پیپلز پارٹی کے لیے انتباہ
ہٹلر کے نظریہ ساز گوئبلز نے سچ ہی تو کہا تھا کہ جھوٹ کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے اشد ضروری ہے کہ اسے بار بار بولا جائے
تبدیلی کے نشان بن کر سونامی لانے والے ''چوروں، لٹیروں اور جعلی ڈگری والوں'' پر مشتمل موجودہ اسمبلیوں کو پسند نہیں کرتے۔ اسی لیے اعظم سواتی، خواجہ خان ہوتی، جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی اور سردار آصف احمد علی نے وہاں سے استعفیٰ دے کر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ سردار فاروق لغاری کے ہونہار جانشین اویس خان لغاری نے مگر ان کی پیروی نہ کی۔ حالانکہ ان ہی کے سرائیکی وسیب کے ایک بہت ہی کامیاب کاروباری جہانگیر ترین نے تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے اپنی قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ دی تھی۔
بہاولنگر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک قدیمی جیالے افضل سندھو نے بھی تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر رکھا ہے۔ مگر قومی اسمبلی میں وہ اب بھی بڑی باقاعدگی سے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین کے لیے مخصوص نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔ یقیناً وہاں بیٹھتے ہوئے وہ اپنی تنخواہ اور دوسری مراعات بھی وصول کرتے ہوں گے۔ مگر ان باتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ انقلاب لانے کی مصروفیت میں شاید انھیں بھلا دیا جاتا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ''اصولی اور نظریاتی'' سیاست کا دھنڈورا بھی پیٹا جاتا ہے۔ ہٹلر کے نظریہ ساز گوئبلز نے سچ ہی تو کہا تھا کہ جھوٹ کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اشد ضروری ہے کہ اسے بار بار بولا جائے اور انٹرنیٹ فرض کی گئی حقیقتوں کو فروغ دینے کے لیے ہی تو بنا ہے۔
منگل کو قومی اسمبلی میں پنجاب کی 184میں سے صرف دو نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوئے۔ چیچہ وطنی سے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے چوہدری زاہد اقبال نے دہری شہریت چھوڑ کر دوبارہ اپنی نشست سے یہ انتخاب لڑا۔ دہری شہریت چھوڑتے چھوڑتے انھوں نے پیپلز پارٹی کو بھی چھوڑ دیا اور رائے ونڈ جا کر شیر کا انتخابی نشان حاصل کر لیا۔ مقابلہ ان کا اپنے علاقے کے رائے خاندان سے تھا جو 1985سے اس علاقے میں جنرل ضیاء ا ور بعدازاں جنرل مشرف کی چھتری تلے ''اصولی سیاست'' کرتے ہوئے اس علاقے پر راج کر رہا تھا۔ اسی خاندان کے رائے حسن نواز نے اب ''فرسودہ سیاست'' کے بجائے انقلاب لانے کا عزم کر لیا ہے اور اس لیے تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ یہ جماعت ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیتی مگر تحریک انصاف کے شوکت بوسن کے بھائی ''آزادنہ'' حیثیت میں عبدالقادر گیلانی کے مقابلے پر قومی اسمبلی کی اس نشست کے لیے کھڑے ہو گئے جو یوسف رضا گیلانی کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نا اہلی کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔
