کراچی کی محرومیوں کا اب کچھ ازالہ بھی
کراچی میں ایم کیو ایم سے پہلے یہاں مذہبی جماعتوں کو عوام کی پذیرائی حاصل تھی۔
ISLAMABAD:
1986ء میں ناظم آباد کراچی میں منی بس سے گر کرہلاک ہونے والی طالبہ بشریٰ زیدی کے واقعے سے جنم لینے والے فسادات نے شہرکراچی کے کتنے سنہری سال برباد کر دیے۔ اُس واقعے کو لے کر ایک مخصوص قومیت سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی پھیلائی گئی اور 14 دسمبر 1986ء کو اورنگی ٹاؤن کی ایک بستی علیگڑھ کالونی میں کئی گھر اور دکانیں جلا دی گئیں اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب قائدِ ایم کیو ایم نے اپنے لوگوں کو وی سی آر بیچنے اور کلاشنکوف خریدنے کا ناقابلِ فہم مشورہ دیا۔ اشتعال انگیزی اور منافرت کا یہ سلسلہ بعد ازاں دیگر قومیتوں کے خلاف بھی آزمایا گیا اور یوں اردو بولنے والوں کو تمام قومیتوں سے لڑا کر اکیلا کر دیا گیا۔
سارے پاکستان کے لوگ یہ سمجھنے پر مجبورہو گئے کہ اردو بولنے والے یہ مہاجر غیر ذمے دار، بد مزاج اور جھگڑالو لوگ ہیں۔ حالانکہ ایم کیو ایم بننے سے پہلے یہی لوگ مکمل امن و آشتی کے ساتھ اِسی شہرکراچی میں مل جل کر رہا کرتے تھے۔ سب باہم مل جل کر بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔ پھر یہ کیا ہوا کہ وہی لوگ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو گئے۔ ایم کیو ایم کیوں بنائی گئی۔ اِس کے بنائے جانے کے پسِ پردہ محرکات کیا تھے۔ ویسے تو ہمارے یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم جنرل ضیاء الحق نے کراچی میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کم کرنے کی خاطر بنوائی مگر یہ صرف ایک مفروضہ ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم سے پہلے یہاں مذہبی جماعتوں کو عوام کی پذیرائی حاصل تھی۔ پیپلزپارٹی جن علاقوں میں مقبول اور مضبوط تھی وہاں اُس مقبولیت ایم کیوایم کے بعد بھی جوں کی توں قائم رہی۔ کسی کے ووٹ بینک پر اگر ضرب لگائی گئی تو وہ صرف مذہبی جماعتوں کے بینک پر لگائی گئی۔ خاص کر جماعتِ اسلامی، جمعیتِ علماء ِاسلام اور جمعیتِ علماء پاکستان کو ایم کیو ایم کی وجہ سے بہت نقصان اُٹھانا پڑا۔ جب کہ یہی جماعتیں جنرل ضیاء الحق کی زبردست حامی اور مددگار بھی رہی تھیں۔ جنرل ضیاء اُنہیں پھر بھلا کیونکر نقصان پہنچا سکتے تھے۔ ہاں البتہ اُنہوں نے اپنے دور میں ایک کام ضرور کیا کہ الطاف حسین جو بھٹو دور سے جیل میں قید و بند کی زندگی گزار رہے تھے اُنہیں باعزت طور پر رہاکر دیا۔
دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کی داغ بیل 1972ء ہی میں پڑ چکی تھی۔ جب بھٹو صاحب نے سندھی زبان کو سندھ کی قومی زبان کا درجہ دیکر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا تھا۔ اور جس کے نتیجے میں سندھ کے اربن علاقوں میں لسانی فسادات بھڑک اُٹھے تھے۔ پھر 1973ء میں اربن اور رورل کی تفریق ڈال کر کوٹہ سسٹم رائج کر کے اِس نفرت کی خلیج کو اور بھی وسیع کر دیا گیا۔ اردو بولنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اِس کوٹا سسٹم سے حق تلفی ہونے لگی اور اُنہیں اپنے ہی صوبے میں سرکاری نوکریوں سے محروم رکھا جانے لگا۔
