پاک امریکا اشتراک ِکار کے نمایاں ثمرات …
سات سال قبل اسی مہینے میں صدر اوبامہ نے پاکستان کے ساتھ اشتراک میں اضافہ کے تاریخی ایکٹ پر دستخط کیے تھے
اس موسم ِ خزاں میں مجھے پاکستان آئے ایک سال ہوگیا ہے۔ اِن بارہ مہینوں میں ،مَیں نے اس ملک اور اس کے لوگوں میں بے پناہ صلاحیتوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ پاکستان بھی، میرے وطن کی طرح ایک تصورکی پیداوار ہے۔ جیساکہ بانیء پاکستان محمد علی جناح نے ریڈیو پر اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا تھا کہ یہ تصور ایک ایسی متحرک قوم کا خواب تھا جو دنیا میں امن وآشتی اور خوش حالی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کو تیار ہو۔ ۱۹۴۷ء میں میرے ملک کی قیادت نے بھی پاکستان کی ممکنہ صلاحیتوں کا اندازہ لگایا تھا جن کا میں آج مشاہدہ کررہاہوں۔ امن اور خوش حالی کی راہ آسان اور سیدھی نہیں رہی ، پھر بھی بہت زیادہ پیش رفت ہوچکی ہے۔ پاکستان کے اولین قائد کے دیے گئے نصب العین کو مکمل طورپرعملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیں محض مستقبل کی جانب ہی نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ہمیں ماضی میں بھی جھانکنا چاہیے تاکہ ہم اپنے افعال سے سیکھ سکیں، کامیابیوں کو مزید آگے لے جاسکیں اور اپنی کمزوریوں پر قابو پائیں۔
سات سال قبل اسی مہینے میں صدر اوبامہ نے پاکستان کے ساتھ اشتراک میں اضافہ کے تاریخی ایکٹ پر دستخط کیے تھے۔اس قانون کے تحت، جو عام طور پر اپنے خالقین سینیٹرز کیری، لوگر اور رکنِ کانگریس برمن کے ناموں کی مناسبت سے کیری لوگر برمن ایکٹ سے موسوم کیا جاتا ہے، حکومت ِامریکا نے ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۴ء کے دوران لگ بھگ چھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ کیری لوگر برمن ایکٹ ۳۰ ِستمبر ۲۰۱۴ء میں مکمل ہوا اور اس بات کو اب دو برس ہونے کوآئے ہیں۔یہ وقت ماضی پر نظر دوڑانے کا ہے کہ ہم اپنی کارکردگی سے سیکھیں اور کامیابیوں کو مزید آگے بڑھائیں۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ کیری لوگر برمن ایکٹ حکومت ِامریکا کی پاکستان کو ترقیاتی اعانت کانقطہ آغاز ہے نہ اختتام۔امریکا اور پاکستان ساٹھ برسوں سے مل ِجْل کر کام کررہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ راستہ کٹھن رہا ہے اور غیر ملکی اعانت کے حجم میں کمی وبیشی ہوتی رہی ہے کیونکہ ان برسوں میں دونوں ملکوں میں سیاسی امکانات اور مجبوریاں آڑے آتی رہی ہیں۔ماضی میں تعلقات کی بلندیوں کی طرح ، کیری لوگربرمن ایکٹ بھی دونوں ملکوں کے مابین ایک نقطہ عروج تھا۔ ۲۰۰۹ء میں حکومت ِامریکا سمجھتی تھی کہ پاکستان کوداخلی چیلنجز درپیش تھے جنھیں اگر حل نہ کیا گیا تو اس سے پاکستانیوں کی ایک پوری نسل متاثرہوگی اور ان مسائل سے پڑوسی ممالک کے استحکام کو خطرات لاحق ہوں گے۔ ہم یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان مسائل پر قابو پانے میں ہم پاکستان کی حکومت اور لوگوں کی مددکرسکتے تھے۔ بے شمار رکاوٹوں کے باوجود،جن میں سے بعض کا اْس وقت اندازہ بھی نہ لگایا جا سکا، پاکستان بھر میں مختلف آبادیوں میں ہماری مشترکہ کامیابیوں کودیکھا جاسکتا ہے۔ایسا ہی کامیابی کا ایک ثبوت کاشتکار ناہید فاطمہ کے کھلیان ہیں۔۲۰۰۹ء میں ناہید کا چھوٹا سا رقبہ تین افراد کی کفالت کے لیے کافی نہ تھا۔ وہ آٹا پیسنے اور کپڑے سینے ایسے چھوٹے موٹے کام کرکے گزارہ کر رہی تھی جس سے اْسے سلائی کے سو ڈیڑھ سو روپے مل جاتے تھے۔برسوں کی جدوجہد کے بعد اْس کی زندگی میں اس وقت تبدیلی آئی جب اس نے یوایس ایڈ کے "ایگریکلچرل انوویشن پروگرام "کے تحت حاصل کیے گئے بیجوں کی نئی قسم کاشت کرنی شروع کی۔ آج وہ اپنے چھوٹے سے رقبہ پر گندم کی سال میں دو فصلیں اْگاتی ہے جس کے پودے مضبوط اور زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ پاکستان بھر میں تقریبًا ایک لاکھ دو ہزار کسانوں کی داستانیں ناہید کی کہانی کی طرح ہیں۔ ان کسانوں نے پاکستان کی اجناس کی برآمدات میں چار کروڑ چالیس لاکھ ڈالر سے زیادہ کا اضافہ کیا ہے۔ انجینئرنگ کی گریجویٹ اسٹوڈنٹس وردہ مشتاق اور سیدہ مہوش بھی ایسی ہی کامیابی کی ایک اور مثال ہیں جو کیری لوگر برمن ایکٹ کی بدولت ممکن ہوئی۔یہ دونوں لڑکیاں پاکستان کے اساتذہ کے پھلتے پھولتے کیڈر کا حصہ ہیں جو ملک کو درپیش ہنگامی مسائل سے نمٹنے کے لیے مصروف ِعمل ہے۔ اپنے تیئس دیگر طالبعلموں کے ساتھ اْنہوں نے یوایس پاکستان سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز پراجیکٹ کے تحت ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ایک سمیسٹر کے دوران تحقیق کی نت نئی تیکنیک سیکھیں اور توانائی کے بحران سے متعلق پراجیکٹس پر کام کیا۔ وردہ مشتاق اور سیدہ مہوش شمسی توانائی کے شعبے میں اپنے حاصل کیے گئے علم کے ساتھ وطن واپس آچکی ہیں، جس سے اْنہیں پاکستان میں جاری توانائی کے شعبہ میں کمزوریوں کو دْور کرنے میں مددملے گی۔ یوایس ایڈ نے وردہ اور سیدہ کی طرح تیرہ ہزار سے زیادہ طلباوطالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیے۔ کیری لوگربرمن ایکٹ کے تحت آج کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی کام کیا گیا۔ ۲۰۱۴ ء تک حکومت ِ امریکا نے پاکستان کے نیشل پاور گرڈ میں ڈیڑھ ہزار میگا واٹ بجلی شامل کرنے میں اعانت کی جو ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پاکستانیوں کی بجلی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان کی زرعی پیداوار سے لدے ٹرک نو سو کلومیٹر سے زیادہ طویل شاہراہوں پر رواں دواں ہیں جو کیری لوگر برمن ایکٹ کے تحت تعمیر کی گئیں یا اْن کی مرمت کی گئی۔یہ سڑکیں اْن علاقوں سے گزرتی ہیں ، جو خاص طورپر تشدد آمیز انتہاپسندی کے خطرات سے دوچارہیں ، اور ان میں پاکستان اور افغانستان کے مابین چار مرکزی تجارتی راہداریاں بھی شامل ہیں۔ ان سڑکوں سے خطہ میں نت نئے کاروباروںکو فروغ ملا اور پاکستان کے انتہائی الگ تھلگ علاقے نئی منڈیوں اور خدمات کے سلسلے سے منسلک ہوگئے۔بہت سے پاکستانی بچے جو رواں موسم خزاں میں اسکولوں میں واپس جائیں گے اور اْن ڈیسکوں پر بیٹھیں گے جو دونوں ممالک کے درمیان اشتراک سے مہیاکیے گئے۔