پاکستان میں ملیریا اورڈینگی کے بعد زیکا وائرس کا خطرہ منڈلانے لگا
پاکستان میں زیکا وائرس پھیلانے والے خاص قسم کے مچھر بکثرت پائے جاتے ہیں، ماہرین
وطن عزیز میں مچھروں کے باعث پھیلنے والی بیماریاں، ملیریا اور ڈینگی نے تباہی مچارکھی ہے اوراب ماہرین نے خبردارکیا ہے کہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ زیکا وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں کیونکہ زیکا وائرس پھیلانے والے خاص مچھر ان سب ممالک میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔
مشہورطبّی تحقیقی جریدے ''لینسٹ انفیکشس ڈزیزز'' کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے ایک ریسرچ پیپرمیں بتایا گیا ہے کہ پاکستان، بھارت، چین، بنگلا دیش، فلپائن، انڈونیشیا، نائجیریا اورویتنام میں زیکا بخارپھیلنے کا شدید خطرہ ہے کیونکہ زیکا وائرس پھیلانے والا ایڈیزمچھران ملکوں میں بڑی تعداد میں موجود ہے جب کہ ان ممالک کا ماحول اورآب وہوا کی کیفیات بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کے لیے سازگار ہیں۔
اس وقت زیکا وائرس نے لاطینی امریکا اورافریقا کوشدید متاثرکیا ہوا ہے اورخطرہ ہے کہ کہیں یہ بین الاقوامی وبا نہ بن جائے۔ امریکا، کینیڈا اوربرطانیہ کے ماہرین پرمشتمل ایک بین الاقوامی ٹیم نے اس مطالعے کے دوران یہ جائزہ لیا کہ لاطینی امریکا سے لوگوں کی زیادہ تعداد کون کون سے ممالک کا سفرکرتی ہے۔ زیکا کے خطرے کا درست طورپر اندازہ لگانے کے لیے مطالعے میں وہ ممالک بطورِخاص شامل کیے گئے جہاں ایڈیز قسم کے مچھروں کی زیادہ تعداد پائی جاتی ہے اور جو پہلے ہی سے ڈینگی وائرس بخار سے متاثر ہیں۔
ڈینگی وائرس کی اہمیت اس لیے ہے کیونکہ یہ بھی ایڈیز مچھروں کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ زیکا وائرس کا حملہ شدید خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ہر ملک میں ڈینگی بخار مختلف مہینوں کے دوران زیادہ شدت اختیار کرتا ہے۔ پاکستان میں اس کے شدید حملہ آور ہونے کا زمانہ اگست سے اکتوبر تک ہے۔
مطالعے میں لاطینی امریکا کے ممالک میں 689 چھوٹے بڑے ہوائی اڈّوں سے مختلف ممالک کا سفر کرنے والے مسافروں کا تجزیہ کیا گیا اور یہ دیکھا گیا کہ جن مہینوں میں مسافروں کی منزل بننے والے ملکوں میں ڈینگی بخار کی شدت زیادہ ہوتی ہے تو وہاں لاطینی امریکا سے پہنچنے والے مسافروں کی تعداد کتنی ہوتی ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں اگست کے دوران لاطینی امریکا سے آنے والے مسافروں کی تعداد 250 سے کم (اوسطاً 236) ہوتی ہے جس کے باعث دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کو زیکا وائرس سے متاثر ہونے کے کم خطرات ہیں۔ لیکن اس بات پر ہمیں مطمئن نہیں ہوجانا چاہیے کیونکہ پاکستان میں ڈینگی بخار کے پھیلاؤ پر اب تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ میں لگ بھگ 17 کروڑ پاکستانیوں کو زیکا وائرس لاحق ہونے کا خطرہ بتایا گیا ہے۔
زیکا کے خطرے میں مبتلا دیگر ممالک میں سب سے خراب صورتِ حال بھارت کی ہے جہاں ڈینگی کی شدت والے مہینوں میں لاطینی امریکا سے 67,422 مسافر پہنچتے ہیں اور وہاں 120 کروڑ لوگوں کو زیکا وائرس منتقل ہونے کا خطرہ ہے۔ چین میں 24 کروڑ 40 لاکھ، انڈونیشیا میں 19 کروڑ 70 لاکھ، فلپائن میں 7 کروڑ جب کہ تھائی لینڈ میں 5 کروڑ 90 لاکھ لوگوں کو زیکا وائرس کا خطرہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتِ پاکستان، زیکا وائرس کے خطرے کا درست ادراک کرے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرلے ورنہ ڈینگی اور زیکا وائرس ایک ساتھ مل کر حملہ آور ہوسکتے ہیں اور کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ زیکا وائرس پھیلانے والے ایڈیز مچھر ہی ڈینگی وائرس بھی پھیلاتے ہیں۔ پاکستان میں ایڈیز البوپکٹس اور ایڈیز ایجپٹائی، دونوں پائے جاتے ہیں اور ڈینگی کی وجہ بھی بنتے ہیں۔
