جاگتے رہو
کشمیری اور فلسطینی آج بھی آزادی کے لیے تڑپ رہے ہیں
ایک طرف کشمیری پاکستان کی سرزمین سے جڑنے کے لیے گزشتہ 70 سال سے بھارتی سامراج کے ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں اور دشمن انھیں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرنے کی پاداش میں بے دریغ تہہ تیغ کر رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں بعض قائدین میں سے کوئی پاکستان کو دل کھول کر برا بھلا کہہ رہا ہے تو کوئی تقسیم ہند کو بڑی غلطی قرار دے رہا ہے اور کوئی کھلم کھلا پاکستان مردہ باد کے نعرے لگا رہا ہے اور دھڑلے سے مادر وطن کو ناسور قرار دے کر اس کے محافظین کو گالیاں دے رہا ہے۔
ہمارے ان قائدین کے ان رویوں کے عام پاکستانیوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ کشمیری جو پاکستان کو اپنی منزل مراد سمجھ کر اس کے لیے جانیں نچھاور کر رہے ہیں پاکستان کے اندر چلنے والی اس پاکستان مخالف لہر سے کیا اثر لیں گے؟ کیا اس گھناؤنی مہم جوئی کا مقصد کشمیریوں کو پاکستان سے بدظن کر کے دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنا نہیں ہے؟ پھر سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان اتنا بے وقعت ہے کہ اس کے خلاف جو چاہے ہرزہ سرائی کرتا رہے مگر قوم خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ ہم جیسی وطن سے بے پرواہ قوم دنیا میں شاید ہی کوئی اور ہو؟
لگتا ہے ہم اپنے وطن کے احسانوں کو ہی نہیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو بھی یکسر بھول بیٹھے ہیں مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہماری کوتاہیوں سے یہ آدھا ملک بھی ٹوٹا (خاکم بہ دہن) تو پھر ہمارا مقدر در در کی ٹھوکریں کھانا ہی ہو گا اور یہ بھی یاد رہے کہ پھر ہم لاکھ کوشش کے باوجود بھی دوسرا پاکستان نہیں بنا سکیں گے۔ اس لیے بھی کہ ہم میں ہماری بزرگوں جیسی نہ استقامت ہے اور نہ ہی ایمان کی حرارت پھر اب دنیا بھی پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔ اب ہر طرف ہمارے دشمنوں کا ہجوم ہے جو ہمیں مگرمچھ کی طرح نگلنے کے لیے لپک رہے ہیں کیا ہم موجودہ جابر طاقتوں کو شکست دے کر ایک نیا مسلم ملک بنا سکیں گے؟ پہلے سے محکوم مسلمانوں کی آزادی کے مسائل ابھی تک حل نہیں ہو سکے ہیں۔
کشمیری اور فلسطینی آج بھی آزادی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ دو مسلمان ممالک انڈونیشیا اور سوڈان کو توڑ کر دو نئے عیسائی ممالک بنائے گئے ہیں۔ ہمیں دراصل غلام قوموں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اب ذرا آنکھیں کھول کر تو دیکھو کہ ہمارے دشمن ہمارے چاروں طرف ہماری تباہی کا کیسا جال بچھا چکے ہیں۔ بھارت امریکا حالیہ فوجی معاہدہ کیا ہے؟ ہمیں گھیرنے اور تباہ کرنے کی خطرناک سازش ہے۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر خوشی سے پاگل ہو کر بھاگے، سوئے واشنگٹن جا پہنچے اور اپنے فوجی ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کرنے کا معاہدہ کر لیا۔
آخر بھارت اپنی سرزمین کا امریکا سے سودا کر کے اتنا خوش کیوں ہے؟ اس کے خوش ہونے کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ اب وہ افغانستان کے ہوائی اڈوں کو جن پر اس وقت امریکا کا قبضہ ہے وہ انھیں بلاجھجک پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے گا۔ اس طرح پاکستان مشرق اور مغرب کی سمت سے دو طرفہ حملوں کی زد میں آ چکا ہے۔ دراصل بھارت ایک زمانے سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان سے جنگ کے وقت استعمال کرنے کی خواہش رکھتا تھا اب اس کی وہ دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے۔