ملک بھر میں یوایس ایڈ نے پاکستان کو کم وبیش ایک ہزار اسکولوں کی مرمت میں مددکی جن میں سے بہت سے ۲۰۱۰ ء کے سیلاب میں متاثرہوئے تھے۔کیری لوگر برمن ایکٹ کے دور میں پاکستان اور امریکا کی حکومتوں نے کئی سبق سیکھے کہ کس طرح نئے ہزاریئے میں پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کا انتظام وانصرام کیا جاتا ہے۔ امریکا نے پاکستان میں جاری امداد کے انتظام کے لیے اپنے عملہ میں ڈرامائی طورپر اضافہ کیا۔ یو ایس مشن نے اپنے امدادی پروگرام کا مکمل طور پر جائزہ لیا حتیٰ کہ ہم نے کارکردگی کو بہتر بنانے، نت نئے پروگرام وضع کرنے اور اپنے اشتراک ِکار حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے معاملات تک کو بھی دیکھا۔ اور یہ اشتراک ِکارکیری لوگربرمن ایکٹ کے بعد اہم نتائج سے بھی عیاں ہے۔ گذشتہ دوبرسوں کے دوران میں، ہم نے نیشنل پاور گرڈ میں مزید نو سو میگاواٹ بجلی شامل کی ہے۔ ہم نے انچاس اسکول تعمیر کیے ہیں یا اْن کی تزئین وآرائش کی ہے اور چارلاکھ سے زیادہ طلباوطالبات کو پڑھنے میں مدد کی ہے۔ تقریباً ۲۳۰۰ پاکستانی طالبعلموں کو گذشتہ دو برس میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیے گئے ہیں اور ہم نے تیس لاکھ سے زیادہ عورتوں اوربچوں کو صحت عامہ کی سہولتیں فراہم کرنے میں مددکی ہے۔ یہ کامیابیاں کیری لوگربرمن ایکٹ کی بدولت ممکن ہوئیں اور ان کے ذریعہ مزید ترقیاتی عمل کی راہ ہموار ہوئی۔بہت سے پاکستانی یاد رکھیں گے کہ امریکا اور پاکستان قیام ِپاکستان کے ابتدائی دور سے مسائل کا سامنا کرنے اور اْن کے حل کے لیے مل جل کرمصروف ِعمل ہیں۔ درحقیقت کیری لوگربرمن ایکٹ کے تحت منصوبے اب بھی جاری وساری ہیں اور آنیوالے برسوں میں کام کرتے رہیں گے اور پاکستان کے لیے یوایس ایڈ کی مالی اعانت اب بھی مستحکم ہے۔ اگرچہ فنڈز کی دستیابی میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے ،تاہم ترقیاتی اعانت کے اثرات بدستور مرتب ہو رہے ہیں۔ جن منصوبوں کو یوایس ایڈ نے شروع کیا اْن کی ذمے داریاں آہستہ آہستہ پاکستانی سنبھال رہے ہیں جن کی قیادت پائیدار تبدیلی کو یقینی بناتی ہے اور پاکستان کو امن وآشتی اور خوش حالی کی منزل کے قریب لاتی ہے۔
(مضمون نگار یوایس ایڈ پاکستان مشن کے ڈائریکٹرہیں)
سات سال قبل اسی مہینے میں صدر اوبامہ نے پاکستان کے ساتھ اشتراک میں اضافہ کے تاریخی ایکٹ پر دستخط کیے تھے۔اس قانون کے تحت، جو عام طور پر اپنے خالقین سینیٹرز کیری، لوگر اور رکنِ کانگریس برمن کے ناموں کی مناسبت سے کیری لوگر برمن ایکٹ سے موسوم کیا جاتا ہے، حکومت ِامریکا نے ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۴ء کے دوران لگ بھگ چھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ کیری لوگر برمن ایکٹ ۳۰ ِستمبر ۲۰۱۴ء میں مکمل ہوا اور اس بات کو اب دو برس ہونے کوآئے ہیں۔یہ وقت ماضی پر نظر دوڑانے کا ہے کہ ہم اپنی کارکردگی سے سیکھیں اور کامیابیوں کو مزید آگے بڑھائیں۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ کیری لوگر برمن ایکٹ حکومت ِامریکا کی پاکستان کو ترقیاتی اعانت کانقطہ آغاز ہے نہ اختتام۔