دن کے وقت اندھیرا

عدلیہ کے اداروں سے اگر انصاف نہ ملے اور عوام کو بے انصافی کا سامنا کرنا پڑے تو عدلیہ ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔

Abdulqhasan@hotmail.com

قوم کے لیے اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہو سکتی ہے جو ہمارے چیف جسٹس نے قوم کو سنائی ہے کہ ''میں پوری دیانت اور سچائی کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری عدلیہ ہر سطح پر آزاد ہے'' محترم چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کراچی کی ایک تقریب میں قوم کو یہ خوشخبری سنائی ہے۔

عدلیہ کے بارے میں شکوک ہم خود پھیلاتے ہیں اور عدالت کی مدد کے نام پر ہمارے نمایندے غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں اور غرض مند سائلوں کو گمراہ کرتے ہیں ورنہ ہماری عدلیہ جس کا ہر روز ہزاروں لاکھوں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے دھوکا نہیں دے سکتی اور اپنی عزت محفوظ رکھتی ہے اور سائلوں کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔

عدلیہ کے اداروں سے اگر انصاف نہ ملے اور عوام کو بے انصافی کا سامنا کرنا پڑے تو عدلیہ ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ حکومت کے بھاری خرچ پر چلنے والے عدلیہ کے ادارے جانتے ہیں کہ وہ بے انصافی نہیں کر سکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی سائل کو اس کی پسند کا انصاف نہ ملے اور وہ عدلیہ سے مایوسی کا اظہار کرے لیکن عدلیہ میں ہر فریق جب سائل بن کر جاتا ہے تو اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے مقابلے میں دوسرا فریق بھی پاکستان کا شہری ہے اور اس کے حقوق بھی موجود ہیں جن کی حفاظت اس کے وکلاء کرتے ہیں۔ اگر کسی فریق کے وکلاء اس کا مقدمہ زیادہ موثر اور مدلل طریقے سے پیش کرتے ہیں اور اسے ثابت کر لیتے ہیں تو فیصلہ اگر ان کے حق میں جاتا ہے تو یہ بے انصافی نہیں ہے بلکہ کسی فریق کے موقف کی صداقت ہے۔

ہم مسلمانوں کی تاریخ کی ایک مسلّم مثال ہے کہ معاشرہ کسی طاقت کے زور پر نہیں بلکہ عدل اور انصاف کی طاقت سے چلتا ہے۔ یہی عدل ہمارے معاشرے کی بنیاد ہے جس پر اس کی تاریخی عمارت استوار کی جاتی ہے۔ کفر اور اسلام میں بنیادی فرق ہی عدل کا ہے جس حکومت میں عدل ہوتا ہے اور اس کے عوام مطمئن ہیں وہ صحیح اسلامی ملک ہے یا اسلامی روایات کا پابند ہے۔


اسلام نے اپنی آمد پر جس انقلاب کو عام کیا اور جسے معاشرے میں پھیلایا وہ عدل و انصاف تھا اور اسی امتیاز پر مسلمانوں نے فخر کیا اور اب بھی ان کی تاریخ اس فخر سے جگمگاتی ہے جب دنیا پر ظلم کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے انسانوں کو امیر و غریب اور کمزور اور طاقت ور میں تقسیم کر دیا گیا تھا تب اس ظالمانہ معاشرے میں اسلام نے عدل اور مساوات کا علم بلند کیا اور دنیا کو یہ علم لہرا کر دکھایا کہ جب کوئی قوم عدل و انصاف کو دل سے تسلیم کرتی ہے تو وہ انصاف اور عدل کو سب سے پہلے اپنے اوپر نافذ کرتی ہے۔ ہمارے جج صاحب نے اپنے تجربے کی بنیاد پر بالکل سچ کہا ہے۔

ہم انصاف سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اگر کہیں ایسا نہیں ہوتا تو پھر غور کرنا پڑے گا کہ ایسا کیوں ہوا۔ ہم نے اپنی پسند کے انصاف کو حاصل کرنے کے کئی ذریعے اختیار کر رکھے ہیں جن میں کئی ایک جائز نہیں ہیں جب ہم اپنے مقصد کے لیے ان حربوں کو حرکت میں لاتے ہیں تو اکثر اوقات عدل پر زد پڑتی ہے یوں کہیں کہ عدل تو ہر حال میں بچ کر چلتا ہے مگر اس عدل کا رخ اپنی طرف موڑنے میں ہم غیر عادلانہ طریقے اختیار کرتے ہیں جو اکثر اوقات عدل کے بنیادی تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتے اور اس سے عدل پر زد پڑتی ہے۔

کوئی بھی معاشرہ انسانوں کے باہمی انصاف اور رواداری کے بغیر نہیں چل سکتا اگر اسے چلایا جائے گا تو کئی بنیادی خرابیاں پیدا ہوں گی جن کا علاج مزید خرابیوں کو دعوت دے گا۔ اپنے جائز حق پر اکتفا کیجیے۔ دوسرے کے حق کا احترام کیجیے بلکہ انصاف تو یہ ہے کہ اگر آپ محسوس کریں کہ آپ کے پاس آپ کے حق سے کچھ زیادہ آ گیا ہے تو آپ اسے واپس لوٹا دیں اس سے نہ صرف آپ کا ضمیر مطمئن ہو گا بلکہ اس معاشرے میں عدل و انصاف پھیلے گا جس کا آپ ایک حصہ ہیں۔

اتنا کچھ تو میں نے نیم تاریکی میں لکھ دیا مگر اب تو بجلی بالکل ہی بند ہو گئی ہے جب کہ یہ رات کا نہیں دن کا وقت ہے مگر انسانی آنکھ کی توانائی کی ایک حد ہوتی ہے۔ ہمارے بجلی والے ہم پر رحم کریں۔ آگے ان کی مرضی۔ لگتا ہے وہ یہ کام نہیں کر سکتے۔
Load Next Story