پہلے تین تھیسس   پہلا حصہ

خارجی عمل انسان کے شعور میں منعکس ہوتا ہے اور انسان محض ایک مجہول شے ہے

ibhinder@yahoo.co.uk

کارل مارکس نے لڈوگ فیورباخ پر 1845 میں گیارہ تھیسس لکھے تھے، جو کہ بہت ہی مختصر، مگر انتہائی جامع اور پُرمغز ہیں۔ان تھیسس کی سب سے بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں مارکسی فلسفہ ماضی کے تمام فلسفوں کی حدود متعین کرتا ہواپنا راستہ تمام مغربی فلسفے سے الگ کرلیتا ہے۔ ان میں سے پہلے تین تھیسس میں نہ صرف مارکسزم سے پہلے کی مادیت پسندی بلکہ عینیت پسندی کی بھی بہت ہی مختصر مگر جامع تنقید پیش کی گئی ہے۔

یہ تھیسس مادیت پسندی اورعینیت پسندی کے تجریدیت کے پہلوکو عیاں کرتے ہوئے سماج کی حقیقی تاریخی بنیادوں کو جدلیاتی نقطہ نظر سے واضح کرتے ہیں ۔ جہاں ایک طرف ایک ہی نکتے پر زور دیا جاتا ہے تو دوسری طرف اس نکتے کے برعکس کسی دوسرے نکتے کی اہمیت کو بھی واضح کردیا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ گیارہ تھیسس مارکس سے پہلے تک کے تمام مادیت پسند اور عینیت پسند فلسفے کی تنقید پیش کرتے ہیں، لیکن میں یہاں صرف پہلے تین تھیسس پر توجہ مرکوزکروں گا۔ واضح رہے کہ یہ تھیسس مارکسی فلسفے میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور انھیں سمجھے بغیر مارکسی فلسفے کی تفہیم آسان نہیں ہے۔پہلا تھیسس کچھ یوں ہے:

''اب تک کے مادیت کے فلسفے کی سب سے بڑی خامی یہ رہی ہے(جس میں فیورباخ کا فلسفہ بھی شامل ہے) کہ اس میں شے، حقیقت ، حسیت کو معروض کی ہیت یا محض تفکرکی صورت میں سمجھا جاتا رہا ہے،اسے نہ موضوعی طور پر اور نہ ہی حسی اور عملی انسانی فعلیت کے طور پر ہی سمجھا گیا ہے۔ عینیت پسندی میں اس کے فعال پہلوکی نشونما مادیت پسندی کے برعکس محض تجریدی طور پر ہوئی تھی، بہرحال اس طریقے سے حقیقی اور حسیاتی فعلیت کو جانا نہیں جاسکتا۔ فیورباخ حسیاتی معروضات کو فکر کے معروضات سے الگ کرلیتا ہے، وہ انسانی فعلیت کو معروضی فعلیت کے طور پر نہیں سمجھتا۔اپنی کتاب ''مسیحیت کا جوہر'' میں وہ نظریے ہی کو حقیقی انسانی رویہ سمجھتا ہے، جب کہ عمل کو اس کے کثیف تجارتی شکل میں سمجھا اورطے کیا جاتا ہے۔اس طرح وہ انقلابی ،عملی تنقیدی فعلیت کی اہمیت کو سمجھنے میں ناکام رہتا ہے۔''

پہلے ہی جملے میں مادیت کے اس پہلو کو یکسر رد کر دیا گیا ہے کہ خارجی دنیا انسان کے شعور سے الگ وجود رکھتی ہے اورانسانی فعلیت کے برعکس محض خارجی عمل ہی انسان کے شعور میں منعکس ہوتا ہے، اگر اس بات پر یقین کرلیا جائے کہ خارجی عمل انسان کے شعور میں محض منعکس ہوتا ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ شعورمحض خارجی عمل کی انفعالی تجسیم ہے اوراس کا کردار قطعی طور پر فاعلانہ کردار نہیں ہے۔ لہذا پہلا ہی جملہ موضوعی اورمعروضی کی جدلیات پر قائم ہے۔

واضح رہے کہ یہاں حسیات کا کردار ایسا نہیں کہ جہاں محض خارجی دنیا انسان کے شعور میں منعکس ہوتی ہے، بلکہ حسیات کی جگہ محض عملی فعلیت میں بنتی ہے۔ اس میں اہم ترین عنصر حسی فعلیت کا ہے۔پہلے ہی تھیسس میں موضوعی عنصرہی تھا جس کو خود ولادیمیر لینن نے یکسر نظر اندازکردیا اور نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ لینن نے ''مادیت اور تجربی انتقاد'' جیسی کتاب لکھی، جسے آج قطعی طور پر قدرکی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

لینن کی یہ کتاب ہیگلیائی مارکسیوں جیسا کہ کارل کورش کی ''مارکسزم اور فلسفہ'' اور جارج لوکاش کی ''تاریخ اور طبقاتی کشمکش'' سے براہِ راست متصادم تھی۔ پہلا تھیسس یہ واضح کرتا ہے کہ شعورکے فاعلانہ کردار کا فیورباخ تک کے مادیت کے فلسفے میں یکسر فقدان تھا۔ پہلا تھیسس یہ بھی واضح کرتا ہے کہ موضوعیت کے فاعلانہ کردار کا یہ پہلو جرمن فلسفے بالخصوص کانٹ کے ''تعقل عملی'' کے فلسفے میں واضح طور پر تشکیل دیا جاچکا تھا۔