اس گمبھیر صورت حال کے پیش نظر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو یہ بیان دینا پڑا ہے کہ ہم مودی اور را کی چالوں کو خوب جانتے ہیں اگر ہمارے مادر وطن پر برا وقت آیا تو ہم حد سے بھی آگے جا سکتے ہیں۔ یہ وقت بڑا نازک ہے دشمن کچھ بھی کر سکتا ہے مگر اس وقت بھی ہم اندرونی خلفشار میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس وقت جب کہ قومی یکجہتی کی بے انتہا ضرورت ہے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے بعض قائدین سڑکوں پر عوام کو جمع کر کے اور کنٹینر پر چڑھ کر حالات کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں وہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔
چند دن قبل مودی نے پورے ہندوستان میں ایک ہنگامی جنگی فنڈ قائم کیا ہے۔ عوام سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ جدید جنگی ہتھیار خریدنے کے لیے حکومت کو چندہ دیں، اس فنڈ میں کئی ارب روپے اکٹھا ہونے کا امکان ہے۔ ادھر سندھی اور بلوچی زبانوں میں آل انڈیا ریڈیو سے پروگرام شروع کیے جا رہے ہیں جن کے لیے نیوز ریڈرز اور دیگر اسٹاف کی تلاش جاری ہے۔
اب کوئی بتائے کہ امریکا سے حالیہ فوجی معاہدہ اور سرحدوں پر جدید میزائلوں کی تنصیب کا کیا مطلب ہے؟ بھارتی فضائی کمپنیوں نے حکومت سے پاکستانی فضائی حدود کو خطرناک قرار دیتے ہوئے یورپ اور مشرق وسطیٰ کی سمت جانے کے لیے بمبئی والے راستے کو اختیار کرنے کی اجازت مانگی ہے۔ مودی آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی پہلے ہی دھمکی دے چکے ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ان کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہے ہیں اس لیے کہ یہی تو وہ خطہ ہے جو پاکستان کو چین سے ملاتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی طرح انھیں بھی ہتھیا لیا جائے تا کہ پاکستان کا چین سے رابطہ ہی ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے اور اس کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبہ قصہ پارینہ بن جائے۔
اس میں شک نہیں کہ بھارت نے افغانستان کو اپنی کامیاب سفارتکاری سے فتح کر لیا ہے۔ پہلے کرزئی بھارت کی زبان بولتا رہا، اب اشرف غنی بھارت کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں اور پاکستان کو ہر ہر قدم پر بدنام کر رہے ہیں جب کہ افغان مسئلے کے حل اور وہاں قیام امن کے لیے پاکستان مسلسل قربانیاں دیتا آ رہا ہے مگر بھارت وہاں امن کو تباہ کر کے افغان جنگ کو مزید طول دے رہا ہے تا کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ بھارت کے یہ خطرناک عزائم جاننے کے باوجود امریکی حکومت بھارت کا دم بھر رہی ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا خود بھی افغانستان میں طویل عرصے تک قیام کرنا چاہتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دہلی میں پاکستان پر تنقید کے خطرناک تیر برسائے ہیں۔ پاکستان کو اب افغان مذاکراتی عمل سے علیحدہ کر کے بھارت کو جگہ دے دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت نے افغان جنگ میں امریکا کی کیا مدد کی ہے۔ طالبان کی دہشتگردی کا تو پاکستان ہی نشانہ بن رہا ہے۔ بھارت تو ہمیشہ ہی طالبان کے شر سے محفوظ رہا ہے۔ امریکا کی اس دوغلی پالیسی نے تمام پاکستانیوں کو مایوس کر دیا ہے۔
جان کیری وہاں بھارتی جمہوریت کی تعریف کرتے رہے مگر کشمیریوں پر اس کی سات لاکھ فوج کے ظلم و ستم کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ بھارت امریکا سے اپنی سرزمین کا سودا کر کے سراسر خسارے میں چلا گیا ہے بھارتی حزب اختلاف اس سودے بازی پر مودی سرکار کی سخت مخالفت کر رہی ہے۔ بہرحال اب کوئی بھارت کو غیر جانبدار ملک نہیں کہہ سکتا۔ نہرو سمیت دیگر پرانے لیڈروں نے بھارت کی جانبداری کا اچھا امیج قائم کیا تھا حالانکہ بھارت اس وقت بھی غیر جانبدار نہیں تھا۔ اب مودی نے بھارت کے اس پرانے امیج کو بھی تہہ و بالا کر دیا ہے۔ پہلے بھارتی لیڈر پاکستان کو امریکا کا دم چھلا ہونے کا طعنہ دیا کرتے تھے اب وہ خود امریکا کے حاشیہ بردار بن گئے ہیں۔
