اول آں بنیاد را ویراں کنند
اقبال کا کلام جس الہامی فکر سے مزین ہے وہ کسی کشف سے کم نہیں ہے۔
ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے بیتاب علامہ اقبال ہر گھڑی اس تلاش میں سرگرداں رہتے کہ وہ کونسا ایسا راستہ ہو گا جس پر چلنے سے یہ امت پستی سے نکل کر ماضی کی رفعتوں کو چھو سکے گی۔ صاحبان نظر کی تلاش میں علامہ اقبال عمر بھر محو سفر رہے اور صاحبان نظر بھی اقبال پر محبتوں کے پھول نچھاور کرتے رہے۔ اقبال کا کلام جس الہامی فکر سے مزین ہے وہ کسی کشف سے کم نہیں ہے۔ ایسی ہی ایک حالت کشف میں اقبال پر یہ ظاہر ہوا کہ لاہور میں ایک صاحب نظر چند روز کے لیے تشریف لائے ہیں اور سید علی ہجویری کی مسجد میں مقیم ہیں۔
علامہ اقبال نے عبدالمجید سالک سے کہا کہ ان کے پاس کسی دن جانا ہے کیونکہ ان کے پاس میرے اس سوال کا جواب موجود ہے کہ اس امت مسلمہ کی تعمیر نو کیسے ہو سکتی ہے۔ عبدالمجید سالک روز یاد کراتے، اقبال صبح بیدار ہو کر روایتی سستی میں پڑ جاتے، علی بخش حقہ تازہ کرتا اور وہ اس کے کش لگاتے ملاقاتیوں سے محو گفتگو ہو جاتے۔ ایک دن ایک صاحب اقبال کے گھر تشریف لائے، علی بخش نے دروازے پر استقبال کیا۔ فرمانے لگے اقبال تو اپنی سستی کی وجہ سے ملنے نہیں آ سکا، لیکن اس کے ایک سوال کا جواب میرے پاس تھا اور پھر جواب کے طور پر مولانا روم کا یہ شعر علی بخش کو تھما دیا۔
ہر بنائے کہنہ کہ بادن کنند
اول آں بنیاد را ویراں کنند
(ترجمہ: اگر تم چاہتے ہو کہ ایک نئی عمارت تعمیر کی جائے تو اس کے لیے پہلی عمارت کو بنیاد سے مسمار کرنا ضروری ہے)
اقبال نے یہ جواب سنا اور علی بخش سے ان صاحب کو اندر لانے کے لیے کہا اور خود بھی پیچھے پیچھے چل پڑے لیکن وہ صاحب نظر اقبال کے اس سوال کا جواب دے کر جا چکے تھے۔
امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی حالات سدھرے ہیں، انقلاب آیا ہے، قوموں نے ترقی کی منزلوں کو چھوا ہے تو ایک بات تاریخ کی سچائی کے طور پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ انھوں نے اپنے بوسیدہ اور گلے سڑے نظام کو بنیاد سے اکھاڑ کر باہر پھینکا اور ایک نئی طرز زندگی اور نئے طرز حکومت کی بنیاد رکھی۔ فرانس کے انقلاب سے لے کر روس، چین اور ایران کے انقلاب تک سب یہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکا میں 1777ء میں جب تحریک آزادی چلی تو ان کے رہنماؤں جنھیں وہ امریکا کے سات باپ (Seven Fathers) کہتے ہیں۔ انھوں نے ہر اس نظام کی بنیاد کو اکھاڑ کر پھینک دیا جو برطانوی راج نے نافذ کیا تھا۔ خود برطانیہ میں جب تک اپنے بادشاہ چارلس اول کو کٹہرے میںکھڑا کر کے اس کا سر تن سے جدا نہیں کیا، برطانیہ نے ترقی کی منزل کی جانب قدم نہیں رکھا۔
