ستمبر کی ستمگریاں اور بازیگریاں

ستمبر ستمگر ہے یا بازیگر ‘اس کا راز تو اس وقت کھلے گا جب حبس اور گٹھن سے بھرپور یہ مہینہ اختتام پذیر ہو جائے گا

latifch910@yahoo.com

ISLAMABAD:
ستمبر ستمگر ہے یا بازیگر 'اس کا راز تو اس وقت کھلے گا جب حبس اور گٹھن سے بھرپور یہ مہینہ اختتام پذیر ہو جائے گا تاہم اس ماہ کی ستمگری کا ایک مرحلہ 3تاریخ کو گزر گیا' اس روز راولپنڈی اور لاہور میں ایک ہی وقت پر دو احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ عمران خان نے لاہور میں احتساب ریلی جب کہ طاہر القادری نے راولپنڈی میں قصاص ریلی کا اہتمام کیا۔ اگست میں جب ان دونوں احتجاجی ریلیوں کا اعلان کیا گیا تو ملک میں قیاس آرائیوں' خیال آفرینیوں اور حاشیہ آرائیوں کا ایک طوفان امڈ آیا' کوئی کہنے لگا کہ ستمبر میاں نواز شریف کے لیے بہت بھاری ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

3ستمبر کو عمران خان اور طاہر القادری کی ریلیوں میں کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے' اگر ایسا ہوا تو میاں نواز شریف کی حکومت اس سانحے کی نذر ہو جائے گی۔ میرے ذہن میں فوراً سانحہ ماڈل ٹاؤن گھوم گیا' یہ بڑی خطرناک بات تھی' سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور اقتدار کے کھیل میں لاشیں گرانا معمولی بات ہوتی ہے' صرف موقع اور ماحول چاہیے ہوتا ہے۔جب جلسے جلوس نکلتے ہیں' لوگ اور ان کے لیڈر جذبات میں ہوتے ہیں' ایسے موقعے پر پولیس یا سیکیورٹی ایجنسی کی معمولی کوتاہی یا دانستہ کارروائی چنگاری کو شعلہ بنا دیتی ہے' ہجوم بھر جاتا ہے اور معاملہ گھیراؤ جلاؤ تک پہنچ جاتا ہے۔

ایسی صورت میں ہجوم کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا' آنسو گیس اور گولیاں چلتی ہیں ' لاشیں گرتی ہیں اور پھر کہانی ختم۔ 3ستمبر کی رات حکومت کے لیے بہت بھاری تھی' ایک سانحہ بساط پلٹ سکتا تھا لیکن یہ رات خیریت سے گزر گئی' حکومت اور عوام نے سکھ کا سانس لیا' حکومت خواہ کچھ بھی دعویٰ کرے کہ احتجاجی ریلیاں ناکام ہو گئیں لیکن عمران خان اور طاہر القادری کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے ریلیوں کو پرامن رکھا ورنہ ان کے لیے گھیراؤ جلاؤکرانا کونسا مشکل کام تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف کی حکومت کے لیے خطرات ٹل گئے ہیں' سیاسی منظرنامے کا جائزہ لیا جائے تو حالات اب بھی سنگین ہیں۔ عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف کی رائیونڈ لاہور میں نجی رہائش گاہ تک مارچ کا اعلان کر دیا ہے' پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار کوئی احتجاجی ریلی کسی وزیراعظم کی نجی رہائش کی طرف جائے گی۔


پاکستان کی سیاست میں یہ نیا موڑ ہے۔ یہ روایت کیا گل کھلائے گی' فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ابھی تک عمران نے اس مارچ کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا لیکن اطلاعات ہیں کہ عیدالاضحی کے فوراً بعد رائیونڈ کی طرف مارچ ہو گا۔ اس میں عوامی تحریک اور منہاج القرآن تحریک بھی پوری قوت سے شریک ہو گی ۔اس سلسلے میں فریقین کے درمیان درپردہ مذاکرات جاری ہیں۔کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری اکٹھے مارچ کو لیڈ کرتے ہوئے رائیونڈ پہنچیں۔ دیگر چھوٹی جماعتیں اور گروپ بھی ساتھ دیں گے۔

