سپریم کورٹ کا کراچی میں تمام غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس بند کرنے کا حکم
کراچی کو کوئی اپنا شہر نہیں سمجھتا اورنہ ہی کوئی ادارہ کراچی کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہے،چیف جسٹس آف پاکستان
سپریم کورٹ نے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے شہر میں قائم تمام غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس بند کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی میں غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی، اس موقع پرایم ڈی واٹربورڈ کا کہنا تھا کہ شہرمیں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے کراچی کے 6 اضلاع، این ایل سی اورڈی ایچ کے لئے ایک ایک واٹرہائیڈرنٹس رکھے جائیں گے جس پرعدالت کا کہنا تھا کہ شہرمیں پانی کی فراہمی یقینی اوریکساں بنانے کے لئے ماہرین کے نام تجویز کئے جائیں اور ایمرجنسی کی ضرورت کے لئے 5 ہفتوں میں مطلوب واٹر ہائیڈرنٹس کا ری ٹینڈر کیا جائے۔
چیف جسٹس انورظہیر جمالی کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ کراچی میں ماحولیاتی آلودگی، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ اور پانی کا مسئلہ یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے، یہاں ہر طبقے کے لوگ بستے ہیں لیکن کوئی اس شہر کو اپنا نہیں سمجھتا، کوئی بھی ادارہ کراچی کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرتا تو کے ایم سی کچرا اٹھانے کو تیار نہیں، کے ایم سی اور واٹر بورڈ میں بڑی تعداد میں گھوسٹ ملازمین ہیں، انہیں شہریوں کے مسائل کے حل سے کوئی سروکار نہیں، یہ لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسارکیا کہ کب تک کراچی والے پینے کے پانی کو ترستے رہیں گے، اول تو پانی نہیں ملتا اور جہاں ملتا ہے گندا پانی دیا جاتا ہے، جن علاقوں میں پانی نہیں پہنچا اب اب وہاں احتجاج اور ہڑتالیں ہونے لگی ہیں، پانی فراہم کرنا عدالت کا مسئلہ نہیں لیکن عوامی مفاد عامہ کا مسئلہ ہے اس لئے عدالت کو مداخلت کرنا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے سمیت بڑے بڑے سفید ہاتھی بیٹھے ہیں، ڈی ایچ اے فیز ون میں 2001 سے رہ رہا ہوں لیکن آج تک لائن سے پانی نہیں ملا، ڈی ایچ اے کے 90 فیصد مکین ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں، پانی کی قلت ہے تو ٹینکرز کے لئے پانی کہاں سے آتا ہے۔
جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ وال مینوں کے ذریعے شہر کا پانی کنٹرول ہوتا ہے، واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرسکتا تو پھر اسے ٹھیکے پر دے دیں۔ عدالت نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو شہر سے غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس فوری طور ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی میں غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی، اس موقع پرایم ڈی واٹربورڈ کا کہنا تھا کہ شہرمیں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے کراچی کے 6 اضلاع، این ایل سی اورڈی ایچ کے لئے ایک ایک واٹرہائیڈرنٹس رکھے جائیں گے جس پرعدالت کا کہنا تھا کہ شہرمیں پانی کی فراہمی یقینی اوریکساں بنانے کے لئے ماہرین کے نام تجویز کئے جائیں اور ایمرجنسی کی ضرورت کے لئے 5 ہفتوں میں مطلوب واٹر ہائیڈرنٹس کا ری ٹینڈر کیا جائے۔
چیف جسٹس انورظہیر جمالی کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ کراچی میں ماحولیاتی آلودگی، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ اور پانی کا مسئلہ یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے، یہاں ہر طبقے کے لوگ بستے ہیں لیکن کوئی اس شہر کو اپنا نہیں سمجھتا، کوئی بھی ادارہ کراچی کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرتا تو کے ایم سی کچرا اٹھانے کو تیار نہیں، کے ایم سی اور واٹر بورڈ میں بڑی تعداد میں گھوسٹ ملازمین ہیں، انہیں شہریوں کے مسائل کے حل سے کوئی سروکار نہیں، یہ لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسارکیا کہ کب تک کراچی والے پینے کے پانی کو ترستے رہیں گے، اول تو پانی نہیں ملتا اور جہاں ملتا ہے گندا پانی دیا جاتا ہے، جن علاقوں میں پانی نہیں پہنچا اب اب وہاں احتجاج اور ہڑتالیں ہونے لگی ہیں، پانی فراہم کرنا عدالت کا مسئلہ نہیں لیکن عوامی مفاد عامہ کا مسئلہ ہے اس لئے عدالت کو مداخلت کرنا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے سمیت بڑے بڑے سفید ہاتھی بیٹھے ہیں، ڈی ایچ اے فیز ون میں 2001 سے رہ رہا ہوں لیکن آج تک لائن سے پانی نہیں ملا، ڈی ایچ اے کے 90 فیصد مکین ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں، پانی کی قلت ہے تو ٹینکرز کے لئے پانی کہاں سے آتا ہے۔
جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ وال مینوں کے ذریعے شہر کا پانی کنٹرول ہوتا ہے، واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرسکتا تو پھر اسے ٹھیکے پر دے دیں۔ عدالت نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو شہر سے غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس فوری طور ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