شام کے مسئلہ پر امریکا روس اتفاق
شام میں قتل عام اور خوف کے خاتمہ کے لیے کسی سیاسی معاہدے کی ضرورت طویل عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی
سوئٹرز لینڈ کے شہر جنیوا میں مذاکرات کے بعد امریکا اور روس نے شام میں 12 ستمبر (بروز پیر) غروب آفتاب سے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے جس کے مطابق شامی حکومت باغیوں کے کنٹرول میں مخصوص علاقوں کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی۔ شام میں قتل عام اور خوف کے خاتمہ کے لیے کسی سیاسی معاہدے کی ضرورت طویل عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی کیونکہ شام میں جاری خانہ جنگی چھٹے سال میں داخل ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں اور خانماں بربادیاں ہو چکی ہیں جن کا محض ذکر ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔
شام اسلامی تاریخ کا ایک نہایت اہم ملک ہے مگر اب اس میں مسلمانوں کی کئی دشمن طاقتیں بھی شامل ہو کر حالات کو اور زیادہ خراب کر رہی ہیں۔ ایک طرف شام کے حکمران بشار الاسد کی فوجیں باغیوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ان کارروائیوں میں رہائشی علاقوں پر بمباری بھی کی جاتی ہے۔ اس لڑائی میں امریکا، روس، ایران اور ترکی کی افواج بھی شامل ہیں۔
ہمارے پاس شام کے اندرونی حالات کے بارے میں پہنچنے والی خبریں مغربی ذرایع ابلاغ کے ذریعے آتی ہیں جن میں رپورٹنگ ایک مخصوص زاویے سے کی جاتی ہے لہٰذا اصل صورت حال کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ شام کی موجودہ صورت حال سے اس کی پڑوسی عرب ریاستیں اپنے لیے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ شام کے بارے میں یہ خبر حیرت انگیز ہے کہ شام کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے واقع ایک بین الاقوامی ادارے کی عمارت کی پانچویں منزل پر بیٹھے مختلف ماہرین جنھیں اعلی مذاکراتی ٹیم کا نام دیا گیا ہے، ہزاروں میل کی دوری سے شام کا مسئلہ حل کرنے کے لیے آپس میں بحث مباحثے کر رہے ہیں۔
اب تازہ اطلاع جو امریکا روس معاہدے کی صورت میں سامنے آئی ہے اس کے بارے میں یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ شام کے اندر اس معاہدے پر اسی انداز سے عمل کیا جائے گا جس کا معاہدہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اعلیٰ مذاکراتی گروپ کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ شام کے صدر بشار الاسد کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں باغیوں پر برتری حاصل ہورہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہیں انھیں منظر سے ہٹانے کی کوششیں بھی جاری ہیں جب کہ شام کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
شام اسلامی تاریخ کا ایک نہایت اہم ملک ہے مگر اب اس میں مسلمانوں کی کئی دشمن طاقتیں بھی شامل ہو کر حالات کو اور زیادہ خراب کر رہی ہیں۔ ایک طرف شام کے حکمران بشار الاسد کی فوجیں باغیوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ان کارروائیوں میں رہائشی علاقوں پر بمباری بھی کی جاتی ہے۔ اس لڑائی میں امریکا، روس، ایران اور ترکی کی افواج بھی شامل ہیں۔
ہمارے پاس شام کے اندرونی حالات کے بارے میں پہنچنے والی خبریں مغربی ذرایع ابلاغ کے ذریعے آتی ہیں جن میں رپورٹنگ ایک مخصوص زاویے سے کی جاتی ہے لہٰذا اصل صورت حال کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ شام کی موجودہ صورت حال سے اس کی پڑوسی عرب ریاستیں اپنے لیے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ شام کے بارے میں یہ خبر حیرت انگیز ہے کہ شام کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے واقع ایک بین الاقوامی ادارے کی عمارت کی پانچویں منزل پر بیٹھے مختلف ماہرین جنھیں اعلی مذاکراتی ٹیم کا نام دیا گیا ہے، ہزاروں میل کی دوری سے شام کا مسئلہ حل کرنے کے لیے آپس میں بحث مباحثے کر رہے ہیں۔
اب تازہ اطلاع جو امریکا روس معاہدے کی صورت میں سامنے آئی ہے اس کے بارے میں یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ شام کے اندر اس معاہدے پر اسی انداز سے عمل کیا جائے گا جس کا معاہدہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اعلیٰ مذاکراتی گروپ کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ شام کے صدر بشار الاسد کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں باغیوں پر برتری حاصل ہورہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہیں انھیں منظر سے ہٹانے کی کوششیں بھی جاری ہیں جب کہ شام کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