برطانیہ کے ’’نالائق‘‘ وزیراعظم
یہ کچھ لوگ اتنے نالائق ہوتے ہیں کہ قسمت انھیں وزیراعظم تک بنا دیتی ہے لیکن ان کو کچھ بھی کرنا ورنا نہیں آتا
یہ کچھ لوگ اتنے نالائق ہوتے ہیں کہ قسمت انھیں وزیراعظم تک بنا دیتی ہے لیکن ان کو کچھ بھی کرنا ورنا نہیں آتا، حالانکہ پرائم منسٹری اتنا سا کام ہے کہ ''پرائمری ٹیچری'' بھی اس کے مقابل بڑی مشکل ہے کہ کم از کم بچوں کو چپ تو رکھنا پڑتا ہے جب کہ 'وزارت غوزما'' میں یہ بھی نہیں کرنا پڑتا سارے کام دوسرے کرتے ہیں اور پرائم منسٹر صرف کاغذات پر آٹو گراف دیتا ہے۔ اب ایسے لوگوں کو آپ اور کیا کہیں گے جو وزیراعظم بن کر بھی وزیراعظم نہیں بن پاتے حالانکہ ہمارے ہاں اگر دیکھیے کہ اگر کسی کھیت سے ہل چلانے، عمارت سے گارا اٹھانے والے کو بھی پکڑ کر ''وزارت غوزما'' کی کرسی پر بٹھا دیا جائے تو وہ بیٹھنے سے پہلے ہی وزیراعظم بن چکا ہوتا بلکہ بعض لوگ تو کرسی کے بغیر بھی ''وزیر اعظمی'' کرتے پھرتے ہیں، آدمی تو پھر آدمی ہے اگر آپ خرولا گاڑی کے ''انجن'' کو بھی یعنی اگر مگر
مینوں چاندی دیا جھانجراں لیا دے
جے تو میری ٹور ویکھنی
اس افیمی کا قصہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ اس نے دکاندار سے دو پیسے کی افیم مانگی، دکاندار نے کہا دو پیسے کی افیم سے کیا ہو گا، تو وہ بولا بس تم دو پیسے کی افیم تو دو باقی میرے سر میں ''وزیراعظمی'' بہت ہے۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ آج ہم پھر انگارے کیوں چبا رہے ہیں تو کچھ بات ہی ایسی سنی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ ان انگریزوں کو وہ وہ گالیاں دیں جو پولیس ڈکشنری میں بھری ہوتی ہیں، کم بخت وزیراعظمی کی ''و'' سے بھی واقف نہیں ہوتے، دنیا بھر کو سیاست سکھانے کے مدعی بنے پھرتے ہیں لیکن خود اتنے نالائق ہیں کہ کوئی ڈھنگ کا وزیراعظم بھی نہیں بنا سکتے۔
ایک وہ بھی تو برطانیہ کا وزیراعظم تھا جو ریل میں ہمیشہ تھرڈ کلاس میں سفر کرتا تھا ایک دن کسی نے کہا کہ آپ کا بیٹا تو اکثر فرسٹ کلاس میں سفر کرتا ہے اور آپ تیسرے درجے کے تختوں پر سفر کرتے ہیں، تو بولا ۔۔۔ وہ وزیراعظم کا بیٹا ہے اور میں ایک گڈریئے کا بیٹا ہوں۔ سنا ہے ایک مرتبہ ہمارے قائداعظم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا ایک شخص نے پوچھا تھا کہ آپ فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہیں جب کہ گاندھی جی ہمیشہ تھرڈ کلاس میں۔ تو انھوں نے کہا کہ فرسٹ کلاس لیڈر فرسٹ کلاس ہی میں سفر کرتے ہیں۔ اب جو تازہ واقعہ پڑھنے کو ملا ہے وہ ٹونی بلیئر کا ہے کہ اس نے جب اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے ٹیوٹر رکھا تو یہ بات جب پریس میں آئی تو چاروں طرف شور مچ گیا اتنا زیادہ شور کہ اتنا شور فریحہ پرویز کے یہ کہنے پر بھی نہیں اٹھا ہو گا کہ
پتنگ باز سجنا سے، پتنگ باز بلما سے
آنکھوں آنکھوں میں الجھی ڈور
لگا پیچا تو میچ گیا شور، کہ دل ہوا بو کاٹا
