انتخابی اصلاحات
اب قومی اور صوبائی الیکشن کے لیے اخراجات کی ایک مناسب حد تجویز کی گئی ہے۔
ملک میں الیکشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، حالانکہ اس وقت تک کوئی حتمی تاریخ نہیں بتائی گئی ہے، لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے سال کے شروع میں اور وسط سے پہلے انتخابات منعقد کرا دیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن جناب فخر الدین جی ابراہیم کی زیرِ قیادت اپنا موثر کردار ادا کرنے میں منہمک ہے اور اپنی اتھارٹی کو منوانے کے لیے کوشاں ہے اور اب تک اس کا کردار قابلِ تحسین رہا ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی انتخابی اخراجات کی حد سے متعلق ایک مستحسن فیصلہ دیا ہے اور اب قومی اور صوبائی الیکشن کے لیے اخراجات کی ایک مناسب حد تجویز کی گئی ہے، اس کے علاوہ وہ تمام چیزیں جن سے امیدوار اپنے ووٹرز کو ایک غیر مناسب حد تک متاثر کر سکتے ہیں ان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت پارلیمانی جمہوریت رائج ہے جس میں حلقہ بندی کی سیاست اپنے عروج پر ہے، اگرچہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے پارٹی بدلنے کے رجحان کو (جس کو لوٹا کریسی کہا جاتا ہے) ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ابھی بھی اس پر موثر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی بااثر وڈیروں اور زمینداروں (جن میں جنوبی پنجاب کے سیاستدان قابلِ ذکر ہیں) نے اگلے الیکشن آزادانہ حیثیت میں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ اپنی بارگیننگ پوزیشن (Bargaining Position) کو بہتر بنا کر جو پارٹی بھی اقدار میں آئے اس کے ساتھ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے شمولیت اختیار کی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے آزاد امیدواروں پر پابندی لگائی جائے تا کہ لوگوں کو قائل کیا جائے کہ وہ کسی جماعت کے نظریات اور منشور کو ووٹ دیں اور ایسے لوگوں کی بلیک میلنگ کا خاتمہ ہو اور لوگوں کے ووٹ کی فروخت بند کی جائے۔ اس اقدام سے مقامی دھڑے بندی اور جاگیرداری کے منفی پہلوؤں پر قابو پایا جاسکے گا۔
الیکشن کمیشن کا SMS کے ذریعے اپنے ووٹ کو چیک کرنے کا اقدام یقیناً بہت مستحسن ہے اور دنیا میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے ووٹ ووٹرز لسٹوں میں چیک کرنے کا آپشن دیا گیا ہے، لیکن اس وقت تقریباً 30 لاکھ لوگوں کا ووٹ کراچی سے منتقل کر کے دوسرے شہروں میں رجسٹر کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے یہ کیس بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اگرچہ انتخابی فہرستوں میں بے قاعدگیوں میں کافی کمی ہو گئی ہے مگر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
انتخابی اخراجات کی حد تو مقرر کر دی گئی ہے مگر اس پر عملدرآمد یقیناً ایک کٹھن کام ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی ان پابندیوں کا ذرا کم ہی خیال رکھا گیا ہے۔ الیکشن کے عمل میں سرکاری اختیارات کا بے جا استعمال، ٹرانسفرز اور پوسٹنگ کا بھی کافی عمل دخل ہوتا ہے جس سے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان شکایات کا نوٹس الیکشن کمیشن نے لیا ہے جب سندھ حکومت کو نوشہرو فیروز میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ان تمام سرگرمیوں سے روکا ہے جب کہ مخالفین حکومت پر پری پول دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں اس طرح کی سرگرمیاں اور چالاکیاں ہماری حکومتوں کا وطیرہ بن چکی ہیں اس کی روک تھام کے لیے الیکشن کمیشن کو بہت متحرک کردار ادا کرنا ہو گا، ویسا ہی کردار جیسا کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے الیکشن کمیشن نے ادا کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے ٹرانسپورٹ مہیا کرنے پر پابندی سپریم کورٹ کے حکم پر لگا دی ہے، لیکن اس سے ووٹرز ٹرن آؤٹ پر منفی اثر پڑنے کا امکان موجود ہے، اگرچہ الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں اپنے فنڈز سے ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کی بات کی ہے، لیکن محدود فنڈز کی وجہ سے شاید اس کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ پیش آئے گی، لہٰذا اس سلسلے میں عوام کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے تا کہ وہ اپنی ذمے داریوں سے آگاہ ہوتے ہوئے اپنا ووٹ ضرور کاسٹ کریں اور تھوڑی سی مشقت خود برداشت کریں۔ اس سلسلے میں کوشش کی جانی چاہیے کہ پولنگ بوتھ اور پولنگ اسٹیشنز لوگوں کے قریب سے قریب تر بنائے جائیں تا کہ ٹرانسپورٹ کی ضرورت کم سے کم پیش آئے اور لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب بھی ہو سکے۔
ان تمام حلقوں میں جہاں 40 فیصد سے کم ٹرن آؤٹ ہو وہاں انتخابات دوبارہ کرانے کا حکم دیا جائے کیونکہ اتنے کم ووٹ حاصل کرنے والا اس حلقے کی نمایندگی کا کیسے حقدار کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح ووٹر ٹرن آؤٹ بہتر بنانے اور لوگوں کی اس پورے عمل میں باقاعدہ شرکت بنانے کا موقع مل سکتا ہے اور زیادہ بہتر لیڈرشپ چننے میں مدد مل سکتی ہے۔
الیکشن میں ہتھیاروں کا استعمال ہر ممکن حد تک روکنا بہت ضروری ہے، جیسا کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سارے با اثر لوگ اور امیدوار لوگوں کو ڈرا دھمکا کر آزاد الیکشن پروسیس (Process) کو ختم کر دیتے ہیں اور لوگوں کا مینڈیٹ چرانے کی کوشش کرتے ہیں، اس پابندی پر عملدرآمد کرانے کے لیے حساس علاقوں میں فوج کو تعینات کرنے کی تجویز دی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ایک قابل تحسین اقدام کے ذریعے ریٹرننگ آفیسرز کے لیے عدالتی افسران کی خدمات حاصل کر لی ہیں جو کہ یقیناً کئی تنازعات سے بچنے کا موجب بنے گا۔ اگرچہ حکمراں جماعت کے کچھ لوگوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے لیکن وزیر اعظم کے آفس نے اس تاثر کو زائل کر دیا ہے جو کہ یقینا خوش آیند ہے۔
امید ہے کہ آنے والے دنوں میں الیکشن کمیشن اپنے موثر کردار سے اس ملک میں جمہوریت اور آزادی رائے کے زریں اصولوں کو تقویت بخشے گا، اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں، عوام اور میڈیا سب کو الیکشن کمیشن کی مدد کرنی ہو گی۔
سپریم کورٹ نے بھی انتخابی اخراجات کی حد سے متعلق ایک مستحسن فیصلہ دیا ہے اور اب قومی اور صوبائی الیکشن کے لیے اخراجات کی ایک مناسب حد تجویز کی گئی ہے، اس کے علاوہ وہ تمام چیزیں جن سے امیدوار اپنے ووٹرز کو ایک غیر مناسب حد تک متاثر کر سکتے ہیں ان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت پارلیمانی جمہوریت رائج ہے جس میں حلقہ بندی کی سیاست اپنے عروج پر ہے، اگرچہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے پارٹی بدلنے کے رجحان کو (جس کو لوٹا کریسی کہا جاتا ہے) ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ابھی بھی اس پر موثر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی بااثر وڈیروں اور زمینداروں (جن میں جنوبی پنجاب کے سیاستدان قابلِ ذکر ہیں) نے اگلے الیکشن آزادانہ حیثیت میں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ اپنی بارگیننگ پوزیشن (Bargaining Position) کو بہتر بنا کر جو پارٹی بھی اقدار میں آئے اس کے ساتھ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے شمولیت اختیار کی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے آزاد امیدواروں پر پابندی لگائی جائے تا کہ لوگوں کو قائل کیا جائے کہ وہ کسی جماعت کے نظریات اور منشور کو ووٹ دیں اور ایسے لوگوں کی بلیک میلنگ کا خاتمہ ہو اور لوگوں کے ووٹ کی فروخت بند کی جائے۔ اس اقدام سے مقامی دھڑے بندی اور جاگیرداری کے منفی پہلوؤں پر قابو پایا جاسکے گا۔
الیکشن کمیشن کا SMS کے ذریعے اپنے ووٹ کو چیک کرنے کا اقدام یقیناً بہت مستحسن ہے اور دنیا میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے ووٹ ووٹرز لسٹوں میں چیک کرنے کا آپشن دیا گیا ہے، لیکن اس وقت تقریباً 30 لاکھ لوگوں کا ووٹ کراچی سے منتقل کر کے دوسرے شہروں میں رجسٹر کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے یہ کیس بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اگرچہ انتخابی فہرستوں میں بے قاعدگیوں میں کافی کمی ہو گئی ہے مگر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
انتخابی اخراجات کی حد تو مقرر کر دی گئی ہے مگر اس پر عملدرآمد یقیناً ایک کٹھن کام ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی ان پابندیوں کا ذرا کم ہی خیال رکھا گیا ہے۔ الیکشن کے عمل میں سرکاری اختیارات کا بے جا استعمال، ٹرانسفرز اور پوسٹنگ کا بھی کافی عمل دخل ہوتا ہے جس سے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان شکایات کا نوٹس الیکشن کمیشن نے لیا ہے جب سندھ حکومت کو نوشہرو فیروز میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ان تمام سرگرمیوں سے روکا ہے جب کہ مخالفین حکومت پر پری پول دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں اس طرح کی سرگرمیاں اور چالاکیاں ہماری حکومتوں کا وطیرہ بن چکی ہیں اس کی روک تھام کے لیے الیکشن کمیشن کو بہت متحرک کردار ادا کرنا ہو گا، ویسا ہی کردار جیسا کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے الیکشن کمیشن نے ادا کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے ٹرانسپورٹ مہیا کرنے پر پابندی سپریم کورٹ کے حکم پر لگا دی ہے، لیکن اس سے ووٹرز ٹرن آؤٹ پر منفی اثر پڑنے کا امکان موجود ہے، اگرچہ الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں اپنے فنڈز سے ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کی بات کی ہے، لیکن محدود فنڈز کی وجہ سے شاید اس کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ پیش آئے گی، لہٰذا اس سلسلے میں عوام کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے تا کہ وہ اپنی ذمے داریوں سے آگاہ ہوتے ہوئے اپنا ووٹ ضرور کاسٹ کریں اور تھوڑی سی مشقت خود برداشت کریں۔ اس سلسلے میں کوشش کی جانی چاہیے کہ پولنگ بوتھ اور پولنگ اسٹیشنز لوگوں کے قریب سے قریب تر بنائے جائیں تا کہ ٹرانسپورٹ کی ضرورت کم سے کم پیش آئے اور لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب بھی ہو سکے۔
ان تمام حلقوں میں جہاں 40 فیصد سے کم ٹرن آؤٹ ہو وہاں انتخابات دوبارہ کرانے کا حکم دیا جائے کیونکہ اتنے کم ووٹ حاصل کرنے والا اس حلقے کی نمایندگی کا کیسے حقدار کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح ووٹر ٹرن آؤٹ بہتر بنانے اور لوگوں کی اس پورے عمل میں باقاعدہ شرکت بنانے کا موقع مل سکتا ہے اور زیادہ بہتر لیڈرشپ چننے میں مدد مل سکتی ہے۔
الیکشن میں ہتھیاروں کا استعمال ہر ممکن حد تک روکنا بہت ضروری ہے، جیسا کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سارے با اثر لوگ اور امیدوار لوگوں کو ڈرا دھمکا کر آزاد الیکشن پروسیس (Process) کو ختم کر دیتے ہیں اور لوگوں کا مینڈیٹ چرانے کی کوشش کرتے ہیں، اس پابندی پر عملدرآمد کرانے کے لیے حساس علاقوں میں فوج کو تعینات کرنے کی تجویز دی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ایک قابل تحسین اقدام کے ذریعے ریٹرننگ آفیسرز کے لیے عدالتی افسران کی خدمات حاصل کر لی ہیں جو کہ یقیناً کئی تنازعات سے بچنے کا موجب بنے گا۔ اگرچہ حکمراں جماعت کے کچھ لوگوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے لیکن وزیر اعظم کے آفس نے اس تاثر کو زائل کر دیا ہے جو کہ یقینا خوش آیند ہے۔
امید ہے کہ آنے والے دنوں میں الیکشن کمیشن اپنے موثر کردار سے اس ملک میں جمہوریت اور آزادی رائے کے زریں اصولوں کو تقویت بخشے گا، اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں، عوام اور میڈیا سب کو الیکشن کمیشن کی مدد کرنی ہو گی۔