رائے حسن نواز نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے ''آزاد امیدوار'' کے طور پر شریف برادران کی ''اصولی سیاست'' سے جڑ جانے والے چوہدری زاہد اقبال کا مقابلہ کیا اور 65 ہزار ووٹ لیے۔ ان کے ''آزادانہ'' حیثیت میں حاصل کیے ہوئے یہ ووٹ اب تحریک انصاف کے کام آ رہے ہیں۔ اس کے نمایندے ٹیلی وژن اسکرینوں پر بڑے فخر سے بتا رہے ہیں کہ منگل کو ہونے والے ضمنی انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ پنجاب میں آیندہ انتخابات کے دوران اصل مقابلہ صرف پاکستان مسلم لیگ (نون) اور تحریک انصاف کے درمیان ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے ''نظریاتی ووٹر'' کے لیے اب نواز شریف سے جان چھڑانے کا سنہری موقع ہے جنہوں نے لاہور کو جہاں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی جماعت قائم کی تھی 1985ء سے اپنے قبضے میں جکڑا ہوا ہے۔ بجائے ''قاتل لیگ'' اور سنی اتحاد کے حمایتی امیدواروں کے وہ تحریک انصاف کے لوگوں کو ووٹ دیں اور شریف برادران کی عبرت ناک شکست کا بندوبست کریں۔
پیپلز پارٹی کے ''نظریاتی ووٹروں'' کو انقلاب کی راہ دکھاتے ہوئے تحریک انصاف کا کوئی ''بلارا'' شاید جانتا بھی نہ ہو گا کہ رائے حسن نواز نے میاں منظور وٹو سے پولنگ کے قریب کتنی ملاقاتیں کیں۔ وٹو صاحب کو سمجھایا گیا کہ اگر پیپلز پارٹی کا کاٹھیہ اس انتخاب سے دستبردار ہو جائے تو رائے حسن نواز جیت جائیں گے۔ وہ جیت گئے تو آیندہ انتخاب پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر لڑنا چاہیں گے۔ وٹو صاحب تو راضی ہو گئے۔ مگر کاٹھیہ نہ مانے۔ وہ پرانے جیالے ہیں۔ ڈٹ گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے امیدوار نے صرف دس ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ لیے۔ مگر رائے حسن نواز بھی تو اتنے ہی مارجن سے ہارے۔ عام انتخاب میں اگر اسی نشست پر ایک بار پھر سہ طرفی مقابلہ ہوا تو نتیجہ یہی برآمد ہو گا۔
تحریک انصاف کی نشست پر رائے حسن نواز صرف اس صورت میں جیت سکتے ہیں اگر پیپلز پارٹی کاٹھیہ کو دوبارہ کھڑا کر کے ایک بار پھر اپنا ''لُچ نہ تلے۔'' ''مُکدی گل'' یہ ہے کہ سہ فریقی مقابلوں میں تحریک انصاف کو نقصان ہے اور یہ نقصان بڑھ بھی سکتا ہے اگر جماعت اسلامی کے ''نظریاتی'' نواز شریف کے ''اصولی'' ووٹروں کے ساتھ مل گئے۔ مگر اس سارے کھیل میں پیپلز پارٹی کے ہاتھ تو کچھ بھی نہیں آ رہا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد سے ''ایک زرداری سب پر بھاری'' کے دربار میں سیاست اور صحافت کی باریکیوں کو ''سائنس'' کی طرح سمجھنے والے بقراطوں کی بڑی پذیرائی ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر بقراطوں نے اپنی فن کاری کے جو ہر جنرل مشرف کے زیر سرپرستی دریافت کرنے کے بعد استعمال کرنا شروع کیے تھے۔ ان کی چالاکیاں مگر ان کے اصل مربی کے کوئی کام نہ آ سکیں۔ بے چارے کو آصف زرداری کے لیے ایوان صدر خالی کر کے ملک سے بھی چلے جانا پڑا۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسے بقراط اور فن کار آصف علی زرداری اور ان کی جماعت کی کیا مدد فرما سکیں گے۔ مگر کہا جاتا ہے کہ سہاگن وہی کہلاتی ہے جیسے پیا چاہے اور آج کل کا ''پیا'' مشرف کے بقراطوں سے بڑا مرعوب ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے ان میں سے بہت ساروں کی اکثر سرپرستی فرمائی گئی ہے۔ نام اور تاریخیں لکھ کر واقعات بتا سکتا ہوں جسے کوئی جھٹلانے کی ہمت نہ کر پائے گا۔ پنجابی کا ایک محاورہ لیکن سمجھاتا ہے کہ جس گائوں جانے کا ارادہ نہ ہو اس کا راستہ تلاش کرنے میں وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ چونکہ مجھے خود کو ان سے بڑا فن کار ثابت کر کے ''پیا'' کی سرپرستی نہیں چاہیے، اس لیے خاموش رہنا ضروری ہے۔
