عید کے بعد

اس کو سچ سمجھئے یا محض ایک خیال کہ عید کے بعد ملکی حالات بدترین ہوں گے۔

anisbaqar@hotmail.com

اس کو سچ سمجھئے یا محض ایک خیال کہ عید کے بعد ملکی حالات بدترین ہوں گے۔ ''وزیراعظم خود ملک کو تباہی کی سمت لے جا رہے ہیں'' یہ الفاظ ہیں ہمارے ملک کے 3 لیڈروں کے اور اسی دوران G-20 دنیا کے 20 ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس کے دوران روسی صدر پیوٹن نے ایک نہایت حیرت انگیز گفتگو میٹنگ میں چینی صدر زی جن پنگ (Xi-jin Ping) سے ایک مذاق کرتے ہوئے آئس کریم دیتے وقت کہا کہ اس کو زیادہ دیر ہاتھ میں نہ رکھو پگھل جائے گی اور آئس کریم سے راہ و رسم نہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

یہ گفتگو انھوں نے اشارتاً پاکستان کے متعلق کی۔ کیونکہ پاکستان کی حزب مخالف اپنے وزیراعظم کو ایک غیر ملکی ایجنسی کا نمایندہ قرار دے رہی ہے۔ ظاہر ہے جب ہزاروں کا مجمع ملک کے دو بڑے شہروں میں لگا ہو اور لوگ انہماک سے اپنے لیڈروں کی تقریر سن رہے ہوں تو پھر کیوں نہ دوسرے ملکوں کو یقین آئے گا اور تیسرے ملک کا مذاق بنائیں گے۔ بقول لیڈران کے کہ ان کا مجمع بالکل چارج (Charge) تھا، یعنی انگارے کی مانند۔ اس طریقے کی گفتگو اور پھر اس کے برعکس ایک وزیر کا جواب جو خود برق ساز عابد شیر علی جوابی گفتگو کے ماہر نظر آئے، انھوں نے شیخ رشید کو وارننگ دی کہ اگر اب دوبارہ کسی نے رائے ونڈ جانے کی بات کی تو وہ لال حویلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیںگے۔

ظاہر ہے جب کہ شیخ رشید جو کہ ماضی میں اسٹوڈنٹس لیڈر بھی تھے ان کے حصار میں لانے کی باتیں، اس لیے عابد شیر علی بھی کر رہے تھے۔ یعنی دو قوتوں کا ٹکراؤ پھر تیسری قوت کے بچاؤ کا عمل دخل یعنی حکومت کا زوال ہو گا۔ انتشار کا پھیل جانا، دو طرف سے ٹکراؤ کا یہی مطلب ہو گا کہ فوج کو ایسی صورت میں مجبوراً مداخلت کرنی ہو گی۔ گویا یہ بات عملی طور پر ثابت ہو گی کہ حکومت کے جانے کا مطلب قانونی اور اسمبلی کے ذریعے نہ ہو گا بلکہ اسٹریٹ پاور سے ہو گا۔

ظاہر ہے آج کل میڈیا نہ صرف آزاد ہے بلکہ برق رفتار سے ملک در ملک خبریں پھیل جاتی ہیں اور پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ حزب مخالف کے 2 لیڈران ہمہ وقت ایسی گفتگو فرما رہے ہیں، دوسری جانب حزب اقتدار کو بھی ہوش نہیں کہ گفت و شنید سے موقع کی نزاکت کو ٹال دیں۔ چونکہ چین پاکستان کے حلیفوں میں سے ہے، کیوںکہ اس کو بھی ایک بیرونی ملک سے راہداری کی سہولت پیش آ رہی ہے، تو یہ سمجھنا نہیں چاہیے کہ اس کی حکمت عملی حیرت انگیز طور پر درست ہی ہو گی۔

پاکستان اپنے گرد و نواح سے مخالف قوتوں میں گھرا ہوا ہے خصوصاً پاکستان اور افغانستان کے تعلقات منفی طور پر بلند ہو رہے ہیں لیکن ان کو یکسر مخالف نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ گزشتہ دنوں جب فنی خرابی سے حکومت پنجاب کا ایک ہیلی کاپٹر کریش لینڈنگ افغانستان میں کر گیا تو ان کا عملہ باحفاظت واپس آ گیا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ پاکستان اور افغانستان کے حالات ابھی اتنے کشیدہ نہ ہوئے ہیں کہ ناقابل واپسی ہوں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ نہیں، کیوںکہ وزیراعظم کے پاس اتنے محکمے ہیں کہ ان کو قومی اسمبلی میں بھی بمشکل جانا پڑتا ہے۔ ویسے بھی 20 کروڑ آبادی والے ملک کا وزیر خارجہ کوئی نہیں، یہ بھی ایک المیہ سے کم نہیں۔ یا تو پھر ایسا وزیراعظم ہو جس کی بیرون ملک آمدورفت معیاری طور پر لگی رہتی ہو۔


وزیر خارجہ ایک ایسا عہدہ ہے جس میں اعلیٰ تعلیم اور تیز تر حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں نے اپنے وزیر خارجہ کی بدولت اپنے ملک کی توقیر بلند کی، خود وزیر خارجہ کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو دنیا میں ایک اعلیٰ مقام دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ البتہ کمیونسٹ ممالک میں اکثر صدور اہم کردار ادا کرتے ہیں، کیوںکہ وزیر دفاع وہاں پر بڑی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مگر پارلیمانی جمہوریت میں عہدوں کی تقسیم بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ جب کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں وزیر دفاع اور وزیر داخلہ میں معمول کے تعلقات نہیں، جس سے ملکی مفادات کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹیں موجود ہیں، اس کے علاوہ دونوں ایک صفحہ پر نہیں ہیں۔ البتہ دکھاوے کے تعلقات نمایاں ہیں جس سے جمہوریت کی چمک ماند پڑ رہی ہے اور جمہوریت کے ثمرات پر کسی کی نظر نہیں۔ اگر جمہوریت کے ثمرات پر لیڈروں کی نظر ہوتی تو لوگ ندیوں نالوں میں زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوتے۔

