جمہوری اقداراور بردبار پاکستان پہلا حصہ
یہ بات تو الم نشرح ہے کہ وطن عزیزجن معروضی حالات سے نبردآزماء ہے انھیں کسی طور پر معمولی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
RAWALPINDI:
حالات و جمہوری اقدار: یہ بات تو الم نشرح ہے کہ وطن عزیزجن معروضی حالات سے نبردآزماء ہے انھیں کسی طور پر معمولی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اہل دانش و محب وطن پاکستانی اس بات پر متفق ہیں کہ ممالک عالم کے مابین ہمارے قومی تشخص کے متاثر ہوتے رہنے کی اساسی ذمے داری انھی حالات پر عائد ہوتی ہے۔ ان کو یہ احساس ہے کہ ان موجودہ زمینی حالات کے تسلسل سے ملک و ملت کے لیے اچھے نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔
اس لیے ان کی جانب سے موجودہ حالات کو تبدیل کرنے کا مطالبہ دن بدن شدت اختیار کر رہا ہے اور اس تبدیلی کے لیے سب سے زیادہ زور جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھ کر جمہوری روایات کے استحکام اور ان کے عملی اطلاق کو یقینی بنائے جانے کے نکتے پر مرتکز دکھائی دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اہل دانش حضرات پاکستان کے موجودہ گمبھیر مسائل و بھیانک معروضی صورتحال کا ذمے دار بھی غیر جمہوری حکومتوں کو قرار دیتے آئے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے موجودہ حالات اور سن 71ء میں اقوام عالم کی تاریخ میں اپنے نام نرالی رسموں کو رقم کرائے جا نے کا ایک ناقابل تقسیم سلسلہ ضرور دیکھا جا سکتا ہے۔ مشرقی حصہ علیحدہ ہونے والے منفرد و لاثانی تاریخی واقعے کے ذمے داروں کی فہرست میں بہت سی سر برآوردہ مقدس شخصیات پر تاریخ نے فرد جرم عائدکر کے اپنا ابتدائی فیصلہ سنا بھی دیا ہے۔
قابل غور بات کہ ہماری قومی و ملی تاریخ میں ''انتخاب، اقتدار کی منتقلی، سازش اور غداری'' کی اصطلاحیں کچھ اس ادا سے رقم کی گئی ہیں کہ ان کی روشنی میں کوئی بھی صاحب ِعقل انسان اسے جمہوریت کے تسلسل کے لیے خطرہ قرار دیے بغیر رہ نہیں سکتا جب کہ ان اصطلاحوں کی تاریخ اتنی واضح اور ٹھوس عملی و عقلی پیمانوں پر مبنی ہیں کہ ہم برملہ طور پر جمہوریت کو ان ''اصطلاحوں'' کی ماں قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ جمہوریت کا نظریاتی عملی بنیادی نکتہ ہی اسی مطالبے پر ٹکا ہوا ہے کہ ''مجھے وہ دے دو، جو میں چاہتا ہوں، تا کہ میں یہ ثابت کر سکوں میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں۔'' اسی لیے جہاں جمہوریت اپنے ابتدائی قدم جماتی ہے وہاں یہ مطالبہ بڑھتے بڑھتے ریاستوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا رہا ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر کوئی شیخ مجیب الرحمٰن یا ذوالفقارعلی بھٹو جمہوری میدان عمل میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملتا بھی ہے تو ہمیں کسی گہرے صدمے میں ڈوب جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ بہت قلیل عرصے میں بہترین اور تربیت یافتہ 90 ہزار فوجیوں کو جنگی قیدی بنانے کے لیے مطلوبہ کثیر تعداد میں جنگی وسائل سمیت افرادی و عسکری قوت کی فراہمی کو یقینی بنانے میں نام نہاد ''جمہوری اقدار'' کا کون سا کردار رہ جاتا ہے؟ شاید پھر ہمیں پاکستان میں جمہوریت کی ملوکیت کو سمجھنے کے لیے ریاستی زمینوں اور عمارتوں پر قبضہ کر کے اپنے جمہوریت پسند دفاتر قائم کرنے کے باوجود محرومیوں کا رونا رو کر ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی کو بھی جائز سمجھنے والوں کے لفاظی لب و لہجے، انداز و اطوار کو سمجھنے میں مدد بھی مل سکے۔
عالم انسانیت کے مشترکہ ارتقائی مرحلے کے موجودہ ممالک عالم میں رائج جمہوریت کے اسی مطالبے نے ریاستوں کو تقسیم و کمزور کر کے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ماتحت کیا ہوا ہے۔ جمہوریت کی عظیم ترین خدمات پر مامور امریکا ہی کی مثال سامنے رکھ لیں کہ اب وہ اپنی برتری و معتبری کی علامت یعنی انسانوں کو فلکی اجسام پر منتقل کرنے کی ذمے داریوں کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہو چکا ہے کیونکہ امریکی ادارے ناسا نے ''آمدنی اٹھنی، خرچہ روپیہ'' کے مصداق اپنا ایک خلائی اسٹیشن بیچنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ امریکا جیسی جمہوری اقدار کا عملی شاہکار بنی، ہوشرباء شرح خواندگی و قومی پیداوار (جی ڈی پی) رکھنے والی ریاست اس تحقیق کا خرچہ نہیں اٹھا سکی لیکن جلد ہی غیر ریاستی سرمایہ دارانہ نظا م کو مستحکم کرتی جمہوری اقدار کی پر مسرت برکات سے اس بوجھ کو اٹھانے والی بہت سی ''جمہوری اقدار کی پاسدار و سرمایہ دار'' ریاستیں پیدا ہو جائینگی۔
جمہوری لذتیں اور Shit: جمہوریت جن ممالک سے ہو کر پاکستان تک پہنچی ہے وہاں بلا شبہ اس نے اپنے ابتدائی ایام میں اختلاف و تقسیم کو جنم دیا جس نے ہیجانی حالات پیدا کر کے ریاستوں کو کمزور کیا اس طرح ریاستوں میں جمہوری اقدار پھلنے پھولنے لگے۔ مستحکم جمہوری اقدار رکھنے والے ممالک کی سب سے بڑی نشانی چھوٹا خاندان زندگی آسان کی سوچ کا اس طرح عملی مظاہرہ ہوتا ہے کہ بچے دو ہی اچھے جو والدین کے لیے اولڈ ایج ہوم تعمیر کراتے جائیں اور آسان زندگی کے لیے ضروری ہے کہ عورت بھی مرد کے برابر سرگرم بنے اور دولت کما کر دکھائے جو بڑھاپے میں ان کے کام آ سکے۔
پھر چاہے وہ اس وقت اولڈ ایج ہوم میں ہوں یا اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کی حیثیت رکھنے والے گھر میں رہ رہے ہوں۔ شاید اسی لیے ان معاشروں میں اور زیادہ آسان زندگی کے حصول اور خود کو زیادہ طاقتور ثابت کرنے کے لیے Divorce کا حق بھی بار بار استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ شاید اسی لیے دنیا کے مختلف خطوں میں ہانگ کانگ، دبئی، لاس ویگاس اور اب اورلینڈو جیسے آزاد اور جمہوری لذتوں سے بھرپور شہروں کی جانب جمہوریت پسندوں کو متوجہ کرایا جانے لگا ہے۔