یوں تو پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کا ایک انوکھا اور منفرد واقعہ ہے۔ ایسا مرحلہ انسانوں کی جدید تاریخ میں نظر نہیں آتا کہ کوئی قوم رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر وجود میں نہ آئے بلکہ مذہب کی بنیاد پر قائم ہو، مذہب کی بنیاد پر لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کر جائیں۔ لیکن ہماری خرابی کا آغاز اس دن ہو گیا تھا جب ہم نے اس خطۂ ارض میں موجود اور نافذ نظام کی چھت تلے زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ برطانیہ سے ورثے میں ملے ہوئے نظام کی چھتری آج بھی ہم نے سروں پر تان رکھی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہی ہمیں آفتوں اور بلاؤں سے محفوظ رکھتی ہے۔ حالانکہ اس نظام کی چھتری میں بھی بیسیوں چھید ہو چکے ہیں۔
انگریز نے ہمیں تحفے میں جو چیزیں دیں ان میں بیورو کریسی، فوج، مفاد پرست سیاسی اشرافیہ، سیکولر نظام تعلیم اور حکومت کے تحفظ کے لیے قائم نظام انصاف شامل تھے۔ ان سب میں بنیادی چیز سیکولر نظام تعلیم تھا جو آج بھی نافذ العمل ہے۔ انگریز نے صدیوں پرانے مسلمانوں کے تعلیمی نظام کو بنیاد سے اکھاڑ کر اسے رائج کیا تھا جس کا مقصد ایک ایسی نسل پیدا کرنا تھا جو بظاہر دیسی نظر آئیں لیکن اندر سے انگریز ہوں۔ انگریز خود ایسے لوگوں کو ناریل (Coconut) کہتے ہیں، جب کہ وہ چینی، جاپانی نسل کے افراد وہ ان کے نظام تعلیم سے تربیت پا کر نکلے ہوں، انھیں وہ کیلا (Banana) کہتے ہیں۔ یعنی اوپر سے پیلے اور اندر سے سفید یعنی انگریز۔کسی کو وقت ملے تو لاہور میں پنجاب ارکائیوز میں جا کر وہ تمام دستاویز دیکھ لے کہ کیسے طویل محنت طلب اجلاسوں کے بعد ایک ایسا نظام تعلیم وضع کیا گیا جو مسلمانوں کو ان کے ماضی سے برگشتہ اور اپنی روایت پر شرمسار بنا دے۔
انگریز کی عطا کردہ بیورو کریسی اور فوج بنیادی طور پر تاج برطانیہ یعنی حکومت کی وفادار تھی۔ ان دونوں کے ضمیر میں یہ تصور نہیں تھا کہ وہ عوام میں سے ہیں اور انھی کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں۔ آغاز میں افسران پہلے فوج میں نوکری شروع کرتے اور پھر سول میں آ کر لوگوں پر حکومت کرتے۔ سکندر مرزا اس کی مثال ہے۔ فوج کا میجر، سول میں آیا ڈپٹی کمشنر، کمشنر وغیرہ بنا اور ساتھ ساتھ فوج کا میجر جنرل تک بن گیا۔
دونوں اداروں کا کام بہر صورت امن عامہ کا قیام اور اندرونی اور بیرونی استحکام تھا۔ ایسے میں عوام کی امنگوں، آرزوؤں اور خواہشات کو اگر کچل بھی دیا جائے تو پرواہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ڈپٹی کمشنر عوام میں اپنی نیک نامی کی پروا نہیں کرتا تھا بلکہ تاج یا حکومت کا حکم نافذ کرتا تھا۔ اس کے دست و بازو سول آرمڈ فورسزز بھی تھیں اور فوج بھی۔ دونوں کا جواز صرف یہ تھا کہ اس ملک پر اچھی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ پہلے سول بیورو کریسی سینئر پارٹنر تھی اور فوج جونیئر۔ لیکن 27 اکتوبر 1958ء کو فوج سینئر پارٹنر بن گئی۔ فوج کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے انگریز کی بنائی ہوئی اپنی عمارت میں سے ایک اینٹ بھی نہ بدلی جب کہ سول بیورو کریسی کی بنیاد تو وہی رہی لیکن اس پر ایسی بے ہنگم عمارتیں تعمیر کر دی گئیں کہ اس کی شکل تک پہچانی نہیں جاتی۔
