتماد بحال ہوگااور پالیسیوں کے تسلسل کے باعث معیشت مضبوط ہوگی اور دسری طرف قومی اداروں کی نشوونما ہوگی اور وہ مضبوط اور مستحکم ہونگے۔

جنرل صاحب ! ملک کے تمام قومی ادارے آئین کے ساتھ جُڑے ہوتے ہیں ، جب فوجی آمر آئین توڑتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی تمام ادارے ٹوٹتے چلے جاتے ہیں۔ آئین کا سائبان گرجائے تو کوئی ادارہ محفوظ نہیں رہ سکتا۔ آرمی بھی نہیں، پارلیمنٹ کے بعد اس انہدام کا پہلا شکار عدلیہ بنتی ہے، پھر پولیس اور انتظامیہ اور پھر دوسرے تمام ادارے ۔ نوکریوں کے متلاشی اور عوام کے مسترد کردہ چند عناصر پاکستان کی منظّم اور ڈسپلنڈ فوج کو ٹی وی چینلوں پر آکر آئین شکنی پر اکسا رہے ہوتے ہیںاور ملک میں سیاسی عدمِ استحکام پیدا کرنے کا سنگین جرم کررہے ہوتے ہیں، ایسے تمام شیدوں اور شادوں کا منہ بند کرکے تالالگانا ضروری ہے اور یہ کام انھیں شٹ اَپ کال دیکرآپ ہی کرسکتے ہیں۔

آپ کے اعلان سے ملک سے ہیجان ختم ہوجائے گا اور عالمی سطح پر پاکستان کی standing بہترہوگی۔ جب یہ طے ہو جائے گاکہ ملک میں ہمیشہ جمہوریت ہی رہیگی تو سمجھ لیں کہ ہم نے فصلِ گل کے راستے میں آنے والی سب سے بڑی رکاوٹ عبور کرلی۔


٭مگر یہ کافی نہیں ،جمہوریت کی بنیادی شرائط بھی پوری کرنی ہونگی۔کسی بھی بنیاد پر الیکشن جیتنے والے افراد قومی وسائل اور اختیارات کا جیسے چاہیں استعمال کریں؟ نہیں ایسا نہیں ہے، اختیارات کے ساتھ accountabilityلازم و ملزوم ہے۔احتساب کا سخت ترین نظام جمہوریت کی شرطِ اوّل ہے مگر احتساب کرنا فوج کا کام نہیں اس کے لیے لازم ہے کہ احتساب کا نظام موثر اور شفاف ہو اور اس پر عوام کا اعتماد ہو، موجودہ احتسابی نظام اور ادارے عوامی اعتماد سے محروم ہیں کسی بااثرلٹیرے کو ان سے کوئی خوف نہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ تین اہم ترین ادارے۔ نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر حکومتی کنٹرول سے مکمل طور پر آزاد ہوں۔

اس سلسلے میں دنیا کے کئی ملکوںکے ماڈل موجود ہیں، ہمسایہ ملک میں سی بی آئی ایک آزاد ادارہ ہے جسے اعلیٰ عدلیہ کی مکمّل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے اور وہ حکومتی پسند و ناپسند سے بالا تر ہوکر حکمرانوں کے خلاف بھی کاروائیاں کرتا رہتا ہے۔ نیب، ایف آئی اے،اور ایف بی آر کے سربراہوں کی تعیناتی کا فریضہ ایک سرچ کمیٹی کے سپرد کیا جاسکتا ہے جسمیں عدلیہ، سول سروس اور ملٹری کے تین تین انتہائی نیک نام افراد شامل ہوں جنھیں چیف جسٹس آف پاکستان ، اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری اور سروس چیفز نامزد کریں، احتسابی نظام موثر اور شفاف ہوجائے توکوئی شخص جمہوریت پر انگلی نہیں اٹھائے گا، یہ کام سیاسی اور فوجی قیادت ملکر سر انجام دے سکتی ہے۔مگریہ بھی کافی نہیں ہے، اصلاحِ احوال کے لیے کچھ اور بنیادی نوعیّت کے اقدامات بھی ضروری ہیں قوم کو لاحق امراض کے علاج میں بھی فوج کو (پسِ پردہ رہ کر) کردار ادا کرنا ہوگا۔

٭۔ہمارا انتخابی نظام اپنی خامیوں کے باعث عوامی اعتماد کھورہا ہے اور اس کی وجہ سے خود جمہوریت بدنام ہورہی ہے اس کی اصلاح بھی ضروری ہے اور صفائی (purification)اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ انتخابی اصلاحات کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کی مُدّت پانچ کے بجائے چار سال کی جائے اور ووٹر کی تصدیق کے لیے Biometricسسٹم فوری طور پر رائج کیا جائے۔