مگر یہ بات کہنے میں پھر بھی کوئی حرج نہیں کہ جن بقراطوں اور فن کاروں کا میں ذکر کر رہا ہوں، وہ گزشتہ کئی مہینوں سے بڑے خلوص کے ساتھ عمران خان کی پروموشن میں مصروف تھے۔ سونامی کے پھیلائو سے خوش ہو کر میرے جیسے کم عقلوں کو سمجھاتے رہے کہ عمران کا عروج ''اگلی باری پھر زرداری'' کی ضمانت ہے۔ آیندہ انتخاب میں نواز شریف اور عمران خان کے امیدوار ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر مقابلہ کریں گے مگر ان کی نشستیں چوہدریوں اور پیپلز پارٹی کا کھڑا کیا ہوا اپنے اپنے حلقے میں ''تگڑا اور معتبر'' آدمی جیت جائے گا۔ منگل کو ہونے والے انتخابات نے اس کہانی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔
بقراط اور فن کار اس بات کو پسند کریں یا نہیں، پنجاب آیندہ انتخابات میں نواز شریف کے ساتھ 1997ء سے ملتی جلتی کہانی دہرانے کو تیار نظر آ رہا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ پیپلز پارٹی کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اس صورتحال میں اپنے لیے کوئی راستے بنا پائے گی۔ سرائیکی وسیب کے چند حلقوں میں شاید وہ کچھ جلوہ دکھا پائے۔ مگر یہ جلوہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہ کر پائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری کو حکومت سے باہر رہ کر ایک لمبی جنگ کے لیے تیاری شروع کر دینا چاہیے۔ ایسا کرتے ہوئے انھیں 1977ء کی تاریخ بھی پڑھنا ہو گی اور یہ دریافت کرنا ہو گا کہ ان کے نانا پر ''نظام مصطفیٰﷺ'' قائم کرنے کے نام پر کاری وار کن لوگوں نے کیا تھا اور ان لوگوں کی ''باقیات'' کے ساتھ قمر زمان کائرہ بیٹھے کیا کر رہے تھے۔
بہاولنگر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک قدیمی جیالے افضل سندھو نے بھی تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر رکھا ہے۔ مگر قومی اسمبلی میں وہ اب بھی بڑی باقاعدگی سے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین کے لیے مخصوص نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔ یقیناً وہاں بیٹھتے ہوئے وہ اپنی تنخواہ اور دوسری مراعات بھی وصول کرتے ہوں گے۔ مگر ان باتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ انقلاب لانے کی مصروفیت میں شاید انھیں بھلا دیا جاتا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ''اصولی اور نظریاتی'' سیاست کا دھنڈورا بھی پیٹا جاتا ہے۔ ہٹلر کے نظریہ ساز گوئبلز نے سچ ہی تو کہا تھا کہ جھوٹ کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اشد ضروری ہے کہ اسے بار بار بولا جائے اور انٹرنیٹ فرض کی گئی حقیقتوں کو فروغ دینے کے لیے ہی تو بنا ہے۔