پہلے تھیسس سے واضح یہ ہوتا ہے کہ جہاں مادیت پسندی میں موضوع کے فاعلانہ کردارکو یکسر نظر اندازکیا جاتا رہا ہے تو وہاں عینیت پسندی میں سارا انحصار ہی موضوع کے فعال کردار پرکرکے مادیت کے اس پہلو کو نظر اندازکیا گیا ہے جو عینیت پسندی کے موضوعی عنصر کو معروضی بنیاد فراہم کرتا ہے۔مارکس نے ان تھیسس میں مادیت پسندی کے نقطہ نظر سے جن اہم ترین نکات پر بحث کی ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں 'ثنویت' کے فلسفے کو یکسر رد کردیا گیا ہے، یعنی میکانکی مادیت اورعینیت پسندی میں انسان اورخارجی دنیا کے درمیان ایک خلیج موجود رہتی ہے۔


وہ دنیا جو انسان تک حسیات کی وساطت سے پہنچتی ہے، جس میں انسان کی عملی فعلیت کو شامل نہیں رکھا جاتا وہ لازمی طور پر ثنویت کے حصار میں رہتی ہے۔ موضوعی اور معروضی کے اس ' تخالف' کو پہلے ہی تھیسس میں مستردکردیا گیا ہے۔ مادی دنیا انسان سے الگ وجود رکھتی ہے، خارجی عمل انسان کے شعور میں منعکس ہوتا ہے اور انسان محض ایک مجہول شے ہے جس کے شعور پر خارجی عمل کے اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں اور انسان کسی بھی طرح کا فاعلانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، ان تمام نتائج کو پہلا تھیسس مستردکرتا ہے۔

انسان خود سے 'الگ' خارجی دنیا کا محض علم حاصل نہیں کرتا، جیسے کہ پہلے ہی فقرے سے واضح ہے، بلکہ انسان کا اصل کام اپنی ہی فعلیت اور اپنے ہی عمل کواس حالت میںجاننا ہے جب انسان خارجی دنیا کو تبدیل کررہا ہوتا ہے۔انسانی عملی فعلیت کے دوران جہاں خارجی دنیا تبدیل ہوتی ہے تو وہاں انسان خود بھی تبدیل ہوتا ہے۔ فلسفے کا کام یہ ہے کہ اس تبدیلی کے عمل کو جانے، نہ کہ خارجی دنیا سے الگ ہوکر محض اس کے بارے میں تفکر کرتا رہے۔دوسرے تھیسس میں اس نکتے کو مزید صراحت سے پیش کیا گیا ہے، جو کچھ یوں ہے۔

''یہ سوال کہ معروضی سچ کو انسانی فکر سے ہی منسوب کیا جا سکتا ہے صرف نظریے کا نہیں، بلکہ ایک عملی سوال ہے۔انسان کو لازمی طور پر سچ کو ثابت کرنا ہے، یعنی اس کی حقیقت اور طاقت، اس کے یکطرفہ پن کو عمل میں ثابت کرنا ہے۔ فکر کی حقیقت اور عدم حقیقت کا تنازعہ جب عمل سے کٹ جائے تو وہ محض ایک متکلمانہ سوال رہ جاتا ہے۔''

انسانی تفکر کا مرکزومحورمحض ''معروضی سچ'' کو شعور میں منعکس کرنا ہی نہیں ہے، بلکہ انسان کی اپنی ہی فعلیت اور عمل (پریکٹس) کو ہونا چاہیے۔ تھیوری عمل سے اسی وقت ربط میں آتی ہے جب وہ عمل کو جانتی ہے۔ عمل مسلسل ہے، کوئی ایسا عمل نہیں جس میں انسان فعال نہ ہو اور کوئی ایسا عمل نہیں جو شعور کے فعلیت کے بغیر طے پائے۔

محض عمل کو جاننا اور اس شعورکو نہ جاننا جو عمل کی بنیاد میں کارفرما ہے کا مطلب یہ ہوا 'حقیقت' کے یکطرفہ پن تک ہی رسائی حاصل کی جارہی ہے، اسی طرح شعورکے فعال کردار کو جاننے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ حقیقی عملی فعلیت جس میں شعورکی اپنی لازمیت موجود ہے، اسے نظر انداز کیا جارہا ہے۔ انسانی فعلیت میں شعوراور عمل کی جدلیات کو یکسر نظر انداز کرنے کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مادیت پسندی اورعینیت پسندی کی ترویج ہوتی رہی ہے۔ مارکسی فلسفے کا اصل مقصد انسان کی فعلیت میں شعور اور عمل کی وحدت کو جاننا ہے۔

اب تک کے تجزیے سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عینیت پسندی کا سب سے بنیادی نقص ہے کہ اس میں انسانی فعلیت کو اس عمل (پریکٹس) سے الگ کرلیا جاتا ہے کہ جس کے دوران انسان خارجی دنیا کو تبدیل کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں خود بھی تبدیل ہوتا ہے۔

(جاری ہے۔)
Load Next Story