امریکا بھارت کو چین سے لڑانے کی اپنی سی پوری کوشش تو ضرور کر رہا ہے مگر وقت آنے پر امریکا کو یقینا ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ بھارت پہلے ہی 1962ء میں چین کی مار کھا کر توبہ کرچکا ہے۔ تاہم پاکستان کو ضرور بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار رکھنا ہو گا کیونکہ بھارت پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ 6 ستمبر 1965ء کے اس کے اچانک حملے کو پاکستانی قوم ابھی تک نہیں بھول سکی ہے۔
ہمارے ان قائدین کے ان رویوں کے عام پاکستانیوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ کشمیری جو پاکستان کو اپنی منزل مراد سمجھ کر اس کے لیے جانیں نچھاور کر رہے ہیں پاکستان کے اندر چلنے والی اس پاکستان مخالف لہر سے کیا اثر لیں گے؟ کیا اس گھناؤنی مہم جوئی کا مقصد کشمیریوں کو پاکستان سے بدظن کر کے دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنا نہیں ہے؟ پھر سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان اتنا بے وقعت ہے کہ اس کے خلاف جو چاہے ہرزہ سرائی کرتا رہے مگر قوم خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ ہم جیسی وطن سے بے پرواہ قوم دنیا میں شاید ہی کوئی اور ہو؟
لگتا ہے ہم اپنے وطن کے احسانوں کو ہی نہیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو بھی یکسر بھول بیٹھے ہیں مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہماری کوتاہیوں سے یہ آدھا ملک بھی ٹوٹا (خاکم بہ دہن) تو پھر ہمارا مقدر در در کی ٹھوکریں کھانا ہی ہو گا اور یہ بھی یاد رہے کہ پھر ہم لاکھ کوشش کے باوجود بھی دوسرا پاکستان نہیں بنا سکیں گے۔ اس لیے بھی کہ ہم میں ہماری بزرگوں جیسی نہ استقامت ہے اور نہ ہی ایمان کی حرارت پھر اب دنیا بھی پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔ اب ہر طرف ہمارے دشمنوں کا ہجوم ہے جو ہمیں مگرمچھ کی طرح نگلنے کے لیے لپک رہے ہیں کیا ہم موجودہ جابر طاقتوں کو شکست دے کر ایک نیا مسلم ملک بنا سکیں گے؟ پہلے سے محکوم مسلمانوں کی آزادی کے مسائل ابھی تک حل نہیں ہو سکے ہیں۔
کشمیری اور فلسطینی آج بھی آزادی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ دو مسلمان ممالک انڈونیشیا اور سوڈان کو توڑ کر دو نئے عیسائی ممالک بنائے گئے ہیں۔ ہمیں دراصل غلام قوموں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اب ذرا آنکھیں کھول کر تو دیکھو کہ ہمارے دشمن ہمارے چاروں طرف ہماری تباہی کا کیسا جال بچھا چکے ہیں۔ بھارت امریکا حالیہ فوجی معاہدہ کیا ہے؟ ہمیں گھیرنے اور تباہ کرنے کی خطرناک سازش ہے۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر خوشی سے پاگل ہو کر بھاگے، سوئے واشنگٹن جا پہنچے اور اپنے فوجی ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کرنے کا معاہدہ کر لیا۔
آخر بھارت اپنی سرزمین کا امریکا سے سودا کر کے اتنا خوش کیوں ہے؟ اس کے خوش ہونے کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ اب وہ افغانستان کے ہوائی اڈوں کو جن پر اس وقت امریکا کا قبضہ ہے وہ انھیں بلاجھجک پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے گا۔ اس طرح پاکستان مشرق اور مغرب کی سمت سے دو طرفہ حملوں کی زد میں آ چکا ہے۔ دراصل بھارت ایک زمانے سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان سے جنگ کے وقت استعمال کرنے کی خواہش رکھتا تھا اب اس کی وہ دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے۔
اس گمبھیر صورت حال کے پیش نظر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو یہ بیان دینا پڑا ہے کہ ہم مودی اور را کی چالوں کو خوب جانتے ہیں اگر ہمارے مادر وطن پر برا وقت آیا تو ہم حد سے بھی آگے جا سکتے ہیں۔ یہ وقت بڑا نازک ہے دشمن کچھ بھی کر سکتا ہے مگر اس وقت بھی ہم اندرونی خلفشار میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس وقت جب کہ قومی یکجہتی کی بے انتہا ضرورت ہے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے بعض قائدین سڑکوں پر عوام کو جمع کر کے اور کنٹینر پر چڑھ کر حالات کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں وہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔
چند دن قبل مودی نے پورے ہندوستان میں ایک ہنگامی جنگی فنڈ قائم کیا ہے۔ عوام سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ جدید جنگی ہتھیار خریدنے کے لیے حکومت کو چندہ دیں، اس فنڈ میں کئی ارب روپے اکٹھا ہونے کا امکان ہے۔ ادھر سندھی اور بلوچی زبانوں میں آل انڈیا ریڈیو سے پروگرام شروع کیے جا رہے ہیں جن کے لیے نیوز ریڈرز اور دیگر اسٹاف کی تلاش جاری ہے۔
اب کوئی بتائے کہ امریکا سے حالیہ فوجی معاہدہ اور سرحدوں پر جدید میزائلوں کی تنصیب کا کیا مطلب ہے؟ بھارتی فضائی کمپنیوں نے حکومت سے پاکستانی فضائی حدود کو خطرناک قرار دیتے ہوئے یورپ اور مشرق وسطیٰ کی سمت جانے کے لیے بمبئی والے راستے کو اختیار کرنے کی اجازت مانگی ہے۔ مودی آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی پہلے ہی دھمکی دے چکے ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ان کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہے ہیں اس لیے کہ یہی تو وہ خطہ ہے جو پاکستان کو چین سے ملاتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی طرح انھیں بھی ہتھیا لیا جائے تا کہ پاکستان کا چین سے رابطہ ہی ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے اور اس کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبہ قصہ پارینہ بن جائے۔
اس میں شک نہیں کہ بھارت نے افغانستان کو اپنی کامیاب سفارتکاری سے فتح کر لیا ہے۔ پہلے کرزئی بھارت کی زبان بولتا رہا، اب اشرف غنی بھارت کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں اور پاکستان کو ہر ہر قدم پر بدنام کر رہے ہیں جب کہ افغان مسئلے کے حل اور وہاں قیام امن کے لیے پاکستان مسلسل قربانیاں دیتا آ رہا ہے مگر بھارت وہاں امن کو تباہ کر کے افغان جنگ کو مزید طول دے رہا ہے تا کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ بھارت کے یہ خطرناک عزائم جاننے کے باوجود امریکی حکومت بھارت کا دم بھر رہی ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا خود بھی افغانستان میں طویل عرصے تک قیام کرنا چاہتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دہلی میں پاکستان پر تنقید کے خطرناک تیر برسائے ہیں۔ پاکستان کو اب افغان مذاکراتی عمل سے علیحدہ کر کے بھارت کو جگہ دے دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت نے افغان جنگ میں امریکا کی کیا مدد کی ہے۔ طالبان کی دہشتگردی کا تو پاکستان ہی نشانہ بن رہا ہے۔ بھارت تو ہمیشہ ہی طالبان کے شر سے محفوظ رہا ہے۔ امریکا کی اس دوغلی پالیسی نے تمام پاکستانیوں کو مایوس کر دیا ہے۔
جان کیری وہاں بھارتی جمہوریت کی تعریف کرتے رہے مگر کشمیریوں پر اس کی سات لاکھ فوج کے ظلم و ستم کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ بھارت امریکا سے اپنی سرزمین کا سودا کر کے سراسر خسارے میں چلا گیا ہے بھارتی حزب اختلاف اس سودے بازی پر مودی سرکار کی سخت مخالفت کر رہی ہے۔ بہرحال اب کوئی بھارت کو غیر جانبدار ملک نہیں کہہ سکتا۔ نہرو سمیت دیگر پرانے لیڈروں نے بھارت کی جانبداری کا اچھا امیج قائم کیا تھا حالانکہ بھارت اس وقت بھی غیر جانبدار نہیں تھا۔ اب مودی نے بھارت کے اس پرانے امیج کو بھی تہہ و بالا کر دیا ہے۔ پہلے بھارتی لیڈر پاکستان کو امریکا کا دم چھلا ہونے کا طعنہ دیا کرتے تھے اب وہ خود امریکا کے حاشیہ بردار بن گئے ہیں۔
امریکا بھارت کو چین سے لڑانے کی اپنی سی پوری کوشش تو ضرور کر رہا ہے مگر وقت آنے پر امریکا کو یقینا ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ بھارت پہلے ہی 1962ء میں چین کی مار کھا کر توبہ کرچکا ہے۔ تاہم پاکستان کو ضرور بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار رکھنا ہو گا کیونکہ بھارت پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ 6 ستمبر 1965ء کے اس کے اچانک حملے کو پاکستانی قوم ابھی تک نہیں بھول سکی ہے۔