شاید اسی لیے اقوام عالم کو ان کے ماضی میں شاندار اور عظیم قومیں قرار دیے جانے کے تسلسل کی نغمہ سرائی کے ساتھ موجودہ مرحلے میں جمہوری قدروں سے دور رہنے پر انھیں Shit قرار دیے جانے کی رسم مضبوط ہوتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب کہ جمہوری قدروں کے اتنے بہترین عملی اطلاق کے بعد جو معاشرتی زندگی ان ممالک میں نموء پذیر ہوئی ہے ان میں پیدا ہو جانے والے ہیجان اور وحشت زدہ کرنے والی کیفیت نے ان کی تاریخ سمیت موجودہ اظہار تک جو گل کھلائے ہیں ان کے حتمی نتائج میں اب وہاں دو بچے پالنا بھی وبال جان بن چکا ہے۔
لیکن اہل دانش حضرات ان کی جی ڈی پی، شرح خواندگی، جمہوریت پسند عالمی اداروںکی جانب سے لفظی نغمہ سرائی، ان عالمی اداروں کی ملازمتیں اور امداد کے اعداد و شمار پیش کرتے نہیں تھکتے اور ریاست کو ان کی طرح ترقی حاصل کرکے ان کے جیسا بن جانے کی نصیحتیں فرمانے میں مصروف کار ہیں۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں ''وہ'' کہ جنہوں نے یورپ کی ایک ہزار سال کی تاریخ کو بلاوجہ (صلیبی و اصلاحی تحریکوں کے نام سے) خونی جنگوں میں جھونک دیا تھا بالآخر دنیا کو دو عالمی جنگوں کا تحفہ بھی دیا۔
ان دو عالمگیر جنگوں کی ذمے داری اس وقت کے ڈکٹیٹروں پر عائد کر کے تاوان جنگ جمہوریت پسندوں کے حوالے کیا جائے تو پھر ہیروشیما اور ناگاساکی میں قیامت صغریٰ برپا کرنے کا جرم کون سی اقدار پر عائد کیا جا سکتا ہے؟ جنہوں نے جمہوری اقدار کے فروغ میں جارحیت پسند فوجیں تیار کرنے کی فیکٹریاں بنا رکھی تھیں وہ دنیا کو تقسیم و جنگ کے سوا بھی کچھ دے سکتے ہیں؟ اور جو ان اصلاحی جمہوری اقدامات کو اپنی ریاستوں میں مکمل طور رائج کرنے سے گزیراں رہتے آ رہے ہیں ان کو Shit کے سوا وہ کیا خطاب اور کون سے حالات دے سکتے ہیں؟
(جاری ہے )
حالات و جمہوری اقدار: یہ بات تو الم نشرح ہے کہ وطن عزیزجن معروضی حالات سے نبردآزماء ہے انھیں کسی طور پر معمولی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اہل دانش و محب وطن پاکستانی اس بات پر متفق ہیں کہ ممالک عالم کے مابین ہمارے قومی تشخص کے متاثر ہوتے رہنے کی اساسی ذمے داری انھی حالات پر عائد ہوتی ہے۔ ان کو یہ احساس ہے کہ ان موجودہ زمینی حالات کے تسلسل سے ملک و ملت کے لیے اچھے نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔
اس لیے ان کی جانب سے موجودہ حالات کو تبدیل کرنے کا مطالبہ دن بدن شدت اختیار کر رہا ہے اور اس تبدیلی کے لیے سب سے زیادہ زور جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھ کر جمہوری روایات کے استحکام اور ان کے عملی اطلاق کو یقینی بنائے جانے کے نکتے پر مرتکز دکھائی دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اہل دانش حضرات پاکستان کے موجودہ گمبھیر مسائل و بھیانک معروضی صورتحال کا ذمے دار بھی غیر جمہوری حکومتوں کو قرار دیتے آئے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے موجودہ حالات اور سن 71ء میں اقوام عالم کی تاریخ میں اپنے نام نرالی رسموں کو رقم کرائے جا نے کا ایک ناقابل تقسیم سلسلہ ضرور دیکھا جا سکتا ہے۔ مشرقی حصہ علیحدہ ہونے والے منفرد و لاثانی تاریخی واقعے کے ذمے داروں کی فہرست میں بہت سی سر برآوردہ مقدس شخصیات پر تاریخ نے فرد جرم عائدکر کے اپنا ابتدائی فیصلہ سنا بھی دیا ہے۔
قابل غور بات کہ ہماری قومی و ملی تاریخ میں ''انتخاب، اقتدار کی منتقلی، سازش اور غداری'' کی اصطلاحیں کچھ اس ادا سے رقم کی گئی ہیں کہ ان کی روشنی میں کوئی بھی صاحب ِعقل انسان اسے جمہوریت کے تسلسل کے لیے خطرہ قرار دیے بغیر رہ نہیں سکتا جب کہ ان اصطلاحوں کی تاریخ اتنی واضح اور ٹھوس عملی و عقلی پیمانوں پر مبنی ہیں کہ ہم برملہ طور پر جمہوریت کو ان ''اصطلاحوں'' کی ماں قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ جمہوریت کا نظریاتی عملی بنیادی نکتہ ہی اسی مطالبے پر ٹکا ہوا ہے کہ ''مجھے وہ دے دو، جو میں چاہتا ہوں، تا کہ میں یہ ثابت کر سکوں میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں۔'' اسی لیے جہاں جمہوریت اپنے ابتدائی قدم جماتی ہے وہاں یہ مطالبہ بڑھتے بڑھتے ریاستوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا رہا ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر کوئی شیخ مجیب الرحمٰن یا ذوالفقارعلی بھٹو جمہوری میدان عمل میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملتا بھی ہے تو ہمیں کسی گہرے صدمے میں ڈوب جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ بہت قلیل عرصے میں بہترین اور تربیت یافتہ 90 ہزار فوجیوں کو جنگی قیدی بنانے کے لیے مطلوبہ کثیر تعداد میں جنگی وسائل سمیت افرادی و عسکری قوت کی فراہمی کو یقینی بنانے میں نام نہاد ''جمہوری اقدار'' کا کون سا کردار رہ جاتا ہے؟ شاید پھر ہمیں پاکستان میں جمہوریت کی ملوکیت کو سمجھنے کے لیے ریاستی زمینوں اور عمارتوں پر قبضہ کر کے اپنے جمہوریت پسند دفاتر قائم کرنے کے باوجود محرومیوں کا رونا رو کر ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی کو بھی جائز سمجھنے والوں کے لفاظی لب و لہجے، انداز و اطوار کو سمجھنے میں مدد بھی مل سکے۔
عالم انسانیت کے مشترکہ ارتقائی مرحلے کے موجودہ ممالک عالم میں رائج جمہوریت کے اسی مطالبے نے ریاستوں کو تقسیم و کمزور کر کے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ماتحت کیا ہوا ہے۔ جمہوریت کی عظیم ترین خدمات پر مامور امریکا ہی کی مثال سامنے رکھ لیں کہ اب وہ اپنی برتری و معتبری کی علامت یعنی انسانوں کو فلکی اجسام پر منتقل کرنے کی ذمے داریوں کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہو چکا ہے کیونکہ امریکی ادارے ناسا نے ''آمدنی اٹھنی، خرچہ روپیہ'' کے مصداق اپنا ایک خلائی اسٹیشن بیچنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ امریکا جیسی جمہوری اقدار کا عملی شاہکار بنی، ہوشرباء شرح خواندگی و قومی پیداوار (جی ڈی پی) رکھنے والی ریاست اس تحقیق کا خرچہ نہیں اٹھا سکی لیکن جلد ہی غیر ریاستی سرمایہ دارانہ نظا م کو مستحکم کرتی جمہوری اقدار کی پر مسرت برکات سے اس بوجھ کو اٹھانے والی بہت سی ''جمہوری اقدار کی پاسدار و سرمایہ دار'' ریاستیں پیدا ہو جائینگی۔
جمہوری لذتیں اور Shit: جمہوریت جن ممالک سے ہو کر پاکستان تک پہنچی ہے وہاں بلا شبہ اس نے اپنے ابتدائی ایام میں اختلاف و تقسیم کو جنم دیا جس نے ہیجانی حالات پیدا کر کے ریاستوں کو کمزور کیا اس طرح ریاستوں میں جمہوری اقدار پھلنے پھولنے لگے۔ مستحکم جمہوری اقدار رکھنے والے ممالک کی سب سے بڑی نشانی چھوٹا خاندان زندگی آسان کی سوچ کا اس طرح عملی مظاہرہ ہوتا ہے کہ بچے دو ہی اچھے جو والدین کے لیے اولڈ ایج ہوم تعمیر کراتے جائیں اور آسان زندگی کے لیے ضروری ہے کہ عورت بھی مرد کے برابر سرگرم بنے اور دولت کما کر دکھائے جو بڑھاپے میں ان کے کام آ سکے۔
پھر چاہے وہ اس وقت اولڈ ایج ہوم میں ہوں یا اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کی حیثیت رکھنے والے گھر میں رہ رہے ہوں۔ شاید اسی لیے ان معاشروں میں اور زیادہ آسان زندگی کے حصول اور خود کو زیادہ طاقتور ثابت کرنے کے لیے Divorce کا حق بھی بار بار استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ شاید اسی لیے دنیا کے مختلف خطوں میں ہانگ کانگ، دبئی، لاس ویگاس اور اب اورلینڈو جیسے آزاد اور جمہوری لذتوں سے بھرپور شہروں کی جانب جمہوریت پسندوں کو متوجہ کرایا جانے لگا ہے۔
شاید اسی لیے اقوام عالم کو ان کے ماضی میں شاندار اور عظیم قومیں قرار دیے جانے کے تسلسل کی نغمہ سرائی کے ساتھ موجودہ مرحلے میں جمہوری قدروں سے دور رہنے پر انھیں Shit قرار دیے جانے کی رسم مضبوط ہوتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب کہ جمہوری قدروں کے اتنے بہترین عملی اطلاق کے بعد جو معاشرتی زندگی ان ممالک میں نموء پذیر ہوئی ہے ان میں پیدا ہو جانے والے ہیجان اور وحشت زدہ کرنے والی کیفیت نے ان کی تاریخ سمیت موجودہ اظہار تک جو گل کھلائے ہیں ان کے حتمی نتائج میں اب وہاں دو بچے پالنا بھی وبال جان بن چکا ہے۔
لیکن اہل دانش حضرات ان کی جی ڈی پی، شرح خواندگی، جمہوریت پسند عالمی اداروںکی جانب سے لفظی نغمہ سرائی، ان عالمی اداروں کی ملازمتیں اور امداد کے اعداد و شمار پیش کرتے نہیں تھکتے اور ریاست کو ان کی طرح ترقی حاصل کرکے ان کے جیسا بن جانے کی نصیحتیں فرمانے میں مصروف کار ہیں۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں ''وہ'' کہ جنہوں نے یورپ کی ایک ہزار سال کی تاریخ کو بلاوجہ (صلیبی و اصلاحی تحریکوں کے نام سے) خونی جنگوں میں جھونک دیا تھا بالآخر دنیا کو دو عالمی جنگوں کا تحفہ بھی دیا۔
ان دو عالمگیر جنگوں کی ذمے داری اس وقت کے ڈکٹیٹروں پر عائد کر کے تاوان جنگ جمہوریت پسندوں کے حوالے کیا جائے تو پھر ہیروشیما اور ناگاساکی میں قیامت صغریٰ برپا کرنے کا جرم کون سی اقدار پر عائد کیا جا سکتا ہے؟ جنہوں نے جمہوری اقدار کے فروغ میں جارحیت پسند فوجیں تیار کرنے کی فیکٹریاں بنا رکھی تھیں وہ دنیا کو تقسیم و جنگ کے سوا بھی کچھ دے سکتے ہیں؟ اور جو ان اصلاحی جمہوری اقدامات کو اپنی ریاستوں میں مکمل طور رائج کرنے سے گزیراں رہتے آ رہے ہیں ان کو Shit کے سوا وہ کیا خطاب اور کون سے حالات دے سکتے ہیں؟
(جاری ہے )