امریکا اور پاکستان ساٹھ برسوں سے مل ِجْل کر کام کررہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ راستہ کٹھن رہا ہے اور غیر ملکی اعانت کے حجم میں کمی وبیشی ہوتی رہی ہے کیونکہ ان برسوں میں دونوں ملکوں میں سیاسی امکانات اور مجبوریاں آڑے آتی رہی ہیں۔ماضی میں تعلقات کی بلندیوں کی طرح ، کیری لوگربرمن ایکٹ بھی دونوں ملکوں کے مابین ایک نقطہ عروج تھا۔ ۲۰۰۹ء میں حکومت ِامریکا سمجھتی تھی کہ پاکستان کوداخلی چیلنجز درپیش تھے جنھیں اگر حل نہ کیا گیا تو اس سے پاکستانیوں کی ایک پوری نسل متاثرہوگی اور ان مسائل سے پڑوسی ممالک کے استحکام کو خطرات لاحق ہوں گے۔ ہم یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان مسائل پر قابو پانے میں ہم پاکستان کی حکومت اور لوگوں کی مددکرسکتے تھے۔ بے شمار رکاوٹوں کے باوجود،جن میں سے بعض کا اْس وقت اندازہ بھی نہ لگایا جا سکا، پاکستان بھر میں مختلف آبادیوں میں ہماری مشترکہ کامیابیوں کودیکھا جاسکتا ہے۔ایسا ہی کامیابی کا ایک ثبوت کاشتکار ناہید فاطمہ کے کھلیان ہیں۔۲۰۰۹ء میں ناہید کا چھوٹا سا رقبہ تین افراد کی کفالت کے لیے کافی نہ تھا۔ وہ آٹا پیسنے اور کپڑے سینے ایسے چھوٹے موٹے کام کرکے گزارہ کر رہی تھی جس سے اْسے سلائی کے سو ڈیڑھ سو روپے مل جاتے تھے۔برسوں کی جدوجہد کے بعد اْس کی زندگی میں اس وقت تبدیلی آئی جب اس نے یوایس ایڈ کے "ایگریکلچرل انوویشن پروگرام "کے تحت حاصل کیے گئے بیجوں کی نئی قسم کاشت کرنی شروع کی۔ آج وہ اپنے چھوٹے سے رقبہ پر گندم کی سال میں دو فصلیں اْگاتی ہے جس کے پودے مضبوط اور زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ پاکستان بھر میں تقریبًا ایک لاکھ دو ہزار کسانوں کی داستانیں ناہید کی کہانی کی طرح ہیں۔ ان کسانوں نے پاکستان کی اجناس کی برآمدات میں چار کروڑ چالیس لاکھ ڈالر سے زیادہ کا اضافہ کیا ہے۔ انجینئرنگ کی گریجویٹ اسٹوڈنٹس وردہ مشتاق اور سیدہ مہوش بھی ایسی ہی کامیابی کی ایک اور مثال ہیں جو کیری لوگر برمن ایکٹ کی بدولت ممکن ہوئی۔یہ دونوں لڑکیاں پاکستان کے اساتذہ کے پھلتے پھولتے کیڈر کا حصہ ہیں جو ملک کو درپیش ہنگامی مسائل سے نمٹنے کے لیے مصروف ِعمل ہے۔ اپنے تیئس دیگر طالبعلموں کے ساتھ اْنہوں نے یوایس پاکستان سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز پراجیکٹ کے تحت ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ایک سمیسٹر کے دوران تحقیق کی نت نئی تیکنیک سیکھیں اور توانائی کے بحران سے متعلق پراجیکٹس پر کام کیا۔ وردہ مشتاق اور سیدہ مہوش شمسی توانائی کے شعبے میں اپنے حاصل کیے گئے علم کے ساتھ وطن واپس آچکی ہیں، جس سے اْنہیں پاکستان میں جاری توانائی کے شعبہ میں کمزوریوں کو دْور کرنے میں مددملے گی۔ یوایس ایڈ نے وردہ اور سیدہ کی طرح تیرہ ہزار سے زیادہ طلباوطالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیے۔ کیری لوگربرمن ایکٹ کے تحت آج کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی کام کیا گیا۔ ۲۰۱۴ ء تک حکومت ِ امریکا نے پاکستان کے نیشل پاور گرڈ میں ڈیڑھ ہزار میگا واٹ بجلی شامل کرنے میں اعانت کی جو ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پاکستانیوں کی بجلی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان کی زرعی پیداوار سے لدے ٹرک نو سو کلومیٹر سے زیادہ طویل شاہراہوں پر رواں دواں ہیں جو کیری لوگر برمن ایکٹ کے تحت تعمیر کی گئیں یا اْن کی مرمت کی گئی۔یہ سڑکیں اْن علاقوں سے گزرتی ہیں ، جو خاص طورپر تشدد آمیز انتہاپسندی کے خطرات سے دوچارہیں ، اور ان میں پاکستان اور افغانستان کے مابین چار مرکزی تجارتی راہداریاں بھی شامل ہیں۔ ان سڑکوں سے خطہ میں نت نئے کاروباروںکو فروغ ملا اور پاکستان کے انتہائی الگ تھلگ علاقے نئی منڈیوں اور خدمات کے سلسلے سے منسلک ہوگئے۔بہت سے پاکستانی بچے جو رواں موسم خزاں میں اسکولوں میں واپس جائیں گے اور اْن ڈیسکوں پر بیٹھیں گے جو دونوں ممالک کے درمیان اشتراک سے مہیاکیے گئے۔ملک بھر میں یوایس ایڈ نے پاکستان کو کم وبیش ایک ہزار اسکولوں کی مرمت میں مددکی جن میں سے بہت سے ۲۰۱۰ ء کے سیلاب میں متاثرہوئے تھے۔کیری لوگر برمن ایکٹ کے دور میں پاکستان اور امریکا کی حکومتوں نے کئی سبق سیکھے کہ کس طرح نئے ہزاریئے میں پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کا انتظام وانصرام کیا جاتا ہے۔ امریکا نے پاکستان میں جاری امداد کے انتظام کے لیے اپنے عملہ میں ڈرامائی طورپر اضافہ کیا۔ یو ایس مشن نے اپنے امدادی پروگرام کا مکمل طور پر جائزہ لیا حتیٰ کہ ہم نے کارکردگی کو بہتر بنانے، نت نئے پروگرام وضع کرنے اور اپنے اشتراک ِکار حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے معاملات تک کو بھی دیکھا۔ اور یہ اشتراک ِکارکیری لوگربرمن ایکٹ کے بعد اہم نتائج سے بھی عیاں ہے۔ گذشتہ دوبرسوں کے دوران میں، ہم نے نیشنل پاور گرڈ میں مزید نو سو میگاواٹ بجلی شامل کی ہے۔ ہم نے انچاس اسکول تعمیر کیے ہیں یا اْن کی تزئین وآرائش کی ہے اور چارلاکھ سے زیادہ طلباوطالبات کو پڑھنے میں مدد کی ہے۔ تقریباً ۲۳۰۰ پاکستانی طالبعلموں کو گذشتہ دو برس میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیے گئے ہیں اور ہم نے تیس لاکھ سے زیادہ عورتوں اوربچوں کو صحت عامہ کی سہولتیں فراہم کرنے میں مددکی ہے۔ یہ کامیابیاں کیری لوگربرمن ایکٹ کی بدولت ممکن ہوئیں اور ان کے ذریعہ مزید ترقیاتی عمل کی راہ ہموار ہوئی۔بہت سے پاکستانی یاد رکھیں گے کہ امریکا اور پاکستان قیام ِپاکستان کے ابتدائی دور سے مسائل کا سامنا کرنے اور اْن کے حل کے لیے مل جل کرمصروف ِعمل ہیں۔ درحقیقت کیری لوگربرمن ایکٹ کے تحت منصوبے اب بھی جاری وساری ہیں اور آنیوالے برسوں میں کام کرتے رہیں گے اور پاکستان کے لیے یوایس ایڈ کی مالی اعانت اب بھی مستحکم ہے۔ اگرچہ فنڈز کی دستیابی میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے ،تاہم ترقیاتی اعانت کے اثرات بدستور مرتب ہو رہے ہیں۔ جن منصوبوں کو یوایس ایڈ نے شروع کیا اْن کی ذمے داریاں آہستہ آہستہ پاکستانی سنبھال رہے ہیں جن کی قیادت پائیدار تبدیلی کو یقینی بناتی ہے اور پاکستان کو امن وآشتی اور خوش حالی کی منزل کے قریب لاتی ہے۔
(مضمون نگار یوایس ایڈ پاکستان مشن کے ڈائریکٹرہیں)