زیادہ دنوں کے بات ہے اور نہ زیادہ دُور کی بات ہے، ایران کے سابق صدر نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ تہران کی مضافاتی بستیوں کو جلد بہتر بنائیں گے اور تمام لوگوں کو 30 اور 25 سال کے قرضے پر 100 اور 80 گز کے فلیٹ بناکر دیں گے اور کرائے کے ایڈوانس کی رقم سے ان کو یہ سہولت مہیا کر دیں گے، سو ان کے 5 برس پورے نہ ہوئے اور لوگ فلیٹوں میں منتقل ہو گئے۔ یہ کام کراچی میں بھی ممکن ہے، جہانگیر روڈ، پی آئی بی، مارٹن روڈ، لیاری، مان روڈ اور دیگر علاقے باقاعدہ طور پر آباد کیے جا سکتے ہیں۔ مگر نہ حزب اختلاف کا کوئی پروگرام ہے اور نہ حزب اقتدار کا۔ بہرصورت اگر حزب اختلاف کا کوئی لیڈر پاکستان کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے تو قربانی دینی ہو گی اور یہ رقم 25 یا 30 سال میں منافع لے کر واپس آ جائے گی، مگر یہ سود در سود کی رقم نہ ہو گی۔

پاکستان کا بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے لیڈر ٹھوس پروگراموں پر نہ خود چلنا چاہتے ہیں اور نہ عوام کو ایسی تربیت دینا چاہتے ہیں۔ ایک روٹی کپڑا اور مکان کا پروگرام 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا، وہ پورا نہ ہوا اور شہادت کا پھندا ان کی گردن میں ڈال دیا گیا۔ ایک طرف سے وہ تو آزاد ہو گئے مگر پارٹی اپنے خالق کی زبان سے منحرف ہو گئی، اس لیے معاملات آگے نہ بڑھے۔ ان کے منشور کو آگے بڑھانے کے لیے محترمہ بینظیر بھٹو، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی نہ صرف سیاست کی وارث تھیں بلکہ کسی حد تک ان کے الفاظ کی بھی وارث تھیں، مگر اس کے بعد تو جمہوریت کے تمام منفی پہلوؤں کا نمایاں چہرہ نظر آنے لگا، ملک میں سیاست نفرت میں بدل گئی، این آر او کے فوائد بینظیر کے سوا سب نے اٹھائے اور خاص طور سے زرداری اور نواز شریف نے، خاص طور پر بھارت کے ساتھ تجارت کے روابط سے ملک میں ابہام کی سیاست شروع ہوئی۔

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مودی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور معاشی طور پر تو نواز شریف کو ضرور فائدہ ہوا مگر پاکستان کی سیاست میں ان کو زبردست نقصان ہوا اور ان کی مضبوطی اور مقبولیت کے گراف میں تیزی سے کمی آئی اور بہت سے الزامات کو آسانی سے موڑا جانے لگا۔ باوجود اس کے کہ 2013ء میں جو ماڈل ٹاؤن کا واقعہ رونما ہوا اس کے قصاص کے لیے 30 اگست 2016ء کو ملک کے 150 چھوٹے بڑے شہروں میں یوم قصاص علامہ طاہر القادری نے منایا اور اس سے ملک میں ایک ماحول قصاص پیدا ہوا، رفتہ رفتہ یہ فضا ایک سیاسی عمل میں تحلیل ہو گئی۔ دو ہمخیال قوتیں عمران خان اور طاہر القادری جو ماضی کے طرفدار تھے ایک ساتھ جلسے اور جلوس شروع کر دیے۔

پہلے اور اب کے، ان کے اہداف ایک اور عمل دو رخی تھے یعنی پہلے دونوں حضرات الگ الگ نہیں بلکہ ایک ساتھ جلسے کرتے تھے مگر اب جلسے دو مختلف جگہوں پر کرتے ہیں، جب کہ اہداف میں یکسانیت تھی۔ جب ماہ ستمبر شروع ہوا تو ان جلوسوں میں تیزی آ گئی اور آخرکار 6 ستمبر کی شب، 10 بجے عمران خان نے کمر کس کے یہ الفاظ ادا کیے۔ ''24 ستمبر کو رائے ونڈ جانا ہے''۔ ظاہر ہے جب وہ رائے ونڈ کا نام لیں گے تو کوئی پکنک منانے تو جائیں گے نہیں اور پھر دوسری جانب ان کا استقبال کرنے والے بھی ہوں گے اور یہ استقبال بھی اپنی نوعیت کا ہو گا۔ لہٰذا پاکستان مین ایک سیاسی دنگل کا آغاز ہو گا اور خصوصی طور پر ایسے موقع پر جب ایک طرف افواج پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، خصوصاً افغان بارڈر پر تو دوسری جانب ملک کے اندر ایک بدنظمی کا سین ہو گا، تو پھر اس نام نہاد جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی جا رہی ہو گی۔ مگر اس نظام کو بدلنے کی کوئی جدوجہد نہ ہو گی بلکہ پھر چہرے کی تبدیلی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
Load Next Story