انگریز کا دیا ہوا نظام انصاف شروع شروع میں دو افراد کے گرد گھومتا تھا، ایک ایس ایچ او دوسرا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ۔ اعلیٰ عدالتوں کا کردار اس لیے محدود رکھا گیا کہ انگریز تمام اختیار کو ان دونوں کو دینے کے بعد بے فکر ہو جانا چاہتا تھا۔ آج بھی یہی دو لوگ نظام کے ستون ہیں۔ نام بدل گئے، اختیار بدل گئے لیکن نہ تھانہ بدلا اور نہ ضلع کچہری۔ سب کچھ یہیں ہو جاتا ہے۔
ظلم، رشوت، سفارش، بددیانتی، انصاف، ان کی چکی سے نکل کر کوئی حوصلہ مند ہی ہو گا جو اعلیٰ عدالت تک جا سکے۔ سیاسی نظام تو اس قدر بوسیدہ اور متروک بنایا گیا تھا کہ تمام زندگی جوتیوں میں دال بٹتی رہے گی۔ انگریز نے پہلے ہر ضلع میں جائیدادیں دے کر خان، وڈیرے، نواب، سردار اور چوہدری بنائے، جب وہ مستحکم ہو گئے تو ان کے لیے پارلیمانی نظام کے تحت سیٹیں بنائیں۔ یہ بگٹی یا مری کی سیٹ تو یہ دولتانہ اور ممدوٹ کی سیٹ، یہ سومرو اور کھوڑو کی سیٹ تو یہ جدون اور ارباب کی سیٹ۔ صوبے ایسے تخلیق کیے اور ان میں اس طرح طاقت کے مراکز بنائے کہ آج آپ پاکستان توڑنے کی بات کرو تو ٹھیک، صوبہ توڑنے کی بات پر خون کی ندیاں بہنے کا اشارہ مل جاتا ہے۔ یہ نظام ایسے اگلے دو سو سال بھی چلتا رہے تو ایسا ہی رہے گا۔
یہ ہے وہ عمارت جس کی بنیاد کو ویران کر کے اگر نئی عمارت تعمیر نہیں ہوتی، ایک نئے ڈھنگ سے، ایک نئی آب و تاب سے، ایک نئی آرزو کے ساتھ اور سب سے زیادہ یہ کہ ایک نئی قیادت کے ساتھ تو اس وقت تک یہاں تبدیلی کا خواب دیکھنا بیکار ہے۔ اس عمارت میں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔ یہ کسی دن بھی دھڑام سے گر سکتی ہے۔ اقبال کو ایک صاحب نظر نے بشارت دی تھی کہ یہ راستہ ہے، لیکن آج کے صاحبان نظر کہتے ہیں کہ راستہ یہی ہے اور اس کے لیے نوجوانوں پر مشتمل ایک بہت طاقتور حکومت اس ملک کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے جو سب کچھ بدل دے گی۔ عمارت کی بنیاد گرا کر اس پر خوبصورت جدید اور عالیشان عمارت تعمیر کرے گی۔
علامہ اقبال نے عبدالمجید سالک سے کہا کہ ان کے پاس کسی دن جانا ہے کیونکہ ان کے پاس میرے اس سوال کا جواب موجود ہے کہ اس امت مسلمہ کی تعمیر نو کیسے ہو سکتی ہے۔ عبدالمجید سالک روز یاد کراتے، اقبال صبح بیدار ہو کر روایتی سستی میں پڑ جاتے، علی بخش حقہ تازہ کرتا اور وہ اس کے کش لگاتے ملاقاتیوں سے محو گفتگو ہو جاتے۔ ایک دن ایک صاحب اقبال کے گھر تشریف لائے، علی بخش نے دروازے پر استقبال کیا۔ فرمانے لگے اقبال تو اپنی سستی کی وجہ سے ملنے نہیں آ سکا، لیکن اس کے ایک سوال کا جواب میرے پاس تھا اور پھر جواب کے طور پر مولانا روم کا یہ شعر علی بخش کو تھما دیا۔
ہر بنائے کہنہ کہ بادن کنند
اول آں بنیاد را ویراں کنند
(ترجمہ: اگر تم چاہتے ہو کہ ایک نئی عمارت تعمیر کی جائے تو اس کے لیے پہلی عمارت کو بنیاد سے مسمار کرنا ضروری ہے)
اقبال نے یہ جواب سنا اور علی بخش سے ان صاحب کو اندر لانے کے لیے کہا اور خود بھی پیچھے پیچھے چل پڑے لیکن وہ صاحب نظر اقبال کے اس سوال کا جواب دے کر جا چکے تھے۔
امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی حالات سدھرے ہیں، انقلاب آیا ہے، قوموں نے ترقی کی منزلوں کو چھوا ہے تو ایک بات تاریخ کی سچائی کے طور پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ انھوں نے اپنے بوسیدہ اور گلے سڑے نظام کو بنیاد سے اکھاڑ کر باہر پھینکا اور ایک نئی طرز زندگی اور نئے طرز حکومت کی بنیاد رکھی۔ فرانس کے انقلاب سے لے کر روس، چین اور ایران کے انقلاب تک سب یہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکا میں 1777ء میں جب تحریک آزادی چلی تو ان کے رہنماؤں جنھیں وہ امریکا کے سات باپ (Seven Fathers) کہتے ہیں۔ انھوں نے ہر اس نظام کی بنیاد کو اکھاڑ کر پھینک دیا جو برطانوی راج نے نافذ کیا تھا۔ خود برطانیہ میں جب تک اپنے بادشاہ چارلس اول کو کٹہرے میںکھڑا کر کے اس کا سر تن سے جدا نہیں کیا، برطانیہ نے ترقی کی منزل کی جانب قدم نہیں رکھا۔
یوں تو پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کا ایک انوکھا اور منفرد واقعہ ہے۔ ایسا مرحلہ انسانوں کی جدید تاریخ میں نظر نہیں آتا کہ کوئی قوم رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر وجود میں نہ آئے بلکہ مذہب کی بنیاد پر قائم ہو، مذہب کی بنیاد پر لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کر جائیں۔ لیکن ہماری خرابی کا آغاز اس دن ہو گیا تھا جب ہم نے اس خطۂ ارض میں موجود اور نافذ نظام کی چھت تلے زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ برطانیہ سے ورثے میں ملے ہوئے نظام کی چھتری آج بھی ہم نے سروں پر تان رکھی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہی ہمیں آفتوں اور بلاؤں سے محفوظ رکھتی ہے۔ حالانکہ اس نظام کی چھتری میں بھی بیسیوں چھید ہو چکے ہیں۔
انگریز نے ہمیں تحفے میں جو چیزیں دیں ان میں بیورو کریسی، فوج، مفاد پرست سیاسی اشرافیہ، سیکولر نظام تعلیم اور حکومت کے تحفظ کے لیے قائم نظام انصاف شامل تھے۔ ان سب میں بنیادی چیز سیکولر نظام تعلیم تھا جو آج بھی نافذ العمل ہے۔ انگریز نے صدیوں پرانے مسلمانوں کے تعلیمی نظام کو بنیاد سے اکھاڑ کر اسے رائج کیا تھا جس کا مقصد ایک ایسی نسل پیدا کرنا تھا جو بظاہر دیسی نظر آئیں لیکن اندر سے انگریز ہوں۔ انگریز خود ایسے لوگوں کو ناریل (Coconut) کہتے ہیں، جب کہ وہ چینی، جاپانی نسل کے افراد وہ ان کے نظام تعلیم سے تربیت پا کر نکلے ہوں، انھیں وہ کیلا (Banana) کہتے ہیں۔ یعنی اوپر سے پیلے اور اندر سے سفید یعنی انگریز۔کسی کو وقت ملے تو لاہور میں پنجاب ارکائیوز میں جا کر وہ تمام دستاویز دیکھ لے کہ کیسے طویل محنت طلب اجلاسوں کے بعد ایک ایسا نظام تعلیم وضع کیا گیا جو مسلمانوں کو ان کے ماضی سے برگشتہ اور اپنی روایت پر شرمسار بنا دے۔
انگریز کی عطا کردہ بیورو کریسی اور فوج بنیادی طور پر تاج برطانیہ یعنی حکومت کی وفادار تھی۔ ان دونوں کے ضمیر میں یہ تصور نہیں تھا کہ وہ عوام میں سے ہیں اور انھی کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں۔ آغاز میں افسران پہلے فوج میں نوکری شروع کرتے اور پھر سول میں آ کر لوگوں پر حکومت کرتے۔ سکندر مرزا اس کی مثال ہے۔ فوج کا میجر، سول میں آیا ڈپٹی کمشنر، کمشنر وغیرہ بنا اور ساتھ ساتھ فوج کا میجر جنرل تک بن گیا۔
