24ستمبرکی کال

کراچی میں کپتان کا جلسہ کامیاب بھی تھا اور ناکام بھی۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

کراچی میں کپتان کا جلسہ کامیاب بھی تھا اور ناکام بھی۔ کامیاب اس لیے کہ جلسہ دراصل لندن میں بیٹھے ایک صاحب کے پاکستان مخالف لگائے گئے دل آزار نعرے کا استرداد تھا۔ ناکام اس لیے تھا کہ حاضرین کی تعداد کم تھی۔ اگرچہ اس کی خوب پبلسٹی کی گئی تھی اور تین ستمبر کو لاہور کے جلسے میں اس کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ لیکن چھ ستمبر کی شب اہلِ کراچی نے دل کھول کر کپتان کی آواز پر لبیک کہا نہ حیران کر دینے والا رسپانس دیا۔

اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ''بھائی'' کے دل آزار بیان دینے اور کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے ''دولخت'' ہونے کے باوجود مخصوص طبقے کا ووٹ ٹوٹا نہ لخت لخت ہوا ہے۔ اس صورت حال نے کراچی میں پی ٹی آئی کو خاصا پریشان کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے نہال ہاشمی صاحب کا بھی مگر یہ دعویٰ بے جا اور بے بنیاد ہے کہ کراچی ہمیشہ ہی مسلم لیگ کا گڑھ تھا، ہے اور آیندہ بھی رہے گا۔ حیرانی ہوتی ہے کہ بھلے چنگے اور سنجیدہ فکر جناب نہال ہاشمی کو یہ بَڑ مارنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ پی ٹی آئی کے پُر جوش اور متحرک مرد و زن مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت بہرحال تسلیم کر نا پڑے گی کہ 6 ستمبر کو کراچی کے ناکام جلسے نے کپتان کے دل پر ضرب لگائی ہے۔

یقینا مایوسی کے غبار نے ان کے دل کو گھیر لیا ہو گا۔ لیکن وہ بظاہر اپنے اعصاب کو منظم کیے لگتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرنے پر تُلے ہیں کہ ہم تو صنم ڈوب ہی رہے ہیں، تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے۔ یہ عمل مگر حیات آفریں کم اور خودکشی کا زیادہ حامل نظر آتا ہے۔ کبھی کبھار تو ان کے اعلانات اور بیانات سے یہ جھلکتا ہے جیسے اُن کا پیمانہ صبر چھلک اُٹھا ہے، جیسے خواب بکھر سے گئے ہیں اور اب وہ آخری بازی لگا رہے ہوں۔ یہ کھیل کے میدان میں کھڑے ہزاروں ناظرین کے سامنے موجود کسی کھلاڑی کا عمل تو ہو سکتا ہے مگر یہ کسی دانشمند اور مدبر سیاستدان کا اقدام نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر جناب کپتان کا یہ اعلان کرنا کہ میں 24 ستمبر 2016ء کو نواز شریف سے ''ــکرپشن'' کا حساب لینے رائے ونڈ جا رہا ہوں۔

اُن کا داعیہ ہے کہ وہ پورا پاکستان رائے ونڈمیں اکٹھا کر دیں گے۔ رائے ونڈ وہ ضرور جائیں جہاں کے مضافات میں ''جاتی عمرہ'' بھی ہے اور جاتی عمرہ میں وزیر اعظم نوازشریف اور اُن کے خاندان کی ذاتی رہائشگاہیں بھی ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا کسی شریف انسان کے گھر کا گھیراؤ کرنا شر فا کا عمل ہو سکتا ہے؟ جمہوریت میں ممکنات کے لا محدود امکانات ہیں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور جمہوریت کی لاٹھی سے کسی کو بھی ہانکا جا سکتاہے۔ اس ہانکے کے مگر علیہ ما علیہ، عمل اور ردِ عمل پر بھی کپتان اور ان کے حواریوں نے غور فرما لیا ہے؟ یہ بھی فکر کر لی گئی ہے کہ ''دشمن'' کے گھر کا ''گھیراؤ'' کرنے کے بعد سیلاب ِبلا کس کس کے گھر جا سکتا ہے؟ کس کس کو دریا بُرد کر سکتا ہے؟

دلیل یہ دی گئی ہے اور دی جا رہی ہے کہ جاتی عمرہ میں جو رہائش گاہیں بروئے کار ہیں، اب وہ کسی کی ذاتی نہیں رہ گئی ہیں کہ انھیں حکمرانوں کا ''سب آفس'' اور ''سب کیمپس'' قرار دیا جا چکا ہے۔ وہاں سرکاری محافظ متعین ہیں اور مبینہ طور پر سرکار کے خزانے سے وہاں اُونچی باڑ تعمیر کی گئی ہے۔ مگر کیا یہ بھی درست ہو گا کہ اس ''کیمپس'' اور''سب آفس'' پر اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے سیاسی کارندے اور جیالے پِل پڑیں؟ یلغار کر دیں؟ ہماری مروجہ اخلاقیات تو بہرحال اس امر کی اجازت نہیں دیتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ اس اعلان پر عمل کیا جاتا ہے تو اس کو سیاسی عمل کم اور کوئی دوسرا نام زیادہ دیا جائے گا۔


جب چند سال قبل ٹی ٹی پی نے دھمکی دیتے ہوئے اعلان کیا تھاکہ ہم اسلام آباد کے سرکاری دفاتر اور سرکاری عمال کے گھروں پر براہ راست یلغار کریں گے تو اسے''خارجی گروہوں کا حملہ'' قرار دیا گیا تھا۔ اب جناب کپتان کے اس اعلان اور''ممکنہ عمل'' کو کس نام سے پکارا جائے گا؟ رائے ونڈ پر یلغار کے اعلان پر عمل درآمد کرنے میں ابھی دو ہفتے باقی ہیں۔

