سب کا دشمن ’’شاپر‘‘
آپ ایک ایسے آدمی کو جس سے آپ کبھی ملے نہیں، جس کو آپ نے کبھی دیکھا تک نہیں
آپ ایک ایسے آدمی کو جس سے آپ کبھی ملے نہیں، جس کو آپ نے کبھی دیکھا تک نہیں، جس سے آپ کی کوئی دشمنی بھی نہیں، ایسے آدمی کو آپ کیوں مارنا چاہتے ہیں؟ وہ انجان بچے جن کے نام نہ آپ کو پتہ ہیں اور نہ انھیں آپ کا نام، آپ ان بچوں کو ان کے بچپن سے ہی بیماری آزاری میں مبتلا کر دینے پہ آخر کیوں تلے بیٹھے ہیں؟ اچھا، چلیے یہ تو سارے انجانے بیگانے لوگ ہیں، آپ کو اپنے عزیز دوستوں، رشتے داروں یہاں تک کہ گھر والوں تک پہ بھی ترس نہیں آتا؟ اپنے والدین، بہن بھائیوں، بیوی بچوں پہ رحم نہیں آتا کہ آپ دن رات انھیں پھیپھڑوںکی بیماریوں اور کینسر جیسے موذی جان لیوا امراض کی جانب دھکیلنے میں مگن ہیں۔
ان بے چاروں کو وقت سے پہلے آپ کیوں زندگی سے دور کر دینا چاہتے ہیں؟ ویسے جیسے آپ کو احساس نہیں ایسے ہی تقریباً ان تمام لوگوں کو بھی آپ کی کوئی پرواہ نہیں، وہ بھی آپ کے ساتھ بلکہ خود اپنے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں جو آپ ان کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ کر رہے ہیں یعنی یہاں تو ہر ایک ہی ہر ایک کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے۔ پھر ذرا یہ بھی بتا دیجیے کہ آپ کے محلے، علاقے، گاؤں، قصبے، شہر بلکہ اس ملک نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ آپ یہ موجود بچی کچھی چند شہری سہولیات مثلاً آب پاشی، نکاسی، آب، سیوریج کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں، آپ کو اس ملک کی زراعت سے کیا مسئلہ ہے، مویشیوں سے کیا دشمنی ہے کہ آپ ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور لگتا ہے کہ ان کی مکمل تباہی تک نچلے نہیں بیٹھیں گے، آپ کو آخر قدرت کے بنائے محفوظ قدرتی ماحول، صاف ہوا، شفاف پانی اور زر خیز مٹی سے ایسی کیا دشمنی ہے کہ آپ ان سب کو برباد کیے جا رہے ہیں۔
کیا؟ آپ ایسا کچھ نہیں کر رہے! نہیں جناب آپ ایسے سیاست دانوں کی طرح مکر نہیں سکتے کیوں کہ آپ یہ سب کچھ کر رہے ہیں، ہر روزکر رہے ہیں اور دن میں کئی کئی بار کر رہے ہیں۔ اب اگر آپ کرپٹ سیاست دانوں کی طرح کہیں کہ آپ ایسا کچھ بھی ثابت نہیں کر سکتے تو آپ غلطی کریں گے کیونکہ آپ خود ہی یہ سب ثابت کرتے ہیں جب آپ دن میں کئی کئی بار کئی کئی چیزیں پولی تھن کے تھیلوں میں جنھیں لوگ جاہلانہ پیار سے ''شاپر'' کہتے ہیں ڈال کر لاتے لے جاتے ہیں۔ دکاندار سے پلاسٹک کی ان انسان، حیوان ماحول دشمن تھیلیوں پہ اصرار کرتے ہیں۔ پولی تھن کی یہ تھیلیاں آپ کی سوچ سے بھی زیادہ موذی اور مضر ہیں۔
ہر روز ہمارے شہروں اور شہروں سے باہر کچرا کنڈیوں میں اندھا دھند جلائے جانے والے کوڑے کے عظیم الشان انبار میں پولی تھن تھیلیوں کے پہاڑکے پہاڑ موجود ہوتے ہیں۔ جن کے جلنے سے ہائیڈروجن سائینائیڈ پیدا ہوتی ہے جس سے کینسر جیسی جان لیوا بیماری لاحق ہو سکتی ہے اس کے علاوہ سانس کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ آپ کے ہر پولی تھن شاپنگ بیگ کے پھینکنے سے آپ خود سمیت ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کو پولی تھن کے ان شاپنگ بیگز کے جلنے کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں اور تکالیف میں مبتلا کرنے کے ذمے داروں میں خود بخود شامل ہو جاتے ہیں۔ آپ کا پھینکا ہوا ایک چھوٹا معمولی پولی تھن کا تھیلا جب جلتا ہے تو اس کے زہریلے مادے فضا میں پھیل کر نجانے کتنے ہی انسانوں اور دوسرے جانداروں کو متاثرکرتے ہیں۔ جس کی ذمے داری ظاہر ہے آپ سمیت تمام پولی تھن کی تھیلیاں استعمال کرنے والوں پر ہے یہ گناہ جاریہ ہے جو ہر لمحے ضرب در ضرب ہو کر بڑھتا ہے۔
یہ پلاسٹک دنیا کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ اس سال جنوری میں شایع ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم (WEF) کی رپورٹ "New Plastics Economy" کے مطابق ہر سال کم از کم 8 ملین ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندروں میں پہنچ جاتا ہے یہ ہر منٹ کچرے بھرا ایک ٹرک سمندر میں انڈیلنے کے برابر ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو 2030ء تک یہ کچرے بھرے دو ٹرک اور 2050ء تک یہ کچرے بھرے چار ٹرکوں کا کچرا سمندروں میں پھینکنے کے برابر ہو گا۔
اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہو گا کہ 2050ء تک دنیا کے سمندروں میں مچھلیوں اور دوسری سمندری مخلوقات کے مقابلے میں پلاسٹک کی آلودگی کا وزن زیادہ ہو گا۔ پلاسٹک کی آلودگی سے نہ صرف پانی کے ذخیرے تیزی سے آلودہ ہو رہے ہیں بلکہ مویشیوں اور زرعی زمینوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے، ادھر آپ اپنے ہاں دیکھ لیجیے تو کراچی صرف کچراکنڈی کے نالوں سے لے کر کاغان کی جھیل سیف الملوک تک آپ کو ہر طرف پلاسٹک کی تھیلیاں ہی نظرآئیں گی۔ ابھی جب مون سون کی بارشوں کے موقع پر ٹی وی نیوز چینلز والوں کو وقتی جوش چڑھا تو انھوں نے کراچی کچرا کنڈی کے تجاوزات زدہ نالے دکھانے شروع کر دیے، کچرے سے اٹے ان نالوں میں اگر سارا نہیں تو تقریباً 90 فی صد کچرا پولی تھن کی تھیلیوں پر مشتمل نظر آئے گا۔
مقدس وڈیرہ راج نے کراچی کچرا کنڈی کے ان نالوں کی صفائی کے لیے مون سون کی بارشیں شروع ہونے کے بعد تاریخ میں پہلی بار کمالِ فیاضی و سخاوت کا مظاہرہ کیا اور کراچی سے ہر سال حاصل ہونے والے کئی سو ارب روپوں میں سے ایک ارب کے آدھے سے کچھ کم دینے کا تاریخی اعلان کیا۔ مون سون اب اپنے اختتام کو ہے اورکراچی کچرا کنڈی کے نالے ویسے ہی کچرے سے اٹے پڑے ہیں۔
بہرحال وڈیرہ راج کو آپ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ البتہ آپ یہ ضرور سوچ لیجیے کہ پلاسٹک کی تھیلیاں آپ کے محلے کی گٹر لائنوں سے لے کر بڑے بڑے نالوں تک کو بند کر کے ہزاروں لاکھوں لوگوں کے لیے شدید تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔ گٹرکا پانی پھیلنے سے نہ صرف گندگی بلکہ بیماریاں بھی پھیلتی ہیں جن کا ذمے دار پلاسٹک کی تھیلی استعمال کرنے والا ہر شخص ہے۔ پلاسٹک کی تھیلیوں سے بچیے، گھر میں ایک سادہ سا کپڑے کا تھیلا رکھیے اور سودا اس میں لایئے، زیادہ تر چیزیں مثلاً پھل، سبزی، مصالحوں، بسکٹوں وغیرہ کے پیکٹ اور بوتلیں وغیرہ آپ کسی پلاسٹک کی تھیلی میں ڈالے بغیر اس کپڑے کے تھیلے میں رکھ کر گھر لا سکتے ہیں۔
صرف دال، آٹا، باجرہ، وغیرہ آپ کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں ڈال کرکپڑے کے تھیلے میں ڈالنا ہوگا وہ بھی اس لیے کہ دکانداروں نے کاغذ کے لفافے رکھنے چھوڑ دیے ہیں اور کپڑے کے تھیلے میں ان چیزوں کے دانے بکھر جائیں گے۔ بہر حال آپ باقی تمام چیزیں صرف کپڑے کے تھیلے میں ڈال کر لا سکتے ہیں یعنی فی فرد ہر روزکم و بیش درجن بھر پلاسٹک کی تھیلیاں کم ہوں گی تو آبادی کے لحاظ سے یہ روز کی کروڑوں کم تھیلیاں ہوں گی ورنہ ہمارے ہاں تو جہالت کا وہ عالم ہے کہ گرما گرم سالن اور چائے بھی پلاسٹک کی تھیلیوں میں لوگ لیے پھرتے ہیں۔ بہر حال ان پلاسٹک ''شاپرز'' سے آپ جتنا بچیںگے اتنے ہی آپ کے دوسروں کو تکلیف اور بیماری میں مبتلا کرنے کے گناہ کم ہوںگے، ماحول بہتر اور شہر صاف ہو گا۔ ہم نے اپنے گھر میں کپڑے کا تھیلا رکھا ہوا ہے اور اسی میں سودا آتا ہے آپ بھی یہ کر لیجیے اور دنیا اورآخرت کو ''شاپر'' کے شر سے بچا لیجیے۔