مشہورطبّی تحقیقی جریدے ''لینسٹ انفیکشس ڈزیزز'' کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے ایک ریسرچ پیپرمیں بتایا گیا ہے کہ پاکستان، بھارت، چین، بنگلا دیش، فلپائن، انڈونیشیا، نائجیریا اورویتنام میں زیکا بخارپھیلنے کا شدید خطرہ ہے کیونکہ زیکا وائرس پھیلانے والا ایڈیزمچھران ملکوں میں بڑی تعداد میں موجود ہے جب کہ ان ممالک کا ماحول اورآب وہوا کی کیفیات بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کے لیے سازگار ہیں۔
اس وقت زیکا وائرس نے لاطینی امریکا اورافریقا کوشدید متاثرکیا ہوا ہے اورخطرہ ہے کہ کہیں یہ بین الاقوامی وبا نہ بن جائے۔ امریکا، کینیڈا اوربرطانیہ کے ماہرین پرمشتمل ایک بین الاقوامی ٹیم نے اس مطالعے کے دوران یہ جائزہ لیا کہ لاطینی امریکا سے لوگوں کی زیادہ تعداد کون کون سے ممالک کا سفرکرتی ہے۔ زیکا کے خطرے کا درست طورپر اندازہ لگانے کے لیے مطالعے میں وہ ممالک بطورِخاص شامل کیے گئے جہاں ایڈیز قسم کے مچھروں کی زیادہ تعداد پائی جاتی ہے اور جو پہلے ہی سے ڈینگی وائرس بخار سے متاثر ہیں۔
ڈینگی وائرس کی اہمیت اس لیے ہے کیونکہ یہ بھی ایڈیز مچھروں کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ زیکا وائرس کا حملہ شدید خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ہر ملک میں ڈینگی بخار مختلف مہینوں کے دوران زیادہ شدت اختیار کرتا ہے۔ پاکستان میں اس کے شدید حملہ آور ہونے کا زمانہ اگست سے اکتوبر تک ہے۔
مطالعے میں لاطینی امریکا کے ممالک میں 689 چھوٹے بڑے ہوائی اڈّوں سے مختلف ممالک کا سفر کرنے والے مسافروں کا تجزیہ کیا گیا اور یہ دیکھا گیا کہ جن مہینوں میں مسافروں کی منزل بننے والے ملکوں میں ڈینگی بخار کی شدت زیادہ ہوتی ہے تو وہاں لاطینی امریکا سے پہنچنے والے مسافروں کی تعداد کتنی ہوتی ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں اگست کے دوران لاطینی امریکا سے آنے والے مسافروں کی تعداد 250 سے کم (اوسطاً 236) ہوتی ہے جس کے باعث دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کو زیکا وائرس سے متاثر ہونے کے کم خطرات ہیں۔ لیکن اس بات پر ہمیں مطمئن نہیں ہوجانا چاہیے کیونکہ پاکستان میں ڈینگی بخار کے پھیلاؤ پر اب تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ میں لگ بھگ 17 کروڑ پاکستانیوں کو زیکا وائرس لاحق ہونے کا خطرہ بتایا گیا ہے۔
زیکا کے خطرے میں مبتلا دیگر ممالک میں سب سے خراب صورتِ حال بھارت کی ہے جہاں ڈینگی کی شدت والے مہینوں میں لاطینی امریکا سے 67,422 مسافر پہنچتے ہیں اور وہاں 120 کروڑ لوگوں کو زیکا وائرس منتقل ہونے کا خطرہ ہے۔ چین میں 24 کروڑ 40 لاکھ، انڈونیشیا میں 19 کروڑ 70 لاکھ، فلپائن میں 7 کروڑ جب کہ تھائی لینڈ میں 5 کروڑ 90 لاکھ لوگوں کو زیکا وائرس کا خطرہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتِ پاکستان، زیکا وائرس کے خطرے کا درست ادراک کرے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرلے ورنہ ڈینگی اور زیکا وائرس ایک ساتھ مل کر حملہ آور ہوسکتے ہیں اور کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ زیکا وائرس پھیلانے والے ایڈیز مچھر ہی ڈینگی وائرس بھی پھیلاتے ہیں۔ پاکستان میں ایڈیز البوپکٹس اور ایڈیز ایجپٹائی، دونوں پائے جاتے ہیں اور ڈینگی کی وجہ بھی بنتے ہیں۔