٭۔انتخابی نظام کی صفائی کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کرانے میں عدلیہ اور فوج دونوں شامل ہوں اور دونوں ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئین کے آرٹیکل 62اور63کا سختی سے اطلاق ہو۔ ماضی میں ان آرٹیکلز کو پرِکاہ اہمیّت نہیں دی گئی ، بلکہ اگر کسی نے سیشن جج یا ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرکے سامنے کسی امیدوارکی بدکرداری کا ذکر کیا تو اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ۔ اب جب کہ ان کے مخالف بھی اِنکے راگ الاپ رہے ہیں، تمام پارٹیاں اس کی اہمیّت اور افادیّت پر متفق ہیں تو ان کا سختی سے نفاذ ہونا چاہیے تاکہ ناجائز ذرایع سے پیسہ بنانے والے، بینکوں سے لیے ہوئے قرضے معاف کرانیوالے، سزا یافتہ، ترقیاتی فنڈز میں کمیشن کھانے والے، کرپٹ اور بدکار افرادکسی صورت پارلیمنٹ کے ممبر نہ بن سکیں۔

٭۔علاوہ ازیں ہمارے زوال کی ایک بڑی وجہ یہ ہے ہم نے تعلیم کو اہمیّت اور استاد کو عزت نہیں دی۔ نئی نسل کیا پڑھے گی اورقوم کے بچوں کو تعلیمی درسگاہوں میں کیا پڑھایا جائے گا ، اس کا فیصلہ ریاست خود کرتی ہے، کیونکہ تعلیمی نصاب ہی نئی نسل کو ایک سمت مہّیا کرتا ہے اور اسی سے ایک قوم تشکیل پاتی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم میں جو احمقانہ اور خطرناک چیزیں شامل کی گئیں اسمیں ایک یہ بھی تھی کہ ریاست سے نصاب رائج کرنے کا حق چھین کرمختلف علاقوں کو دے دیا گیا کہ وہ جو چاہیں نوجوانوں کو پڑھاتے پھریں۔ یعنی مختلف علاقوں میں وہاں کی حکومتیں چاہیں تو قائدِ اعظمؒ کے دو قومی نظرئیے کے فلسفے کو ختم کردیں اور قائدؒ اور اقبالؒ کے بجائے نصابی کتابوں میں ان لوگوں کو ہیرو بناکر پیش کریں جو قیامِ پاکستان ہی کے مخالف تھے۔

آجکل مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والانصاب ایک ایسی نسل تیار کررہا ہے جو بانیانِ پاکستان سے نا آشناہے اورجسکا وطنِ عزیزسے رشتہ کمزور ہورہاہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ باوقار قوموں کیطرح یہاں بھی ریاست کا مقرر کردہ ایک تعلیمی نصاب ہو ۔ ادارے چاہے اس نصاب کو اُردو، انگریزی یا چینی میں پڑھائیں۔ پورے ملک میں یکساں تعلیمی نصاب رائج کرنے اور تعلیم کا بجٹ دو فیصد سے آٹھ فیصد تک بڑھانے کے لیے پسِ پردہ رہ کر فوج کو اپنا بھرپور وزن ڈالنا چاہیے۔

٭میڈیاکے سنجیدہ اور معتبر حضرات کوالیکٹرانک میڈیا کے کردار پر سخت تشویش ہے، ہمارے پرائیوٹ چینل ہندی زبان اور ہندو کلچر کو پروان چڑھارہے ہیں اور نئی نسل میں مایوسی ،کنفیوژن اور احساسِ کمتری پیدا کررہے ہیں۔ چینلوں پراحساسِ کمتری کے مارے ہوئے نیم خواندہ قسم کے لوگوں کا قبضہ ہے جو دشمن ملک کے ایکٹروں اور ایکٹرسوں کا اسطرح ذکر کرتے ہیں جیسے یہ اُنکے غلام ہوں اور وہ اِنکے آقا۔کسی باوقار ملک میں دشمن ملک کے پروگرام اسطرح نہیں چل سکتے جسطرح ہمارے چینلوں پر چلتے ہیں، اگر فوج کے اپنے ادارے کی عزت کا مسئلہ ہو تو وہ سب کچھ کرگزرتاہے اور فوج کے ڈر کی وجہ سے میڈیا حکم بجا لاتا ہے مگر ملک کی عزت اور قوم کا مفاد کسی بھی فرد یاادارے کی عزت اور مفاد سے بلند اورمقدم ہے۔

کسی بھی ملک میں میڈیا کو اتنی آزادی نہیں ہوتی کہ وہ نئی نسل کو ملک سے بدظن اور کچّے ذہنوں کو گمراہ کرتا پھرے کسی بھی باوقار ملک میں میڈیا کو ریڈلائن کراس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہاں تو پاکستان کے وجود کے مخالف بھی میڈیا پر دندناتے پھرتے ہیں، سول اور ملٹری قیادت ملکر ایک ایسی میڈیا پالیسی تشکیل دے جو بانیانِ پاکستان کے نظریات، وژن اور قومی امنگوں کے مطابق ہو، ان اقدامات سے ملک میں استحکام آئیگا، سیاست میں شفافیت اور دیانتداری کو فروغ ملیگا، نئی نسل کے لیے ایک سمت کا تعین ہوگا اور وہ ایک باوقار قوم بنکر سامنے آئیگی۔ فوج اپنا بھرپور وزن ڈال کر یہ چندکام کروادے تو میں جنرل صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ ارضِ پاک پر چندسالوں میں ہی وہ فصلِ گل اترآئیگی جس پر کبھی خزاں نہیں آئیگی اور جو کبھی زوال پذیر نہیں ہو گی۔
Load Next Story