اب برطانوی اپوزیشن نے اعتراض کیا کہ گھر پر ٹیوٹر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم کے خیال میں سرکاری تعلیمی نظام ناقص ہے لہذا لیبر پارٹی کی حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے مگر ٹونی بلیئر نے پوری قوم سے معافی مانگ کر ٹیوٹر کو چھٹی دے ڈالی۔ آج کل میڈیا اور فکش کی دنیا میں جو انگریزی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے وہ کچھ زیادہ پرکشش ہے اور ناقابل تحریر بھی نہیں ہے لیکن ہم چونکہ تھوڑے سے شرمیلے واقع ہوئے ہیں اس لیے دو ''لفظوں'' کی یہ جوڑی استعمال نہیں کریں گے حالانکہ ان دو لفظوں کی کہانی اتنی مشکل بھی نہیں ہے کہ
تیری میری، میری تیری پریم کہانی ہے مشکل
دو لفظوں میں نہ بیاں ہو پائے گی
بہرحال اس کی جگہ ہم اردو کے لفظوں سے کام چلائیں گے جو ہمیں کچھ کچھ حجاب تو رکھتے ہیں، اور یہ لفظ ہیں اجتماعی زیادتی اس سے کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھئے گا کہ صرف زراعت کے ساتھ یہ دو لفظوں کی جوڑی ہوئی ہے مرض جب پھیلتا ہے تو پھر پھیلتا چلا جاتا ہے چنانچہ پاکستان کے تقریباً سبھی محکموں کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے، ہو رہا ہے اور یقیناً ہوتا رہے گا، لیکن بے چاری زراعت اس اجتماعی زیادتی کی وجہ سے تقریباً گور کنارے پہنچ چکی ہے۔ ورنہ سرکار کی طرف سے تو اب تک اس کی قبر پر کوئی بلڈنگ یا ہاوسنگ سوسائٹی بھی تعمیر ہونا چاہیے تھی، لیکن یہاں پر زیر بحث ایک اور ''ویکٹم'' تعلیم کا محکمہ ہے یا نظام ہے ۔۔۔۔ کہ وزیراعظم تو دور کی بات یہاں تک تو وزیروں ان کے چمچوں اور چمچوں تک کے بچے بھی اس ''نظام تعلیم'' سے اتنے برگشتہ ہیں کہ اسے دس گز کے ڈنڈے سے چھونا بھی پسند نہیں کرتے اور اپنے بچوں کو یہ لوگ نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے اس نظام تعلیم سے بچا بچا کر رکھتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ خاندانی حاکموں کے بچے ۔۔۔ بچا بچا کر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بقول علامہ اقبال
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
انھیں تو آخر کار اپنے خاندانی پیشے ہی میں آنا ہے اور اس کے لیے تعلیم سے زیادہ ''تربیت'' کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کو خاندانی طور پر میسر ہے، اس واقعہ کو پڑھ کر سوچ کا رخ ایک اور محکم کی طرف مڑ گیا بالفرض اگر ''ٹونی بلیئر'' نے اپنی کسی بیماری کا علاج کرنے کے لیے کسی غیر ملکی ڈاکٹر یا اسپتال سے رجوع کیا ہوتا ۔۔۔ تو
اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ برطانوی لوگ نہایت ہی نالائق خاص طور پر وزارت اور وزارت عظمیٰ کے تو ہر گز لائق نہیں ہیں اپنے یہاں آ کر دیکھئے اگر کسی کے چہرے پر پھنسی بھی نکل آتی ہے تو اس کا علاج سرکاری فنڈز پر کسی دور دراز کے ملک میں کیا جاتا ہے کیونکہ اپنے ملک کے نظام صحت کے بارے میں ان سے زیادہ جانکاری اور کس کو ہو گی، یہ ''پھنسی'' کا نام ہم نے یونہی نہیں لیا ہے بلکہ پچھلے کسی دور حکومت میں سندھ کے ایسے وزیر گزرے ہیں جو پیر بھی تو تھے کہ ان کی نواسی یا پوتی کو اپنے چہرے کی ایکنی کے لیے بیرون ملک بھیجنا پڑا تھا کیونکہ ان کو اپنے ہاں کے نظام صحت اور نظام فنڈز کی پوری پوری جانکاری حاصل تھی ہمارے اپنے صوبے میں غالباً ضیاء الحق کے دور کی بات ہے ایک صوبائی وزیر جو خود بھی ڈاکٹر تھا کی بیوی چار مرتبہ علاج کے لیے بیرون ملک گئی تھی اور یہ بات ہمیں وزارت خزانہ کے متعلقہ فنڈز کے ایک افسر نے بتائی تھی۔