دونوں اداروں کا کام بہر صورت امن عامہ کا قیام اور اندرونی اور بیرونی استحکام تھا۔ ایسے میں عوام کی امنگوں، آرزوؤں اور خواہشات کو اگر کچل بھی دیا جائے تو پرواہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ڈپٹی کمشنر عوام میں اپنی نیک نامی کی پروا نہیں کرتا تھا بلکہ تاج یا حکومت کا حکم نافذ کرتا تھا۔ اس کے دست و بازو سول آرمڈ فورسزز بھی تھیں اور فوج بھی۔ دونوں کا جواز صرف یہ تھا کہ اس ملک پر اچھی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ پہلے سول بیورو کریسی سینئر پارٹنر تھی اور فوج جونیئر۔ لیکن 27 اکتوبر 1958ء کو فوج سینئر پارٹنر بن گئی۔ فوج کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے انگریز کی بنائی ہوئی اپنی عمارت میں سے ایک اینٹ بھی نہ بدلی جب کہ سول بیورو کریسی کی بنیاد تو وہی رہی لیکن اس پر ایسی بے ہنگم عمارتیں تعمیر کر دی گئیں کہ اس کی شکل تک پہچانی نہیں جاتی۔
انگریز کا دیا ہوا نظام انصاف شروع شروع میں دو افراد کے گرد گھومتا تھا، ایک ایس ایچ او دوسرا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ۔ اعلیٰ عدالتوں کا کردار اس لیے محدود رکھا گیا کہ انگریز تمام اختیار کو ان دونوں کو دینے کے بعد بے فکر ہو جانا چاہتا تھا۔ آج بھی یہی دو لوگ نظام کے ستون ہیں۔ نام بدل گئے، اختیار بدل گئے لیکن نہ تھانہ بدلا اور نہ ضلع کچہری۔ سب کچھ یہیں ہو جاتا ہے۔
ظلم، رشوت، سفارش، بددیانتی، انصاف، ان کی چکی سے نکل کر کوئی حوصلہ مند ہی ہو گا جو اعلیٰ عدالت تک جا سکے۔ سیاسی نظام تو اس قدر بوسیدہ اور متروک بنایا گیا تھا کہ تمام زندگی جوتیوں میں دال بٹتی رہے گی۔ انگریز نے پہلے ہر ضلع میں جائیدادیں دے کر خان، وڈیرے، نواب، سردار اور چوہدری بنائے، جب وہ مستحکم ہو گئے تو ان کے لیے پارلیمانی نظام کے تحت سیٹیں بنائیں۔ یہ بگٹی یا مری کی سیٹ تو یہ دولتانہ اور ممدوٹ کی سیٹ، یہ سومرو اور کھوڑو کی سیٹ تو یہ جدون اور ارباب کی سیٹ۔ صوبے ایسے تخلیق کیے اور ان میں اس طرح طاقت کے مراکز بنائے کہ آج آپ پاکستان توڑنے کی بات کرو تو ٹھیک، صوبہ توڑنے کی بات پر خون کی ندیاں بہنے کا اشارہ مل جاتا ہے۔ یہ نظام ایسے اگلے دو سو سال بھی چلتا رہے تو ایسا ہی رہے گا۔
یہ ہے وہ عمارت جس کی بنیاد کو ویران کر کے اگر نئی عمارت تعمیر نہیں ہوتی، ایک نئے ڈھنگ سے، ایک نئی آب و تاب سے، ایک نئی آرزو کے ساتھ اور سب سے زیادہ یہ کہ ایک نئی قیادت کے ساتھ تو اس وقت تک یہاں تبدیلی کا خواب دیکھنا بیکار ہے۔ اس عمارت میں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔ یہ کسی دن بھی دھڑام سے گر سکتی ہے۔ اقبال کو ایک صاحب نظر نے بشارت دی تھی کہ یہ راستہ ہے، لیکن آج کے صاحبان نظر کہتے ہیں کہ راستہ یہی ہے اور اس کے لیے نوجوانوں پر مشتمل ایک بہت طاقتور حکومت اس ملک کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے جو سب کچھ بدل دے گی۔ عمارت کی بنیاد گرا کر اس پر خوبصورت جدید اور عالیشان عمارت تعمیر کرے گی۔