یہ کوٹہ سسٹم ویسے تو صرف دس سال کے لیے نافذ کیا گیا تھا لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اِس میں مزید توسیع کرنا شروع کر دی جو ابھی تک قائم و دائم ہے۔کہنے کو یہ کوٹہ سسٹم رورل علاقوں کے پسماندہ لوگوں کی بہتری کے لیے بنایا گیا تھا مگر اِس کوٹہ سسٹم سے فائدہ اُن لوگوں نے اُٹھایا جو رہتے تو کراچی اور حیدرآباد کے پوش علاقوں میں لیکن اُن کا ڈومیسائل اندرونِ سندھ کا تھا۔ پسماندہ علاقے کے نوجوان تو پھر بھی نوکریوں سے محروم ہی رہے۔ آج اِس کوٹہ سسٹم کو رائج ہوئے تقریباً 43 برس ہو چکے ہیں لیکن اب تک کسی نے یہ غیر منصفانہ تقسیم ختم کرنے کی نہ سنجیدہ کوشش کی ہے اور نہ اندرونِ سندھ ترقی و خوشحالی لانے کی تگ و دوکی ہے۔ اِس صوبے کے پسماندہ علاقوں میں آج بھی حالات ویسے ہی ابتر ہیں جیسے 1973ء میں تھے۔
اِن43 سالوں میں زیادہ تر یہاں پر حقِ حکمرانی پاکستان پیپلزپارٹی کو ہی تفویض کیا جاتا رہا ہے، مگر یہاں کے حالات جوں کے توں ہی رہے۔ نہ سڑکوں کی شکل بدلی اور نہ صحت و تعلیم میں کوئی قابلِ قدر قدم اُٹھایا گیا۔ اندرونِ سندھ کے حالات انتہائی ابتر اور ناگفتہ بہ ہیں۔ بنیادی سہولتوں سے محروم یہ علاقے آج ہمارے سب سے زیادہ پسماندہ علاقوں میں شمارکیے جاتے ہیں۔ سندھ کے بجٹ میں مختص کیے جانے والے اربوں روپے کے تمام ترقیاتی فنڈز نجانے کہاں خرچ ہوتے ہیں کسی کو نہیں معلوم۔ دوسری جانب رورل علاقوں کے لوگوں کے اِس پسماندگی اور احساسِ محرومی کے خاتمے کا علاج کوٹہ سسٹم کے تسلسل میںتلاش کیا جاتا رہا اور یوں یہ دیہی اور شہری علاقوں کی تفریق دائمی شکل اختیار کرتی گئی۔ جس نے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے نوجوانوں کو ایم کیو ایم کے جانب ڈھکیلنے میں اہم رول ادا کیا۔
اپنے حقوق کے حصول کی خاطر وہ تشدد اور دہشتگردی کا راستہ اختیار کرنے لگے۔ ہزاروں نوجوان باعزت روزگار نہ ملنے کی وجہ سے چوری اور ڈکیتی کی طرف مائل ہو گئے اور یہاں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں یوں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کسی نے اِس مسئلے کی اصل وجہ کی جانب دیکھا ہی نہیں۔ اور سب نے اِسے طاقت کے زور پر دبانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ کراچی شہر مسائل میں گھرتا چلا گیااور آئے دن کی ہڑتالوں اور احتجاجوں کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوتا چلا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری نے بھی ایک منظم کاروبار کی شکل اخیتار کر لی۔ سندھ کی حکومت نے اِس بھتہ خوری کا سدِباب اور علاج ''لیاری گینگ'' کی شکل میں تجویز کیا اور اندرونِ خانہ اُس گینگ کی سرپرستی شروع کر دی۔ جس کی وجہ سے صورتحال اور بھی سنگین ہو گئی اور شہر خانہ جنگی کی طرف بڑھنے لگا۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو لسانی اورعلاقائی بنیاد پر شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا جانے لگا اور حکومت تماشہ دیکھتی رہی۔ اِس خوفناک صورتحال نے محب وطن پاکستانیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔
2013ء کے انتخابات کے بعد موجودہ نواز شریف حکومت نے کراچی شہر کو ایک بار پھر سے پر امن شہر بنانے کی کوششیں تیز کر دیں اور رینجرز اور آرمی چیف کی مدد سے ایک ایسا آپریشن شروع کر دیا جس کے نتائج ماضی کی نسبت انتہائی حوصلہ افزا رہے ہیں۔ آج کراچی میں بڑی حد تک امن قائم ہو چکا ہے۔ آئے دن کی ہڑتالوں سے شہرکی جان چھوٹ چکی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے اور ایم کیو ایم اب اپنے قائد سے لاتعلقی کا اعلان بھی کر چکی ہے۔ لہذا اب اِس شہر کے لوگوں کے مسائل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہاں سڑکوں اور شاہراہوں کا حال بہت بگڑ چکا ہے۔ ہر طرف غلاظت اور کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ پانی، سیوریج، نکاسی آب اور ٹرانسپورٹ کا نظام بھی ابتر ہو چکا ہے۔ پانچ چھ سالوں سے کسی نے اِس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ اِسے فوری درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سندھ کے اربن علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے روزگار کا بھی انتظام کرنا ہو گا۔ اُن کے اندر پیدا ہونے والے احساسِ محرومی کو دورکرنا ہو گا۔ حال ہی میں سند ھ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ڈی جی رینجرز نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی تجویز بھی پیش کی جسے لگتا ہے وزیرِ اعلیٰ نے لائقِ اعتناء بھی نہ جانا اور سنی ان سنی کر دی۔ آج اگر کراچی میں رینجرز کی مدد سے امن قائم ہوا ہے تو یہ سندھ حکومت کے لیے بھی راحت کا باعث ہونا چاہیے۔
لہذا اگر ہمارے کسی ادارے کے ذمے دار شخص کی جانب سے کوئی صائب اور اچھی تجویز پیش کی جاتی ہے تو اُسے درخورِ اعتناء گردانتے ہوئے مثبت ردِ عمل کا اظہارکرنا چاہیے۔ کراچی میں دائمی امن کی گارنٹی اُسی وقت دی جا سکتی ہے جب یہاں کے مسائل کے حل کے لیے خلوصِ نیت سے ٹھوس کوششیں کی جائیں۔ آج اگر رینجرز کی مدد سے کچھ دنوں کے لیے امن قائم ہوا ہے تو اِسے مستقل اور دائمی بنانے کے لیے سول حکومت کو بھی اپنا رول ادا کرنا ہو گا۔ کراچی شہر کے لوگوں کے احساسِ محرومی کو دور کرنا ہو گا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اِس احساسِ محرومی کو اگر دور نہیں کیا گیا تو پھر یہاں کوئی ایک نئی لسانی و سیاسی جماعت عسکریت پسندی کی جانب مائل ہو سکتی ہے۔
1986ء میں ناظم آباد کراچی میں منی بس سے گر کرہلاک ہونے والی طالبہ بشریٰ زیدی کے واقعے سے جنم لینے والے فسادات نے شہرکراچی کے کتنے سنہری سال برباد کر دیے۔ اُس واقعے کو لے کر ایک مخصوص قومیت سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی پھیلائی گئی اور 14 دسمبر 1986ء کو اورنگی ٹاؤن کی ایک بستی علیگڑھ کالونی میں کئی گھر اور دکانیں جلا دی گئیں اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب قائدِ ایم کیو ایم نے اپنے لوگوں کو وی سی آر بیچنے اور کلاشنکوف خریدنے کا ناقابلِ فہم مشورہ دیا۔ اشتعال انگیزی اور منافرت کا یہ سلسلہ بعد ازاں دیگر قومیتوں کے خلاف بھی آزمایا گیا اور یوں اردو بولنے والوں کو تمام قومیتوں سے لڑا کر اکیلا کر دیا گیا۔
سارے پاکستان کے لوگ یہ سمجھنے پر مجبورہو گئے کہ اردو بولنے والے یہ مہاجر غیر ذمے دار، بد مزاج اور جھگڑالو لوگ ہیں۔ حالانکہ ایم کیو ایم بننے سے پہلے یہی لوگ مکمل امن و آشتی کے ساتھ اِسی شہرکراچی میں مل جل کر رہا کرتے تھے۔ سب باہم مل جل کر بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔ پھر یہ کیا ہوا کہ وہی لوگ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو گئے۔ ایم کیو ایم کیوں بنائی گئی۔ اِس کے بنائے جانے کے پسِ پردہ محرکات کیا تھے۔ ویسے تو ہمارے یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم جنرل ضیاء الحق نے کراچی میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کم کرنے کی خاطر بنوائی مگر یہ صرف ایک مفروضہ ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم سے پہلے یہاں مذہبی جماعتوں کو عوام کی پذیرائی حاصل تھی۔ پیپلزپارٹی جن علاقوں میں مقبول اور مضبوط تھی وہاں اُس مقبولیت ایم کیوایم کے بعد بھی جوں کی توں قائم رہی۔ کسی کے ووٹ بینک پر اگر ضرب لگائی گئی تو وہ صرف مذہبی جماعتوں کے بینک پر لگائی گئی۔ خاص کر جماعتِ اسلامی، جمعیتِ علماء ِاسلام اور جمعیتِ علماء پاکستان کو ایم کیو ایم کی وجہ سے بہت نقصان اُٹھانا پڑا۔ جب کہ یہی جماعتیں جنرل ضیاء الحق کی زبردست حامی اور مددگار بھی رہی تھیں۔ جنرل ضیاء اُنہیں پھر بھلا کیونکر نقصان پہنچا سکتے تھے۔ ہاں البتہ اُنہوں نے اپنے دور میں ایک کام ضرور کیا کہ الطاف حسین جو بھٹو دور سے جیل میں قید و بند کی زندگی گزار رہے تھے اُنہیں باعزت طور پر رہاکر دیا۔
دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کی داغ بیل 1972ء ہی میں پڑ چکی تھی۔ جب بھٹو صاحب نے سندھی زبان کو سندھ کی قومی زبان کا درجہ دیکر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا تھا۔ اور جس کے نتیجے میں سندھ کے اربن علاقوں میں لسانی فسادات بھڑک اُٹھے تھے۔ پھر 1973ء میں اربن اور رورل کی تفریق ڈال کر کوٹہ سسٹم رائج کر کے اِس نفرت کی خلیج کو اور بھی وسیع کر دیا گیا۔ اردو بولنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اِس کوٹا سسٹم سے حق تلفی ہونے لگی اور اُنہیں اپنے ہی صوبے میں سرکاری نوکریوں سے محروم رکھا جانے لگا۔
یہ کوٹہ سسٹم ویسے تو صرف دس سال کے لیے نافذ کیا گیا تھا لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اِس میں مزید توسیع کرنا شروع کر دی جو ابھی تک قائم و دائم ہے۔کہنے کو یہ کوٹہ سسٹم رورل علاقوں کے پسماندہ لوگوں کی بہتری کے لیے بنایا گیا تھا مگر اِس کوٹہ سسٹم سے فائدہ اُن لوگوں نے اُٹھایا جو رہتے تو کراچی اور حیدرآباد کے پوش علاقوں میں لیکن اُن کا ڈومیسائل اندرونِ سندھ کا تھا۔ پسماندہ علاقے کے نوجوان تو پھر بھی نوکریوں سے محروم ہی رہے۔ آج اِس کوٹہ سسٹم کو رائج ہوئے تقریباً 43 برس ہو چکے ہیں لیکن اب تک کسی نے یہ غیر منصفانہ تقسیم ختم کرنے کی نہ سنجیدہ کوشش کی ہے اور نہ اندرونِ سندھ ترقی و خوشحالی لانے کی تگ و دوکی ہے۔ اِس صوبے کے پسماندہ علاقوں میں آج بھی حالات ویسے ہی ابتر ہیں جیسے 1973ء میں تھے۔
اِن43 سالوں میں زیادہ تر یہاں پر حقِ حکمرانی پاکستان پیپلزپارٹی کو ہی تفویض کیا جاتا رہا ہے، مگر یہاں کے حالات جوں کے توں ہی رہے۔ نہ سڑکوں کی شکل بدلی اور نہ صحت و تعلیم میں کوئی قابلِ قدر قدم اُٹھایا گیا۔ اندرونِ سندھ کے حالات انتہائی ابتر اور ناگفتہ بہ ہیں۔ بنیادی سہولتوں سے محروم یہ علاقے آج ہمارے سب سے زیادہ پسماندہ علاقوں میں شمارکیے جاتے ہیں۔ سندھ کے بجٹ میں مختص کیے جانے والے اربوں روپے کے تمام ترقیاتی فنڈز نجانے کہاں خرچ ہوتے ہیں کسی کو نہیں معلوم۔ دوسری جانب رورل علاقوں کے لوگوں کے اِس پسماندگی اور احساسِ محرومی کے خاتمے کا علاج کوٹہ سسٹم کے تسلسل میںتلاش کیا جاتا رہا اور یوں یہ دیہی اور شہری علاقوں کی تفریق دائمی شکل اختیار کرتی گئی۔ جس نے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے نوجوانوں کو ایم کیو ایم کے جانب ڈھکیلنے میں اہم رول ادا کیا۔