اس بنیاد کو جو برطانیہ والوں نے رکھی ہے اگر فالو کیا جائے تو پھر وہ ساری بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ حکومت کے متعلقین کیوں ہر کام کے لیے بیرون ملک کو ترجیح دیتے ہیں، وہ ایک ہوٹل کا قصہ تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بڑا ہی مشہور ہوٹل تھا لوگوں کا اس میں بڑا رش ہوتا تھا ایک دن کوئی ہوٹل کے مالک کا دوست آیا اور ہوٹل کے مالک کا پوچھا تو بیرے نے بتایا کہ وہ پاس کے ہوٹل میں کھانا کھانے گئے ہیں، مہمان نے حیرت سے پوچھا اپنے ہوٹل کے ہوتے ہوئے دوسرے ہوٹل میں کھانے کی تک کیا ہے؟ تو بیرے نے جھجک کر اس شخص کے کان میں کہا اس لیے کہ ان کو اپنے ہوٹل اور اس کے کھانے کے بارے میں اچھی طرح پتہ ہے۔
اب اگر ہم اپنے ملک کو بھی ایک بڑا سا ہوٹل فرض کریں تو کیا اس کے مالک اور چلانے والے اگر باہر جاتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں، آنکھوں دیکھی مکھی بھلا کون نگل سکتا ہے، اسی لیے تو بزرگوں نے کہا ہے کہ ''آگہی'' سے بڑا عذاب اور کوئی نہیں ہے اور پھر جن کو استطاعت بھی نہ ہو ان کو تو جتنی کم سے کم آگہی ہو اتنے ہی سکھ میں رہیں گے۔ کسی فارسی بزرگ نے کہا ہے کہ: اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی، مطلب یہ کہ یہ جو پھول اور فول لوگ ہیں ان کی بے خبری ہی ان کے لیے نعمت ہے، رہے وہ لوگ پھول نہیں خوشبو ہوتے ہیں وہ تو اڑ کر ہواؤں میں بھی بکھر سکتے ہیں پھول تو اپنی جڑوں اور زمین سے بندھا ہوا ہے
تھے بزم میں سب دور سربزم سے شاداں
بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے
مینوں چاندی دیا جھانجراں لیا دے
جے تو میری ٹور ویکھنی
اس افیمی کا قصہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ اس نے دکاندار سے دو پیسے کی افیم مانگی، دکاندار نے کہا دو پیسے کی افیم سے کیا ہو گا، تو وہ بولا بس تم دو پیسے کی افیم تو دو باقی میرے سر میں ''وزیراعظمی'' بہت ہے۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ آج ہم پھر انگارے کیوں چبا رہے ہیں تو کچھ بات ہی ایسی سنی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ ان انگریزوں کو وہ وہ گالیاں دیں جو پولیس ڈکشنری میں بھری ہوتی ہیں، کم بخت وزیراعظمی کی ''و'' سے بھی واقف نہیں ہوتے، دنیا بھر کو سیاست سکھانے کے مدعی بنے پھرتے ہیں لیکن خود اتنے نالائق ہیں کہ کوئی ڈھنگ کا وزیراعظم بھی نہیں بنا سکتے۔