ان دو ہفتوں میں نجانے ''تاریخ'' کیا کیا رنگ اور شکل اختیار کرتی ہے۔ مگر اس وقت تو یوں لگ رہا ہے جیسے اپوزیشن کے تمام دھڑوں میں اس عمرانی اعلان کو پزیرائی نہیں ملی ہے۔ مثال کے طور پر جماعت ِ اسلامی نے اس پر حامی بھری ہے، نہ اس کے امیر جناب سراج الحق نے۔جماعت اسلامی، ایسے اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ قاف لیگ بھی اس ضمن میں حمایت کرتی نظر نہیں آ رہی۔ مثال کے طور پر چوہدری شجاعت حسین کا یہ کہنا کہ عمران خان کو رائے ونڈ مارچ نہیں کرنا چاہیے اور یہ کہ گھروں پر یلغار کرنے کی روایت ایک بار پڑ گئی تو پھر یہ دور تک جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چوہدری برادران تازہ عمرانی ایجنڈے کے ساتھ نہیں چل رہے۔ ''دور تک جانے'' کی بات کر کے چوہدری صاحب نے ایک لحاظ سے کپتان اور اس کے ہمنواؤں کو متنبہ کر دیا ہے۔ اس انتباہ کے باوجود مگر تحریک دینے اور تشدد پر ابھارنے والوں کی کمی نہیں ہے۔

مثلاً راولپنڈی کی مشہور لال حویلی کے مکین کا یہ اعلان کہ 24 ستمبر کو جاتی عمرہ جانے کا وقت آ گیا ہے، لوگ راشن جمع کر لیں۔ حیرت ہے۔ کیا 24 ستمبر کو لام بندی ہونے جا رہی ہے؟ ایسا ہر گز نہیںہے۔ پھر ان تشدد آمیز بیانات کا کیا معنی؟ فریقِ مخالف کی طرف سے بھی اسی ٹون میں جواب آیا ہے: ''ہم لندن میں عمران کے بچوںکے گھر کا گھیراؤ کریں گے'' اور یہ کہ ''عمران، ترین اور قریشی کے گھروںکی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی''۔ یا خدایا، رنگ رنگ کے ہمارے دشمن ہمارے اوپر چڑھے آتے ہیں اور ہمارے یہ سیاست کار کیا کھیل کھیل رہے ہیں؟ یقینا حزب مخالف کو بر سرِ اقتدار افراد اور جماعت سے گلے شکوے ہیں، وہ بعض سوالوںکے جواب بھی مانگ رہے ہیں لیکن اپنی مرضی کے جواب حاصل کرنے کے لیے یہ کیا اسلوب ہے؟ کیا طریق ہے؟

چوبیس ستمبر 2016ء کو وزیر اعظم محمد نواز شریف نیو یارک میں ہوںگے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کر نے کے لیے۔ نریندر مودی بھی وہیںہونگے جن کی موجودگی میں نواز شریف کشمیر اور کشمیریوں کا مقدمہ لڑ رہے ہوں گے۔ کشمیریوں پر تازہ بھارتی مظالم بے نقاب کر رہے ہوں گے۔ دہشتگردی کے خلاف افواج پاکستان کی کامیابیوں کا ذکر دنیا بھر کے حکمرانوں کے سامنے پیش کر رہے ہوں گے۔ امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کا جھنڈا بلند کر رہے ہوں گے۔ اقوامِ عالم کے سامنے پاکستان کی خوشحالی کے لیے'' سی پیک '' کے حوالے سے حاسدین اور مخالفین کے تحفظات دور کر رہے ہوں گے۔ ایسے میںکیا کپتان، ان کے حواریوں، ہمنواؤں اور ہم خیال جماعتوں کے لیے مناسب ہو گا کہ وہ غیروں کے سامنے اپنے منتخب وزیر اعظم کا سر نیچا کر دیں؟ کیا اس بے حسی کا اظہار اور مرکزِ گریز عمل کا مظاہرہ کرنا مستحسن اور مستحب ہو گا؟

ہم سب جانتے ہیں کہ ''را'' اور بھارتی وزیر اعظم مودی اور انڈین نیشنل سیکیورٹی کے ایڈوائزر، اجیت ڈوول، نے پاکستان خصوصاً بلو چستان کے خلاف کیا کیا منصوبے بنا رکھے ہیں۔ وہ 24 ستمبرکو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے ایجنڈے کو سامنے لانے کی ہر ممکنہ کوشش کریں گے۔ کیا ایسے میں کپتان اور ان کے سنگی ساتھیوں کے لیے مناسب ہو گا کہ وہ نواز شریف سے ''حساب لینے'' کے نام پر دنیا کے سامنے اُنہیں سرنگوں کر دیں؟ انھیں دباؤ میں لائیں؟ ہماری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے ذمے دار اور قومی سلامتی کے ضامن اداروں کو بھی اس سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا تا کہ ہم دنیا کی قوموں کے سامنے تماشہ بن کر نہ رہ جائیں۔ دوسری طرف پرویز رشید، دانیال عزیز، طلال چودھر ی، رانا ثناء اللہ اور احسن اقبال ایسے ''ہاکس'' پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی 24 ستمبر تک ایسے بیانات دینے سے گریز کریں جس سے کپتان اور ان کے ہم خیال و ہمنوا بھڑک اُٹھیں۔ قومی مفاد میں تالی ایک ہاتھ سے بجانے کی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ ہر گز نہیں۔
Load Next Story