منگل کو قومی اسمبلی میں پنجاب کی 184میں سے صرف دو نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوئے۔ چیچہ وطنی سے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے چوہدری زاہد اقبال نے دہری شہریت چھوڑ کر دوبارہ اپنی نشست سے یہ انتخاب لڑا۔ دہری شہریت چھوڑتے چھوڑتے انھوں نے پیپلز پارٹی کو بھی چھوڑ دیا اور رائے ونڈ جا کر شیر کا انتخابی نشان حاصل کر لیا۔ مقابلہ ان کا اپنے علاقے کے رائے خاندان سے تھا جو 1985سے اس علاقے میں جنرل ضیاء ا ور بعدازاں جنرل مشرف کی چھتری تلے ''اصولی سیاست'' کرتے ہوئے اس علاقے پر راج کر رہا تھا۔ اسی خاندان کے رائے حسن نواز نے اب ''فرسودہ سیاست'' کے بجائے انقلاب لانے کا عزم کر لیا ہے اور اس لیے تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ یہ جماعت ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیتی مگر تحریک انصاف کے شوکت بوسن کے بھائی ''آزادنہ'' حیثیت میں عبدالقادر گیلانی کے مقابلے پر قومی اسمبلی کی اس نشست کے لیے کھڑے ہو گئے جو یوسف رضا گیلانی کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نا اہلی کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔
رائے حسن نواز نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے ''آزاد امیدوار'' کے طور پر شریف برادران کی ''اصولی سیاست'' سے جڑ جانے والے چوہدری زاہد اقبال کا مقابلہ کیا اور 65 ہزار ووٹ لیے۔ ان کے ''آزادانہ'' حیثیت میں حاصل کیے ہوئے یہ ووٹ اب تحریک انصاف کے کام آ رہے ہیں۔ اس کے نمایندے ٹیلی وژن اسکرینوں پر بڑے فخر سے بتا رہے ہیں کہ منگل کو ہونے والے ضمنی انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ پنجاب میں آیندہ انتخابات کے دوران اصل مقابلہ صرف پاکستان مسلم لیگ (نون) اور تحریک انصاف کے درمیان ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے ''نظریاتی ووٹر'' کے لیے اب نواز شریف سے جان چھڑانے کا سنہری موقع ہے جنہوں نے لاہور کو جہاں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی جماعت قائم کی تھی 1985ء سے اپنے قبضے میں جکڑا ہوا ہے۔ بجائے ''قاتل لیگ'' اور سنی اتحاد کے حمایتی امیدواروں کے وہ تحریک انصاف کے لوگوں کو ووٹ دیں اور شریف برادران کی عبرت ناک شکست کا بندوبست کریں۔
پیپلز پارٹی کے ''نظریاتی ووٹروں'' کو انقلاب کی راہ دکھاتے ہوئے تحریک انصاف کا کوئی ''بلارا'' شاید جانتا بھی نہ ہو گا کہ رائے حسن نواز نے میاں منظور وٹو سے پولنگ کے قریب کتنی ملاقاتیں کیں۔ وٹو صاحب کو سمجھایا گیا کہ اگر پیپلز پارٹی کا کاٹھیہ اس انتخاب سے دستبردار ہو جائے تو رائے حسن نواز جیت جائیں گے۔ وہ جیت گئے تو آیندہ انتخاب پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر لڑنا چاہیں گے۔ وٹو صاحب تو راضی ہو گئے۔ مگر کاٹھیہ نہ مانے۔ وہ پرانے جیالے ہیں۔ ڈٹ گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے امیدوار نے صرف دس ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ لیے۔ مگر رائے حسن نواز بھی تو اتنے ہی مارجن سے ہارے۔ عام انتخاب میں اگر اسی نشست پر ایک بار پھر سہ طرفی مقابلہ ہوا تو نتیجہ یہی برآمد ہو گا۔