ایک وہ بھی تو برطانیہ کا وزیراعظم تھا جو ریل میں ہمیشہ تھرڈ کلاس میں سفر کرتا تھا ایک دن کسی نے کہا کہ آپ کا بیٹا تو اکثر فرسٹ کلاس میں سفر کرتا ہے اور آپ تیسرے درجے کے تختوں پر سفر کرتے ہیں، تو بولا ۔۔۔ وہ وزیراعظم کا بیٹا ہے اور میں ایک گڈریئے کا بیٹا ہوں۔ سنا ہے ایک مرتبہ ہمارے قائداعظم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا ایک شخص نے پوچھا تھا کہ آپ فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہیں جب کہ گاندھی جی ہمیشہ تھرڈ کلاس میں۔ تو انھوں نے کہا کہ فرسٹ کلاس لیڈر فرسٹ کلاس ہی میں سفر کرتے ہیں۔ اب جو تازہ واقعہ پڑھنے کو ملا ہے وہ ٹونی بلیئر کا ہے کہ اس نے جب اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے ٹیوٹر رکھا تو یہ بات جب پریس میں آئی تو چاروں طرف شور مچ گیا اتنا زیادہ شور کہ اتنا شور فریحہ پرویز کے یہ کہنے پر بھی نہیں اٹھا ہو گا کہ
پتنگ باز سجنا سے، پتنگ باز بلما سے
آنکھوں آنکھوں میں الجھی ڈور
لگا پیچا تو میچ گیا شور، کہ دل ہوا بو کاٹا
اب برطانوی اپوزیشن نے اعتراض کیا کہ گھر پر ٹیوٹر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم کے خیال میں سرکاری تعلیمی نظام ناقص ہے لہذا لیبر پارٹی کی حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے مگر ٹونی بلیئر نے پوری قوم سے معافی مانگ کر ٹیوٹر کو چھٹی دے ڈالی۔ آج کل میڈیا اور فکش کی دنیا میں جو انگریزی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے وہ کچھ زیادہ پرکشش ہے اور ناقابل تحریر بھی نہیں ہے لیکن ہم چونکہ تھوڑے سے شرمیلے واقع ہوئے ہیں اس لیے دو ''لفظوں'' کی یہ جوڑی استعمال نہیں کریں گے حالانکہ ان دو لفظوں کی کہانی اتنی مشکل بھی نہیں ہے کہ
تیری میری، میری تیری پریم کہانی ہے مشکل
دو لفظوں میں نہ بیاں ہو پائے گی
بہرحال اس کی جگہ ہم اردو کے لفظوں سے کام چلائیں گے جو ہمیں کچھ کچھ حجاب تو رکھتے ہیں، اور یہ لفظ ہیں اجتماعی زیادتی اس سے کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھئے گا کہ صرف زراعت کے ساتھ یہ دو لفظوں کی جوڑی ہوئی ہے مرض جب پھیلتا ہے تو پھر پھیلتا چلا جاتا ہے چنانچہ پاکستان کے تقریباً سبھی محکموں کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے، ہو رہا ہے اور یقیناً ہوتا رہے گا، لیکن بے چاری زراعت اس اجتماعی زیادتی کی وجہ سے تقریباً گور کنارے پہنچ چکی ہے۔ ورنہ سرکار کی طرف سے تو اب تک اس کی قبر پر کوئی بلڈنگ یا ہاوسنگ سوسائٹی بھی تعمیر ہونا چاہیے تھی، لیکن یہاں پر زیر بحث ایک اور ''ویکٹم'' تعلیم کا محکمہ ہے یا نظام ہے ۔۔۔۔ کہ وزیراعظم تو دور کی بات یہاں تک تو وزیروں ان کے چمچوں اور چمچوں تک کے بچے بھی اس ''نظام تعلیم'' سے اتنے برگشتہ ہیں کہ اسے دس گز کے ڈنڈے سے چھونا بھی پسند نہیں کرتے اور اپنے بچوں کو یہ لوگ نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے اس نظام تعلیم سے بچا بچا کر رکھتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ خاندانی حاکموں کے بچے ۔۔۔ بچا بچا کر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بقول علامہ اقبال
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