اپنے حقوق کے حصول کی خاطر وہ تشدد اور دہشتگردی کا راستہ اختیار کرنے لگے۔ ہزاروں نوجوان باعزت روزگار نہ ملنے کی وجہ سے چوری اور ڈکیتی کی طرف مائل ہو گئے اور یہاں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں یوں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کسی نے اِس مسئلے کی اصل وجہ کی جانب دیکھا ہی نہیں۔ اور سب نے اِسے طاقت کے زور پر دبانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ کراچی شہر مسائل میں گھرتا چلا گیااور آئے دن کی ہڑتالوں اور احتجاجوں کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوتا چلا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری نے بھی ایک منظم کاروبار کی شکل اخیتار کر لی۔ سندھ کی حکومت نے اِس بھتہ خوری کا سدِباب اور علاج ''لیاری گینگ'' کی شکل میں تجویز کیا اور اندرونِ خانہ اُس گینگ کی سرپرستی شروع کر دی۔ جس کی وجہ سے صورتحال اور بھی سنگین ہو گئی اور شہر خانہ جنگی کی طرف بڑھنے لگا۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو لسانی اورعلاقائی بنیاد پر شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا جانے لگا اور حکومت تماشہ دیکھتی رہی۔ اِس خوفناک صورتحال نے محب وطن پاکستانیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔
2013ء کے انتخابات کے بعد موجودہ نواز شریف حکومت نے کراچی شہر کو ایک بار پھر سے پر امن شہر بنانے کی کوششیں تیز کر دیں اور رینجرز اور آرمی چیف کی مدد سے ایک ایسا آپریشن شروع کر دیا جس کے نتائج ماضی کی نسبت انتہائی حوصلہ افزا رہے ہیں۔ آج کراچی میں بڑی حد تک امن قائم ہو چکا ہے۔ آئے دن کی ہڑتالوں سے شہرکی جان چھوٹ چکی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے اور ایم کیو ایم اب اپنے قائد سے لاتعلقی کا اعلان بھی کر چکی ہے۔ لہذا اب اِس شہر کے لوگوں کے مسائل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہاں سڑکوں اور شاہراہوں کا حال بہت بگڑ چکا ہے۔ ہر طرف غلاظت اور کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ پانی، سیوریج، نکاسی آب اور ٹرانسپورٹ کا نظام بھی ابتر ہو چکا ہے۔ پانچ چھ سالوں سے کسی نے اِس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ اِسے فوری درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سندھ کے اربن علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے روزگار کا بھی انتظام کرنا ہو گا۔ اُن کے اندر پیدا ہونے والے احساسِ محرومی کو دورکرنا ہو گا۔ حال ہی میں سند ھ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ڈی جی رینجرز نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی تجویز بھی پیش کی جسے لگتا ہے وزیرِ اعلیٰ نے لائقِ اعتناء بھی نہ جانا اور سنی ان سنی کر دی۔ آج اگر کراچی میں رینجرز کی مدد سے امن قائم ہوا ہے تو یہ سندھ حکومت کے لیے بھی راحت کا باعث ہونا چاہیے۔
لہذا اگر ہمارے کسی ادارے کے ذمے دار شخص کی جانب سے کوئی صائب اور اچھی تجویز پیش کی جاتی ہے تو اُسے درخورِ اعتناء گردانتے ہوئے مثبت ردِ عمل کا اظہارکرنا چاہیے۔ کراچی میں دائمی امن کی گارنٹی اُسی وقت دی جا سکتی ہے جب یہاں کے مسائل کے حل کے لیے خلوصِ نیت سے ٹھوس کوششیں کی جائیں۔ آج اگر رینجرز کی مدد سے کچھ دنوں کے لیے امن قائم ہوا ہے تو اِسے مستقل اور دائمی بنانے کے لیے سول حکومت کو بھی اپنا رول ادا کرنا ہو گا۔ کراچی شہر کے لوگوں کے احساسِ محرومی کو دور کرنا ہو گا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اِس احساسِ محرومی کو اگر دور نہیں کیا گیا تو پھر یہاں کوئی ایک نئی لسانی و سیاسی جماعت عسکریت پسندی کی جانب مائل ہو سکتی ہے۔