ان بے چاروں کو وقت سے پہلے آپ کیوں زندگی سے دور کر دینا چاہتے ہیں؟ ویسے جیسے آپ کو احساس نہیں ایسے ہی تقریباً ان تمام لوگوں کو بھی آپ کی کوئی پرواہ نہیں، وہ بھی آپ کے ساتھ بلکہ خود اپنے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں جو آپ ان کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ کر رہے ہیں یعنی یہاں تو ہر ایک ہی ہر ایک کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے۔ پھر ذرا یہ بھی بتا دیجیے کہ آپ کے محلے، علاقے، گاؤں، قصبے، شہر بلکہ اس ملک نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ آپ یہ موجود بچی کچھی چند شہری سہولیات مثلاً آب پاشی، نکاسی، آب، سیوریج کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں، آپ کو اس ملک کی زراعت سے کیا مسئلہ ہے، مویشیوں سے کیا دشمنی ہے کہ آپ ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور لگتا ہے کہ ان کی مکمل تباہی تک نچلے نہیں بیٹھیں گے، آپ کو آخر قدرت کے بنائے محفوظ قدرتی ماحول، صاف ہوا، شفاف پانی اور زر خیز مٹی سے ایسی کیا دشمنی ہے کہ آپ ان سب کو برباد کیے جا رہے ہیں۔
کیا؟ آپ ایسا کچھ نہیں کر رہے! نہیں جناب آپ ایسے سیاست دانوں کی طرح مکر نہیں سکتے کیوں کہ آپ یہ سب کچھ کر رہے ہیں، ہر روزکر رہے ہیں اور دن میں کئی کئی بار کر رہے ہیں۔ اب اگر آپ کرپٹ سیاست دانوں کی طرح کہیں کہ آپ ایسا کچھ بھی ثابت نہیں کر سکتے تو آپ غلطی کریں گے کیونکہ آپ خود ہی یہ سب ثابت کرتے ہیں جب آپ دن میں کئی کئی بار کئی کئی چیزیں پولی تھن کے تھیلوں میں جنھیں لوگ جاہلانہ پیار سے ''شاپر'' کہتے ہیں ڈال کر لاتے لے جاتے ہیں۔ دکاندار سے پلاسٹک کی ان انسان، حیوان ماحول دشمن تھیلیوں پہ اصرار کرتے ہیں۔ پولی تھن کی یہ تھیلیاں آپ کی سوچ سے بھی زیادہ موذی اور مضر ہیں۔
ہر روز ہمارے شہروں اور شہروں سے باہر کچرا کنڈیوں میں اندھا دھند جلائے جانے والے کوڑے کے عظیم الشان انبار میں پولی تھن تھیلیوں کے پہاڑکے پہاڑ موجود ہوتے ہیں۔ جن کے جلنے سے ہائیڈروجن سائینائیڈ پیدا ہوتی ہے جس سے کینسر جیسی جان لیوا بیماری لاحق ہو سکتی ہے اس کے علاوہ سانس کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ آپ کے ہر پولی تھن شاپنگ بیگ کے پھینکنے سے آپ خود سمیت ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کو پولی تھن کے ان شاپنگ بیگز کے جلنے کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں اور تکالیف میں مبتلا کرنے کے ذمے داروں میں خود بخود شامل ہو جاتے ہیں۔ آپ کا پھینکا ہوا ایک چھوٹا معمولی پولی تھن کا تھیلا جب جلتا ہے تو اس کے زہریلے مادے فضا میں پھیل کر نجانے کتنے ہی انسانوں اور دوسرے جانداروں کو متاثرکرتے ہیں۔ جس کی ذمے داری ظاہر ہے آپ سمیت تمام پولی تھن کی تھیلیاں استعمال کرنے والوں پر ہے یہ گناہ جاریہ ہے جو ہر لمحے ضرب در ضرب ہو کر بڑھتا ہے۔
یہ پلاسٹک دنیا کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ اس سال جنوری میں شایع ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم (WEF) کی رپورٹ "New Plastics Economy" کے مطابق ہر سال کم از کم 8 ملین ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندروں میں پہنچ جاتا ہے یہ ہر منٹ کچرے بھرا ایک ٹرک سمندر میں انڈیلنے کے برابر ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو 2030ء تک یہ کچرے بھرے دو ٹرک اور 2050ء تک یہ کچرے بھرے چار ٹرکوں کا کچرا سمندروں میں پھینکنے کے برابر ہو گا۔
اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہو گا کہ 2050ء تک دنیا کے سمندروں میں مچھلیوں اور دوسری سمندری مخلوقات کے مقابلے میں پلاسٹک کی آلودگی کا وزن زیادہ ہو گا۔ پلاسٹک کی آلودگی سے نہ صرف پانی کے ذخیرے تیزی سے آلودہ ہو رہے ہیں بلکہ مویشیوں اور زرعی زمینوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے، ادھر آپ اپنے ہاں دیکھ لیجیے تو کراچی صرف کچراکنڈی کے نالوں سے لے کر کاغان کی جھیل سیف الملوک تک آپ کو ہر طرف پلاسٹک کی تھیلیاں ہی نظرآئیں گی۔ ابھی جب مون سون کی بارشوں کے موقع پر ٹی وی نیوز چینلز والوں کو وقتی جوش چڑھا تو انھوں نے کراچی کچرا کنڈی کے تجاوزات زدہ نالے دکھانے شروع کر دیے، کچرے سے اٹے ان نالوں میں اگر سارا نہیں تو تقریباً 90 فی صد کچرا پولی تھن کی تھیلیوں پر مشتمل نظر آئے گا۔
مقدس وڈیرہ راج نے کراچی کچرا کنڈی کے ان نالوں کی صفائی کے لیے مون سون کی بارشیں شروع ہونے کے بعد تاریخ میں پہلی بار کمالِ فیاضی و سخاوت کا مظاہرہ کیا اور کراچی سے ہر سال حاصل ہونے والے کئی سو ارب روپوں میں سے ایک ارب کے آدھے سے کچھ کم دینے کا تاریخی اعلان کیا۔ مون سون اب اپنے اختتام کو ہے اورکراچی کچرا کنڈی کے نالے ویسے ہی کچرے سے اٹے پڑے ہیں۔
بہرحال وڈیرہ راج کو آپ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ البتہ آپ یہ ضرور سوچ لیجیے کہ پلاسٹک کی تھیلیاں آپ کے محلے کی گٹر لائنوں سے لے کر بڑے بڑے نالوں تک کو بند کر کے ہزاروں لاکھوں لوگوں کے لیے شدید تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔ گٹرکا پانی پھیلنے سے نہ صرف گندگی بلکہ بیماریاں بھی پھیلتی ہیں جن کا ذمے دار پلاسٹک کی تھیلی استعمال کرنے والا ہر شخص ہے۔ پلاسٹک کی تھیلیوں سے بچیے، گھر میں ایک سادہ سا کپڑے کا تھیلا رکھیے اور سودا اس میں لایئے، زیادہ تر چیزیں مثلاً پھل، سبزی، مصالحوں، بسکٹوں وغیرہ کے پیکٹ اور بوتلیں وغیرہ آپ کسی پلاسٹک کی تھیلی میں ڈالے بغیر اس کپڑے کے تھیلے میں رکھ کر گھر لا سکتے ہیں۔
صرف دال، آٹا، باجرہ، وغیرہ آپ کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں ڈال کرکپڑے کے تھیلے میں ڈالنا ہوگا وہ بھی اس لیے کہ دکانداروں نے کاغذ کے لفافے رکھنے چھوڑ دیے ہیں اور کپڑے کے تھیلے میں ان چیزوں کے دانے بکھر جائیں گے۔ بہر حال آپ باقی تمام چیزیں صرف کپڑے کے تھیلے میں ڈال کر لا سکتے ہیں یعنی فی فرد ہر روزکم و بیش درجن بھر پلاسٹک کی تھیلیاں کم ہوں گی تو آبادی کے لحاظ سے یہ روز کی کروڑوں کم تھیلیاں ہوں گی ورنہ ہمارے ہاں تو جہالت کا وہ عالم ہے کہ گرما گرم سالن اور چائے بھی پلاسٹک کی تھیلیوں میں لوگ لیے پھرتے ہیں۔ بہر حال ان پلاسٹک ''شاپرز'' سے آپ جتنا بچیںگے اتنے ہی آپ کے دوسروں کو تکلیف اور بیماری میں مبتلا کرنے کے گناہ کم ہوںگے، ماحول بہتر اور شہر صاف ہو گا۔ ہم نے اپنے گھر میں کپڑے کا تھیلا رکھا ہوا ہے اور اسی میں سودا آتا ہے آپ بھی یہ کر لیجیے اور دنیا اورآخرت کو ''شاپر'' کے شر سے بچا لیجیے۔