فلم انڈسٹری کی بحالی کیلیے تمام شعبوں کو معیاری کام کرنا ہوگا ساشا آغا
دنیا بھرمیں ہمیشہ وہی فلم زیادہ بزنس کرتی ہے جس کی کہانی اور ایکٹنگ جاندار ہوتی ہے ، سب کواس پر توجہ دینا ہوگی
اداکارہ وماڈل ساشا آغا نے کہا ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کی بہتری کے لیے اس سے وابستہ تمام لوگوںکو مل کرایسا معیاری کام کرنا ہوگا، جس سے انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی ہوسکے۔
فلم ایک اہم شعبہ ہے جس کے ذریعے معاشرے میں سدھارلایا جا سکتا ہے مگربدقسمتی سے اس سے استفادہ نہیں کیا جارہا، جس کی وجہ سے بہتری نہیں ہوپارہی۔ انٹرنیشنل مارکیٹ کی طرح پاکستان میں بھی اس پروفیشن کو سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیے۔ یہ ایک بہترین کاروبار ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بھی ہے۔ ان خیالات کااظہار انھوںنے ''ایکسپریس'' سے کیا۔ ساشا آغا نے کہا کہ پاکستان کا سنہرا دور لوگوں کو آج بھی یادہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشترممالک میں بسنے والے فنانسر آج بھی پاکستانی فلم کی سپورٹ کے لیے اچھی اورمعیاری فلمیں بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، لیکن یہاں پرغیریقینی سی صورتحال کے پیش نظر وہ اپنا سرمایہ نہیں لگا رہے۔ انہیں یہاں پرلانے کے لیے ہمیں اپنے کام کوبہتربنانے کے ساتھ خود کوڈسپلن میں لانا ہوگا۔ ہمیں شیڈول کے مطابق کام کرنا ہوگا تاکہ مقررہ دورانیہ میں پرجیکٹ کومکمل کیا جاسکے۔ اس کے لیے کارپوریٹ سیکٹرکی مدد بھی درکار رہے گی۔
اس وقت دنیا بھرمیں بننے والی فلموں کو کارپوریٹ سیکٹر کی بھرپورسپورٹ حاصل رہتی ہے۔ ایسا کرنے سے فنانسرکونقصان برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ سینما مالکان پاکستانی فلموںکو جگہ نہیں دیتے۔ دنیا بھرمیں ہمیشہ وہی فلمیں زیادہ بزنس کرتی ہیں، جن کی کہانی اچھی ہوتی ہے اورپھرفنکاروں کی جاندارایکٹنگ کی بدولت اس کودیکھنے کے لیے شائقین کی بڑی تعداد باربار سینما گھروں میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ سلسلہ توپوری دنیا میں ہی چلتا ہے۔
اگربھارت میں سینما گھروں کی تعداد دیکھی جائے تویہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، چاہے فلم کسی سپرسٹارکی ہویا کسی نئے فنکار کی، اچھی فلم کوہی زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ کسی کوبھی زبردستی فلم دیکھنے کے لیے مجبورنہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستانی فلم میکر اپنے معیارکو بہتر بنائیں اوراس کے لیے سب کومل کرکام کرنا چاہیے۔
فلم ایک اہم شعبہ ہے جس کے ذریعے معاشرے میں سدھارلایا جا سکتا ہے مگربدقسمتی سے اس سے استفادہ نہیں کیا جارہا، جس کی وجہ سے بہتری نہیں ہوپارہی۔ انٹرنیشنل مارکیٹ کی طرح پاکستان میں بھی اس پروفیشن کو سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیے۔ یہ ایک بہترین کاروبار ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بھی ہے۔ ان خیالات کااظہار انھوںنے ''ایکسپریس'' سے کیا۔ ساشا آغا نے کہا کہ پاکستان کا سنہرا دور لوگوں کو آج بھی یادہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشترممالک میں بسنے والے فنانسر آج بھی پاکستانی فلم کی سپورٹ کے لیے اچھی اورمعیاری فلمیں بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، لیکن یہاں پرغیریقینی سی صورتحال کے پیش نظر وہ اپنا سرمایہ نہیں لگا رہے۔ انہیں یہاں پرلانے کے لیے ہمیں اپنے کام کوبہتربنانے کے ساتھ خود کوڈسپلن میں لانا ہوگا۔ ہمیں شیڈول کے مطابق کام کرنا ہوگا تاکہ مقررہ دورانیہ میں پرجیکٹ کومکمل کیا جاسکے۔ اس کے لیے کارپوریٹ سیکٹرکی مدد بھی درکار رہے گی۔
اس وقت دنیا بھرمیں بننے والی فلموں کو کارپوریٹ سیکٹر کی بھرپورسپورٹ حاصل رہتی ہے۔ ایسا کرنے سے فنانسرکونقصان برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ سینما مالکان پاکستانی فلموںکو جگہ نہیں دیتے۔ دنیا بھرمیں ہمیشہ وہی فلمیں زیادہ بزنس کرتی ہیں، جن کی کہانی اچھی ہوتی ہے اورپھرفنکاروں کی جاندارایکٹنگ کی بدولت اس کودیکھنے کے لیے شائقین کی بڑی تعداد باربار سینما گھروں میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ سلسلہ توپوری دنیا میں ہی چلتا ہے۔
اگربھارت میں سینما گھروں کی تعداد دیکھی جائے تویہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، چاہے فلم کسی سپرسٹارکی ہویا کسی نئے فنکار کی، اچھی فلم کوہی زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ کسی کوبھی زبردستی فلم دیکھنے کے لیے مجبورنہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستانی فلم میکر اپنے معیارکو بہتر بنائیں اوراس کے لیے سب کومل کرکام کرنا چاہیے۔