تحریک انصاف کی نشست پر رائے حسن نواز صرف اس صورت میں جیت سکتے ہیں اگر پیپلز پارٹی کاٹھیہ کو دوبارہ کھڑا کر کے ایک بار پھر اپنا ''لُچ نہ تلے۔'' ''مُکدی گل'' یہ ہے کہ سہ فریقی مقابلوں میں تحریک انصاف کو نقصان ہے اور یہ نقصان بڑھ بھی سکتا ہے اگر جماعت اسلامی کے ''نظریاتی'' نواز شریف کے ''اصولی'' ووٹروں کے ساتھ مل گئے۔ مگر اس سارے کھیل میں پیپلز پارٹی کے ہاتھ تو کچھ بھی نہیں آ رہا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد سے ''ایک زرداری سب پر بھاری'' کے دربار میں سیاست اور صحافت کی باریکیوں کو ''سائنس'' کی طرح سمجھنے والے بقراطوں کی بڑی پذیرائی ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر بقراطوں نے اپنی فن کاری کے جو ہر جنرل مشرف کے زیر سرپرستی دریافت کرنے کے بعد استعمال کرنا شروع کیے تھے۔ ان کی چالاکیاں مگر ان کے اصل مربی کے کوئی کام نہ آ سکیں۔ بے چارے کو آصف زرداری کے لیے ایوان صدر خالی کر کے ملک سے بھی چلے جانا پڑا۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسے بقراط اور فن کار آصف علی زرداری اور ان کی جماعت کی کیا مدد فرما سکیں گے۔ مگر کہا جاتا ہے کہ سہاگن وہی کہلاتی ہے جیسے پیا چاہے اور آج کل کا ''پیا'' مشرف کے بقراطوں سے بڑا مرعوب ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے ان میں سے بہت ساروں کی اکثر سرپرستی فرمائی گئی ہے۔ نام اور تاریخیں لکھ کر واقعات بتا سکتا ہوں جسے کوئی جھٹلانے کی ہمت نہ کر پائے گا۔ پنجابی کا ایک محاورہ لیکن سمجھاتا ہے کہ جس گائوں جانے کا ارادہ نہ ہو اس کا راستہ تلاش کرنے میں وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ چونکہ مجھے خود کو ان سے بڑا فن کار ثابت کر کے ''پیا'' کی سرپرستی نہیں چاہیے، اس لیے خاموش رہنا ضروری ہے۔
مگر یہ بات کہنے میں پھر بھی کوئی حرج نہیں کہ جن بقراطوں اور فن کاروں کا میں ذکر کر رہا ہوں، وہ گزشتہ کئی مہینوں سے بڑے خلوص کے ساتھ عمران خان کی پروموشن میں مصروف تھے۔ سونامی کے پھیلائو سے خوش ہو کر میرے جیسے کم عقلوں کو سمجھاتے رہے کہ عمران کا عروج ''اگلی باری پھر زرداری'' کی ضمانت ہے۔ آیندہ انتخاب میں نواز شریف اور عمران خان کے امیدوار ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر مقابلہ کریں گے مگر ان کی نشستیں چوہدریوں اور پیپلز پارٹی کا کھڑا کیا ہوا اپنے اپنے حلقے میں ''تگڑا اور معتبر'' آدمی جیت جائے گا۔ منگل کو ہونے والے انتخابات نے اس کہانی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔
بقراط اور فن کار اس بات کو پسند کریں یا نہیں، پنجاب آیندہ انتخابات میں نواز شریف کے ساتھ 1997ء سے ملتی جلتی کہانی دہرانے کو تیار نظر آ رہا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ پیپلز پارٹی کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اس صورتحال میں اپنے لیے کوئی راستے بنا پائے گی۔ سرائیکی وسیب کے چند حلقوں میں شاید وہ کچھ جلوہ دکھا پائے۔ مگر یہ جلوہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہ کر پائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری کو حکومت سے باہر رہ کر ایک لمبی جنگ کے لیے تیاری شروع کر دینا چاہیے۔ ایسا کرتے ہوئے انھیں 1977ء کی تاریخ بھی پڑھنا ہو گی اور یہ دریافت کرنا ہو گا کہ ان کے نانا پر ''نظام مصطفیٰﷺ'' قائم کرنے کے نام پر کاری وار کن لوگوں نے کیا تھا اور ان لوگوں کی ''باقیات'' کے ساتھ قمر زمان کائرہ بیٹھے کیا کر رہے تھے۔