عمران خان اور طاہر القادری کے لہجے میں مایوسی' تلخی اور غصہ بڑھ رہا ہے۔ انھیں اداروں کی جانب سے وہ ریلیف نہیں مل رہا جس کی وہ توقع کر رہے ہیں' اسلام آبادمیں ان کے تاریخ ساز دھرنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے' مئی 2013ء کے الیکشن میں منظم دھاندلی کے لیے جو تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا' اس کا فیصلہ بھی عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی امیدوں کے برعکس رہا' پھر اچانک پانامالیکس نے پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا' عمران خان کے ہاتھ سیاست میں زندہ رہنے کے لیے بڑا ایشو آ گیا۔ آج ان کی ساری سیاست اسی ایشو پر کھڑی ہے۔ طاہر القادری سانحہ ماڈل کے ایشو پر کھیل رہے ہیں۔ یہ ماننا پڑے گا کہ حکومت ان دونوں ایشوز کو ڈی فیوز کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

جب تک یہ دونوں ایشو زندہ رہیں گے' عمران خان اور طاہر القادری کی جارحانہ سیاست جاری رہے گی۔ اب اسپیکر قومی اسمبلی نے میاں نواز شریف اور محمود اچکزئی کے خلاف ریفرنس مسترد کر دیے لیکن عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے' ممکن ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کا فیصلہ رولز اینڈ ریگولیشنز کے مطابق ہو لیکن ملک کے عوامی حلقوں نے اس فیصلے کو سراہا نہیں ہے۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ اگر میاں نواز شریف اور محمود اچکزئی کے خلاف ریفرنس مسترد کر دیے گئے تھے تو ایسا ہی سلوک عمران خان اور جہانگیر ترین کے ساتھ بھی کیا جاتا ۔اسپیکر قومی اسمبلی کو اپنا فیصلہ کرتے وقت رولز اینڈ ریگولیشنز کے ساتھ ساتھ سیاست کے اصولوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے تھا' قومی اسمبلی کے اسپیکر جج نہیں بلکہ ایک سیاسی ایوان کے کسٹوڈین ہیں' انھیں اپنے فیصلوں میں سیاسی اور جمہوری اصولوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

اگر وہ سیاسی اصولوں کو مدنظر رکھتے تو چاروں ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیج دیتے یا چاروں مسترد کر دیتے تاکہ کوئی سیاسی ایشو پیدا نہ ہو اور ان کی غیرجانبداری بھی برقرار رہے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔انھوں نے وزیراعظم کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے معمولی سا رسک لینے کی بھی کوشش نہیں کی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکومتی منصوبہ ساز ڈر رہے تھے کہ وزیراعظم کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا تو کہیں معاملہ الٹ نہ جائے، اس لیے اس ایشو کو اسپیکر چیمبر میں ہی دفن کر دیا گیا' بہرحال اس معاملے میں حکومت نے سیاسی شطرنج کی بساط پر کامیاب چال چلی ہے' سیاست میں نصابی اور کتابی اصول نہیں بلکہ عملی اصول چلتے ہیں۔یہ اصول خواہ بے اصولی کے زمرے میں ہی کیوں نہ آتے ہوں۔ میرے ایک دوست کوئی بھی ڈیل کرنے سے پہلے ازراہ تفنن کہا کرتے ہیں ''ہم نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا لیکن یاد رکھنا ہمارا اصول کوئی نہیں ہے'' سیاست میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے' ہر سیاستدان یہی کہتا ہے کہ وہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتا لیکن اپنے عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ اس کا کوئی اصول نہیں۔

بہر حال حکومت کے لیے سیاسی محاذ پر مشکلات کم نہیں ہوئیں' سیاسی ماحول میں شدت پیدا ہو رہی ہے تاہم یہ خطرہ نہیں ہے کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا' پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نومبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں' ان کے عہدے کی مدت میں توسیع کی باتیں عرصے سے ہو رہی ہیں لیکن وہ اس کی تردید کر چکے ہیں' ویسے بھی وہ جنرل کیانی کی روایت کی پیروی کرنا نہیں چاہیں گے۔ 3 اور 4 ستمبر کی رات دوستوں کی محفل میں ایک اہم شخصیت نے انکشاف کیا کہ نئے آرمی چیف کا نام فائنل ہو چکا ہے' ستمبر کے آخری ہفتے میں اعلان سامنے آ جائے گا۔ بہر حال انکشاف انکشاف ہوتے ہیں' عملی صورت کیا ہوتی ہے' اس کے لیے انتظار کرنا ہو گا۔ بس ستمبر کی ستمگریاں اور بازیگریاں دیکھتے رہیں۔
Load Next Story