چین سے منگوائے گئے فرنیچر کی فروخت میں نمایاں کمی
5 سال میں پُرزے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، مرمت، دوبارہ قابلِ استعمال بنانا مشکل ہے، صارفین
ATHLETES’ VILLAGE, NEW DELHI:
چین سے منگوائے جانے والے تیارفرنیچرنے مقامی فرنیچر انڈسٹری کو جدت کی جانب راغب کردیا ہے جسکے نتیجے میں چین سے منگوائے جانے والے غیرمعیاری فرنیچر کی فروخت میں نمایاں کمی واقع ہوگئی ہے۔
جبکہ مقامی طور پر تیارکردہ فرنیچر نے مارکیٹوں میں دوبارہ جگہ بنالی ہے۔ نامساعد ملکی حالات کے باوجودمقامی فرنیچرمینوفیکچررز نے گزشتہ چند سالوں کے دوران حوصلہ مندی کے ساتھ چینی طرز کے فرنیچر کے مقابل معیاری، ارزاں اورخوبصورت فرنیچرمصنوعات کی تیاری میں نہ صرف کامیابی بلکہ خریداروں کی توجہ بھی حاصل کرلی ہے۔ چینی فرنیچر کے استعمال کنندہ صارفین کا کہنا ہے کہ صرف پانچ سال استعمال کے بعد درآمدہ فرنیچر کے کل پُرزے ڈھیلے ہوجاتے ہیں جن کی مرمت اور دوبارہ قابلِ استعمال بنانا مشکل امرہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سال 2005میں ڈبلیوٹی او قوانین کے نفاذ کے بعدمقامی فرنیچر انڈسٹری سخت آزمائش اور مسابقت سے دوچار ہوگئی تھی کیونکہ پاکستان میںدرآمد شدہ پُرکشش ڈیزائن کی حامل خوبصورت اورکم قیمت کرسیاں ، دفتری میز، سینٹرٹیل، ڈائننگ ٹیبل، ٹی وی ٹرالیاں، کمپیوٹر ڈیسک، صوفے، اسپرنگ میٹریس اور بیڈ روم سیٹس نے مختصر سے عرصے میںمقامی خریداروں کی توجہ حاصل کرلی تھی، فرنیچر کی صنعت پر ارزاں اور خوشنما چینی مصنوعات کی یلغار کے نتیجے میں ابتدائی طور پر فرنیچر سازی کے 70فیصد کارخانوں کی پیداواری سرگرمیاں بری طرح متاثرہوئیں۔
پاکستانی فرنیچر مصنوعات بہتر فنشنگ اور جدید ڈیزائنز سے محروم ہونے کے سبب خود اپنی ہی مارکیٹوں میں پذیرائی سے محروم ہوگئی تھیں لیکن محض چند سال کے استعمال کے بعد جب صارفین کے سامنے درآمدی فرنیچر کے معیار کی حقیقت واضح ہوئی تو خریداروں کا رخ ایک مرتبہ پھر مقامی فرنیچر کی جانب مڑگیا، ''ایکسپریس'' سروے کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ مقامی صارفین کی ترجیحات تبدیل ہونے کے نتیجے میں گذشتہ تین سال کے دوران چینی ساختہ فرنیچر کی فروخت کی 10فیصد جبکہ مقامی طور پر تیار ہونے والے فرنیچر کی فروخت کی شرح 90 فیصد رہی ہے۔
فرنیچر انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران اورروپے کی نسبت ڈالر کی قدرمیں مستقل اضافے کے رحجان نے کم قیمت درآمدہ فرنیچر کا تصور ختم کردیا ہے ، فرنیچر کے ایک بڑے تاجر نے بتایا کہ پاکستانی فرنیچر کی پائیداری اور معیار درآمدی فرنیچر کے مقابلے میں100فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
چین سے منگوائے جانے والے تیارفرنیچرنے مقامی فرنیچر انڈسٹری کو جدت کی جانب راغب کردیا ہے جسکے نتیجے میں چین سے منگوائے جانے والے غیرمعیاری فرنیچر کی فروخت میں نمایاں کمی واقع ہوگئی ہے۔
جبکہ مقامی طور پر تیارکردہ فرنیچر نے مارکیٹوں میں دوبارہ جگہ بنالی ہے۔ نامساعد ملکی حالات کے باوجودمقامی فرنیچرمینوفیکچررز نے گزشتہ چند سالوں کے دوران حوصلہ مندی کے ساتھ چینی طرز کے فرنیچر کے مقابل معیاری، ارزاں اورخوبصورت فرنیچرمصنوعات کی تیاری میں نہ صرف کامیابی بلکہ خریداروں کی توجہ بھی حاصل کرلی ہے۔ چینی فرنیچر کے استعمال کنندہ صارفین کا کہنا ہے کہ صرف پانچ سال استعمال کے بعد درآمدہ فرنیچر کے کل پُرزے ڈھیلے ہوجاتے ہیں جن کی مرمت اور دوبارہ قابلِ استعمال بنانا مشکل امرہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سال 2005میں ڈبلیوٹی او قوانین کے نفاذ کے بعدمقامی فرنیچر انڈسٹری سخت آزمائش اور مسابقت سے دوچار ہوگئی تھی کیونکہ پاکستان میںدرآمد شدہ پُرکشش ڈیزائن کی حامل خوبصورت اورکم قیمت کرسیاں ، دفتری میز، سینٹرٹیل، ڈائننگ ٹیبل، ٹی وی ٹرالیاں، کمپیوٹر ڈیسک، صوفے، اسپرنگ میٹریس اور بیڈ روم سیٹس نے مختصر سے عرصے میںمقامی خریداروں کی توجہ حاصل کرلی تھی، فرنیچر کی صنعت پر ارزاں اور خوشنما چینی مصنوعات کی یلغار کے نتیجے میں ابتدائی طور پر فرنیچر سازی کے 70فیصد کارخانوں کی پیداواری سرگرمیاں بری طرح متاثرہوئیں۔
پاکستانی فرنیچر مصنوعات بہتر فنشنگ اور جدید ڈیزائنز سے محروم ہونے کے سبب خود اپنی ہی مارکیٹوں میں پذیرائی سے محروم ہوگئی تھیں لیکن محض چند سال کے استعمال کے بعد جب صارفین کے سامنے درآمدی فرنیچر کے معیار کی حقیقت واضح ہوئی تو خریداروں کا رخ ایک مرتبہ پھر مقامی فرنیچر کی جانب مڑگیا، ''ایکسپریس'' سروے کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ مقامی صارفین کی ترجیحات تبدیل ہونے کے نتیجے میں گذشتہ تین سال کے دوران چینی ساختہ فرنیچر کی فروخت کی 10فیصد جبکہ مقامی طور پر تیار ہونے والے فرنیچر کی فروخت کی شرح 90 فیصد رہی ہے۔
فرنیچر انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران اورروپے کی نسبت ڈالر کی قدرمیں مستقل اضافے کے رحجان نے کم قیمت درآمدہ فرنیچر کا تصور ختم کردیا ہے ، فرنیچر کے ایک بڑے تاجر نے بتایا کہ پاکستانی فرنیچر کی پائیداری اور معیار درآمدی فرنیچر کے مقابلے میں100فیصد سے بھی زیادہ ہے۔