انھیں تو آخر کار اپنے خاندانی پیشے ہی میں آنا ہے اور اس کے لیے تعلیم سے زیادہ ''تربیت'' کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کو خاندانی طور پر میسر ہے، اس واقعہ کو پڑھ کر سوچ کا رخ ایک اور محکم کی طرف مڑ گیا بالفرض اگر ''ٹونی بلیئر'' نے اپنی کسی بیماری کا علاج کرنے کے لیے کسی غیر ملکی ڈاکٹر یا اسپتال سے رجوع کیا ہوتا ۔۔۔ تو
اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ برطانوی لوگ نہایت ہی نالائق خاص طور پر وزارت اور وزارت عظمیٰ کے تو ہر گز لائق نہیں ہیں اپنے یہاں آ کر دیکھئے اگر کسی کے چہرے پر پھنسی بھی نکل آتی ہے تو اس کا علاج سرکاری فنڈز پر کسی دور دراز کے ملک میں کیا جاتا ہے کیونکہ اپنے ملک کے نظام صحت کے بارے میں ان سے زیادہ جانکاری اور کس کو ہو گی، یہ ''پھنسی'' کا نام ہم نے یونہی نہیں لیا ہے بلکہ پچھلے کسی دور حکومت میں سندھ کے ایسے وزیر گزرے ہیں جو پیر بھی تو تھے کہ ان کی نواسی یا پوتی کو اپنے چہرے کی ایکنی کے لیے بیرون ملک بھیجنا پڑا تھا کیونکہ ان کو اپنے ہاں کے نظام صحت اور نظام فنڈز کی پوری پوری جانکاری حاصل تھی ہمارے اپنے صوبے میں غالباً ضیاء الحق کے دور کی بات ہے ایک صوبائی وزیر جو خود بھی ڈاکٹر تھا کی بیوی چار مرتبہ علاج کے لیے بیرون ملک گئی تھی اور یہ بات ہمیں وزارت خزانہ کے متعلقہ فنڈز کے ایک افسر نے بتائی تھی۔
اس بنیاد کو جو برطانیہ والوں نے رکھی ہے اگر فالو کیا جائے تو پھر وہ ساری بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ حکومت کے متعلقین کیوں ہر کام کے لیے بیرون ملک کو ترجیح دیتے ہیں، وہ ایک ہوٹل کا قصہ تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بڑا ہی مشہور ہوٹل تھا لوگوں کا اس میں بڑا رش ہوتا تھا ایک دن کوئی ہوٹل کے مالک کا دوست آیا اور ہوٹل کے مالک کا پوچھا تو بیرے نے بتایا کہ وہ پاس کے ہوٹل میں کھانا کھانے گئے ہیں، مہمان نے حیرت سے پوچھا اپنے ہوٹل کے ہوتے ہوئے دوسرے ہوٹل میں کھانے کی تک کیا ہے؟ تو بیرے نے جھجک کر اس شخص کے کان میں کہا اس لیے کہ ان کو اپنے ہوٹل اور اس کے کھانے کے بارے میں اچھی طرح پتہ ہے۔
اب اگر ہم اپنے ملک کو بھی ایک بڑا سا ہوٹل فرض کریں تو کیا اس کے مالک اور چلانے والے اگر باہر جاتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں، آنکھوں دیکھی مکھی بھلا کون نگل سکتا ہے، اسی لیے تو بزرگوں نے کہا ہے کہ ''آگہی'' سے بڑا عذاب اور کوئی نہیں ہے اور پھر جن کو استطاعت بھی نہ ہو ان کو تو جتنی کم سے کم آگہی ہو اتنے ہی سکھ میں رہیں گے۔ کسی فارسی بزرگ نے کہا ہے کہ: اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی، مطلب یہ کہ یہ جو پھول اور فول لوگ ہیں ان کی بے خبری ہی ان کے لیے نعمت ہے، رہے وہ لوگ پھول نہیں خوشبو ہوتے ہیں وہ تو اڑ کر ہواؤں میں بھی بکھر سکتے ہیں پھول تو اپنی جڑوں اور زمین سے بندھا ہوا ہے
تھے بزم میں سب دور سربزم سے شاداں
بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے