سیاسی جماعتوں پرپابندی کے نقصانات
ایم کیوایم کے قائد کے خلاف قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرارداد منظور ہوگئی
KARACHI:
ایم کیوایم کے قائد کے خلاف قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرارداد منظور ہوگئی، ایم کیو ایم کے اراکین اپنے قائد کے خلاف قرارداد پیش کرنا چاہتے تھے مگر انھیں موقع نہیں دیا گیا ۔کراچی میں ایم کیو ایم کے دفاتر مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، فیصلہ صوبائی حکومت نے نہیں کیا مگر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ اُن کے حکم پرغیرقانونی دفاترگرائے جارہے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے غیر قانونی دفاترگرادیے جائیں گے ۔
مئیر وسیم اختر پیرول پررہا نہ ہوسکے، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفی کمال کے درمیان پریس کانفرنسوں کا مقابلہ جاری ہے۔ مصطفی کمال ڈاکٹر فاروق ستارکے اپنے قائد سے علیحدگی کے فیصلے پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں، وہ ایم کیو ایم پر پابندی کا مطالبہ نہیں کر رہے مگر کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصطفی کمال تحریک انصاف کے رہنماؤں کی اس بات سے متفق ہیں کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگنی چاہیے۔
کہا جاتاہے کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین 22اگست کو ایک علیحدہ ایجنڈے پرگامزن تھے۔ وہ 1992سے کراچی سے غائب ہیں، وہ شاید اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ پریس کلب کے سامنے کوئی بہت بڑا مجمع جمع ہے یا انھیں غلط اطلاعات فراہم کی گئیں- انھوں نے اپنے منفی اہداف کے حصول کے لیے ایک اشتعال انگیز تقریرکی، چند نوجوان اس تقریر سے گمراہ ہوئے مگر کراچی کی انتظامیہ کی بہتریں سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر جنگجو نوجوانوں کو اپنے مقاصد کو پورا کرنے کا موقع نہیں ملا اور بہت سی جانیں بچ گئیں۔ڈاکٹر فاروق ستار اوراُن کے ساتھیوں نے مناسب فیصلہ کیا کہ ایم کیو ایم کو اُن کے قائد سے آزاد کروا دیا جائے اورانتظامیہ اوررینجرزکے غیر جانبدارانہ رویے کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے اور ایم کیو ایم اپنے مئیرکو منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئی ۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیوایم کے آئین میں تبدیلی کا فیصلہ کیا پھر رہنماؤں نے اپنے کارکنوں خاص طور پر خواتیں کارکنوں کی گرفتاری کو روکنے کے لیے مہم چلائی، ڈاکٹر فاروق ستار اور اُن کے ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ خواتین 22 اگست کے ہنگامے میں شامل نہیں ۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوں نے اس مہم پر توجہ دی اورگرفتاریوں کا سلسلہ تھم گیا ۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف قراردا پیش ہوئی اور ایسی قراردادیں سینیٹ اور سندھ اسمبلی میں بھی پیش ہونگی، ایم کیو ایم کے قومی اسبلی کے اراکین نے اس موقعے پرخاموشی اختیارکرکے اپنے اس دعوے کو حقیقت کا رنگ دینے کی کوشش کی کہ اُن کا اپنے قائد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس سارے منظر نامے میںایم کیو ایم پر پابندی کا ایجنڈا کہیں چپھا اورکہیں ظاہر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کی عجیب داستان ہے۔جب پاکستان امریکا کا اتحادی بنا اور سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں شامل ہوا تو امریکی جنرل میکارتھی کے ڈاکٹرائن پر عمل ہو ا۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی ۔کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیموں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اورانجمن ترقی پسند مصنفین اس پابندی کی زد میں آگئیں، ٹریڈ یونین ،کسان تنظیموں پر بھی عتاب آیا، اُسی وقت فوج کے سربراہ ایوب خان مرکزی کابینہ میں شامل ہوئے اور اُن کا کردار بڑھنا شروع ہوا۔ سیاسی جماعتوں کی جمہوری نظام پرگرفت کمزور ہونا شروع ہوئی جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ 7اکتوبر1958 کو کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کر کے اقتدار سنبھال لیا اور سیاسی جماعتوں کے کردار کو محدود کردیا، ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی ، مشرقی پاکستان ہائی کورٹ نے اس پابندی کو غیر قانونی قرار دیا۔
مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے ججوں نے حکومت کے اس فیصلے کو قبول کرلیا اگرچہ سپریم کورٹ نے اِس فیصلے کوغیر قانونی قرار دیا مگر اِس ساری لڑائی کے نتیجے میں ایوب خان کے سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں کا کردار کم ہو گیا۔ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخاب میں شکست کے بعد مشرقی پاکستان کے دانش ور اسلام آباد سے مایوس ہوگئے۔1970 کے انتخابات میں عوامی لیگ مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کے ساتھ سیاسی افق پر ابھری ۔جنرل یحیی خان نے صوبائی خود مختاری کے مسئلے پر عوامی لیگ سے سمجھوتا نہیں کیا، پیپلز پارٹی نے فوج کا ساتھ دیا، مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن ہوا عوامی لیگ پر پابندی لگا دی گئی ، مذاکرات کے تما م دروازے بند ہوگئے۔
اِس صورتحال کا منطقی نتیجہ 16دسمبر 1971 کو سامنے آیا، یحییٰ خان نے جاتے جاتے نیشنل عوامی پارٹی پر بھی پابندی لگا دی ۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقارعلی بھٹو صدر بنے تو یہ پابندی ختم کی ۔ 1973 کے متفقہ آئین کی تیاری کے لیے بھٹو نے نیپ سے مفاہمت کی۔ یوں بلوچستان اور سرحد میں نیپ اورجے یو آئی کی حکومتیں قائم ہوئیں مگر پھر پیپلرز پارٹی کی حکومت نے حیات محمد شیر پاؤ کے قتل کے بعد نیپ پر پابندی لگا دی۔ ولی خان ،غوث بخش بزنجو اور نیپ کے دوسرے رہنماؤں کے علاوہ اپنی پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان اور علی احمد تالپور وغیرہ کو گرفتار کرکے حیدرآباد سازش کیس میں ملوث کیا بظاہر نیپ پر پابندی کے بعد بھٹو صاحب کے لیے کوئی چیلنج نہیں رہا ، جیل سے باہر رہنے والے نیپ کے رہنماؤں نے سردارشیرباز مزاری اور بیگم نسیم ولی خان کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بنائی ، عوامی نیشنل پارٹی بن گئی مگر 1973کے آئین پر اتفاق کے وقت جو سیاسی نظام وجود میں آیا تھا۔
اُس کو دھچکا لگا ایک طرف فوج کے جنرلوں کو سیاسی نظام کی کمزوری کااندازہ ہوگیا۔ دوسری طرف افغانستان کے صدر سردار داؤد کو اِس صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملا ، نیپ کے منحرف جمعہ خان صوفی اپنی کتاب ''فریب ِ ناتمام '' میں لکھتے ہیں کہ بہت سے بلوچ اور پختون نوجوان افغانستان میں پناہ گزیں ہوئے۔ روس اور بھارت کو پشتونستان کے مسئلے پر دلچسپی پیدا ہوئی، اس پوری صورتحال کا نقصان 1977میں سامنے آیا ۔ جب جمہوری وغیرجمہوری طاقتیں بھٹو کے خلاف پی این اے کی شکل میں متحد ہو گئیں۔
5جولائی1977کو جنرل ضیاء الحق اور پاکستان ایک ایسے بحران کا شکار ہواکہ آج تک یہ بحران جاری ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی تشکیل کے باوجود نیپ پر پابندی سے سیاسی نظام کو ایسا جھٹکا لگا کہ سارا فائدہ جنرل ضیاء کو ہوا۔ سیاسی ماہرین اِس بات سے متفق ہیں کہ ایم کیو ایم پر پابندی ملک اور بیرون ملک نئے مسائل پیدا کر دے گی۔کراچی میں آباد ہونے والے اردو بولنے والوں کی اکثریت قائداعظم کی مسلم لیگ کی حامی تھی۔ مسلم لیگ کے بکھرنے کے بعد جماعت اسلامی نے قدم جمانے شروع کیے۔ 1970کے انتخابات میں جمعیت علماء پاکستان نے اپنا حلقہ وسیع کیا۔
نیشنل عوامی پارٹی کا اردو بولنے والوں میں بڑا حلقہ تھا ،1963کی سائٹ کی مزدور تحریک کچل دیے جانے کے بعد اردو بولنے والے مزدور مایوس ہوئے جن کے اثرات اُن کی بستیوں پر پڑے ، بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن میں اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی ، معراج محمد خان ، جوہر حسین ، علی مختار رضوی ، فتحیاب علی خان اِن کے مقبول رہنما تھے ، پہلے نیپ کی تقسیم کی بنا پر اردو بولنے والوں میں بائیں بازوکے اثرات کم ہوئے ، پیپلز پارٹی نے این ایس ایف کی بنیاد پراردو بولنے والے علاقوں میں اپنی تنظیمیں قائم کی تھیں ۔ مگر پیپلز پارٹی کے رہنما معراج محمد خان ،ڈاکٹر شمیم زین الدین اور طارق عزیز وغیر ہ نے 70 کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا ۔
لیاقت آباد سے ایک گمنام کارکن غفور احمد جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی اردو بولنے والوں کے مخالف پالیسیوں کی وجہ سے جماعت اسلامی اور جے یو پی مہاجروں کی نمایندہ جماعتوں کے طور پر ابھری تھیں۔ ایم کیو ایم نے اِن ہی جماعتوں کی جگہ لی اِس صدی کے سولہ سالوں میں کالعدم تنظیموں کے مدرسوں کے تعداد بڑھ گئی۔
اب اِن علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھر پید ا ہونے لگی ہے، جس کا خاتمہ ایم کیوایم نے کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کی اِن علاقوں میں کوئی حیثیت نہیں ، ایم کیوایم پر پابندی لگی تو اِس کا فائد مذہبی تنظیموں کو ہوگا ، یورپ اور امریکا میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں نیا مواد ملے گا۔ لندن سیکریٹریٹ میں موجود عناصر اِس صورتحال سے فائدہ اُٹھائیں گے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اب کراچی اور لندن کے درمیان کسی صورت پیسے کی پائپ لائن قائم نہیں ہونی چاہیے۔ شہر میں کسی گروہ کو بھتہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ فطرہ ، زکوۃ اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی اجازت صرف اسپتالوں اور رفاعی اداروں کی ہونی چاہیے، شہر میں کسی گروہ کو اسلحہ جمع کرنے اور اُس کے استعمال کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، انتظامیہ کو اِن بنیادی نکات پر عمل کروانے کے لیے ایم کیوایم اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک ضابطہ اخلاق پر اتفاق کرنا چاہیے اِس ضابطہ اخلاق کی بنیاد پر ضروری کارروائی ہونی چاہیے۔
ایم کیوایم کے قائد کے خلاف قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرارداد منظور ہوگئی، ایم کیو ایم کے اراکین اپنے قائد کے خلاف قرارداد پیش کرنا چاہتے تھے مگر انھیں موقع نہیں دیا گیا ۔کراچی میں ایم کیو ایم کے دفاتر مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، فیصلہ صوبائی حکومت نے نہیں کیا مگر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ اُن کے حکم پرغیرقانونی دفاترگرائے جارہے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے غیر قانونی دفاترگرادیے جائیں گے ۔
مئیر وسیم اختر پیرول پررہا نہ ہوسکے، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفی کمال کے درمیان پریس کانفرنسوں کا مقابلہ جاری ہے۔ مصطفی کمال ڈاکٹر فاروق ستارکے اپنے قائد سے علیحدگی کے فیصلے پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں، وہ ایم کیو ایم پر پابندی کا مطالبہ نہیں کر رہے مگر کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصطفی کمال تحریک انصاف کے رہنماؤں کی اس بات سے متفق ہیں کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگنی چاہیے۔
کہا جاتاہے کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین 22اگست کو ایک علیحدہ ایجنڈے پرگامزن تھے۔ وہ 1992سے کراچی سے غائب ہیں، وہ شاید اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ پریس کلب کے سامنے کوئی بہت بڑا مجمع جمع ہے یا انھیں غلط اطلاعات فراہم کی گئیں- انھوں نے اپنے منفی اہداف کے حصول کے لیے ایک اشتعال انگیز تقریرکی، چند نوجوان اس تقریر سے گمراہ ہوئے مگر کراچی کی انتظامیہ کی بہتریں سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر جنگجو نوجوانوں کو اپنے مقاصد کو پورا کرنے کا موقع نہیں ملا اور بہت سی جانیں بچ گئیں۔ڈاکٹر فاروق ستار اوراُن کے ساتھیوں نے مناسب فیصلہ کیا کہ ایم کیو ایم کو اُن کے قائد سے آزاد کروا دیا جائے اورانتظامیہ اوررینجرزکے غیر جانبدارانہ رویے کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے اور ایم کیو ایم اپنے مئیرکو منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئی ۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیوایم کے آئین میں تبدیلی کا فیصلہ کیا پھر رہنماؤں نے اپنے کارکنوں خاص طور پر خواتیں کارکنوں کی گرفتاری کو روکنے کے لیے مہم چلائی، ڈاکٹر فاروق ستار اور اُن کے ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ خواتین 22 اگست کے ہنگامے میں شامل نہیں ۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوں نے اس مہم پر توجہ دی اورگرفتاریوں کا سلسلہ تھم گیا ۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف قراردا پیش ہوئی اور ایسی قراردادیں سینیٹ اور سندھ اسمبلی میں بھی پیش ہونگی، ایم کیو ایم کے قومی اسبلی کے اراکین نے اس موقعے پرخاموشی اختیارکرکے اپنے اس دعوے کو حقیقت کا رنگ دینے کی کوشش کی کہ اُن کا اپنے قائد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس سارے منظر نامے میںایم کیو ایم پر پابندی کا ایجنڈا کہیں چپھا اورکہیں ظاہر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کی عجیب داستان ہے۔جب پاکستان امریکا کا اتحادی بنا اور سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں شامل ہوا تو امریکی جنرل میکارتھی کے ڈاکٹرائن پر عمل ہو ا۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی ۔کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیموں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اورانجمن ترقی پسند مصنفین اس پابندی کی زد میں آگئیں، ٹریڈ یونین ،کسان تنظیموں پر بھی عتاب آیا، اُسی وقت فوج کے سربراہ ایوب خان مرکزی کابینہ میں شامل ہوئے اور اُن کا کردار بڑھنا شروع ہوا۔ سیاسی جماعتوں کی جمہوری نظام پرگرفت کمزور ہونا شروع ہوئی جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ 7اکتوبر1958 کو کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کر کے اقتدار سنبھال لیا اور سیاسی جماعتوں کے کردار کو محدود کردیا، ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی ، مشرقی پاکستان ہائی کورٹ نے اس پابندی کو غیر قانونی قرار دیا۔
مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے ججوں نے حکومت کے اس فیصلے کو قبول کرلیا اگرچہ سپریم کورٹ نے اِس فیصلے کوغیر قانونی قرار دیا مگر اِس ساری لڑائی کے نتیجے میں ایوب خان کے سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں کا کردار کم ہو گیا۔ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخاب میں شکست کے بعد مشرقی پاکستان کے دانش ور اسلام آباد سے مایوس ہوگئے۔1970 کے انتخابات میں عوامی لیگ مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کے ساتھ سیاسی افق پر ابھری ۔جنرل یحیی خان نے صوبائی خود مختاری کے مسئلے پر عوامی لیگ سے سمجھوتا نہیں کیا، پیپلز پارٹی نے فوج کا ساتھ دیا، مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن ہوا عوامی لیگ پر پابندی لگا دی گئی ، مذاکرات کے تما م دروازے بند ہوگئے۔
اِس صورتحال کا منطقی نتیجہ 16دسمبر 1971 کو سامنے آیا، یحییٰ خان نے جاتے جاتے نیشنل عوامی پارٹی پر بھی پابندی لگا دی ۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقارعلی بھٹو صدر بنے تو یہ پابندی ختم کی ۔ 1973 کے متفقہ آئین کی تیاری کے لیے بھٹو نے نیپ سے مفاہمت کی۔ یوں بلوچستان اور سرحد میں نیپ اورجے یو آئی کی حکومتیں قائم ہوئیں مگر پھر پیپلرز پارٹی کی حکومت نے حیات محمد شیر پاؤ کے قتل کے بعد نیپ پر پابندی لگا دی۔ ولی خان ،غوث بخش بزنجو اور نیپ کے دوسرے رہنماؤں کے علاوہ اپنی پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان اور علی احمد تالپور وغیرہ کو گرفتار کرکے حیدرآباد سازش کیس میں ملوث کیا بظاہر نیپ پر پابندی کے بعد بھٹو صاحب کے لیے کوئی چیلنج نہیں رہا ، جیل سے باہر رہنے والے نیپ کے رہنماؤں نے سردارشیرباز مزاری اور بیگم نسیم ولی خان کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بنائی ، عوامی نیشنل پارٹی بن گئی مگر 1973کے آئین پر اتفاق کے وقت جو سیاسی نظام وجود میں آیا تھا۔
اُس کو دھچکا لگا ایک طرف فوج کے جنرلوں کو سیاسی نظام کی کمزوری کااندازہ ہوگیا۔ دوسری طرف افغانستان کے صدر سردار داؤد کو اِس صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملا ، نیپ کے منحرف جمعہ خان صوفی اپنی کتاب ''فریب ِ ناتمام '' میں لکھتے ہیں کہ بہت سے بلوچ اور پختون نوجوان افغانستان میں پناہ گزیں ہوئے۔ روس اور بھارت کو پشتونستان کے مسئلے پر دلچسپی پیدا ہوئی، اس پوری صورتحال کا نقصان 1977میں سامنے آیا ۔ جب جمہوری وغیرجمہوری طاقتیں بھٹو کے خلاف پی این اے کی شکل میں متحد ہو گئیں۔
5جولائی1977کو جنرل ضیاء الحق اور پاکستان ایک ایسے بحران کا شکار ہواکہ آج تک یہ بحران جاری ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی تشکیل کے باوجود نیپ پر پابندی سے سیاسی نظام کو ایسا جھٹکا لگا کہ سارا فائدہ جنرل ضیاء کو ہوا۔ سیاسی ماہرین اِس بات سے متفق ہیں کہ ایم کیو ایم پر پابندی ملک اور بیرون ملک نئے مسائل پیدا کر دے گی۔کراچی میں آباد ہونے والے اردو بولنے والوں کی اکثریت قائداعظم کی مسلم لیگ کی حامی تھی۔ مسلم لیگ کے بکھرنے کے بعد جماعت اسلامی نے قدم جمانے شروع کیے۔ 1970کے انتخابات میں جمعیت علماء پاکستان نے اپنا حلقہ وسیع کیا۔
نیشنل عوامی پارٹی کا اردو بولنے والوں میں بڑا حلقہ تھا ،1963کی سائٹ کی مزدور تحریک کچل دیے جانے کے بعد اردو بولنے والے مزدور مایوس ہوئے جن کے اثرات اُن کی بستیوں پر پڑے ، بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن میں اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی ، معراج محمد خان ، جوہر حسین ، علی مختار رضوی ، فتحیاب علی خان اِن کے مقبول رہنما تھے ، پہلے نیپ کی تقسیم کی بنا پر اردو بولنے والوں میں بائیں بازوکے اثرات کم ہوئے ، پیپلز پارٹی نے این ایس ایف کی بنیاد پراردو بولنے والے علاقوں میں اپنی تنظیمیں قائم کی تھیں ۔ مگر پیپلز پارٹی کے رہنما معراج محمد خان ،ڈاکٹر شمیم زین الدین اور طارق عزیز وغیر ہ نے 70 کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا ۔
لیاقت آباد سے ایک گمنام کارکن غفور احمد جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی اردو بولنے والوں کے مخالف پالیسیوں کی وجہ سے جماعت اسلامی اور جے یو پی مہاجروں کی نمایندہ جماعتوں کے طور پر ابھری تھیں۔ ایم کیو ایم نے اِن ہی جماعتوں کی جگہ لی اِس صدی کے سولہ سالوں میں کالعدم تنظیموں کے مدرسوں کے تعداد بڑھ گئی۔
اب اِن علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھر پید ا ہونے لگی ہے، جس کا خاتمہ ایم کیوایم نے کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کی اِن علاقوں میں کوئی حیثیت نہیں ، ایم کیوایم پر پابندی لگی تو اِس کا فائد مذہبی تنظیموں کو ہوگا ، یورپ اور امریکا میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں نیا مواد ملے گا۔ لندن سیکریٹریٹ میں موجود عناصر اِس صورتحال سے فائدہ اُٹھائیں گے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اب کراچی اور لندن کے درمیان کسی صورت پیسے کی پائپ لائن قائم نہیں ہونی چاہیے۔ شہر میں کسی گروہ کو بھتہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ فطرہ ، زکوۃ اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی اجازت صرف اسپتالوں اور رفاعی اداروں کی ہونی چاہیے، شہر میں کسی گروہ کو اسلحہ جمع کرنے اور اُس کے استعمال کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، انتظامیہ کو اِن بنیادی نکات پر عمل کروانے کے لیے ایم کیوایم اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک ضابطہ اخلاق پر اتفاق کرنا چاہیے اِس ضابطہ اخلاق کی بنیاد پر ضروری کارروائی ہونی چاہیے۔